الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب الصلاة
کتاب: صلاۃ کے احکام و مسائل
The Book of the Prayer
1. بَابُ: أَبْوَابِ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ
باب: اوقات نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 667
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح ، واحمد بن سنان ، قالا: حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق ، انبانا سفيان . ح وحدثنا علي بن ميمون الرقي ، حدثنا مخلد بن يزيد ، عن سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فساله عن وقت الصلاة؟ فقال:" صل معنا هذين اليومين، فلما زالت الشمس امر بلالا فاذن، ثم امره فاقام الظهر، ثم امره فاقام العصر والشمس مرتفعة بيضاء نقية، ثم امره فاقام المغرب حين غابت الشمس، ثم امره فاقام العشاء حين غاب الشفق، ثم امره فاقام الفجر حين طلع الفجر، فلما كان من اليوم الثاني امره فاذن الظهر فابرد بها وانعم ان يبرد بها، ثم صلى العصر والشمس مرتفعة اخرها فوق الذي كان، فصلى المغرب قبل ان يغيب الشفق، وصلى العشاء بعد ما ذهب ثلث الليل، وصلى الفجر فاسفر بها"، ثم قال: اين السائل عن وقت الصلاة؟ فقال الرجل: انا يا رسول الله، قال:" وقت صلاتكم بين ما رايتم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ . ح وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ؟ فَقَالَ:" صَلِّ مَعَنَا هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ، فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ أَمَر َبِلالا فَأَذَّنَ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الظُّهْرَ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْيَوْمِ الثَّانِي أَمَرَهُ فَأَذَّنَ الظُّهْرَ فَأَبْرَدَ بِهَا وَأَنْعَمَ أَنْ يُبْرِدَ بِهَا، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ أَخَّرَهَا فَوْقَ الَّذِي كَانَ، فَصَلَّى الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ، وَصَلَّى الْعِشَاءَ بَعْدَ مَا ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، وَصَلَّى الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ بِهَا"، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" وَقْتُ صَلَاتِكُمْ بَيْنَ مَا رَأَيْتُمْ".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے نماز کے اوقات کے متعلق سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: آنے والے دو دن ہمارے ساتھ نماز پڑھو، چنانچہ (پہلے دن) جب سورج ڈھل گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے اذان دی، پھر ان کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی اقامت کہی ۱؎، پھر ان کو حکم دیا، انہوں نے نماز عصر کی اقامت کہی، اس وقت سورج بلند، صاف اور چمکدار تھا ۲؎، پھر جب سورج ڈوب گیا تو ان کو حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی اقامت کہی، پھر جب شفق ۳؎ غائب ہو گئی تو انہیں حکم دیا، انہوں نے عشاء کی اقامت کہی، پھر جب صبح صادق طلوع ہوئی تو انہیں حکم دیا، تو انہوں نے فجر کی اقامت کہی، جب دوسرا دن ہوا تو آپ نے ان کو حکم دیا، تو انہوں نے ظہر کی اذان دی، اور ٹھنڈا کیا اس کو اور خوب ٹھنڈا کیا (یعنی تاخیر کی)، پھر عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ سورج بلند تھا، پہلے روز کے مقابلے میں دیر کی، پھر مغرب کی نماز شفق کے غائب ہونے سے پہلے پڑھائی، اور عشاء کی نماز تہائی رات گزر جانے کے بعد پڑھائی اور فجر کی نماز اجالے میں پڑھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟، اس آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری نماز کا وقت ان اوقات کے درمیان ہے جو تم نے دیکھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المسا جد 31 (613)، سنن الترمذی/الصلا ة 1 (152)، سنن النسائی/المو اقیت 12 (520)، (تحفة الأشراف: 1931)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/349) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: پہلے روز سورج ڈھلتے ہی ظہر کی اذان دلوائی اور آپ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھی اس سے معلوم ہوا کہ ظہر کا اول وقت زوال یعنی سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے۔ ۲؎: یعنی ابھی اس میں زردی نہیں آئی تھی ۳؎: شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو سورج ڈوب جانے کے بعد مغرب (پچھم) میں باقی رہتی ہے، اور عشاء سے ذرا پہلے تک برقرار رہتی ہے۔

It was narrated from Sulaiman bin Buraidah that his father said: "A man came to the Prophet and asked him about the times of the prayer. He said: 'Pray with us for two days.' When the sun passed its zenith he commanded Bilal to call the Adhan, then he commanded him to give the Iqamah for Zuhr; then he commanded him to give the Iqamah for 'Asr when the sun was high and clearly white. Then he commanded him to give the Iqamah for Maghrib when the sun had set; then he commanded him to give the Iqamah for 'Isha' when the red afterglow had disappeared; then he commanded him to give the Iqamah for Fajr when dawn came. On the following day he commanded him to give the Adhan for Zuhr when the extreme heat had passed and it had cooled down; then he prayed 'Asr when the sun was still high, but he delayed it more than he had done the day before; then he prayed Maghrib before the red afterglow disappeared; he prayed 'Isha' when one-third of the night had passed; and he prayed Fajr at the time when it was already light. Then he said: 'Where is the one who was asking about the times of Prayer?' The man said: 'Here I am, O Messenger of Allah.' He said: 'The times of your prayer are between the times you have seen.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 668
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح المصري ، انبانا الليث بن سعد ، عن ابن شهاب ، انه كان قاعدا على مياثر عمر بن عبد العزيز في إمارته على المدينة، ومعه عروة بن الزبير، فاخر عمر العصر شيئا، فقال له عروة : اما إن جبريل نزل فصلى إمام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له عمر: اعلم ما تقول يا عروة، قال: سمعت بشير بن ابي مسعود ، يقول: سمعت ابا مسعود ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" نزل جبريل فامني فصليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، يحسب باصابعه خمس صلوات".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ كَانَ قَاعِدًا عَلَى مَيَاثِرِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي إِمَارَتِهِ عَلَى الْمَدِينَةِ، وَمَعَهُ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، فَأَخَّر عُمَرُ الْعَصْرَ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ : أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ نَزَلَ فَصَلَّى إِمَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ يَا عُرْوَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" نَزَلَ جِبْرِيلُ فَأَمَّنِي فَصَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتَ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتَ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ".
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کے گدوں پہ بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت عمر بن عبدالعزیز مدینہ منورہ کے امیر تھے، اور ان کے ساتھ عروہ بن زبیر بھی تھے، عمر بن عبدالعزیز نے عصر کی نماز میں کچھ دیر کر دی تو ان سے عروہ نے کہا: سنیے! جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت فرمائی، تو ان سے عمر بن عبدالعزیز نے کہا: عروہ! جو کچھ کہہ رہے ہو سوچ سمجھ کر کہو؟ اس پر عروہ نے کہا کہ میں نے بشیر بن ابی مسعود کو کہتے سنا کہ میں نے اپنے والد ابی مسعود رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے، اور انہوں نے میری امامت کی تو میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔۔۔ وہ اپنی انگلیوں سے پانچوں نمازوں کو شمار کر رہے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المواقیت 2 (521)، بدء الخلق 6 (3221)، المغازي 12 (4007)، صحیح مسلم/المساجد 31 (610)، سنن ابی داود/الصلاة 2 (394)، سنن النسائی/المواقیت 1 (495)، (تحفة الأشراف: 9977)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1 (1)، مسند احمد (4/120) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: تو عروہ نے حدیث کی سند بیان کر کے عمر بن عبدالعزیز کی تسلی کر دی، اور دوسری روایت میں ہے کہ عروہ نے ایک اور حدیث بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی جو آگے مذکور ہو گی، عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کے اوقات مقرر ہیں اور جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے نبی اکرم ﷺ کو ان کی تعلیم دی تھی اور آپ ﷺ اپنے اوقات میں نماز ادا فرماتے تھے، ایک روایت میں ہے کہ اس روز سے عمر بن عبدالعزیز نے کبھی نماز میں دیر نہیں کی، اس سے عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کے اوقات کی تحدید کے لئے جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے، اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو عملی طور پر سکھایا، اس لئے اس سلسلہ میں کوتاہی مناسب نہیں۔

It was narrated from Ibn Shihab that: He was sitting on the cushions of 'Umar bin 'Abdul-'Aziz when he was the leader over Al-Madinah, and with him was 'Urwah bin Zubair. "umar delayed 'Asr somewhat, and 'Urwah said to him: "Jibril came down and led the Messenger of Allah in prayer." 'Umar said to him: "Know what you are saying, O 'Urwah!" he said: "I heard Bashir bin Abu Mas'ud saying, 'I heard Abu Mas'ud saying, "I heard the Messenger of Allah saying, 'Jibril came down and led me in prayer, and I prayed with him, then I prayed with him, then I prayed with him, then I prayed with him, then I prayed with him,' and he counted five prayers on his fingers."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.