240 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا الزهري قال: اخبرني عروة بن الزبير انه سمع عائشة تقول: اختصم عند رسول الله صلي الله عليه وسلم سعد بن ابي وقاص وعبد الله بن زمعة في ابن امة زمعة فقال سعد: يا رسول الله إن اخي عتبة اوصاني فقال: إذا قدمت مكة فانظر ابن امة زمعة فاقبضه فإنه ابني، وقال عبد الله بن زمعة: يا رسول الله اخي وابن امة ابي، وولد علي فراش ابي فراي رسول الله صلي الله عليه وسلم شبها بينا بعتبة وقال: «هو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش واحتجبي منه يا سودة» فقيل لسفيان فإن مالكا يقول: وللعاهر الحجر، فقال سفيان لكنا لم نحفظ عن الزهري انه قال في هذا الحديث240 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ تَقُولُ: اخْتَصَمَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَمْعَةَ فِي ابْنِ أَمَةِ زَمْعَةَ فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَخِي عُتْبَةَ أَوْصَانِي فَقَالَ: إِذَا قَدِمْتَ مَكَّةَ فَانْظُرِ ابْنَ أَمَةِ زَمْعَةَ فَاقْبِضْهُ فَإِنَّهُ ابْنِي، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَمْعَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخِي وَابْنُ أَمَةِ أَبِي، وَوُلِدَ عَلَي فِرَاشِ أَبِي فَرَأَي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ وَقَالَ: «هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ» فَقِيلَ لِسُفْيَانَ فَإِنَّ مَالِكًا يَقُولُ: وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، فَقَالَ سُفْيَانُ لَكِنَّا لَمْ نَحْفَظْ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ
240- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور عبد بن زمعہ نے مقدمہ پیش کیا جو زمعہ کی کنیز کے بیٹے کے بارے میں تھاسیدنا سعدؓ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی اس نے یہ کہا تھا کہ جب تم مکہ جاؤ تو زمعہ کی کنیز کے بیٹے کاجائزہ لینا اور اسے اپنے قبضے میں لے لینا کیونکہ وہ میرا بیٹا ہے، تو عبد بن زمعہ نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ میرا بھائی ہے میرے والد کی کنیز کا بیٹا ہے، جو میرے والد کے فراش پر پیدا ہوا ہے(راوی کہتے ہیں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کی عتبہ کے ساتھ واضح مشابہت ملاحظہ فرمالی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عبد بن زمعہ! یہ تمہیں ملے گاکیونکہ بچہ فراش والے کو ملتا ہے۔اے سودہ! تم اس سے پردہ کرو“ سفیان سے کہا گیا: امام مالک تو اس روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کرتے ہیں: ”زنا کرنے والے کو محرومی ملتی ہے۔“ تو سفیان نے کہا: ہم نے زہری سے یہ الفاظ یاد نہیں رکھےہیں کہ انہوں نے اس روایت میں یہ الفاظ بھی بیان کئے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى البيوع 2053، وأطرافه -، ومسلم فى الرضاع 1457، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي، برقم 4419، وفي صحيح ابن حبان، برقم 4105، وانظر التعليق التالي»
إن عتبة بن أبي وقاص عهد إلى أخيه سعد بن أبي وقاص أن يقبض إليه ابن وليدة زمعة قال عتبة إنه ابني فلما قدم رسول الله زمن الفتح أخذ سعد ابن وليدة زمعة فأقبل به إلى رسول الله وأقبل معه بعبد بن زمعة فقال سعد يا رسول الله
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:240
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا، نیز اس حدیث میں بیان کردہ، زانی کے لیے پتھر ہیں، یہ حدیث سے صحيح ثابت ہے۔ اس مسئلہ پر تقصیل ایک جگہ گزر چکی ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اختلافی مسئلہ میں مکمل تحقیق کرنی چاہیے۔ کفار سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کے نسب کے بارے میں باتیں کرتے تھے، کیونکہ یہ سخت سیاہ تھے، اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ سخت سفید تھے۔ قیافہ شناس اگر ایسی بات کر دے جس کے صحیح ہونے پر ایک قرینہ مل جائے تو اس کی بات مانی جائے گی، اس موقع پر قیافہ شناس کی بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش رہنا اس کی بات کے صحیح ہونے پر دلیل ہے، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ضروری نہیں کہ اولاد میں سے تمام بچے اپنے والد میں سے نقش و نگار اور ان کی رنگت پر ہوں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث\صفحہ نمبر: 240