الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book on Sacrifices
15. باب مَا جَاءَ فِي الْفَرَعِ وَالْعَتِيرَةِ
15. باب: فرع اور عتیرہ کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Fara' And The 'Atirah
حدیث نمبر: 1512
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان , حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا معمر , عن الزهري، عن ابن المسيب , عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا فرع ولا عتيرة , والفرع: اول النتاج كان ينتج لهم فيذبحونه " , قال: وفي الباب , عن نبيشة , ومخنف بن سليم , وابي العشراء , عن ابيه , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعتيرة: ذبيحة كانوا يذبحونها في رجب , يعظمون شهر رجب لانه اول شهر من اشهر الحرم , واشهر الحرم: رجب , وذو القعدة , وذو الحجة , والمحرم , واشهر الحج: شوال , وذو القعدة , وعشر من ذي الحجة , كذلك روي عن بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم في اشهر الحج.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا فَرَعَ وَلَا عَتِيرَةَ , وَالْفَرَعُ: أَوَّلُ النِّتَاجِ كَانَ يُنْتَجُ لَهُمْ فَيَذْبَحُونَهُ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ نُبَيْشَةَ , وَمِخْنَفِ بْنِ سُلَيْمٍ , وَأَبِي الْعُشَرَاءِ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَتِيرَةُ: ذَبِيحَةٌ كَانُوا يَذْبَحُونَهَا فِي رَجَبٍ , يُعَظِّمُونَ شَهْرَ رَجَبٍ لِأَنَّهُ أَوَّلُ شَهْرٍ مِنْ أَشْهُرِ الْحُرُمِ , وَأَشْهُرِ الْحُرُمِ: رَجَبٌ , وَذُو الْقَعْدَةِ , وَذُو الْحِجَّةِ , وَالْمُحَرَّمُ , وَأَشْهُرُ الْحَجِّ: شَوَّالٌ , وَذُو الْقَعْدَةِ , وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ , كَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسلام میں) نہ «فرع» ہے نہ «عتيرة»، «فرع» جانور کا وہ پہلا بچہ ہے جو کافروں کے یہاں پیدا ہوتا تو وہ اسے (بتوں کے نام پر) ذبح کر دیتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں نبیشہ، مخنف بن سلیم اور ابوالعشراء سے بھی احادیث آئی ہیں، ابوالعشراء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں،
۳- «عتيرة» وہ ذبیحہ ہے جسے اہل مکہ رجب کے مہینہ میں اس ماہ کی تعظیم کے لیے ذبح کرتے تھے اس لیے کہ حرمت کے مہینوں میں رجب پہلا مہینہ ہے، اور حرمت کے مہینے رجب ذی قعدہ، ذی الحجہ، اور محرم ہیں، اور حج کے مہینے شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دن ہیں۔ حج کے مہینوں کے سلسلہ میں بعض صحابہ اور دوسرے لوگوں سے اسی طرح مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العقیقة 3 (5473)، و 4 (5474)، صحیح مسلم/الأضاحي 6 (1976)، سنن ابی داود/ الضحایا 20 (2831)، سنن النسائی/الفرع والعتیرة1 (4227)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 2 (2868)، (تحفة الأشراف: 13269)، و مسند احمد (2/229، 239، 279، 490)، سنن الدارمی/الأضاحي 8 (2007) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3168)
16. باب مَا جَاءَ فِي الْعَقِيقَةِ
16. باب: عقیقہ کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The 'Aqiqah
حدیث نمبر: 1513
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف البصري , حدثنا بشر بن المفضل , اخبرنا عبد الله بن عثمان بن خثيم , عن يوسف بن ماهك , انهم دخلوا على حفصة بنت عبد الرحمن فسالوها عن العقيقة، فاخبرتهم، ان عائشة اخبرتها , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " امرهم عن الغلام شاتان مكافئتان , وعن الجارية شاة " , قال: وفي الباب , عن علي , وام كرز , وبريدة , وسمرة , وابي هريرة , وعبد الله بن عمرو , وانس , وسلمان بن عامر , وابن عباس , قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح , وحفصة هي: بنت عبد الرحمن بن ابي بكر الصديق.(مرفوع) حَدَّثَنَا أبو سلمة يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ , حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ , عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ , أَنَّهُمْ دَخَلُوا عَلَى حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَسَأَلُوهَا عَنِ الْعَقِيقَةِ، فَأَخْبَرَتْهُمْ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهَا , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَرَهُمْ عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ , وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَلِيٍّ , وَأُمِّ كُرْزٍ , وَبُرَيْدَةَ , وَسَمُرَةَ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَأَنَسٍ , وَسَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَحَفْصَةُ هِيَ: بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ.
یوسف بن ماہک سے روایت ہے کہ لوگ حفصہ بنت عبدالرحمٰن کے پاس گئے اور ان سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ (ان کی پھوپھی) ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- حفصہ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی بیٹی ہیں،
۳- اس باب میں علی، ام کرز، بریدہ، سمرہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، انس، سلمان بن عامر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الذبائح 1 (3163)، (تحفة الأشراف: 1513)، و مسند احمد (6/31، 158، 251) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: عقیقہ اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جو نومولود کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اصل میں عقیقہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں نومولود کے سر پر نکلتے ہیں، اس حالت میں نومولود کی طرف سے جو جانور ذبح کیا جاتا ہے اسے عقیقہ کہتے ہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ عقیقہ «عق» سے ماخوذ ہے جس کے معنی پھاڑنے اور کاٹنے کے ہیں، ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ اس لیے کہا گیا کہ اس کے اعضاء کے ٹکڑے کئے جاتے ہیں اور پیٹ کو چیر پھاڑ دیا جاتا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنی چاہیئے، «شاة» کے لفظ سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عقیقہ کے جانور میں قربانی کے جانور کی شرائط نہیں ہیں، لیکن بہتر ہے کہ قربانی کے جانور میں شارع نے جن نقائص اور عیوب سے بچنے اور پرہیز کرنے کی ہدایت دی ہے ان کا لحاظ رکھا جائے، عقیقہ کے جانور کا دو دانتا ہونا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں، البتہ «شاة» کا تقاضا ہے کہ وہ بڑی عمر کا ہو۔ اور لفظ «شاة» کا یہ بھی تقاضا ہے کہ گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز نہیں، اگر گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز ہوتے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف «شاة» کا تذکرہ نہ فرماتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3163)
17. باب الأَذَانِ فِي أُذُنِ الْمَوْلُودِ
17. باب: نومولود کے کان میں اذان کہنے کا بیان۔
Chapter: The Adhan In The Ear Of The Newborn
حدیث نمبر: 1514
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا يحيى بن سعيد , وعبد الرحمن بن مهدي , قالا: اخبرنا سفيان , عن عاصم بن عبيد الله , عن عبيد الله بن ابي رافع , عن ابيه , قال: " رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم اذن في اذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل في العقيقة على ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير وجه , عن الغلام شاتان مكافئتان , وعن الجارية شاة , وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم ايضا: انه عق عن الحسن بن علي بشاة , وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , قَالَا: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ فِي الْعَقِيقَةِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ , وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ , وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا: أَنَّهُ عَقَّ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بِشَاةٍ , وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ.
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حسن بن علی جب فاطمۃالزہراء رضی الله عنہم سے پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کے کان میں نماز کی اذان کی طرح اذان دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- عقیقہ کے مسئلہ میں اس حدیث پر عمل ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی سندوں سے آئی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے،
۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے حسن کی طرف سے ایک بکری ذبح کی، بعض اہل علم کا مسلک اسی حدیث کے موافق ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 116 (5105)، (تحفة الأشراف: 12020) و مسند احمد (6/9، 391، 392) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف راوی ہیں، اور اس معنی کی ابن عباس کی حدیث میں ایک کذاب راوی ہے۔دیکھیے الضعیفة رقم 321 و 6121)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الإرواء (1173)، مختصر " تحفة المودود "
حدیث نمبر: 1515
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال , حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا هشام بن حسان , عن حفصة بنت سيرين , عن الرباب، عن سلمان بن عامر الضبي , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مع الغلام عقيقة فاهريقوا عنه دما , واميطوا عنه الاذى " , حدثنا الحسن بن اعين، حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا ابن عيينة , عن عاصم بن سليمان الاحول , عن حفصة بنت سيرين , عن الرباب , عن سلمان بن عامر , عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ , عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ , عَنْ الرَّبَابِ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا , وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَى " , حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ , عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ , عَنْ الرَّبَابِ , عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سلمان بن عامر ضبی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ لازم ہے، لہٰذا اس کی طرف سے خون بہاؤ (جانور ذبح کرو) اور اس سے گندگی دور کرو۔ اس سند سے بھی سلمان بن عامر رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث روایت مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العقیقة 2 (5371)، سنن ابی داود/ الضحایا 21 (2839)، سنن النسائی/العقیقة 2 (4219)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 1 (3164)، (تحفة الأشراف: 4485)، و مسند احمد (4/17، 18، 214) سنن الدارمی/الأضاحي 9 (2010) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3164)
حدیث نمبر: 1516
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال , حدثنا عبد الرزاق , عن ابن جريج , اخبرنا عبيد الله بن ابي يزيد , عن سباع بن ثابت , ان محمد بن ثابت بن سباع اخبره , ان ام كرز اخبرته , انها سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العقيقة , فقال: " عنالغلام شاتان , وعن الانثى واحدة , ولا يضركم ذكرانا كن ام إناثا " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ , أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ , عَنْ سِبَاعِ بْنِ ثَابِتٍ , أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَابِتِ بْنِ سِبَاعٍ أَخْبَرَهُ , أَنَّ أُمَّ كُرْزٍ أَخْبَرَتْهُ , أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَقِيقَةِ , فَقَالَ: " عَنْالْغُلَامِ شَاتَانِ , وَعَنِ الْأُنْثَى وَاحِدَةٌ , وَلَا يَضُرُّكُمْ ذُكْرَانًا كُنَّ أَمْ إِنَاثًا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام کرز رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی، وہ جانور نر یا ہو مادہ اس میں تمہارے لیے کوئی حرج نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الضحایا 21 (28834-2835)، سنن النسائی/العقیقة 2 (4220)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 1 (3162)، (تحفة الأشراف: 18351)، و مسند احمد (6/381، 422) سنن الدارمی/الأضاحي 9 (2009) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (4 / 391)
18. باب
18. باب: قربانی سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: The Best Sacrifice Is The Male Sheep
حدیث نمبر: 1517
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سلمة بن شبيب , حدثنا ابو المغيرة، عن عفير بن معدان , عن سليم بن عامر , عن ابي امامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خير الاضحية الكبش , وخير الكفن الحلة " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب , وعفير بن معدان يضعف في الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ , حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، عَنْ عُفَيْرِ بْنِ مَعْدَانَ , عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ الْأُضْحِيَّةِ الْكَبْشُ , وَخَيْرُ الْكَفَنِ الْحُلَّةُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ , وَعُفَيْرُ بْنُ مَعْدَانَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قربانی کے جانوروں میں سب سے بہتر مینڈھا ہے اور سب سے بہتر کفن «حلة» (تہبند اور چادر) ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- عفیر بن معدان حدیث کی روایت میں ضعیف ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأضاحي 4 (3164)، (تحفة الأشراف: 4866) (ضعیف) (سند میں ”عفیر بن معدان“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3164)
19. باب
19. باب: قربانی سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: A Sacrifice Every Year
حدیث نمبر: 1518
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع , حدثنا روح بن عبادة , حدثنا ابن عون , حدثنا ابو رملة، عن مخنف بن سليم , قال: كنا وقوفا مع النبي صلى الله عليه وسلم بعرفات , فسمعته يقول: " يا ايها الناس , على كل اهل بيت في كل عام اضحية وعتيرة , هل تدرون ما العتيرة؟ هي التي تسمونها الرجبية " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب , ولا نعرف هذا الحديث إلا من هذا الوجه من حديث ابن عون.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ , حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ , حَدَّثَنَا أَبُو رَمْلَةَ، عَنْ مِخْنَفِ بْنِ سُلَيْمٍ , قَالَ: كُنَّا وُقُوفًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ , فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ , عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةٌ وَعَتِيرَةٌ , هَلْ تَدْرُونَ مَا الْعَتِيرَةُ؟ هِيَ الَّتِي تُسَمُّونَهَا الرَّجَبِيَّةَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَوْنٍ.
مخنف بن سلیم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں نے آپ کو فرماتے سنا: لوگو! ہر گھر والے پر ہر سال ایک قربانی اور «عتيرة» ہے، تم لوگ جانتے ہو «عتيرة» کیا ہے؟ «عتيرة» وہ ہے جسے تم لوگ «رجبية» کہتے ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس کو ابن عون ہی کی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأضاحي 1 (2788)، سنن النسائی/الفرع والعتیرة 1 (4229)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 2 (3125)، (تحفة الأشراف: 11244)، و مسند احمد (4/215) و (5/76) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: جو بعد میں منسوخ ہو گیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3125)
20. باب الْعَقِيقَةِ بِشَاةٍ
20. باب: عقیقہ میں ایک بکری ذبح کرنے کا بیان۔
Chapter: The 'Aqiqah With One Sheep
حدیث نمبر: 1519
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى القطعي , حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى , عن محمد بن إسحاق , عن عبد الله بن ابي بكر , عن محمد بن علي بن الحسين , عن علي بن ابي طالب , قال: " عق رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحسن بشاة , وقال: يا فاطمة , احلقي راسه , وتصدقي بزنة شعره فضة , قال: فوزنته , فكان وزنه درهما او بعض درهم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب , وإسناده ليس بمتصل , وابو جعفر محمد بن علي بن الحسين لم يدرك علي بن ابي طالب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ , قَالَ: " عَقَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَسَنِ بِشَاةٍ , وَقَالَ: يَا فَاطِمَةُ , احْلِقِي رَأْسَهُ , وَتَصَدَّقِي بِزِنَةِ شَعْرِهِ فِضَّةً , قَالَ: فَوَزَنَتْهُ , فَكَانَ وَزْنُهُ دِرْهَمًا أَوْ بَعْضَ دِرْهَمٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , وَإِسْنَادُهُ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ , وَأَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کیا، اور فرمایا: فاطمہ! اس کا سر مونڈ دو اور اس کے بال کے برابر چاندی صدقہ کرو، فاطمہ رضی الله عنہا نے اس کے بال کو تولا تو اس کا وزن ایک درہم کے برابر یا اس سے کچھ کم ہوا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس کی سند متصل نہیں ہے، اور راوی ابوجعفر الصادق محمد بن علی بن حسین نے علی بن ابی طالب کو نہیں پایا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10261) (حسن) (سند مںل ”محمد بن علی ابو جعفرالصادق“ اور ”علی رضی الله عنہ“ کے درمیان انقطاع ہے، مگر حاکم کی روایت (4/237) متصل ہے، نیز اس کے شواہد بھی ہیں جسے تقویت پا کر حدیث حسن لغیرہ ہے)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں دلیل ہے کہ نومولود کے سر کا بال وزن کر کے اسی کے برابر چاندی صدقہ کیا جائے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، الإرواء (1175)
21. باب
21. باب: قربانی سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: The Sacrifice With Two Male Sheep
حدیث نمبر: 1520
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال , حدثنا ازهر بن سعد السمان , عن ابن عون , عن محمد بن سيرين , عن عبد الرحمن بن ابي بكرة , عن ابيه , ان النبي صلى الله عليه وسلم: " خطب ثم نزل فدعا بكبشين فذبحهما " , قال ابو عيسى , هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ السَّمَّانُ , عَنْ ابْنِ عَوْنٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ , عَنْ أَبِيهِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَطَبَ ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِكَبْشَيْنِ فَذَبَحَهُمَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى , هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، پھر (منبر سے) اترے پھر آپ نے دو مینڈھے منگائے اور ان کو ذبح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (یہ عید الاضحی کی نماز کے بعد کیا تھا، دیکھئیے اگلی حدیث)۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/القسامة (الحدود) 9 (1679)، سنن النسائی/الضحایا 14 (4394)، (تحفة الأشراف: 11683) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
22. باب
22. باب: قربانی سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: What Is Said Upon Slaughtering
حدیث نمبر: 1521
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن , عن عمرو بن ابي عمرو , عن المطلب , عن جابر بن عبد الله , قال: " شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم الاضحى بالمصلى , فلما قضى خطبته نزل عن منبره , فاتي بكبش فذبحه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده , وقال بسم الله , والله اكبر، هذا عني وعمن لم يضح من امتي " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه , والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , ان يقول الرجل إذا ذبح , بسم الله , والله اكبر , وهو قول ابن المبارك , والمطلب بن عبد الله بن حنطب , يقال: إنه لم يسمع من جابر.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو , عَنْ الْمُطَّلِبِ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: " شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَضْحَى بِالْمُصَلَّى , فَلَمَّا قَضَى خُطْبَتَهُ نَزَلَ عَنْ مِنْبَرِهِ , فَأُتِيَ بِكَبْشٍ فَذَبَحَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ , وَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ , وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ إِذَا ذَبَحَ , بِسْمِ اللَّهِ , وَاللَّهُ أَكْبَرُ , وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ , وَالْمُطَّلِبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ , يُقَالُ: إِنَّهُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ جَابِرٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید الاضحی کے دن عید گاہ گیا، جب آپ خطبہ ختم کر چکے تو منبر سے نیچے اترے، پھر ایک مینڈھا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، اور (ذبح کرتے وقت) یہ کلمات کہے: «بسم الله والله أكبر، هذا عني وعمن لم يضح من أمتي» ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،
۲- اہل علم صحابہ اور دیگر لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ جانور ذبح کرتے وقت آدمی یہ کہے «بسم الله والله أكبر» ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے، کہا جاتا ہے،
۳- راوی مطلب بن عبداللہ بن حنطب کا سماع جابر سے ثابت نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الضحایا8 (2810)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 1 (3121)، (تحفة الأشراف: 3099)، و مسند احمد (3/356، 362)، وسنن الدارمی/الأضاحي1 (1989) (صحیح) (”مطلب“ کے ”جابر“ رضی الله عنہ سے سماع میں اختلاف ہے، مگر شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، الإرواء 1138، وتراجع الألبانی 580)»

وضاحت:
۱؎: میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور اللہ سب سے بڑا ہے، یہ میری طرف سے اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے، جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے۔ (یہ آخری جملہ اس بابت واضح اور صریح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے ان افراد کی طرف سے قربانی کی جو زندہ تھے اور مجبوری کی وجہ سے قربانی نہیں کر سکے تھے، اس میں مردہ کو شامل کرنا زبردستی ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1138)، صحيح أبي داود (2501)

Previous    1    2    3    4    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.