الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
1. بَابُ: ذِكْرِ الْقَسَامَةِ الَّتِي كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ
1. باب: زمانہ جاہلیت میں رائج قسامہ کا بیان۔
Chapter: Qasamah During The Jahiliyyah
حدیث نمبر: 4710
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) اخبرنا محمد بن يحيى، قال: حدثنا ابو معمر، قال: حدثنا عبد الوارث، قال: حدثنا قطن ابو الهيثم، قال: حدثنا ابو يزيد المدني، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال:" اول قسامة كانت في الجاهلية كان رجل من بني هاشم استاجر رجلا من قريش من فخذ احدهم، قال: فانطلق معه في إبله فمر به رجل من بني هاشم قد انقطعت عروة جوالقه، فقال: اغثني بعقال اشد به عروة جوالقي لا تنفر الإبل، فاعطاه عقالا يشد به عروة جوالقه، فلما نزلوا وعقلت الإبل إلا بعيرا واحدا، فقال الذي استاجره: ما شان هذا البعير لم يعقل من بين الإبل، قال: ليس له عقال، قال: فاين عقاله؟ قال: مر بي رجل من بني هاشم قد انقطعت عروة جوالقه فاستغاثني، فقال: اغثني بعقال اشد به عروة جوالقي لا تنفر الإبل فاعطيته عقالا فحذفه بعصا كان فيها اجله فمر به رجل من اهل اليمن، فقال: اتشهد الموسم، قال: ما اشهد وربما شهدت، قال: هل انت مبلغ عني رسالة مرة من الدهر؟ قال: نعم، قال: إذا شهدت الموسم فناد يا آل قريش، فإذا اجابوك فناد يا آل هاشم، فإذا اجابوك فسل عن ابي طالب، فاخبره ان فلانا قتلني في عقال ومات المستاجر، فلما قدم الذي استاجره اتاه ابو طالب، فقال: ما فعل صاحبنا؟ قال: مرض فاحسنت القيام عليه، ثم مات فنزلت فدفنته، فقال: كان ذا اهل ذاك منك فمكث حينا، ثم إن الرجل اليماني الذي كان اوصى إليه ان يبلغ عنه وافى الموسم، قال: يا آل قريش، قالوا: هذه قريش، قال: يا آل بني هاشم، قالوا: هذه بنو هاشم، قال: اين ابو طالب؟ قال: هذا ابو طالب، قال: امرني فلان ان ابلغك رسالة ان فلانا قتله في عقال فاتاه ابو طالب، فقال: اختر منا إحدى ثلاث إن شئت ان تؤدي مائة من الإبل، فإنك قتلت صاحبنا خطا، وإن شئت يحلف خمسون من قومك انك لم تقتله، فإن ابيت قتلناك به، فاتى قومه فذكر ذلك لهم، فقالوا: نحلف , فاتته امراة من بني هاشم كانت تحت رجل منهم قد ولدت له، فقالت: يا ابا طالب احب ان تجيز ابني هذا برجل من الخمسين، ولا تصبر يمينه ففعل فاتاه رجل منهم، فقال: يا ابا طالب اردت خمسين رجلا ان يحلفوا مكان مائة من الإبل يصيب كل رجل بعيران فهذان بعيران فاقبلهما عني، ولا تصبر يميني حيث تصبر الايمان فقبلهما وجاء ثمانية واربعون رجلا حلفوا، قال ابن عباس: فوالذي نفسي بيده ما حال الحول ومن الثمانية والاربعين عين تطرف".
(موقوف) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَطَنٌ أَبُو الْهَيْثَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" أَوَّلُ قَسَامَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ اسْتَأْجَرَ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ فَخِذِ أَحَدِهِمْ، قَالَ: فَانْطَلَقَ مَعَهُ فِي إِبِلِهِ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ، فَأَعْطَاهُ عِقَالًا يَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِهِ، فَلَمَّا نَزَلُوا وَعُقِلَتِ الْإِبِلُ إِلَّا بَعِيرًا وَاحِدًا، فَقَالَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ: مَا شَأْنُ هَذَا الْبَعِيرِ لَمْ يُعْقَلْ مِنْ بَيْنِ الْإِبِلِ، قَالَ: لَيْسَ لَهُ عِقَالٌ، قَالَ: فَأَيْنَ عِقَالُهُ؟ قَالَ: مَرَّ بِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ فَاسْتَغَاثَنِي، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ فَأَعْطَيْتُهُ عِقَالًا فَحَذَفَهُ بِعَصًا كَانَ فِيهَا أَجَلُهُ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: أَتَشْهَدُ الْمَوْسِمَ، قَالَ: مَا أَشْهَدُ وَرُبَّمَا شَهِدْتُ، قَالَ: هَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي رِسَالَةً مَرَّةً مِنَ الدَّهْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: إِذَا شَهِدْتَ الْمَوْسِمَ فَنَادِ يَا آلَ قُرَيْشٍ، فَإِذَا أَجَابُوكَ فَنَادِ يَا آلَ هَاشِمٍ، فَإِذَا أَجَابُوكَ فَسَلْ عَنْ أَبِي طَالِبٍ، فَأَخْبِرْهُ أَنَّ فُلَانًا قَتَلَنِي فِي عِقَالٍ وَمَاتَ الْمُسْتَأْجَرُ، فَلَمَّا قَدِمَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ أَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ صَاحِبُنَا؟ قَالَ: مَرِضَ فَأَحْسَنْتُ الْقِيَامَ عَلَيْهِ، ثُمَّ مَاتَ فَنَزَلْتُ فَدَفَنْتُهُ، فَقَالَ: كَانَ ذَا أَهْلَ ذَاكَ مِنْكَ فَمَكُثَ حِينًا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ الْيَمَانِيَّ الَّذِي كَانَ أَوْصَى إِلَيْهِ أَنْ يُبَلِّغَ عَنْهُ وَافَى الْمَوْسِمَ، قَالَ: يَا آلَ قُرَيْشٍ، قَالُوا: هَذِهِ قُرَيْشٌ، قَالَ: يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ، قَالُوا: هَذِهِ بَنُو هَاشِمٍ، قَالَ: أَيْنَ أَبُو طَالِبٍ؟ قَالَ: هَذَا أَبُو طَالِبٍ، قَالَ: أَمَرَنِي فُلَانٌ أَنْ أُبَلِّغَكَ رِسَالَةً أَنَّ فُلَانًا قَتَلَهُ فِي عِقَالٍ فَأَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: اخْتَرْ مِنَّا إِحْدَى ثَلَاثٍ إِنْ شِئْتَ أَنْ تُؤَدِّيَ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، فَإِنَّكَ قَتَلْتَ صَاحِبَنَا خَطَأً، وَإِنْ شِئْتَ يَحْلِفْ خَمْسُونَ مِنْ قَوْمِكَ أَنَّكَ لَمْ تَقْتُلْهُ، فَإِنْ أَبَيْتَ قَتَلْنَاكَ بِهِ، فَأَتَى قَوْمَهُ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُمْ، فَقَالُوا: نَحْلِفُ , فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْهُمْ قَدْ وَلَدَتْ لَهُ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا طَالِبٍ أُحِبُّ أَنْ تُجِيزَ ابْنِي هَذَا بِرَجُلٍ مِنَ الْخَمْسِينَ، وَلَا تُصْبِرْ يَمِينَهُ فَفَعَلَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا طَالِبٍ أَرَدْتَ خَمْسِينَ رَجُلًا أَنْ يَحْلِفُوا مَكَانَ مِائَةٍ مِنَ الْإِبِلِ يُصِيبُ كُلَّ رَجُلٍ بَعِيرَانِ فَهَذَانِ بَعِيرَانِ فَاقْبَلْهُمَا عَنِّي، وَلَا تُصْبِرْ يَمِينِي حَيْثُ تُصْبَرُ الْأَيْمَانُ فَقَبِلَهُمَا وَجَاءَ ثَمَانِيَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلًا حَلَفُوا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا حَالَ الْحَوْلُ وَمِنَ الثَّمَانِيَةِ وَالْأَرْبَعِينَ عَيْنٌ تَطْرِفُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کا پہلا قسامہ یہ تھا کہ بنی ہاشم کا ایک شخص تھا، قریش یعنی اس کی شاخ میں سے کسی قبیلے کے ایک شخص نے اسے نوکری پر رکھا، وہ اس کے ساتھ اس کے اونٹوں میں گیا، اس کے پاس سے بنی ہاشم کے ایک شخص کا گزر ہوا جس کے توش دان کی رسی ٹوٹ گئی تھی، وہ بولا: میری مدد کرو ایک رسی سے جس سے میں اپنے توش دان کا منہ باندھ سکوں تاکہ (اس میں سے سامان گرنے سے) اونٹ نہ بدکے، چنانچہ اس نے اسے توش دان کا منہ باندھنے کے لیے رسی دی، جب انہوں نے قیام کیا اور ایک اونٹ کے علاوہ سبھی اونٹ باندھ دیے گئے تو جس نے نوکر رکھا تھا، اس نے کہا: اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے، تمام اونٹوں میں اسے کیوں نہیں باندھا گیا؟ اس نے کہا: اس کے لیے کوئی رسی نہیں ہے، اس نے کہا: اس کی رسی کہاں گئی؟ وہ بولا: میرے پاس سے بنی ہاشم کا ایک شخص گزرا جس کے توش دان کا منہ باندھنے کی رسی ٹوٹ گئی تھی، اس نے مجھ سے مدد چاہی اور کہا: مجھے توش دان کا منہ باندھنے کے لیے ایک رسی دے دو تاکہ اونٹ نہ بدکے، میں نے اسے رسی دے دی، یہ سن کر اس نے ایک لاٹھی نوکر کو ماری، اسی میں اس کی موت تھی (یعنی یہی چیز بعد میں اس کے مرنے کا سبب بنی) اس کے پاس سے یمن والوں میں سے ایک شخص کا گزر ہوا، اس نے کہا: کیا تم حج کو جا رہے ہو؟ اس نے کہا: جا نہیں رہا ہوں لیکن شاید جاؤں، اس نے کہا: کیا تم (اس موقع سے) کسی بھی وقت میرا یہ پیغام پہنچا دو گے؟ اس نے کہا: ہاں، کہا: جب تم حج کو جاؤ تو پکار کر کہنا: اے قریش کے لوگو! جب وہ آ جائیں تو پکارنا! اے ہاشم کے لوگو! جب وہ آ جائیں تو ابوطالب کے بارے میں پوچھنا پھر انہیں بتانا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک رسی کے سلسلے میں مار ڈالا ہے اور (یہ کہہ کر) نوکر مر گیا، پھر جب وہ شخص آیا جس نے نوکری پر اسے رکھا تھا تو اس کے پاس ابوطالب گئے اور بولے: ہمارے آدمی کا کیا ہوا؟ وہ بولا: وہ بیمار ہو گیا، میں نے اس کی اچھی طرح خدمت کی پھر وہ مر گیا، میں راستے میں اترا اور اسے دفن کر دیا۔ ابوطالب بولے: تمہاری طرف سے وہ اس چیز کا حقدار تھا، وہ کچھ عرصے تک رکے رہے پھر وہ یمنی آیا جسے اس نے وصیت کی تھی کہ جب موسم حج آیا تو وہ اس کا پیغام پہنچا دے۔ اس نے کہا: اے قریش کے لوگو! لوگوں نے کہا: یہ قریش ہیں، اس نے کہا: اے بنی ہاشم کے لوگو! لوگوں نے کہا: یہ بنی ہاشم ہیں، اس نے کہا: ابوطالب کہاں ہیں؟ کسی نے کہا: ابوطالب یہ ہیں۔ وہ بولا: مجھ سے فلاں نے کہا ہے کہ میں آپ تک یہ پیغام پہنچا دوں کہ فلاں نے اسے ایک رسی کی وجہ سے مار ڈالا، چنانچہ ابوطالب اس کے پاس آئے اور بولے: تم تین میں سے کوئی ایک کام کرو، اگر تم چاہو تو سو اونٹ دے دو، اس لیے کہ تم نے ہمارے آدمی کو غلطی سے مار ڈالا ہے ۱؎ اور اگر چاہو تو تمہاری قوم کے پچاس آدمی قسم کھائیں کہ تم نے اسے نہیں مارا، اگر تم ان دونوں باتوں سے انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں اس کے بدلے قتل کریں گے، وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور ان سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: ہم قسم کھائیں گے، پھر بنی ہاشم کی ایک عورت ابوطالب کے پاس آئی جو اس قبیلے کے ایک شخص کی زوجیت میں تھی، اس شخص سے اس کا ایک لڑکا تھا، وہ بولی: ابوطالب! میں چاہتی ہوں کہ آپ ان پچاس میں سے میرے اس بیٹے کو بخش دیں اور اس سے قسم نہ لیں، ابوطالب نے ایسا ہی کیا، پھر ان کے پاس ان میں کا ایک شخص آیا اور بولا: ابوطالب! آپ سو اونٹوں کی جگہ پچاس آدمیوں سے قسم لینا چاہتے ہو؟ ہر شخص کے حصے میں دو اونٹ پڑیں گے، تو لیجئیے دو اونٹ اور مجھ سے قسم مت لیجئیے جیسا کہ آپ اوروں سے قسم لیں گے، ابوطالب نے دونوں اونٹ قبول کر لیے، پھر اڑتالیس آدمی آئے اور انہوں نے قسم کھائی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! ابھی سال بھی نہ گزرا تھا کہ ان اڑتالیس میں سے ایک بھی آنکھ جھپکنے والی نہیں رہی (یعنی سب مر گئے) ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/مناقب الأنصار 27 (المناقب 87) (3845)، (تحفة الأشراف: 6280) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: نامعلوم قتل کی صورت میں مشتبہ افراد یا بستی والوں سے قسم لینے کو قسامہ کہا جاتا ہے۔ ۲؎: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سب کے مر جانے کی خبر قسم کھا کر دی باوجود یہ کہ یہ اس وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میں تین باتیں کہی جاتی ہیں: یہ خبر ان تک تواتر کے ساتھ پہنچی ہو گی، کسی ثقہ شخص کے ذریعہ پہنچی ہو گی، یہ بھی احتمال ہے کہ اس واقعہ کی خبر انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
2. بَابُ: الْقَسَامَةِ
2. باب: قسامہ کا بیان۔
Chapter: Qasamah
حدیث نمبر: 4711
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا احمد بن عمرو بن السرح , ويونس بن عبد الاعلى , قال: انبانا ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال احمد بن عمرو، قال: اخبرني ابو سلمة، وسليمان بن يسار، عن رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من الانصار:" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اقر القسامة على ما كانت عليه في الجاهلية".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ , وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَنْصَارِ:" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَرَّ الْقَسَامَةَ عَلَى مَا كَانَتْ عَلَيْهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ".
ایک انصاری صحابی رسول رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسامہ کو اسی حالت پر باقی رکھا جس پر وہ جاہلیت میں تھا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/القسامة 1 (الحدود 1) (1670)، (تحفة الأشراف: 15587، 18747)، مسند احمد (4/62، و5/375، 432، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4712، 4713) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
حدیث نمبر: 4712
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن هاشم، قال: حدثنا الوليد، قال: حدثنا الاوزاعي، عن ابن شهاب، عن ابي سلمة , وسليمان بن يسار، عن اناس من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ان القسامة كانت في الجاهلية، فاقرها رسول الله صلى الله عليه وسلم على ما كانت عليه في الجاهلية، وقضى بها بين اناس من الانصار في قتيل ادعوه على يهود خيبر". خالفهما معمر.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّ الْقَسَامَةَ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَقَرَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا كَانَتْ عَلَيْهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَقَضَى بِهَا بَيْنَ أُنَاسٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي قَتِيلٍ ادَّعَوْهُ عَلَى يَهُودِ خَيْبَرَ". خَالَفَهُمَا مَعْمَرٌ.
کچھ صحابہ سے روایت ہے کہ قسامہ جاہلیت میں جاری تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی حالت پر باقی رکھا جس پر وہ جاہلیت میں تھا، اور انصار کے کچھ لوگوں کے درمیان ایک مقتول کے سلسلے میں اسی کا فیصلہ کیا جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ اس کا خون خیبر کے یہودیوں پر ہے۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) معمر نے ان دونوں (یونس اور اوزاعی) کے برخلاف یہ حدیث (مرسلاً) روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
حدیث نمبر: 4713
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع، قال: حدثنا عبد الرزاق، قال: انبانا معمر، عن الزهري، عن ابن المسيب، قال:" كانت القسامة في الجاهلية، ثم اقرها رسول الله صلى الله عليه وسلم في الانصاري الذي وجد مقتولا في جب اليهود، فقالت الانصار: اليهود قتلوا صاحبنا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ:" كَانَتِ الْقَسَامَةُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، ثُمَّ أَقَرَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَنْصَارِيِّ الَّذِي وُجِدَ مَقْتُولًا فِي جُبِّ الْيَهُودِ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: الْيَهُودُ قَتَلُوا صَاحِبَنَا".
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ قسامہ جاہلیت میں رائج تھا، پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری کے سلسلے میں باقی رکھا جو یہودیوں کے کنویں میں مرا ہوا پایا گیا تو انصار نے کہا: ہمارے آدمیوں کا قتل یہودیوں نے کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4711 (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، لیکن پچھلی سند سے تقویت پاکر مرفوع متصل ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
3. بَابُ: تَبْدِئَةِ أَهْلِ الدَّمِ فِي الْقَسَامَةِ
3. باب: قسامہ میں قسم کی ابتداء مقتول کے ورثاء کی طرف سے ہونے کا بیان۔
Chapter: Family Of The Victim Should Swear The Oath First, In The Case Of Qasamah
حدیث نمبر: 4714
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا احمد بن عمرو بن السرح، قال: انبانا ابن وهب، قال: اخبرني مالك بن انس، عن ابي ليلى بن عبد الله بن عبد الرحمن الانصاري، ان سهل بن ابي حثمة اخبره، ان عبد الله بن سهل , ومحيصة خرجا إلى خيبر من جهد اصابهما، فاتي محيصة , فاخبر ان عبد الله بن سهل قد قتل وطرح في فقير او عين فاتى يهود، فقال: انتم والله قتلتموه، فقالوا: والله ما قتلناه، ثم اقبل حتى قدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، ثم اقبل هو وحويصة وهو اخوه اكبر منه , وعبد الرحمن بن سهل فذهب محيصة ليتكلم وهو الذي كان بخيبر، فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كبر كبر"، وتكلم حويصة، ثم تكلم محيصة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إما ان يدوا صاحبكم , وإما ان يؤذنوا بحرب , فكتب النبي صلى الله عليه وسلم في ذلك"، فكتبوا: إنا والله ما قتلناه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لحويصة , ومحيصة , وعبد الرحمن:" تحلفون وتستحقون دم صاحبكم؟"، قالوا: لا، قال:" فتحلف لكم يهود"، قالوا: ليسوا مسلمين، فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده فبعث إليهم بمائة ناقة حتى ادخلت عليهم الدار، قال سهل: لقد ركضتني منها ناقة حمراء.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي لَيْلَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ , وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمَا، فَأُتِيَ مُحَيِّصَةُ , فَأُخْبِرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ وَطُرِحَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ فَأَتَى يَهُودَ، فَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَحُوَيِّصَةُ وَهُوَ أَخُوهُ أَكْبَرُ مِنْهُ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ لِيَتَكَلَّمَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَبِّرْ كَبِّرْ"، وَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ , وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ , فَكَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ"، فَكَتَبُوا: إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُوَيِّصَةَ , وَمُحَيِّصَةَ , وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ:" تَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ؟"، قَالُوا: لَا، قَالَ:" فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ"، قَالُوا: لَيْسُوا مُسْلِمِينَ، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ بِمِائَةِ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ، قَالَ سَهْلٌ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہما (رزق کی) تنگی کی وجہ سے خیبر کی طرف نکلے تو محیصہ کے پاس کسی نے آ کر بتایا کہ عبداللہ بن سہل کا قتل ہو گیا ہے، اور انہیں ایک کنویں میں یا چشمے میں ڈال دیا گیا ہے، یہ سن کر وہ (محیصہ) یہودیوں کے پاس گئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم ہی نے انہیں قتل کیا ہے۔ وہ بولے: اللہ کی قسم! انہیں ہم نے قتل نہیں کیا۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا، پھر وہ، حویصہ (ان کے بڑے بھائی) اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہما ساتھ آئے تو محیصہ رضی اللہ عنہ نے گفتگو کرنا چاہی (وہی خیبر میں ان کے ساتھ تھے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑے کا لحاظ کرو، بڑے کا لحاظ کرو، اور حویصہ رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی پھر محیصہ رضی اللہ عنہ نے کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سلسلے میں) فرمایا: یا تو وہ تمہارے ساتھی کی دیت ادا کریں یا، پھر ان سے جنگ کے لیے کہہ دیا جائے، اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لکھ بھیجی، تو انہوں نے لکھا: اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن (رضی اللہ عنہم) سے فرمایا: تمہیں قسم کھانا ہو گی ۲؎ اور پھر تمہیں اپنے آدمی کے خون کا حق ہو گا، وہ بولے: نہیں، آپ نے فرمایا: تو پھر یہودی قسم کھائیں گے، وہ بولے: وہ تو مسلمان نہیں ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس (یعنی بیت المال) سے ان کی دیت ادا کی اور ان کے پاس سو اونٹ بھیجے یہاں تک کہ وہ ان کے گھر میں داخل ہو گئے، سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلح 7 (2702)، الجزیة 12 (3173)، الأدب 89 (6143)، الدیات 22 (6898)، الأحکام 38 (7192)، صحیح مسلم/القسامة 1 (الحدود 1) (1669)، سنن ابی داود/الدیات 8 (2520، 2521)، 9 (2523)، سنن الترمذی/الدیات 23 (1442)، سنن ابن ماجہ/الدیات28(2677)، (تحفة الأشراف: 4644)، مسند احمد (4/2، 3)، سنن الدارمی/الدیات 2 (2398)، انظرالأرقام التالیة 4715-4723 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی: قسامہ میں پہلے مقتول کے ورثاء سے کہا جائے گا کہ تم لوگ قسم کھا لو تو تم کو قتل کی دیت دے دی جائے گی، اور جب ورثاء قسم سے انکار کر دیں گے تب مدعا علیہم سے قسم کھانے کو کہا جائے گا اب اگر وہ بھی قسم کھا لیں گے تو دیت بیت المال سے دلائی جائے گی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں کیا تھا۔ ۲؎: اسی جملہ کی باب سے مناسبت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4715
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، قال: انبانا ابن القاسم، قال: حدثني مالك، عن ابي ليلى بن عبد الله بن عبد الرحمن بن سهل، عن سهل بن ابي حثمة انه اخبره , ورجال كبراء من قومه ان عبد الله بن سهل , ومحيصة خرجا إلى خيبر من جهد اصابهم، فاتى محيصة فاخبر ان عبد الله بن سهل قد قتل وطرح في فقير او عين فاتى يهود، وقال: انتم والله قتلتموه، قالوا: والله ما قتلناه فاقبل حتى قدم على قومه فذكر لهم، ثم اقبل هو واخوه حويصة، وهو اكبر منه وعبد الرحمن بن سهل فذهب محيصة ليتكلم , وهو الذي كان بخيبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمحيصة:" كبر كبر" , يريد السن , فتكلم حويصة، ثم تكلم محيصة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إما ان يدوا صاحبكم وإما ان يؤذنوا بحرب فكتب إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك"، فكتبوا: إنا , والله ما قتلناه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لحويصة , ومحيصة , وعبد الرحمن:" اتحلفون وتستحقون دم صاحبكم؟"، قالوا: لا، قال:" فتحلف لكم يهود"، قالوا: ليسوا بمسلمين , فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده، فبعث إليهم بمائة ناقة حتى ادخلت عليهم الدار، قال سهل: لقد ركضتني منها ناقة حمراء.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي لَيْلَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , وَرِجَالٌ كُبَرَاءُ مِنْ قَوْمِهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ , وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمْ، فَأَتَى مُحَيِّصَةُ فَأَخْبَرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ وَطُرِحَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ فَأَتَى يَهُودَ، وَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ فَأَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ فَذَكَرَ لَهُمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ، وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ لِيَتَكَلَّمَ , وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُحَيِّصَةَ:" كَبِّرْ كَبِّرْ" , يُرِيدُ السِّنَّ , فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ فَكَتَبَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ"، فَكَتَبُوا: إِنَّا , وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُوَيِّصَةَ , وَمُحَيِّصَةَ , وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ:" أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ؟"، قَالُوا: لَا، قَالَ:" فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ"، قَالُوا: لَيْسُوا بِمُسْلِمِينَ , فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ بِمِائَةِ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ، قَالَ سَهْلٌ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان سے ان کے قبیلہ کے کچھ بڑوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہ تنگ حالی کی وجہ سے خیبر کی طرف نکلے، محیصہ رضی اللہ عنہ کے پاس کسی نے آ کر بتایا کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ مارے گئے، انہیں ایک کنویں یا چشمے میں پھینک دیا گیا ہے۔ محیصہ یہودیوں کے پاس آئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم لوگوں نے اسے قتل کیا ہے، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا، پھر وہ اپنے قبیلے کے پاس آئے اور ان سے اس کا تذکرہ کیا۔ پھر وہ، ان کے بھائی حویصہ (حویصہ ان سے بڑے تھے) اور عبدالرحمٰن بن سہل چلے۔ (اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے) تو محیصہ نے بات کرنی چاہی (وہی خیبر میں گئے) تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ سے فرمایا: بڑے کا لحاظ کرو، بڑے کا لحاظ کرو۔ آپ کی مراد عمر میں بڑے ہونے سے تھی، چنانچہ حویصہ نے گفتگو کی پھر محیصہ نے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا تو وہ تمہارے آدمی کی دیت دیں یا پھر ان سے جنگ کے لیے کہہ دیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس بارے میں لکھ بھیجا تو ان لوگوں نے لکھا: اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن (رضی اللہ عنہم) سے کہا: کیا تم قسم کھاؤ گے اور اپنے آدمی کے خون کے حقدار بنو گے؟ وہ بولے: نہیں، آپ نے فرمایا: تو پھر یہودی قسم کھائیں گے۔ وہ بولے: وہ تو مسلمان نہیں ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی اور سو اونٹنیاں ان کے پاس بھیجیں یہاں تک کہ وہ ان کے گھروں میں داخل ہو گئیں۔ سہل کہتے ہیں: ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات مار دی۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
4. بَابُ: ذِكْرِ اخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ سَهْلٍ فِيهِ
4. باب: اس سلسلے میں سہل کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ میں اختلاف کا ذکر۔
Chapter: Mentioning The Different Wordings In The Report Of Sahl
حدیث نمبر: 4716
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن يحيى، عن بشير بن يسار، عن سهل بن ابي حثمة، قال: وحسبت، قال: وعن رافع بن خديج انهما، قالا: خرج عبد الله بن سهل بن زيد، ومحيصة بن مسعود حتى إذا كانا بخيبر تفرقا في بعض ما هنالك , ثم إذا بمحيصة يجد عبد الله بن سهل قتيلا فدفنه، ثم اقبل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم هو، وحويصة بن مسعود , وعبد الرحمن بن سهل وكان اصغر القوم، فذهب عبد الرحمن يتكلم قبل صاحبيه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كبر الكبر في السن" , فصمت وتكلم صاحباه، ثم تكلم معهما فذكروا لرسول الله صلى الله عليه وسلم مقتل عبد الله بن سهل، فقال لهم:" اتحلفون خمسين يمينا، وتستحقون صاحبكم، او قاتلكم؟"، قالوا: كيف نحلف ولم نشهد؟ قال:" فتبرئكم يهود بخمسين يمينا"، قالوا: وكيف نقبل ايمان قوم كفار؟ فلما راى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم اعطاه عقله.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: وَحَسِبْتُ، قَالَ: وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّهُمَا، قَالَا: خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ زَيْدٍ، وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ حَتَّى إِذَا كَانَا بِخَيْبَرَ تَفَرَّقَا فِي بَعْضِ مَا هُنَالِكَ , ثُمَّ إِذَا بِمُحَيِّصَةَ يَجِدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلًا فَدَفَنَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ، وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ قَبْلَ صَاحِبَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَبِّرِ الْكُبْرَ فِي السِّنِّ" , فَصَمَتَ وَتَكَلَّمَ صَاحِبَاهُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مَعَهُمَا فَذَكَرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْتَلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، فَقَالَ لَهُمْ:" أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا، وَتَسْتَحِقُّونَ صَاحِبَكُمْ، أَوْ قَاتِلَكُمْ؟"، قَالُوا: كَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ؟ قَالَ:" فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا"، قَالُوا: وَكَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؟ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ عَقْلَهُ.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نکلے، جب خیبر پہنچے تو کسی مقام پر وہ الگ الگ ہو گئے، پھر اچانک محیصہ کو عبداللہ بن سہل مقتول ملے، انہوں نے عبداللہ کو دفن کیا، پھر وہ، حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن ان میں سب سے چھوٹے تھے، پھر اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے عبدالرحمٰن بولنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: عمر میں جو بڑا ہے اس کا لحاظ کرو تو وہ خاموش ہو گئے اور ان کے دونوں ساتھی گفتگو کرنے لگے، پھر عبدالرحمٰن نے بھی ان کے ساتھ گفتگو کی، چنانچہ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عبداللہ بن سہل کے قتل کا تذکرہ کیا، تو آپ نے ان سے فرمایا: کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے، پھر اپنے ساتھی کے خون کے حقدار بنو گے (یا کہا: اپنے قاتل کے) انہوں نے کہا: ہم کیوں کر قسم کھائیں گے جب کہ ہم وہاں موجود نہیں تھے، آپ نے فرمایا: تو پھر یہودی پچاس قسمیں کھا کر تمہارا شک دور کریں گے، انہوں نے کہا: ان کی قسمیں ہم کیوں کر قبول کر سکتے ہیں وہ تو کافر لوگ ہیں، جب یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھی تو آپ نے ان کی دیت خود سے انہیں دے دی۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4714 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4717
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا احمد بن عبدة، قال: انبانا حماد، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار، عن سهل بن ابي حثمة، ورافع بن خديج , انهما حدثاه: ان محيصة بن مسعود , وعبد الله بن سهل , اتيا خيبر في حاجة لهما , فتفرقا في النخل فقتل عبد الله بن سهل , فجاء اخوه عبد الرحمن بن سهل , وحويصة , ومحيصة ابنا عمه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فتكلم عبد الرحمن في امر اخيه وهو اصغر منهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الكبر ليبدا الاكبر"، فتكلما في امر صاحبهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وذكر كلمة معناها:" يقسم خمسون منكم"، فقالوا: يا رسول الله، امر لم نشهده كيف نحلف؟ قال:" فتبرئكم يهود بايمان خمسين منهم"، قالوا: يا رسول الله، قوم كفار، فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من قبله، قال سهل: فدخلت مربدا لهم , فركضتني ناقة من تلك الإبل.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ: أَنَّ مُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ , وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ , أَتَيَا خَيْبَرَ فِي حَاجَةٍ لَهُمَا , فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ , فَجَاءَ أَخُوهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ , وَحُوَيِّصَةُ , وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا عَمِّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي أَمْرِ أَخِيهِ وَهُوَ أَصْغَرُ مِنْهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْكُبْرَ لِيَبْدَأْ الْأَكْبَرُ"، فَتَكَلَّمَا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا:" يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْكُمْ"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمْرٌ لَمْ نَشْهَدْهُ كَيْفَ نَحْلِفُ؟ قَالَ:" فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَوْمٌ كُفَّارٌ، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ، قَالَ سَهْلٌ: فَدَخَلْتُ مِرْبَدًا لَهُمْ , فَرَكَضَتْنِي نَاقَةٌ مِنْ تِلْكَ الْإِبِلِ.
سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہما اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر خیبر آئے، پھر وہ باغ میں الگ الگ ہو گئے، عبداللہ بن سہل کا قتل ہو گیا، تو ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن سہل اور چچا زاد بھائی حویصہ اور محیصہ (رضی اللہ عنہم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن نے اپنے بھائی کے معاملے میں گفتگو کی حالانکہ وہ ان میں سب سے چھوٹے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑوں کا لحاظ کرو، سب سے بڑا پہلے بات شروع کرے، چنانچہ ان دونوں نے اپنے آدمی کے بارے میں بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آپ نے ایک ایسی بات کہی جس کا مفہوم یوں تھا: تم میں سے پچاس لوگ قسم کھائیں گے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ایک ایسا معاملہ جہاں ہم موجود نہ تھے، اس کے بارے میں کیوں کر قسم کھائیں؟ آپ نے فرمایا: تو پھر یہودی اپنے پچاس لوگوں کو قسم کھلا کر تمہارے شک کو دور کریں گے، وہ بولے: اللہ کے رسول! وہ تو کافر لوگ ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے ان کی دیت ادا کی۔ سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب میں ان کے «مربد» (باڑھ) میں داخل ہوا تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات مار دی۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4714 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4718
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا بشر وهو ابن المفضل، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار، عن سهل بن ابي حثمة، ان عبد الله بن سهل , ومحيصة بن مسعود بن زيد انهما اتيا خيبر، وهو يومئذ صلح فتفرقا لحوائجهما، فاتى محيصة على عبد الله بن سهل وهو يتشحط في دمه قتيلا فدفنه، ثم قدم المدينة فانطلق عبد الرحمن بن سهل , وحويصة , ومحيصة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذهب عبد الرحمن يتكلم وهو احدث القوم سنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كبر الكبر"، فسكت فتكلما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتحلفون بخمسين يمينا منكم فتستحقون دم صاحبكم او قاتلكم؟"، قالوا: يا رسول الله، كيف نحلف ولم نشهد ولم نر؟ قال:" تبرئكم يهود بخمسين يمينا"، قالوا: يا رسول الله، كيف ناخذ ايمان قوم كفار؟ فعقله رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ وَهُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ , وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُمَا أَتَيَا خَيْبَرَ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ فَتَفَرَّقَا لِحَوَائِجِهِمَا، فَأَتَى مُحَيِّصَةُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ وَهُوَ يَتَشَحَّطُ فِي دَمِهِ قَتِيلًا فَدَفَنَهُ، ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ , وَحُوَيِّصَةُ , وَمُحَيِّصَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ وَهُوَ أَحْدَثُ الْقَوْمِ سِنًّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَبِّرِ الْكُبْرَ"، فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَحْلِفُونَ بِخَمْسِينَ يَمِينًا مِنْكُمْ فَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ؟"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ وَلَمْ نَرَ؟ قَالَ:" تُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَأْخُذُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؟ فَعَقَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل، محیصہ بن مسعود بن زید خیبر رضی اللہ عنہما گئے، ان دنوں صلح چل رہی تھی، وہ اپنی ضرورتوں کے لیے الگ الگ ہو گئے، پھر محیصہ رضی اللہ عنہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے (دیکھا کہ) وہ مقتول ہو کر اپنے خون میں لوٹ رہے تھے، تو انہیں دفن کیا اور مدینے آئے، پھر عبدالرحمٰن بن سہل، حویصہ اور محیصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو عبدالرحمٰن نے بات کی وہ عمر میں سب سے چھوٹے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑے کا لحاظ کرو، چنانچہ وہ خاموش ہو گئے، پھر ان دونوں نے بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اپنے پچاس آدمیوں کو قسم کھلاؤ گے تاکہ اپنے آدمی (کے خون بہا) یا اپنے قاتل (خون) کے حقدار بنو؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کیوں کر قسم کھائیں گے حالانکہ نہ ہم وہاں موجود تھے اور نہ ہی ہم نے دیکھا۔ آپ نے فرمایا: یہودی پچاس قسمیں کھا کر تمہارا شک دور کریں گے، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہم کافروں کی قسم کا اعتبار کیوں کر کریں گے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4714 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4719
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا بشر بن المفضل، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار، عن سهل بن ابي حثمة، قال: انطلق عبد الله بن سهل , ومحيصة بن مسعود بن زيد إلى خيبر وهي يومئذ صلح، فتفرقا في حوائجهما، فاتى محيصة على عبد الله بن سهل وهو يتشحط في دمه قتيلا، فدفنه، ثم قدم المدينة، فانطلق عبد الرحمن بن سهل , وحويصة , ومحيصة ابنا مسعود إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذهب عبد الرحمن يتكلم، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كبر الكبر" , وهو احدث القوم، فسكت فتكلما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتحلفون بخمسين يمينا منكم وتستحقون قاتلكم او صاحبكم؟"، فقالوا: يا رسول الله، كيف نحلف ولم نشهد ولم نر؟ فقال:" اتبرئكم يهود بخمسين"، فقالوا: يا رسول الله، كيف ناخذ ايمان قوم كفار؟ فعقله رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: انْطَلَقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ , وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ إِلَى خَيْبَرَ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ، فَتَفَرَّقَا فِي حَوَائِجِهِمَا، فَأَتَى مُحَيِّصَةُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ وَهُوَ يَتَشَحَّطُ فِي دَمِهِ قَتِيلًا، فَدَفَنَهُ، ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ , وَحُوَيِّصَةُ , وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَبِّرِ الْكُبْرَ" , وَهُوَ أَحْدَثُ الْقَوْمِ، فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَحْلِفُونَ بِخَمْسِينَ يَمِينًا مِنْكُمْ وَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ أَوْ صَاحِبَكُمْ؟"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ وَلَمْ نَرَ؟ فَقَالَ:" أَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَأْخُذُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؟ فَعَقَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہما خیبر کی طرف چلے، اس وقت صلح چل رہی تھی، محیصہ اپنے کام کے لیے جدا ہو گئے، پھر وہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ ان کا قتل ہو گیا ہے اور وہ مقتول ہو کر اپنے خون میں لوٹ پوٹ رہے تھے، انہیں دفن کیا اور مدینے آئے، عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ (رضی اللہ عنہم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہ بات کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: بڑوں کا لحاظ کرو، وہ لوگوں میں سب سے چھوٹے تھے، تو وہ چپ ہو گئے، پھر انہوں (حویصہ اور محیصہ) نے بات کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اپنے پچاس آدمیوں کو قسم کھلاؤ گے تاکہ تم اپنے قاتل (کے خون)، یا اپنے آدمی کے خون (بہا) کے حقدار بنو، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم قسم کیوں کر کھائیں گے، نہ تو ہم وہاں موجود تھے اور نہ ہم نے انہیں دیکھا، آپ نے فرمایا: تو کیا پچاس یہودیوں کی قسموں سے تمہارا شک دور ہو جائے گا؟ وہ بولے: اللہ کے رسول! ہم کافروں کی قسم کا اعتبار کیوں کر کریں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4714 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.