الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
45. بَابُ مَا يُنْهَى عَنِ النَّوْحِ وَالْبُكَاءِ وَالزَّجْرِ عَنْ ذَلِكَ:
45. باب: کس طرح کے نوحہ و بکا سے منع کرنا اور اس پر جھڑکنا چاہیے۔
(45) Chapter. The forbiddance of wailing and crying aloud; and scolding those who practise them.
حدیث نمبر: 1305
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن حوشب، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا يحيى بن سعيد , قال: اخبرتني عمرة قالت: سمعت عائشة رضي الله عنها , تقول: لما جاء قتل زيد بن حارثة، وجعفر وعبد الله بن رواحة جلس النبي صلى الله عليه وسلم يعرف فيه الحزن، وانا اطلع من شق الباب فاتاه رجل , فقال: يا رسول الله إن نساء جعفر وذكر بكاءهن , فامره بان ينهاهن , فذهب الرجل ثم اتى , فقال: قد نهيتهن وذكر انهن لم يطعنه , فامره الثانية ان ينهاهن , فذهب ثم اتى , فقال: والله لقد غلبنني او غلبننا الشك من محمد بن عبد الله بن حوشب، فزعمت ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال: فاحث في افواههن التراب , فقلت: ارغم الله انفك فوالله ما انت بفاعل وما تركت رسول الله صلى الله عليه وسلم من العناء".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , تَقُولُ: لَمَّا جَاءَ قَتْلُ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، وَجَعْفَرٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ جَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ، وَأَنَا أَطَّلِعُ مِنْ شَقِّ الْبَابِ فَأَتَاهُ رَجُلٌ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍ وَذَكَرَ بُكَاءَهُنَّ , فَأَمَرَهُ بِأَنْ يَنْهَاهُنَّ , فَذَهَبَ الرَّجُلُ ثُمَّ أَتَى , فَقَالَ: قَدْ نَهَيْتُهُنَّ وَذَكَرَ أَنَّهُنَّ لَمْ يُطِعْنَهُ , فَأَمَرَهُ الثَّانِيَةَ أَنْ يَنْهَاهُنَّ , فَذَهَبَ ثُمَّ أَتَى , فَقَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ غَلَبْنَنِي أَوْ غَلَبْنَنَا الشَّكُّ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ، فَزَعَمَتْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ التُّرَابَ , فَقُلْتُ: أَرْغَمَ اللَّهُ أَنْفَكَ فَوَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ وَمَا تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَنَاءِ".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبوالوہاب ثقفی نے ‘ ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، کہا کہ مجھے عمرہ بنت عبدالرحمٰن انصاری نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ نے فرمایا کہ جب زید بن حارثہ ‘ جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیٹھے کہ غم کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر نمایاں تھے میں دروازے کے ایک سوراخ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک صاحب آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! جعفر کے گھر کی عورتیں نوحہ اور ماتم کر رہی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روکنے کے لیے کہا۔ وہ صاحب گئے لیکن پھر واپس آ گئے اور کہا کہ وہ نہیں مانتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ روکنے کے لیے بھیجا۔ وہ گئے اور پھر واپس چلے آئے۔ کہا کہ بخدا وہ تو مجھ پر غالب آ گئی ہیں یا یہ کہا کہ ہم پر غالب آ گئی ہیں۔ شک محمد بن حوشب کو تھا۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ) میرا یقین یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دے۔ اس پر میری زبان سے نکلا کہ اللہ تیری ناک خاک آلودہ کرے تو نہ تو وہ کام کر سکا جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینا چھوڑتا ہے۔

Narrated Aisha: When the news of the martyrdom of Zaid bin Haritha, Ja`far and `Abdullah bin Rawaha came, the Prophet sat down looking sad, and I was looking through the chink of the door. A man came and said, "O Allah's Apostle! The women of Ja`far," and then he mentioned their crying . The Prophet (p.b.u.h) ordered him to stop them from crying. The man went and came back and said, "I tried to stop them but they disobeyed." The Prophet (p.b.u.h) ordered him for the second time to forbid them. He went again and came back and said, "They did not listen to me, (or "us": the sub-narrator Muhammad bin Haushab is in doubt as to which is right). " (`Aisha added: The Prophet said, "Put dust in their mouths." I said (to that man), "May Allah stick your nose in the dust (i.e. humiliate you)." By Allah, you could not (stop the women from crying) to fulfill the order, besides you did not relieve Allah's Apostle from fatigue."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 392


   صحيح البخاري4263عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن من التراب قالت عائشة فقلت أرغم الله أنفك فوالله ما أنت تفعل وما تركت رسول الله من العناء
   صحيح البخاري1305عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن التراب فقلت أرغم الله أنفك فوالله ما أنت بفاعل وما تركت رسول الله من العناء
   صحيح البخاري1299عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن التراب فقلت أرغم الله أنفك لم تفعل ما أمرك رسول الله ولم تترك رسول الله من العناء
   صحيح مسلم2161عائشة بنت عبد اللهاذهب فاحث في أفواههن من التراب
   سنن أبي داود3122عائشة بنت عبد اللهيعرف في وجهه الحزن
   سنن النسائى الصغرى1848عائشة بنت عبد اللهانطلق فاحث في أفواههن التراب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3122  
´مصیبت کے وقت (غم کے سبب سے) بیٹھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب زید بن حارثہ، جعفر بن ابوطالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم قتل کر دئیے گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی) تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں بیٹھ گئے، آپ کے چہرے سے غم ٹپک رہا تھا، اور واقعہ کی تفصیل بتائی۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3122]
فوائد ومسائل:
اہل میت اور ان کے اعزہ و احباب کو ایسے موقع پر بیٹھنا اور اکھٹے ہونا مباح ومستحب ہے لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ زمین ہی پر بیٹھا جائے بلکہ حسب احوال چٹایئوں چار پایئوں یا کرسیوں پر بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
تاہم تین دن تک اس طرح تعزیت کےلئے آنے جانے والوں کی خاطر بیٹھنے کو لازم سمجھنا غلط ہے۔
کیونکہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔
کہ اسے ضروری سمجھا جائے۔
اسے زیادہ سے زیادہ ایک جائز رواج ہی کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم بالصواب۔
علاوہ ازیں ان ایام میں تعزیت کے لئے آنے والا شخص حاضرین سمیت پہلے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کو ضروری سمجھتا ہے۔
اور جو شخص ایسا نہیں کرتا۔
یا اہل میت اس طریقے کو اختیار نہیں کرتے۔
تو برا منایا جاتا ہے۔
اور اس شخص کو یا اہل میت کو دعا کا منکر باور کرایا جاتا ہے۔
حالانکہ مسئلہ دعا کی اہمیت و فضیلت کا نہیں ہے۔
اس لئے کہ وہ تو مسلمہ ہے۔
دعا کی اہمیت وفضیلت کا کوئی منکر نہیں اصل مسئلہ مسنون طریقے سے دعا کرنے کا ہے۔
با ر بارہاتھ اٹھا کردعا کرنا ایک رسم ہے۔
اور اس میں اکثر کچھ پڑھا بھی نہیں جاتا۔
یا صرف فاتحہ خوانی کر لی جاتی ہے۔
حالانکہ سورہ فاتحہ میں میت کےلئے مغفرت کی دعا کا کوئی پہلو ہی نہیں ہے۔
گویا یہ طریقہ ایک تو مسنون نہیں ہے۔
صرف رسم ہے دوسری میت کے حق میں اس طرح مغفرت کی دعا بھی بالعموم نہیں ہوتی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر تعزیت کا مسنون طریقہ کیاہے؟ وہ طریقہ حسب ذیل ہے۔
اول تو میت کے اہل خانہ کا اس طرح اہتمام کے ساتھ مسلسل چند دن بیٹھنا ہی ایسا عمل ہے۔
جس کا ثبوت عہد رسالت وعہد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین میں ملنا نہایت مشکل ہے۔
اصل بات جنازے اور تدفین میں شریک ہوکر میت کے لئے مغفرت کی دعا کرنا ہے۔
اس کے بعد اہل میت کےلئے خاص طور پر دریاں یا صفیں بچھا کر بیٹھنا محل نظر ہے۔
تدفین کے بعد ان کو اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجانا چاہیے۔
اور اہل میت جب بھی اور جہاں بھی ملیں ان سے تعزیت کر لی جائے۔
تعزیت کن الفاظ میں اور کس طرح کی جائے؟ بہتر یہ ہے کہ اہل میت کو سب سے پہلے صبر ورضا کی تلقین کی جائے۔
(إناللہ و إنا إلیه راجعون) پڑھ کرسب کےلئے اسی انجام سے دو چار ہونے کو واضح کیا جائے۔
میت کے حق میں بغیر ہاتھ اٹھائے مغفرت کی دعا کی جائے۔
اوراہل میت کےلئے صبر جمیل کی۔
اور وہ دعایئں پڑھی جایئں۔
جو اس موقع پر نبی کریمﷺ سے ثابت ہیں۔
مثلا ً نبی کی صاحب زادی حضرت زینب کا بچہ عالم نزع میں تھا۔
انہوں نے نبی کریمﷺ کو بلانے کےلئے پیغام بھیجا۔
تو آپ نے انھیں صبر واحتساب کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: أَخَذ ولَهُ ما أَعطَى، وكلُّ شَيءٍ عِنده بِأجَل مُسمَّى فَلتَصبِر ولتَحتَسِب (صحیح بخاری، الجنائز، باب: 32 حدیث: 1284) بے شک اللہ ہی کاہے۔
جو اس نے لیا اور اسی کاہے۔
جو اس نے دیا۔
اور ہر ایک کےلئے اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے۔
جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوگئے۔
تو نبی کریمﷺ ان کی اہلیہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تعزیت کےلئے تشریف لے گئے اوران الفاظ می دعا فرمائی۔
«اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَبِى سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِى الْمَهْدِيِّينَ وَاخْلُفْهُ فِى عَقِبِهِ فِى الْغَابِرِينَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ وَافْسَحْ لَهُ فِى قَبْرِهِ. وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ» (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 920) اے اللہ! ابوسلمہ کی مغفرت فرما اس کے درجے مہدین میں بلند فرما۔
اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں اس کے بعد تو ان کا جانشین بن اور ہماری اور اس کی مغفرت فرما۔
اے رب العالمین اس کی قبر میں کشادگی عطا فرما اور اس کو اس کےلئے منور فرما دے۔
جس کو یہ مسنون دعایئں اور الفاظ یاد نہ ہوں۔
تو وہ اپنی زبان میں ہاتھ اٹھائےبغیر میت کے لئے مغفرت کی اور اہل خانہ کےلئے صبر جمیل کی دعا کرے۔
اور ا س قسم کی باتیں کرے۔
جس سے پسماندگان کو تسلی ملے۔
اور ان کے دل وماغ سے صدمے کے اثرات کم ہوں۔
اس موقع پر بھی چونکہ نبی کریمﷺ سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت نہیں ہے، اس لئے اس رواج سے بچا جائے اور سنت کے مطابق بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کی جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3122   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1305  
1305. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب زید بن حارثہ، جعفرطیار اور عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے شہید ہونے کہ خبر پہنچی تو نبی ﷺ بیٹھے اور آپکی ذات گرامی سے حزن و رنج ظاہر ہو رہا تھا۔ میں اس منظر کو دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی۔ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ!جعفرطیار ؓ کی عورتیں رورہی ہیں۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ انھیں رونے سے منع کرے وہ شخص گیا اور واپس آکر کہنے لگا:میں نے انھیں منع کیا ہے، لیکن وہ باز نہیں آتیں۔ آپ نے اسے دوبارہ فرمایا کہ وہ انھیں منع کرے۔ وہ دوبارہ گیا اور واپس آکر کہنے لگا:اللہ کی قسم!وہ مجھ پر غالب آگئیں۔۔۔یا ہم پر غالب آگئیں۔ محمد بن عبد اللہ بن حو شب نے الفاظ کے متعلق شک کا اظہار کیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا:نبی ﷺ نے فرمایا:جاؤ ان کے منہ میں خاک جھونک دو۔ میں نے کہا: اللہ تیری ناک خاک آلود کرے۔!جس کام کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1305]
حدیث حاشیہ:
زید بن حارثہ کی والدہ کا نام سعدیٰ اور باپ کا نام حارثہ اور ابواسامہ کنیت تھی۔
بنی قضاعہ کے چشم وچراغ تھے جو یمن کا ایک معزز قبیلہ تھا۔
بچپن میں قزاق آپ کو اٹھاکر لے گئے۔
بازار عکاظ میں غلام بن کرچار سودر ہم میں حکیم بن حزام کے ہاتھ فروخت ہوکر ان کی پھوپھی ام المؤمنین خدیجہ ؓ کی خدمت میں پہنچ گئے اور وہاں سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آگئے۔
ان کے والد کو یمن میں خبر ہوئی تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور دربار نبوت میں ان کی واپسی کے لیے درخواست کی۔
آنحضرت ﷺ نے زید بن حارثہ کو کلی اختیار دے دیا کہ اگر وہ گھرجانا چاہیں تو خوشی سے اپنے والد کے ساتھ چلے جائیں اور اگر چاہیں تو میرے پاس رہیں۔
زید بن حارثہ ؓ نے اپنے گھر والوں پر آنحضرت ﷺ کو ترجیح دی اور والد اور چچا کے ہمراہ نہیں گئے۔
اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کے احسانات اور اخلاق فاضلہ ان کے دل میں گھر کر چکے تھے۔
اس واقعہ کے بعد آنحضرت ﷺ ان کو مقام حجر میں لے گئے اور حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! گواہ رہو میں نے زید کو اپنا بیٹا بنا لیا۔
وہ میرے وارث ہیں اور میں اس کا وارث ہوں۔
اس کے بعد وہ زید بن محمد پکارے جانے لگے۔
یہاں تک کہ قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی کہ متبنٰی لڑکوں کو ان کے والدین کی طرف منسوب کرکے پکارو۔
اللہ کے یہاں انصاف کی بات ہے۔
پھر وہ زیدبن حارثہ کے نام سے پکارے جانے لگے۔
آنحضرت ﷺ نے ان کا نکاح ام ایمن اپنی آزاد کردہ لونڈی سے کرادیا تھا۔
جن کے بطن سے ان کا لڑکا اسامہ پیدا ہوا۔
ان کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں ایک آیت میں ان کا نام لے کر ان کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے جب کہ قرآن مجید میں کسی بھی صحابی کا نام لے کر کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
غزوئہ موتہ 8ھ میں یہ بہادرانہ شہید ہوئے۔
اس وقت ان کی عمر 55 سال کی تھی۔
ان کے بعد فوج کی کمان حضرت جعفر طیار ؓ نے سنبھالی۔
یہ نبی کریم ﷺ کے محترم چچا ابو طالب کے بیٹے تھے۔
والدہ کا نام فاطمہ تھا۔
یہ شروع ہی میں اکتیس آدمیوں کے ساتھ اسلام لے آئے تھے۔
حضرت علی ؓ سے دس سال بڑے تھے۔
صورت اور سیرت میں رسول اللہ ﷺ سے بہت ہی مشابہ تھے۔
قریش کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت حبشہ میں یہ بھی شریک ہوئے اور نجاشی کے دربار میں انہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں ایسی پُرجوش تقریر کی کہ شاہ حبش مسلمان ہوگیا۔
7ھ میں یہ اس وقت مدینہ تشریف لائے جب فرزندان توحید نے خیبر کو فتح کیا۔
آپ نے ان کو اپنے گلے سے لگالیا اور فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھے تمہارے آنے سے زیادہ خوشی حاصل ہوئی ہے یافتح خیبر سے ہوئی ہے۔
غزوئہ موتہ میں یہ بھی بہادرانہ شہید ہوئے اور اس خبر سے آنحضرت ﷺ کو سخت ترین صدمہ ہوا۔
حضرت جعفر ؓ کا گھر ماتم کدہ بن گیا۔
اسی موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔
ان کے بعد حضرت عبداللہ بن ابی رواحہ ؓ نے فوج کی کمان سنبھالی۔
بیعت عقبہ میں یہ موجود تھے۔
بدر‘ احد‘ خندق اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں سوائے فتح مکہ اور بعد والے غزوات میں یہ شریک رہے۔
بڑے ہی فرمانبردار اطاعت شعار صحابی تھے۔
قبیلہ خزرج سے ان کا تعلق تھا۔
لیلتہ العقبہ میں اسلام لاکر بنوحارثہ کے نقیب مقرر ہوئے اور حضرت مقداد بن اسود کندی ؓ سے سلسلہ مؤاخات قائم ہوا۔
فتح بدرکی خوشخبری مدینہ میں سب سے پہلے لانے والے آپ ہی تھے۔
جنگ موتہ میں بہادرانہ جام شہادت نوش فرمایا۔
ان کے بعد آنحضرت ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق اللہ کی تلوار حضرت خالد ؓ نے قیادت سنبھالی اور ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی۔
حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت فرمایا کہ پکارکر‘ بیان کرکرکے مرنے والوں پر نوحہ وماتم کرنا یہاں تک ناجائز ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت جعفر ؓ کے گھر والوں کے لیے اس حرکت نازیبا نوحہ وماتم کرنے کی وجہ سے ان کے منہ میں مٹی ڈالنے کا حکم فرمایا جو آپ ﷺ کی خفگی کی دلیل ہے اور یہ ایک محاورہ ہے جو انتہائی ناراضگی پر دلالت کرتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1305   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.