الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
The Chapters on Jihad
17. بَابُ : مَا يُرْجَى فِيهِ الشَّهَادَةُ
17. باب: شہادت کی انواع و اقسام کا بیان۔
حدیث نمبر: 2804
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب ، حدثنا عبد العزيز بن المختار ، حدثنا سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال:" ما تقولون في الشهيد فيكم؟" قالوا: القتل في سبيل الله، قال:" إن شهداء امتي إذا لقليل، من قتل في سبيل الله فهو شهيد، ومن مات في سبيل الله فهو شهيد، والمبطون شهيد، والمطعون شهيد"، قال سهيل: واخبرني عبيد الله بن مقسم، عن ابي صالح وزاد فيه:" والغرق شهيد".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" مَا تَقُولُونَ فِي الشَّهِيدِ فِيكُمْ؟" قَالُوا: الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ:" إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ، مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ، وَالْمَطْعُونُ شَهِيدٌ"، قَالَ سُهَيْلٌ: وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مِقْسَمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ وَزَادَ فِيهِ:" وَالْغَرِقُ شَهِيدٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم شہید کسے سمجھتے ہو؟ لوگوں نے جواب دیا: اللہ کے راستے میں مارا جانا (شہادت ہے) فرمایا: تب تو میری امت میں بہت کم شہید ہوں گے! (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ایسی بات نہیں بلکہ) جو اللہ کے راستے میں مارا جائے وہ شہید ہے، جو اللہ کے راستے میں مر جائے وہ بھی شہید ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے، طاعون کے مرض میں مرنے والا شہید ہے۔ سہیل کہتے ہیں: مجھے عبیداللہ بن مقسم نے خبر دی وہ ابوصالح سے روایت کرتے ہیں، اس میں یہ لفظ زیادہ ہے: اور ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12732)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 32 (652)، صحیح مسلم/الإمارة 51 (1914) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح البخاري5733عبد الرحمن بن صخرالمبطون شهيد والمطعون شهيد
   صحيح البخاري720عبد الرحمن بن صخرالشهداء الغرق والمطعون والمبطون والهدم وقال ولو يعلمون ما في التهجير لاستبقوا ولو يعلمون ما في العتمة والصبح لأتوهما ولو حبوا ولو يعلمون ما في الصف المقدم لاستهموا
   صحيح البخاري2829عبد الرحمن بن صخرالشهداء خمسة المطعون والمبطون والغرق وصاحب الهدم والشهيد في سبيل الله
   صحيح مسلم4941عبد الرحمن بن صخرمن قتل في سبيل الله فهو شهيد ومن مات في سبيل الله فهو شهيد ومن مات في الطاعون فهو شهيد ومن مات في البطن فهو شهيد
   جامع الترمذي1063عبد الرحمن بن صخرالشهداء خمس المطعون والمبطون والغرق وصاحب الهدم والشهيد في سبيل الله
   سنن ابن ماجه2804عبد الرحمن بن صخرشهداء أمتي إذا لقليل من قتل في سبيل الله فهو شهيد ومن مات في سبيل الله فهو شهيد والمبطون شهيد والمطعون شهيد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2829  
´اللہ کی راہ میں مارے جانے کے سوا شہادت کی اور بھی سات قسمیں ہیں`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ الْمَطْعُونُ، وَالْمَبْطُونُ، وَالْغَرِقُ، وَصَاحِبُ الْهَدْمِ، وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شہید پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔ طاعون میں ہلاک ہونے والا ‘ پیٹ کی بیماری میں ہلاک ہونے والا ‘ ڈوب کر مرنے والا ‘ دب کر مر جانے والا اور اللہ کے راستے میں شہادت پانے والا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2829]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2829 کا باب: «بَابُ الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى الْقَتْلِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں سات شہادت کی اقسام کا ذکر فرمایا ہے اور دلیل کے طور پر پانچ اقسام والی حدیث پیش فرمائی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں جن سات شہادتوں کا ذکر فرمایا ہے وہ بھی حدیث میں مروی ہے مگر وہ حدیث ان کی شرط پر نہ تھی۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ويحتمل عندي أن يكون البخاري أراد التنبيه على أن الشهادة لا تنحصر فى القتل، بل لها أسباب آخر وتلك الأسباب أيضا اختلفت الأحاديث فى عددها ففي بعضها خمسة، وهو الذى صح عند البخاري و وافق شرطه وفي بعضها سبعة، ولم يوافق شرط البخاري.» [المتواري، ص: 159]
میرے نزدیک یہ احتمال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تنبیہ فرمائی ہے کہ صرف قتال میں شہادت کا انحصار نہیں ہے بلکہ اس کے اور بھی اسباب ہیں جو مختلف احادیث میں مختلف شمار کے ساتھ ہیں۔ بعض احادیث میں پانی کا ذکر ہے جو کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر ہے (جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح میں فرمایا ہے) اور بعض احادیث میں سات کا ذکر ہے (جیسا کہ باب قائم فرمایا ہے) مگر وہ احادیث (جس میں سات کا ذکر ہے) امام
بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں ہے۔
لہذا باب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اشارہ اس حدیث کی طرف ہے جس میں شہادت کی سات اقسام کا ذکر ہے جسے امام مالک رحمہ اللہ نے «المؤطا» میں ذکر فرمایا ہے جس کی روایت سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
«الشهداء سبعة سوى القتل» [مؤطا، كتاب الجنائز، رقم الحديث: 26]
شہداء سات قسموں پر ہیں قتل کے علاوہ۔
یہ حدیث چونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی شرائط پر نہ تھی اسی لیے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا باب قائم فرما کر، اور جو پانچ قسموں پر حدیث ہے اسے نقل کر دیا چونکہ وہ آپ رحمہ اللہ کی شرط پر تھی۔
ابن بطال رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا کہ حدیث باب سے یہ ترجمہ سرے سے ہی مستنبط نہیں ہوتا کیونکہ ترجمہ سات کا ہے اور حدیث میں سوی القتل شہداء چار ہیں۔ [شرح ابن بطال، ج 5، ص 42]
مذکورہ اعتراض کا جواب ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن بطال رحمہ اللہ کا قول ظاہر اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس ترجمۃ الباب کے تحت سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ کی حدیث کو داخل کرنا چاہتے ہیں، لیکن قضا نے ان کو مہلت نہ دی، لیکن ابن بطال کا قول محل نظر ہے۔ [المتواري على أبواب البخاري، ص: 158]
یہ ترجمہ مؤطا کی ایک روایت سے ماخوذ ہے جو سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اس میں شہداء کی سوی القتل فی سبیل اللہ کی سات ہی اقسام بیان کی گئی ہیں۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 43]
محمد ذکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وعندي يمكن أن يقال إن لفظ سبع يطلق ويراد به الكثرة و معنى الترجمة أن أسباب الشهادة سوا القتل كثيرة.» [الأبواب والتراجم لصحيح البخاري، ج 4، ص: 223]
میرے نزدیک بات یہ ہے کہ لفظ سبع کو جب مطلقا ذکر کیا جائے تو اس سے مراد کثرت ہوتی ہے۔ لہذا ترجمۃ الباب کا معنی یہ ہو گا کہ «قتل فى سبيل الله» کے علاوہ بھی شہادت کے کئی اسباب ہیں (جن کا ذکر کتب احادیث میں مختلف جگہوں پر کیا گیا ہے) اور سبع کا لفظ اپنے حقیقی معنی پر نہیں رہے گا بلکہ معنی مجازی (کثرت) پر محمول ہو گا۔
فائدہ:
سب سے بڑا شہادت کا رتبہ وہ ہے جو اللہ کے رستے میں مارا جائے، ان کے علاوہ بھی احادیث میں کئی شہداء کے مراتب کا ذکر موجود ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان شہداء کی تعداد بیس ذکر فرمائی ہے۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 54]
امام زرقانی رحمہ اللہ شارح مؤطا امام مالک نے ان کی تعداد ستائیس ذکر فرمائی ہے۔ [شرح الزرقاني، ج 2، ص: 600]
علامہ عینی رحمہ اللہ نے چالیس کا ذکر فرمایا ہے۔ [عمدة القاري، ج 14، ص: 124]
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کی ہے اور ان کی تعداد تیس بیان فرمائی ہے۔ [أوجز المسالك، ج 4، ص: 392 - أبواب السعادة فى أسباب الشهادة للسيوطى]
محمد ذکریا کاندھلوی نے ان کی تعداد ساٹھ ذکر فرمائی ہے۔ [أوجز المسالك، ج 4، ص: 294]
ہم ان شہداء کا مختصر ذکر کیئے دیتے ہیں۔
① اللہ کی راہ میں مارا جائے۔
② ذات الجنب کے درد سے مر جائے۔
③ عورت اپنے نفاس کی حالت میں مر جائے۔
④ اپنے مال بچانے کے لیے۔
⑤ اپنے دین، خون اور اہل کے بچانے کے لیے۔
⑥ گھوڑے یا اونٹ سے کچلا گیا۔
⑦ زہریلے جانور سانپ یا بچھو کے ڈسنے سے۔
⑧ مسافر کی موت۔
⑨ اللہ کی راہ میں پہرہ دینے والا۔
⑩ جس کو درندہ کھا لے۔
⑪ جو خالص دل سے شہادت طلب کرے اور اپنے بچھونے پر مر جائے۔
⑫ مبطون - پیٹ کی بیماری میں ہلاک ہونے والا۔
⑬ لدیغ - ڈسا ہوا۔
⑭ غریق۔
⑮ اپنی سواری سے گر کر مر جائے۔
⑯ جو پہاڑ کے سر سے گرا دیا جائے۔
⑰ دریا میں ڈوب جائے۔
⑱ جل کر مر جائے آگ میں، وغیرہ وغیرہ۔
مزید تفصیل اور تحقیق کے لیے دیکھئے: [فتح الباري لابن حجر رحمه الله، ج 6، ص: 54 - شرح الزرقاني على مؤطا امام مالك ج 2، ص: 99-100 - عمدة القاري للعيني رحمه الله، ج 14، ص: 124 - اوجز المسالك، ج 4، ص 292]
امام نووی رحمہ اللہ ان مراتب پر گفتگو کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:
«المراد بشهادة هؤلاء كلهم غير المقتول فى سبيل الله إنهم يكون لهم ثواب الشهداء و أماني الدنيا فيغسلون و يصلى عليهم و قد سبق فى كتب الإيمان بيان هذا و أن الشهداء ثلاثة أقسام شهيد فى الدنيا و الآخرة و هو المقتول فى الحرب الكفار و شهيد فى الآخرة دون أحكام الدنيا و هم هؤلاء المذكورون هنا و شهيد فى الدنيا دون الآخرة و هو من غل فى الغنيمة أو قتل مدبرا.» [شرح نووي، ج 2، ص: 142]
یعنی مقتول کے علاوہ ان جملہ شہادتوں سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں ان کو شہداء کا ثواب ملے گا مگر دنیا میں وہ شہداء کی طرح نہیں بلکہ عام مسلمانوں کی طرح غسل دیئے جائیں گے اور ان پر نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی، شہداء تین قسم کے ہوتے ہیں، ایک تو وہ ہیں جو دنیا اور آخرت میں شہید ہی ہیں جو جہاد میں کافروں کے ہاتھوں مارے گئے، دوسری قسم کے شہید وہ جو دنیا میں شہید ہوئے مگر آخرت میں شہید نہیں، وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے مال غنیمت وغیرہ میں خیانت کی، تیسری قسم کے شہید وہ جو دنیا میں شہید ہیں مگر دنیا میں ان پر احکام شہداء جاری نہ ہوں گے، ایسے ہی شہداء یہاں مزکور ہیں۔
➊ شہید فی الدنیا و الآخرۃ سے مراد کون ہیں؟
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کریں اور وہ شہید ہو جائیں۔
➋ شہید فی الدنیا سے مراد کون ہیں؟
اس سے مراد وہ شخص ہے جو میدان جہاد میں مارا جائے لیکن اس کی نیت ریاکاری، شہرت اور نام و نمود ہو، یا پھر وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ رہا ہو، یا پھر مال غنیمت میں خیانت کی ہو۔
➌ شہید فی الآخرۃ سے کون لوگ مراد ہیں؟
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو دیوار گرنے سے دب کر مر جائیں، یا جل کر مر جائیں، یا پیٹ کی بیماری کا شکار ہو کر مر جائیں، وغیرہ وغیرہ۔
یہ وہ تیسری قسم ہے کہ ان پر دنیا میں شہید کے احکامات لاگو نہیں ہوں گے، یعنی انہیں غسل بھی دیا جائے گا اور کفن بھی پہنایا جائے گا۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 53-55 - شرح الكرماني، ج 5، ص: 43 - عمدة القاري، ج 14، ص: 127]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 400   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2804  
´شہادت کی انواع و اقسام کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم شہید کسے سمجھتے ہو؟ لوگوں نے جواب دیا: اللہ کے راستے میں مارا جانا (شہادت ہے) فرمایا: تب تو میری امت میں بہت کم شہید ہوں گے! (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ایسی بات نہیں بلکہ) جو اللہ کے راستے میں مارا جائے وہ شہید ہے، جو اللہ کے راستے میں مر جائے وہ بھی شہید ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے، طاعون کے مرض میں مرنے والا شہید ہے۔‏‏‏‏ سہیل کہتے ہیں: مجھے عبیداللہ بن مقسم نے خبر دی وہ ابوصالح سے روایت کرتے ہیں، اس میں یہ لفظ زیادہ ہے: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2804]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہوئےجان دینا اصل شہادت ہے۔
شہید کے عظیم ترین درجات انھی افراد کے لیے ہیں۔

(2)
جہاد کے سفر کے دوران میں یا جہاد کے دوران میں کسی بھی وجہ سے فوت ہوجانا بھی شہادت کے برابر ہے تاہم اس شہید کے احکام عام میت کے ہیں۔
اسے غسل اور کفن دیکر دفن کیا جائے گا۔

(3)
طاعون سے یا پیٹ کی بیماری سے فوت ہونے والا بھی شہادت کا درجہ پاتا ہے۔
کسی ناقابل علاج مرض سے فوت ہو جانے والا بھی اسی ضمن میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

(4)
ڈوب کر مرجانے والا اور جل کر مر جانے والا بھی شہید ہے۔
دوسری حادثاتی اموات کو بھی اسی حکم میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

(5)
بچے کی پیدائش کے وقت فوت ہوجانے والی عورت کی موت بھی شہادت کی موت ہے۔

(6)
جہاد کے دوران میں دشمن کے ہتھیار سےمرنے والے کے علاوہ باقی سب شہادتیں کم درجے کی ہیں۔
ان کے احکام ان شہیدوں کے سے نہیں لہٰذا انھیں غسل اور کفن کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2804   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1063  
´شہید کون لوگ ہیں؟`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شہید پانچ لوگ ہیں: جو طاعون میں مرا ہو، جو پیٹ کے مرض سے مرا ہو، جو ڈوب کر مرا ہو، جو دیوار وغیرہ گر جانے سے مرا ہو، اور جو اللہ کی راہ میں شہید ہوا ہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1063]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ پانچ قسم کے افراد ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ قیامت کے روز شہیدوں کا ثواب عطا فرمائے گا بعض روایات میں کچھ اور لوگوں کا بھی ذکر ہے ان احادیث میں تضاد نہیں اس لیے کہ پہلے نبی اکرم ﷺ کو اتنے ہی لوگوں کے بارے میں بتایا گیا بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس فہرست میں کچھ مزید لوگوں کا بھی اضافہ فرما دیا ان میں شہید فی سبیل اللہ کا درجہ سب سے بلند ہے کیونکہ حقیقی شہید وہی ہے بشرطیکہ وہ صدق دل سے اللہ کی راہ میں لڑا ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1063   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.