الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book on Hajj
77. باب مَا جَاءَ فِي الطِّيبِ عِنْدَ الإِحْلاَلِ قَبْلَ الزِّيَارَةِ
77. باب: طواف زیارت سے پہلے احرام کھولتے وقت خوشبو لگانے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Using Perfume When Ending Ihram Before The Visiting
حدیث نمبر: 917
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا منصور يعني ابن زاذان، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " طيبت رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل ان يحرم، ويوم النحر قبل ان يطوف بالبيت بطيب فيه مسك ". وفي الباب عن ابن عباس. قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، يرون ان المحرم إذا رمى جمرة العقبة يوم النحر وذبح وحلق او قصر، فقد حل له كل شيء حرم عليه إلا النساء، وهو قول الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقد روي عن عمر بن الخطاب، انه قال: " حل له كل شيء إلا النساء والطيب ". وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول اهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ يَعْنِي ابْنَ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ، وَيَوْمَ النَّحْرِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ بِطِيبٍ فِيهِ مِسْكٌ ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، يَرَوْنَ أَنَّ الْمُحْرِمَ إِذَا رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ وَذَبَحَ وَحَلَقَ أَوْ قَصَّرَ، فَقَدْ حَلَّ لَهُ كُلُّ شَيْءٍ حَرُمَ عَلَيْهِ إِلَّا النِّسَاءَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ قَالَ: " حَلَّ لَهُ كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا النِّسَاءَ وَالطِّيبَ ". وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے احرام باندھنے سے پہلے اور دسویں ذی الحجہ کو بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے خوشبو لگائی جس میں مشک تھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ محرم جب دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی رمی کر لے، جانور ذبح کر لے، اور سر مونڈا لے یا بال کتروا لے تو اب اس کے لیے ہر وہ چیز حلال ہو گئی جو اس پر حرام تھی سوائے عورتوں کے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،
۴- عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ اس کے لیے ہر چیز حلال ہو گئی سوائے عورتوں اور خوشبو کے،
۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، اور یہی کوفہ والوں کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 7 (1189)، سنن النسائی/الحج 41 (2693) (تحفة الأشراف: 17526) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الحج 18 (1539)، و143 (1754)، واللباس 73 (5922)، و79 (5928)، و81 (5930)، سنن ابی داود/ المناسک 11 (1745)، سنن النسائی/الحج 41 (2685-2692)، سنن ابن ماجہ/المناسک 11 (2926)، و70 (3042)، موطا امام مالک/الحج 7 (17)، مسند احمد (6/98، 106، 130، 162، 181، 186، 192، 200، 207، 209، 214، 216، 237، 238، 244، 245، 258)، سنن الدارمی/المناسک (1844) من غیر ہذا الطریق۔»

وضاحت:
۱؎: دسویں تاریخ کو جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد حاجی حلال ہو جاتا ہے، اسے تحلل اول کہتے ہیں، تحلل اول میں عورت کے علاوہ ساری چیزیں حلال ہو جاتی ہیں، اور طواف افاضہ کے بعد عورت بھی حلال ہو جاتی ہے، اب وہ عورت سے صحبت یا بوس وکنار کر سکتا ہے اسے تحلل ثانی کہتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2926)
78. باب مَا جَاءَ مَتَى تُقْطَعُ التَّلْبِيَةُ فِي الْحَجِّ
78. باب: حج میں تلبیہ پکارنا کب بند کیا جائے؟
Chapter: What Has Been Related About Discontinuing The Talbiyah During Hajj
حدیث نمبر: 918
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس، عن الفضل بن عباس، قال: " اردفني رسول الله صلى الله عليه وسلم من جمع إلى منى، فلم يزل يلبي حتى رمى الجمرة ". وفي الباب عن علي، وابن مسعود، وابن عباس. قال ابو عيسى: حديث الفضل حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان الحاج لا يقطع التلبية حتى يرمي الجمرة، وهو قول الشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَمْعٍ إِلَى مِنًى، فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْفَضْلِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الْحَاجَّ لَا يَقْطَعُ التَّلْبِيَةَ حَتَّى يَرْمِيَ الْجَمْرَةَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
فضل بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مزدلفہ سے منیٰ تک اپنا ردیف بنایا (یعنی آپ مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھا کر لے گئے) آپ برابر تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ (عقبہ) کی رمی کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- فضل رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، ابن مسعود، اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ حاجی تلبیہ بند نہ کرے جب تک کہ جمرہ کی رمی نہ کر لے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 102 (1685)، صحیح مسلم/الحج 45 (1281)، سنن ابی داود/ المناسک 28 (1815)، سنن النسائی/الحج 216 (3057)، و228 (3081)، و229 (3082)، مسند احمد (1/210، 211، 212، 213) (تحفة الأشراف: 11050) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الحج 22 (1543)، و93 (1670)، صحیح مسلم/الحج (المصدرالمذکور)، سنن ابن ماجہ/المناسک 69 (3040)، مسند احمد (1/214)، سنن الدارمی/المناسک 60 (1943) من غیر ہذا الطریق۔»

وضاحت:
۱؎: ان لوگوں کا استدلال «حتى يرمي الجمرة» سے ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کر لینے کے بعد تلبیہ پکارنا بند کرے، لیکن جمہور علماء کا کہنا ہے کہ جمرہ عقبہ کی پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ہی تلبیہ پکارنا بند کر دینا چاہیئے، ان کی دلیل صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت ہے جس میں «لم يزل يلبي حتى بلغ الجمرة» کے الفاظ وارد ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3040)
79. باب مَا جَاءَ مَتَى تُقْطَعُ التَّلْبِيَةُ فِي الْعُمْرَةِ
79. باب: عمرہ میں تلبیہ پکارنا کب بند کیا جائے؟
Chapter: What Has Been Related About Discontinuing The Talbiyah During Umrah
حدیث نمبر: 919
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا هشيم، عن ابن ابي ليلى، عن عطاء، عن ابن عباس يرفع الحديث " انه كان يمسك عن التلبية في العمرة إذا استلم الحجر ". قال: وفي الباب عن عبد الله بن عمرو. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حسن صحيح، والعمل عليه عند اكثر اهل العلم، قالوا: لا يقطع المعتمر التلبية حتى يستلم الحجر، وقال بعضهم: إذا انتهى إلى بيوت مكة قطع التلبية، والعمل على حديث النبي صلى الله عليه وسلم، وبه يقول سفيان، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْفَعُ الْحَدِيثَ " أَنَّهُ كَانَ يُمْسِكُ عَنِ التَّلْبِيَةِ فِي الْعُمْرَةِ إِذَا اسْتَلَمَ الْحَجَرَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: لَا يَقْطَعُ الْمُعْتَمِرُ التَّلْبِيَةَ حَتَّى يَسْتَلِمَ الْحَجَرَ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا انْتَهَى إِلَى بُيُوتِ مَكَّةَ قَطَعَ التَّلْبِيَةَ، وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ میں تلبیہ پکارنا اس وقت بند کرتے جب حجر اسود کا استلام کر لیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ عمرہ کرنے والا شخص تلبیہ بند نہ کرے جب تک کہ حجر اسود کا استلام نہ کر لے،
۴- بعض کہتے ہیں کہ جب مکے کے گھروں یعنی مکہ کی آبادی میں پہنچ جائے تو تلبیہ پکارنا بند کر دے۔ لیکن عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی (مذکورہ) حدیث پر ہے۔ یہی سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحج 29 (1817) (تحفة الأشراف: 5958) (ضعیف) (سند میں محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، والصحيح موقوف على ابن عباس، الإرواء (1099)، ضعيف أبي داود (316) // عندنا برقم (397 / 1817) //
80. باب مَا جَاءَ فِي طَوَافِ الزِّيَارَةِ بِاللَّيْلِ
80. باب: طواف زیارت رات میں کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Visiting Tawaf During The Night
حدیث نمبر: 920
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن ابي الزبير، عن ابن عباس، وعائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم " اخر طواف الزيارة إلى الليل ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رخص بعض اهل العلم في ان يؤخر طواف الزيارة إلى الليل، واستحب بعضهم ان يزور يوم النحر، ووسع بعضهم ان يؤخر ولو إلى آخر ايام منى.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، أن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَخَّرَ طَوَافَ الزِّيَارَةِ إِلَى اللَّيْلِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي أَنْ يُؤَخَّرَ طَوَافُ الزِّيَارَةِ إِلَى اللَّيْلِ، وَاسْتَحَبَّ بَعْضُهُمْ أَنْ يَزُورَ يَوْمَ النَّحْرِ، وَوَسَّعَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُؤَخَّرَ وَلَوْ إِلَى آخِرِ أَيَّامِ مِنًى.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما اور ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف زیارت کو رات تک مؤخر کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ۲؎،
۲- بعض اہل علم نے طواف زیارت کو رات تک مؤخر کرنے کی اجازت دی ہے۔ اور بعض نے دسویں ذی الحجہ کو طواف زیارت کرنے کو مستحب قرار دیا ہے، لیکن بعض نے اُسے منیٰ کے آخری دن تک مؤخر کرنے کی گنجائش رکھی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 130 (تعلیقا فی الترجمة)، سنن ابی داود/ المناسک 83 (2000)، سنن ابن ماجہ/المناسک 77 (3059)، (تحفة الأشراف: 6452 و 17594)، مسند احمد (1/288) (ضعیف شاذ) (ابو الزبیر مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز ابوالزبیر کا دونوں صحابہ سے سماع نہیں ہے، اور یہ حدیث اس صحیح حدیث کے خلاف ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دن میں طواف زیارت فرمایا تھا، اس لیے شاذ ہے)۔»

وضاحت:
۱؎ عبداللہ بن عباس اور عائشہ رضی الله عنہم کی یہ حدیث ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث کے مخالف ہے جسے بخاری و مسلم نے روایت کی ہے، جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو دن میں طواف کیا، امام بخاری نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ ابن عمر اور جابر کی حدیث کو پہلے دن پر محمول کیا جائے اور ابن عباس اور عائشہ کی حدیث کو اس کے علاوہ باقی دنوں پر، صاحب تحفۃ الأحوذی فرماتے ہیں: «حديث ابن عباس وعائشة المذكور في هذا الباب ضعيف فلا حاجة إلى الجمع الذي أشار إليه البخاري، وأما على تقدير الصحة فهذا الجمع متعين» ۔ (ابن عباس اور عائشہ کی باب میں مذکور حدیث ضعیف ہے، اس لیے بخاری نے جس جمع و تطبیق کی طرف اشارہ کیا ہے اس کی ضرورت نہیں ہے اور صحت ماننے کی صورت میں جمع وتطبیق متعین ہے)۔
۲؎ امام ترمذی کا اس حدیث کو حسن صحیح کہنا درست نہیں ہے، صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث قابل استدلال نہیں، کیونکہ ابو الزبیر کا ابن عباس سے اور عائشہ رضی الله عنہا سے سماع نہیں ہے، ابوالحسن القطان کہتے ہیں «عندي أن هذا الحديث ليس بصحيح إنما طاف النبي صلى الله عليه وسلم يومئذ نهارا» ۔

قال الشيخ الألباني: شاذ، ابن ماجة (3059) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (654)، الإرواء (4 / 264) برقم (1070)، ضعيف أبي داود (435 / 2000) //
81. باب مَا جَاءَ فِي نُزُولِ الأَبْطَحِ
81. باب: وادی ابطح میں قیام کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Camping At Al-Abtah
حدیث نمبر: 921
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم وابو بكر، وعمر، وعثمان ينزلون الابطح ". قال: وفي الباب عن عائشة، وابي رافع، وابن عباس. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث صحيح حسن غريب، إنما نعرفه من حديث عبد الرزاق، عن عبيد الله بن عمر، وقد استحب بعض اهل العلم نزول الابطح من غير ان يروا ذلك واجبا إلا من احب ذلك. قال الشافعي: ونزول الابطح ليس من النسك في شيء، إنما هو منزل نزله النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ يَنْزِلُونَ الْأَبْطَحَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي رَافِعٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَقَدِ اسْتَحَبَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ نُزُولَ الْأَبْطَحِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَرَوْا ذَلِكَ وَاجِبًا إِلَّا مَنْ أَحَبَّ ذَلِكَ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَنُزُولُ الْأَبْطَحِ لَيْسَ مِنَ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ، إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر، اور عثمان رضی الله عنہم ابطح ۱؎ میں قیام کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ہم اسے صرف عبدالرزاق کی سند سے جانتے ہیں، وہ عبیداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں،
۲- اس باب میں عائشہ، ابورافع اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم نے ابطح میں قیام کو مستحب قرار دیا ہے، واجب نہیں، جو چاہے وہاں قیام کرے،
۴- شافعی کہتے ہیں: ابطح کا قیام حج کے مناسک میں سے نہیں ہے۔ یہ تو بس ایک مقام ہے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المناسک 81 (3069) (تحفة الأشراف: 8025) (صحیح) وأخرجہ مسلم فی الحج (59/1310) من غیر ہذا الوجہ)»

وضاحت:
۱؎: ابطح، بطحاء خیف کنانہ اور محصب سب ہم معنی ہیں اس سے مراد مکہ اور منیٰ کے درمیان کا علاقہ ہے جو منی سے زیادہ قریب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3069)
حدیث نمبر: 922
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن عطاء، عن ابن عباس، قال: " ليس التحصيب بشيء، إنما هو منزل نزله رسول الله صلى الله عليه وسلم ". قال ابو عيسى: التحصيب نزول الابطح. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " لَيْسَ التَّحْصِيبُ بِشَيْءٍ، إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: التَّحْصِيبُ نُزُولُ الْأَبْطَحِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ وادی محصب میں قیام کوئی چیز نہیں ۱؎، یہ تو بس ایک جگہ ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- «تحصیب» کے معنی ابطح میں قیام کرنے کے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 147 (1766)، صحیح مسلم/الحج 59 (1312) (تحفة الأشراف: 5941) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: محصب میں نزول و اقامت مناسک حج میں سے نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد آرام فرمانے کے لیے یہاں اقامت کی، ظہر و عصر اور مغرب اور عشاء پڑھی اور چودھویں رات گزاری، چونکہ آپ نے یہاں نزول فرمایا تھا اس لیے آپ کی اتباع میں یہاں کی اقامت مستحب ہے، خلفاء نے آپ کے بعد اس پر عمل کیا، امام مالک امام شافعی اور جمہور اہل علم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی الله عنہم کی اقتداء میں اسے مستحب قرار دیا ہے اگر کسی نے وہاں نزول نہ کیا تو بالاجماع کوئی حرج کی بات نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
82. باب مَنْ نَزَلَ الأَبْطَحَ
82. باب: ابطح میں قیام کرنے کا بیان۔
Chapter: (About Camping At Al-Abtah)
حدیث نمبر: 923
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الاعلى، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا حبيب المعلم، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " إنما نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم الابطح لانه كان اسمح لخروجه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح. حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن هشام بن عروة نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " إِنَّمَا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَبْطَحَ لِأَنَّهُ كَانَ أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ نَحْوَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابطح میں قیام فرمایا اس لیے کہ یہاں سے (مدینے کے لیے) روانہ ہونا زیادہ آسان تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم سے ابن ابی عمر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا اور سفیان نے ہشام بن عروہ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 59 (1311) (تحفة الأشراف: 16785)، وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الحج (المصدر المذکور)، سنن ابن ماجہ/المناسک 81 (3067) من غیر ھذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1752)
83. باب مَا جَاءَ فِي حَجِّ الصَّبِيِّ
83. باب: بچے کے حج کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Hajj Of A Boy
حدیث نمبر: 924
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن طريف الكوفي، حدثنا ابو معاوية، عن محمد بن سوقة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، قال: رفعت امراة صبيا لها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، الهذا حج؟ قال: " نعم، ولك اجر ". قال: وفي الباب عن ابن عباس، حديث جابر حديث غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: رَفَعَتِ امْرَأَةٌ صَبِيًّا لَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلِهَذَا حَجٌّ؟ قَالَ: " نَعَمْ، وَلَكِ أَجْرٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے بچے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اٹھا کر پوچھا: اللہ کے رسول! کیا اس پر بھی حج ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اور اجر تجھے ملے گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جابر کی حدیث غریب ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المناسک 11 (2910) (تحفة الأشراف: 3076) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎ اس میں شافعی احمد، مالک اور جمہور علماء کے لیے دلیل ہے، جو اس بات کے قائل ہیں کہ نابالغ بچے کا حج صحیح ہے، اس پر اسے ثواب دیا جائے گا اگرچہ اس سے فرض ساقط نہیں ہو گا اور بالغ ہونے کی استطاعت کی صورت میں اسے پھر سے حج کرنا پڑے گا اور نابالغ کا یہ حج نفلی حج ہو گا، امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ نابالغ بچے کا حج منعقد نہیں ہو گا وہ صرف تمرین ومشق کے لیے اسے کرے گا اس پر اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا، یہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2910)
حدیث نمبر: 925
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا قزعة بن سويد الباهلي، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، يعنى حديث محمد بن طريف. قال ابو عيسى: وقد روي عن محمد بن المنكدر عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا قَزَعَةُ بْنُ سُوَيْدٍ الْبَاهِلِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، يَعْنِى حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ طَرِيفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا.
اس سند سے بھی جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ محمد بن منکدر سے بھی روایت کی گئی ہے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے،
۲- اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ بچہ جب بالغ ہونے سے پہلے حج کر لے تو (اس کا فریضہ ساقط نہیں ہو گا) جب وہ بالغ ہو جائے گا تو اس کے ذمہ حج ہو گا، کم سنی کا یہ حج اسلام کے عائد کردہ فریضہ حج کے لیے کافی نہیں ہو گا۔ اسی طرح غلام کا معاملہ ہے، اگر وہ غلامی میں حج کر چکا ہو پھر آزاد کر دیا جائے تو آزادی کی حالت میں اس پر حج فرض ہو گا جب وہ اس کی سبیل پا لے، غلامی کی حالت میں کیا ہوا حج کافی نہیں ہو گا۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
حدیث نمبر: 926
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن محمد بن يوسف، عن السائب بن يزيد، قال: " حج بي ابي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، وانا ابن سبع سنين ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح. وقد اجمع اهل العلم ان الصبي إذا حج قبل ان يدرك فعليه الحج، إذا ادرك لا تجزئ عنه تلك الحجة عن حجة الإسلام، وكذلك المملوك إذا حج في رقه ثم اعتق فعليه الحج إذا وجد إلى ذلك سبيلا، ولا يجزئ عنه ما حج في حال رقه، وهو قول سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: " حَجَّ بِي أَبِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنَّ الصَّبِيَّ إِذَا حَجَّ قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَ فَعَلَيْهِ الْحَجُّ، إِذَا أَدْرَكَ لَا تُجْزِئُ عَنْهُ تِلْكَ الْحَجَّةُ عَنْ حَجَّةِ الْإِسْلَامِ، وَكَذَلِكَ الْمَمْلُوكُ إِذَا حَجَّ فِي رِقِّهِ ثُمَّ أُعْتِقَ فَعَلَيْهِ الْحَجُّ إِذَا وَجَدَ إِلَى ذَلِكَ سَبِيلًا، وَلَا يُجْزِئُ عَنْهُ مَا حَجَّ فِي حَالِ رِقِّهِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
سائب بن یزید رضی الله عنہا کہتے ہیں کہ میرے باپ نے حجۃ الوداع میں مجھے ساتھ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا، میں سات برس کا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/جزاء الصید 25 (1858) (تحفة الأشراف: 3803) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الحج الكبير

Previous    8    9    10    11    12    13    14    15    16    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.