الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
34. باب مَا جَاءَ أَنَّ مَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ
34. باب: جو اذان دے وہی اقامت کہے۔
Chapter: What Has Been Related About Whoever Calls The Adhan, He Is To Call The Iqamah
حدیث نمبر: 199
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة , ويعلى بن عبيد , عن عبد الرحمن بن زياد بن انعم الافريقي، عن زياد بن نعيم الحضرمي، عن زياد بن الحارث الصدائي، قال: امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اؤذن في صلاة الفجر، فاذنت فاراد بلال ان يقيم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن اخا صداء قد اذن ومن اذن فهو يقيم ". قال: وفي الباب عن ابن عمر. قال ابو عيسى: وحديث زياد إنما نعرفه من حديث الافريقي، والافريقي هو ضعيف عند اهل الحديث، ضعفه يحيى بن سعيد القطان وغيره، قال احمد: لا اكتب حديث الافريقي، قال: ورايت محمد بن إسماعيل يقوي امره ويقول: هو مقارب الحديث، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم ان من اذن فهو يقيم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ , وَيَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ الْأَفْرِيقِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ نُعَيْمٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِّ، قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُؤَذِّنَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، فَأَذَّنْتُ فَأَرَادَ بِلَالٌ أَنْ يُقِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَخَا صُدَاءٍ قَدْ أَذَّنَ وَمَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ زِيَادٍ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الْأَفْرِيقِيِّ، وَالْأَفْرِيقِيُّ هُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُهُ، قَالَ أَحْمَدُ: لَا أَكْتُبُ حَدِيثَ الْأَفْرِيقِيِّ، قَالَ: وَرَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل يُقَوِّي أَمْرَهُ وَيَقُولُ: هُوَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ مَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ.
زیاد بن حارث صدائی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فجر کی اذان دینے کا حکم دیا تو میں نے اذان دی، پھر بلال رضی الله عنہ نے اقامت کہنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبیلہ صداء کے ایک شخص نے اذان دی ہے اور جس نے اذان دی ہے وہی اقامت کہے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۲- زیاد رضی الله عنہ کی روایت کو ہم صرف افریقی کی سند سے جانتے ہیں اور افریقی محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔ یحییٰ بن سعید قطان وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے۔ احمد کہتے ہیں: میں افریقی کی حدیث نہیں لکھتا، لیکن میں نے محمد بن اسماعیل کو دیکھا وہ ان کے معاملے کو قوی قرار دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ مقارب الحدیث ہیں،
۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جو اذان دے وہی اقامت کہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 30 (514) سنن ابن ماجہ/الأذان3 (717) (تحفة الأشراف: 3653) مسند احمد (4/169) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن بن انعم افریقی ضعیف ہیں)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث ضعیف ہے، اس لیے اس کی بنا پر مساجد میں جھگڑے مناسب نہیں، اگر صحیح بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ مستحب کہہ سکتے ہیں، اور مستحب کے لیے مسلمانوں میں جھگڑے زیبا نہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (717) // ضعيف سنن ابن ماجة (152)، ضعيف أبي داود (102 / 514)، الإرواء (237)، المشكاة (648)، الضعيفة (35)، ضعيف الجامع الصغير (1377) //
35. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الأَذَانِ بِغَيْرِ وُضُوءٍ
35. باب: بغیر وضو کے اذان دینے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Call The Adhan Without Having Wudu
حدیث نمبر: 200
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا الوليد بن مسلم، عن معاوية بن يحيى الصدفي، عن الزهري، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا يؤذن إلا متوضئ ".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ يَحْيَى الصَّدَفِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يُؤَذِّنُ إِلَّا مُتَوَضِّئٌ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذان وہی دے جو باوضو ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد المؤلف (تحفة الأشراف: 14603) (ضعیف) (سند میں معاویہ بن یحیی صدفی ضعیف ہیں، نیز سند میں زہری اور ابوہریرہ کے درمیان انقطاع ہے)»

وضاحت:
۱؎: بہتر یہی ہے کہ اذان باوضو ہی دی جائے اور باب کی حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن وائل اور ابن عباس کی احادیث اس کی شاہد ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (222) // ضعيف الجامع الصغير (6317) //
حدیث نمبر: 201
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا يحيى بن موسى ، حدثنا عبد الله بن وهب ، عن يونس ، عن ابن شهاب ، قال: قال ابو هريرة : " لا ينادي بالصلاة إلا متوضئ ". قال ابو عيسى: وهذا اصح من الحديث الاول. قال ابو عيسى: وحديث ابي هريرة لم يرفعه ابن وهب، وهو اصح من حديث الوليد بن مسلم، والزهري لم يسمع من ابي هريرة، واختلف اهل العلم في الاذان على غير وضوء، فكرهه بعض اهل العلم، وبه يقول الشافعي , وإسحاق، ورخص في ذلك بعض اهل العلم، وبه يقول سفيان الثوري , وابن المبارك , واحمد.(موقوف) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : " لَا يُنَادِي بِالصَّلَاةِ إِلَّا مُتَوَضِّئٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ لَمْ يَرْفَعْهُ ابْنُ وَهْبٍ، وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ، وَالزُّهْرِيُّ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْأَذَانِ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ، فَكَرِهَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ , وَإِسْحَاق، وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَابْنُ الْمُبَارَكِ , وَأَحْمَدُ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: نماز کے لیے وہی اذان دے جو باوضو ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،
۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کو ابن وہب نے مرفوع روایت نہیں کیا، یہ ۱؎ ولید بن مسلم کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،
۳- زہری نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں سنا ہے،
۴- بغیر وضو کے اذان دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض نے اسے مکروہ کہا ہے اور یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، اور بعض اہل علم نے اس سلسلہ میں رخصت دی ہے، اور اسی کے قائل سفیان ثوری، ابن مبارک اور احمد ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»

وضاحت:
۱؎: یعنی عبداللہ بن وہب کی موقوف روایت جسے انہوں نے بطریق «يونس عن الزهري، عن أبي هريرة موقوفاً» روایت کی ہے، پہلی روایت (جو مرفوع ہے) کے مقابلہ میں ارجح ہے اور اس کا ضعف کم ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (222)
36. باب مَا جَاءَ أَنَّ الإِمَامَ أَحَقُّ بِالإِقَامَةِ
36. باب: امام کا اقامت (تکبیر) کا حق زیادہ ہے۔
Chapter: What Has Been Related That The Imam Has be Greatest Right To The Iqamah
حدیث نمبر: 202
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا إسرائيل، اخبرني سماك بن حرب، سمع جابر بن سمرة، يقول: " كان مؤذن رسول الله صلى الله عليه وسلم يمهل، فلا يقيم حتى إذا راى رسول الله صلى الله عليه وسلم قد خرج اقام الصلاة حين يراه ". قال ابو عيسى: حديث جابر بن سمرة هو حسن صحيح، وحديث إسرائيل، عن سماك لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وهكذا قال بعض اهل العلم: إن المؤذن املك بالاذان والإمام املك بالإقامة.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، أَخْبَرَنِي سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: " كَانَ مُؤَذِّنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُمْهِلُ، فَلَا يُقِيمُ حَتَّى إِذَا رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ خَرَجَ أَقَامَ الصَّلَاةَ حِينَ يَرَاهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ هُوَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَهَكَذَا قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّ الْمُؤَذِّنَ أَمْلَكُ بِالْأَذَانِ وَالْإِمَامُ أَمْلَكُ بِالْإِقَامَةِ.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا مؤذن دیر کرتا اور اقامت نہیں کہتا تھا یہاں تک کہ جب وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ لیتا کہ آپ نکل چکے ہیں تب وہ اقامت کہتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جابر بن سمرہ رضی الله عنہ والی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور ہم اسرائیل کی حدیث کو جسے انہوں نے سماک سے روایت کی ہے، صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۳- اسی طرح بعض اہل علم نے کہا ہے کہ مؤذن کو اذان کا زیادہ اختیار ہے ۱؎ اور امام کو اقامت کا زیادہ اختیار ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 29 (606)، سنن ابی داود/ الصلاة 44 (537)، (تحفة الأشراف: 2137)، مسند احمد (5/76، 87، 91، 95، 104، 105) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ مؤذن کو اذان کے وقت کا محافظ بنایا گیا ہے اس لیے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اذان کو مؤخر کرنے یا اسے مقدم کرنے پر اسے مجبور کرے۔
۲؎: اس لیے اس کے اشارہ یا اجازت کے بغیر تکبیر نہیں کہنی چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، صحيح أبي داود (548)
37. باب مَا جَاءَ فِي الأَذَانِ بِاللَّيْلِ
37. باب: رات ہی میں اذان دے دینے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Adhan At Night
حدیث نمبر: 203
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تاذين ابن ام مكتوم ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن مسعود , وعائشة , وانيسة , وانس , وابي ذر , وسمرة. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حسن صحيح، وقد اختلف اهل العلم في الاذان بالليل، فقال بعض اهل العلم: إذا اذن المؤذن بالليل اجزاه ولا يعيد، وهو قول مالك , وابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: إذا اذن بليل اعاد، وبه يقول سفيان الثوري , وروى حماد بن سلمة، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، ان بلالا اذن بليل، فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان ينادي إن العبد نام. قال ابو عيسى: هذا حديث غير محفوظ والصحيح، ما روى عبيد الله بن عمر وغيره، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن ام مكتوم " , وروى عبد العزيز بن ابي رواد، عن نافع، ان مؤذنا لعمر اذن بليل، فامره عمر ان يعيد الاذان، وهذا لا يصح ايضا، لانه عن نافع، عن عمر منقطع، ولعل حماد بن سلمة اراد هذا الحديث، والصحيح رواية عبيد الله وغير واحد، عن نافع، عن ابن عمر , والزهري، عن سالم، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن بلالا يؤذن بليل ". قال ابو عيسى: ولو كان حديث حماد صحيحا لم يكن لهذا الحديث معنى، إذ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن بلالا يؤذن بليل " , فإنما امرهم فيما يستقبل، وقال: إن بلالا يؤذن بليل، ولو انه امره بإعادة الاذان حين اذن قبل طلوع الفجر لم يقل إن بلالا يؤذن بليل، قال علي بن المديني: حديث حماد بن سلمة، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم هو غير محفوظ، واخطا فيه حماد بن سلمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى تَسْمَعُوا تَأْذِينَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ , وَعَائِشَةَ , وَأُنَيْسَةَ , وَأَنَسٍ , وَأَبِي ذَرٍّ , وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْأَذَانِ بِاللَّيْلِ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ بِاللَّيْلِ أَجْزَأَهُ وَلَا يُعِيدُ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ , وَابْنِ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَذَّنَ بِلَيْلٍ أَعَادَ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ بِلَالًا أَذَّنَ بِلَيْلٍ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُنَادِيَ إِنَّ الْعَبْدَ نَامَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ، مَا رَوَى عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُهُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ " , وَرَوَى عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ مُؤَذِّنًا لِعُمَرَ أَذَّنَ بِلَيْلٍ، فَأَمَرَهُ عُمَرُ أَنْ يُعِيدَ الْأَذَانَ، وَهَذَا لَا يَصِحُّ أَيْضًا، لِأَنَّهُ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عُمَرَ مُنْقَطِعٌ، وَلَعَلَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ أَرَادَ هَذَا الْحَدِيثَ، وَالصَّحِيحُ رِوَايَةُ عُبَيْدِ اللَّهِ وَغَيْرِ وَاحِدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَالزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَوْ كَانَ حَدِيثُ حَمَّادٍ صَحِيحًا لَمْ يَكُنْ لِهَذَا الْحَدِيثِ مَعْنًى، إِذْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ " , فَإِنَّمَا أَمَرَهُمْ فِيمَا يُسْتَقْبَلُ، وقَالَ: إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، وَلَوْ أَنَّهُ أَمَرَهُ بِإِعَادَةِ الْأَذَانِ حِينَ أَذَّنَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ لَمْ يَقُلْ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: حَدِيثُ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَأَخْطَأَ فِيهِ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان نہ سن لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، انیسہ، انس، ابوذر اور سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۳- رات ہی میں اذان کہہ دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر رات باقی ہو تبھی مؤذن اذان کہہ دے تو کافی ہے، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں، مالک، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب وہ رات میں اذان دیدے تو اسے دہرائے ۱؎، یہی سفیان ثوری کہتے ہیں،
۴- حماد بن سلمہ نے بطریق «ایوب عن نافع عن ابن عمر» روایت کی ہے کہ بلال رضی الله عنہ نے رات ہی میں اذان دے دی، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکار کر کہہ دیں کہ بندہ سو گیا تھا۔ یہ حدیث غیر محفوظ ہے، صحیح وہ روایت ہے جسے عبیداللہ بن عمر وغیرہ نے بطریق نافع عن ابن عمر روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ ابن ام مکتوم اذان نہ دے دیں، اور عبدالعزیز بن ابی رواد نے نافع سے روایت کی ہے کہ عمر رضی الله عنہ کے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی تو عمر نے اسے حکم دیا کہ وہ اذان دہرائے، یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ نافع اور عمر رضی الله عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اور شاید حماد بن سلمہ، کی مراد یہی حدیث ۲؎ ہو، صحیح عبیداللہ بن عمر دوسرے رواۃ کی روایت ہے جسے ان لوگوں نے نافع سے، اور نافع نے ابن عمر سے اور زہری نے سالم سے اور سالم نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں،
۵- اگر حماد کی حدیث صحیح ہوتی تو اس حدیث کا کوئی معنی نہ ہوتا، جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں، آپ نے لوگوں کو آنے والے زمانے کے بارے میں حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں اور اگر آپ طلوع فجر سے پہلے اذان دے دینے پر انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیتے تو آپ یہ نہ فرماتے کہ بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، علی بن مدینی کہتے ہیں: حماد بن سلمہ والی حدیث جسے انہوں نے ایوب سے، اور ایوب نے نافع سے، اور نافع نے ابن عمر سے اور عمر نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے غیر محفوظ ہے، حماد بن سلمہ سے اس میں چوک ہوئی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 12 (620)، والصوم 17 (1918)، والشہادات 11 (2656)، وأخبار الآحاد 1 (7248)، صحیح مسلم/الصوم 8 (1092)، سنن النسائی/الأذان 9 (838)، (تحفة الأشراف: 60909)، موطا امام مالک/الصلاة 3 (14)، مسند احمد (2/9، 57، 123)، سنن الدارمی/الصلاة 4 (1226) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور یہی راجح ہے، کیونکہ عبداللہ ابن ام مکتوم کی اذان سحری کے غرض سے تھی، نیز آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس پر اکتفاء بھی نہیں کیا، بلکہ نماز فجر کے لیے بلال اذان دیا کرتے۔
۲؎: شاید حماد بن سلمہ کے پیش نظر عمر والا یہی اثر رہا ہو یعنی انہیں اس کے مرفوع ہونے کا وہم ہو گیا ہو، گویا انہیں یوں کہنا چاہیئے کہ عمر کے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی تو عمر نے انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیا، لیکن وہ وہم کے شکار ہو گئے اور اس کے بجائے انہوں نے یوں کہہ دیا کہ بلال نے رات میں اذان دے دی تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکار کر کہہ دیں کہ بندہ سو گیا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (219)
38. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْخُرُوجِ مِنَ الْمَسْجِدِ بَعْدَ الأَذَانِ
38. باب: اذان کے بعد مسجد سے باہر نکلنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Dislike For Exiting The Masjid After The Adhan
حدیث نمبر: 204
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن إبراهيم بن المهاجر، عن ابي الشعثاء، قال: خرج رجل من المسجد بعد ما اذن فيه بالعصر، فقال ابو هريرة: اما هذا فقد عصى ابا القاسم صلى الله عليه وسلم. قال ابو عيسى: وفي الباب عن عثمان. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حسن صحيح، وعلى هذا العمل عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ومن بعدهم ان لا يخرج احد من المسجد بعد الاذان إلا من عذر ان يكون على غير وضوء او امر لا بد منه، ويروى عن إبراهيم النخعي، انه قال: يخرج ما لم ياخذ المؤذن في الإقامة. قال ابو عيسى: وهذا عندنا لمن له عذر في الخروج منه، وابو الشعثاء اسمه: سليم بن اسود وهو والد اشعث بن ابي الشعثاء، وقد روى اشعث بن ابي الشعثاء هذا الحديث عن ابيه.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، قَالَ: خَرَجَ رَجُلٌ مِنَ الْمَسْجِدِ بَعْدَ مَا أُذِّنَ فِيهِ بِالْعَصْرِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَلَى هَذَا الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ أَنْ لَا يَخْرُجَ أَحَدٌ مِنَ الْمَسْجِدِ بَعْدَ الْأَذَانِ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ أَنْ يَكُونَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ أَوْ أَمْرٍ لَا بُدَّ مِنْهُ، وَيُرْوَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: يَخْرُجُ مَا لَمْ يَأْخُذْ الْمُؤَذِّنُ فِي الْإِقَامَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا عِنْدَنَا لِمَنْ لَهُ عُذْرٌ فِي الْخُرُوجِ مِنْهُ، وَأَبُو الشَّعْثَاءِ اسْمُهُ: سُلَيْمُ بْنُ أَسْوَدَ وَهُوَ وَالِدُ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، وَقَدْ رَوَى أَشْعَثُ بْنُ أَبِي الشَّعْثَاءِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِيهِ.
ابوالشعثاء سلیم بن اسود کہتے ہیں کہ ایک شخص عصر کی اذان ہو چکنے کے بعد مسجد سے نکلا تو ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: رہا یہ تو اس نے ابوالقاسم صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی روایت حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عثمان رضی الله عنہ سے بھی حدیث ہے،
۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ اذان ہو جانے کے بعد بغیر کسی عذر کے مثلاً بے وضو ہو یا کوئی ناگزیر ضرورت آ پڑی ہو جس کے بغیر چارہ نہ ہو کوئی مسجد سے نہ نکلے ۱؎،
۴- ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ جب تک مؤذن اقامت شروع نہیں کرتا وہ باہر نکل سکتا ہے،
۵- ہمارے نزدیک یہ اس شخص کے لیے ہے جس کے پاس نکلنے کے لیے کوئی عذر موجود ہو۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 35 (655)، سنن ابی داود/ الصلاة 43 (536)، سنن النسائی/الأذان 40 (685)، سنن ابن ماجہ/الأذان 7 (733)، (تحفة الأشراف: 13477)، مسند احمد (2/410، 416، 417، 506، 537)، سنن الدارمی/الصلاة 12 (1241) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ایک عذر یہ بھی ہے کہ آدمی کسی دوسری مسجد کا امام ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (733)
39. باب مَا جَاءَ فِي الأَذَانِ فِي السَّفَرِ
39. باب: سفر میں اذان کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Adhan While Traveling
حدیث نمبر: 205
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن مالك بن الحويرث، قال: قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم انا وابن عم لي، فقال لنا: " إذا سافرتما فاذنا واقيما وليؤمكما اكبركما ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، والعمل عليه عند اكثر اهل العلم اختاروا الاذان في السفر، وقال بعضهم: تجزئ الإقامة إنما الاذان على من يريد ان يجمع الناس، والقول الاول اصح، وبه يقول احمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَابْنُ عَمٍّ لِي، فَقَالَ لَنَا: " إِذَا سَافَرْتُمَا فَأَذِّنَا وَأَقِيمَا وَلْيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ اخْتَارُوا الْأَذَانَ فِي السَّفَرِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: تُجْزِئُ الْإِقَامَةُ إِنَّمَا الْأَذَانُ عَلَى مَنْ يُرِيدُ أَنْ يَجْمَعَ النَّاسَ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاقُ.
مالک بن حویرث رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے چچا زاد بھائی دونوں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے ہم سے فرمایا: جب تم دونوں سفر میں ہو تو اذان دو اور اقامت کہو۔ اور امامت وہ کرے جو تم دونوں میں بڑا ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، ان لوگوں نے سفر میں اذان کو پسند کیا ہے، اور بعض کہتے ہیں: اقامت کافی ہے، اذان تو اس کے لیے ہے جس کا ارادہ لوگوں کو اکٹھا کرنا ہو۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 17 (628)، و35 (658)، و49 (685)، و140 (819)، والجہاد 42 (2848)، وألادب 27 (2008)، وأخبار الآحاد 1 (7246)، صحیح مسلم/المساجد 53 (672)، سنن ابی داود/ الصلاة 61 (589)، سنن النسائی/الأذان 7 (635)، و8 (636)، و29 (670)، والإمامة 4 (782)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 46 (تحفة الأشراف: 11182)، مسند احمد (3/436)، و (5/53)، سنن الدارمی/الصلاة 42 (1288) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (979)
40. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الأَذَانِ
40. باب: اذان کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Virtues Of The Adhan
حدیث نمبر: 206
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن حميد الرازي، حدثنا ابو تميلة، حدثنا ابو حمزة، عن جابر، عن مجاهد، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من اذن سبع سنين محتسبا كتبت له براءة من النار ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن عبد الله بن مسعود , وثوبان , ومعاوية , وانس , وابي هريرة , وابي سعيد. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس غريب، وابو تميلة اسمه: يحيى بن واضح، وابو حمزة السكري اسمه: محمد بن ميمون، وجابر بن يزيد الجعفي، ضعفوه تركه يحيى بن سعيد , وعبد الرحمن بن مهدي. قال ابو عيسى: سمعت الجارود، يقول: سمعت وكيعا يقول: لولا جابر الجعفي لكان اهل الكوفة بغير حديث، ولولا حماد لكان اهل الكوفة بغير فقه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَذَّنَ سَبْعَ سِنِينَ مُحْتَسِبًا كُتِبَتْ لَهُ بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَثَوْبَانَ , وَمُعَاوِيَةَ , وَأَنَسٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ غَرِيبٌ، وَأَبُو تُمَيْلَةَ اسْمُهُ: يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ، وَأَبُو حَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ اسْمُهُ: مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ، وَجَابِرُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ، ضَعَّفُوهُ تَرَكَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت الْجَارُودَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: لَوْلَا جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ لَكَانَ أَهْلُ الْكُوفَةِ بِغَيْرِ حَدِيثٍ، وَلَوْلَا حَمَّادٌ لَكَانَ أَهْلُ الْكُوفَةِ بِغَيْرِ فِقْهٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے سات سال تک ثواب کی نیت سے اذان دی اس کے لیے جہنم کی آگ سے نجات لکھ دی جائے گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث غریب ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، ثوبان، معاویہ، انس، ابوہریرہ اور ابوسعید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳ - اور جابر بن یزید جعفی کی لوگوں نے تضعیف کی ہے، یحییٰ بن سعید اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے انہیں متروک قرار دیا ہے،
۴- اگر جابر جعفی نہ ہوتے ۱؎ تو اہل کوفہ بغیر حدیث کے ہوتے، اور اگر حماد نہ ہوتے تو اہل کوفہ بغیر فقہ کے ہوتے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأذان 5 (727)، (تحفة الأشراف: 6381) (ضعیف) (سند میں ”جابر جعفی“ ضعیف متروک الحدیث راوی ہے)»

وضاحت:
۱؎: اس کے باوجود باعتراف امام ابوحنیفہ جابر جعفی جھوٹا راوی ہے، امام ابوحنیفہ کی ہر رائے پر ایک حدیث گھڑ لیا کرتا تھا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (727) // ضعيف سنن ابن ماجة (155)، المشكاة (664)، الضعيفة (850)، ضعيف الجامع الصغير (5378) //
41. باب مَا جَاءَ أَنَّ الإِمَامَ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنَ مُؤْتَمَنٌ
41. باب: امام ضامن اور مؤذن امین ہے۔
Chapter: What Has Been Related That The Imam Is Answerable and the Mu'adh-dhin Is Entrusted
حدیث نمبر: 207
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص , وابو معاوية , عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الإمام ضامن والمؤذن مؤتمن، اللهم ارشد الائمة واغفر للمؤذنين ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن عائشة , وسهل بن سعد , وعقبة بن عامر. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة، رواه سفيان الثوري , وحفص بن غياث , وغير واحد، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم. وروى اسباط بن محمد، عن الاعمش، قال: حدثت عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم , وروى نافع بن سليمان، عن محمد بن ابي صالح، عن ابيه، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا الحديث. قال ابو عيسى: وسمعت ابا زرعة، يقول: حديث ابي صالح، عن ابي هريرة اصح من حديث ابي صالح، عن عائشة. قال ابو عيسى: وسمعت محمدا، يقول: حديث ابي صالح، عن عائشة اصح، وذكر عن علي بن المديني انه لم يثبت حديث ابي صالح، عن ابي هريرة، ولا حديث ابي صالح , عن عائشة في هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ , وَأَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ، اللَّهُمَّ أَرْشِدِ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِينَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ , وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرَوَى أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَرَوَى نَافِعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت أَبَا زُرْعَةَ، يَقُولُ: حَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: حَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَصَحُّ، وَذَكَرَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ أَنَّهُ لَمْ يُثْبِتْ حَدِيثَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَا حَدِيثَ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ عَائِشَةَ فِي هَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: امام ضامن ہے ۱؎ اور مؤذن امین ۲؎ ہے، اے اللہ! تو اماموں کو راہ راست پر رکھ ۳؎ اور مؤذنوں کی مغفرت فرما ۴؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عائشہ، سہل بن سعد اور عقبہ بن عامر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۲- مولف نے حدیث کے طرق اور پہلی سند کی متابعت ذکر کرنے اور ابوصالح کی عائشہ سے روایت کے بعد فرمایا: میں نے ابوزرعہ کو کہتے سنا کہ ابوصالح کی ابوہریرہ سے مروی حدیث ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ نیز میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے اور بخاری، علی بن مدینی کہتے ہیں کہ ابوصالح کی حدیث ابوہریرہ سے مروی حدیث ثابت نہیں ہے اور نہ ہی ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 32 (517)، (تحفة الأشراف: 12483)، مسند احمد (2/232، 284، 378، 384، 419، 424، 461، 472، 514) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی امام مقتدیوں کی نماز کا نگراں اور محافظ ہے، کیونکہ مقتدیوں کی نماز کی صحت امام کی نماز کی صحت پر موقوف ہے، اس لیے اسے آداب طہارت اور آداب نماز کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
۲؎: یعنی لوگ اس کی اذان پر اعتماد کر کے نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں، اس لیے اسے وقت کا خیال رکھنا چاہیئے، نہ پہلے اذان دے اور نہ دیر کرے۔
۳؎: یعنی جو ذمہ داری انہوں نے اٹھا رکھی ہے اس کا شعور رکھنے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دے۔
۴؎: یعنی اس امانت کی ادائیگی میں ان سے جو کوتاہی ہو اسے بخش دے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (663)، الإرواء (217)، صحيح أبي داود (530)
42. باب مَا جَاءَ مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ
42. باب: مؤذن کی اذان کے جواب میں آدمی کیا کہے؟
Chapter: What Has Been Related About What Is Said [by A Man] When the Mu'adh-dhin Calls The Adhan
حدیث نمبر: 208
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك. ح قال: وحدثنا قتيبة، عن مالك، عن الزهري، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي رافع , وابي هريرة , وام حبيبة , وعبد الله بن عمرو , وعبد الله بن ربيعة , وعائشة , ومعاذ بن انس , ومعاوية. قال ابو عيسى: حديث ابي سعيد حسن صحيح، وهكذا روى معمر وغير واحد، عن الزهري مثل حديث مالك، وروى عبد الرحمن بن إسحاق، عن الزهري هذا الحديث، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ورواية مالك اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح قَالَ: وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأُمِّ حَبِيبَةَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبِيعَةَ , وَعَائِشَةَ , وَمُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ , وَمُعَاوِيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَى مَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ مِثْلَ حَدِيثِ مَالِكٍ، وَرَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرِوَايَةُ مَالِكٍ أَصَحُّ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اذان سنو تو ویسے ہی کہو جیسے مؤذن کہتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوسعید رضی الله عنہ والی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابورافع، ابوہریرہ، ام حبیبہ، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن ربیعہ، عائشہ، معاذ بن انس اور معاویہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- معمر اور کئی رواۃ نے زہری سے مالک کی حدیث کے مثل روایت کی ہے، عبدالرحمٰن بن اسحاق نے اس حدیث کو بطریق: «الزهري عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، مالک والی روایت سب سے صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 7 (611)، صحیح مسلم/الصلاة 7 (383)، سنن ابی داود/ الصلاة 36 (522)، سنن النسائی/الأذان 33 (674)، سنن ابن ماجہ/الأذان 4 (720)، (تحفة الأشراف: 4150)، موطا امام مالک/الصلاة 1 (2)، مسند احمد (3/6، 53، 78)، سنن الدارمی/الصلاة 10 (1234) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: عمر رضی الله عنہ کی روایت میں جس کی تخریج مسلم نے کی ہے «سوى الحيعلتين فيقول لا حول ولا قوة إلا بالله» یعنی: «حي على الصلاة اور حي على الفلاح» کے علاوہ، ان پر «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہے کے الفاظ وارد ہیں جس سے معلوم ہوا کہ «حي على الصلاة اور حي على الفلاح» کے کلمات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، ان دونوں کلموں کے جواب میں سننے والا «لاحول ولا قوۃ الا باللہ» کہے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (720)

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.