الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام
کتاب: قضا کے احکام و مسائل
The Chapters on Rulings
4. بَابُ: لاَ يَحْكُمُ الْحَاكِمُ وَهُوَ غَضْبَانُ
باب: غصہ کی حالت میں حاکم و قاضی فیصلہ نہ کرے۔
Chapter: The judge Should Not Pass A Judgment When He Is Angry
حدیث نمبر: 2316
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، ومحمد بن عبد الله بن يزيد ، واحمد بن ثابت الجحدري ، قالوا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عبد الملك بن عمير ، انه سمع عبد الرحمن بن ابي بكرة ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يقضي القاضي بين اثنين وهو غضبان"، قال هشام في حديثه: لا ينبغي للحاكم ان يقضي بين اثنين وهو غضبان.
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، وَأَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَقْضِي الْقَاضِي بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ"، قَالَ هِشَامٌ فِي حَدِيثِهِ: لَا يَنْبَغِي لِلْحَاكِمِ أَنْ يَقْضِيَ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ.
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاضی غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے ۱؎۔ ہشام کی روایت کے الفاظ ہیں: حاکم کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأحکام 13 (7158)، صحیح مسلم/الأقضیة 7 (1717)، سنن ابی داود/الأقضیة 9 (3589)، سنن الترمذی/الأحکام 7 (1334)، سنن النسائی/آداب القضاة 17 (5408)، 31 (5423)، (تحفة الأشراف: 11676)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/36، 37، 38، 46، 52) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: نبی کریم ﷺ نے جو غصہ کی حالت میں زبیر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ایک انصاری کے ساتھ کیا تو یہ آپ ﷺ کی خصوصیت تھی کیونکہ آپ حالت غضب اور رضا دونوں میں معصوم تھے، اور ظاہر یہ ہے کہ ممانعت تحریمی ہے، اس پر جمہور علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر کوئی غصہ کی حالت میں فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ حق ہو تو صحیح ہو گا، علامہ ابن القیم کہتے ہیں کہ مفتی سخت غصہ، یا زیادہ بھوک، یا زیادہ قلق، یا پریشان کن خوف و ڈر، یا نیند کا غلبہ، یا پاخانہ پیشاب کی حاجت میں فتوی نہ دے، اسی طرح جب دل اور طرف لگا ہوا ہو، بلکہ جب آدمی یہ محسوس کرے کہ مذکورہ امور کی وجہ سے وہ اعتدال کی حالت سے باہر چلا گیا ہے، اور اس کی تحقیق و جستجو کی قدرت متاثر ہو گئی ہے، تو اس کو فتویٰ سے رک جانا چاہئے، اس پر بھی اگر وہ ان حالتوں میں فتویٰ دیتا ہے تو اس کا فتویٰ صحیح ہے لیکن اگر ایسی حالت میں فیصلہ کرتا ہے، تو کیا اس کا فیصلہ نافذ ہو گا، یا نہیں نافذ ہو گا؟ اس بارے میں امام احمد کے مذہب میں تین اقوال ہیں: پہلا یہ کہ نافذ ہو گا، دوسرا یہ کہ نافذ نہیں ہو گا، تیسرا یہ کہ مسئلہ کو سمجھنے کے بعد اگر غصہ ہو تو اس میں نافذ ہو گا، اور اگر مسئلہ کے سمجھنے سے پہلے غصہ ہو تو نافذ نہیں ہو گا۔ (ملاحظہ ہو: الروضۃ الندیۃ۳/۲۳۳)

قال الشيخ الألباني: صحيح باللفظ الأول

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.