(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي عثمان، عن ابي موسى، ان النبي صلى الله عليه وسلم" دخل حائطا وامرني بحفظ الباب، فجاء رجل يستاذن، فقال: ائذن له وبشره بالجنة، فإذا ابو بكر، ثم جاء عمر، فقال: ائذن له وبشره بالجنة، ثم جاء عثمان، فقال: ائذن له وبشره بالجنة".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" دَخَلَ حَائِطًا وَأَمَرَنِي بِحِفْظِ الْبَابِ، فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے دروازہ کی نگرانی کا حکم دیا، پھر ایک صحابی آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت دے دو۔ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت دے دو، پھر عثمان رضی اللہ عنہ آئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت دے دو۔
Narrated Abu Musa: The Prophet entered a garden and told me to guard its gate. Then a man came and asked permission to enter. The Prophet, said, "Permit him and give him the good news that he will enter Paradise." Behold! It was Abu Bakr. Then `Umar came, and the Prophet said, "Admit him and give him the good news that he will enter Paradise." Then `Uthman came and the Prophet said, "Admit him and give him the good news that he will enter Paradise. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 91, Number 367
افتح له وبشره بالجنة فذهبت فإذا أبو بكر ففتحت له وبشرته بالجنة استفتح رجل آخر فقال افتح له وبشره بالجنة فإذا عمر ففتحت له وبشرته بالجنة استفتح رجل آخر وكان متكئا فجلس فقال افتح له وبشره بالجنة على بلوى تصيبه أو تكون فذهبت فإذا عثمان فقمت ففتحت له وبشر
ائذن له وبشره بالجنة فأقبلت حتى قلت لأبي بكر ادخل ورسول الله يبشرك بالجنة فدخل أبو بكر فجلس عن يمين رسول الله معه في القف ودلى رجليه في البئر كما صنع النبي وكشف عن ساقيه رجعت
ائذن له وبشره بالجنة فدخل فجاء عن يمين النبي فكشف عن ساقيه ودلاهما في البئر جاء عمر فقلت كما أنت حتى أستأذن لك فقال النبي ائذن له وبشره بالجنة فجاء عن يسار النبي فكشف عن ساقيه فدلاهما في البئر
ائذن له وبشره بالجنة فإذا أبو بكر جاء آخر يستأذن فقال ائذن له وبشره بالجنة فإذا عمر جاء آخر يستأذن فسكت هنيهة ثم قال ائذن له وبشره بالجنة على بلوى ستصيبه فإذا عثمان بن عفان
افتح له وبشره بالجنة ففتحت له فإذا أبو بكر فبشرته بما قال النبي فحمد الله جاء رجل فاستفتح فقال النبي افتح له وبشره بالجنة ففتحت له فإذا هو عمر فأخبرته بما قال النبي فحمد الله استفتح رجل فقال لي
ائذن له وبشره بالجنة قال فأقبلت حتى قلت لأبي بكر ادخل ورسول الله يبشرك بالجنة قال فدخل أبو بكر فجلس عن يمين رسول الله على في القف ودلى رجليه في البئر كما صنع النبي وكشف عن ساقيه رجعت فجلست وقد ترك
افتح وبشره بالجنة قال فإذا أبو بكر ففتحت له وبشرته بالجنة استفتح رجل آخر فقال افتح وبشره بالجنة قال فذهبت فإذا هو عمر ففتحت له وبشرته بالجنة استفتح رجل آخر قال فجلس النبي فقال افتح وبشره بالجنة على بلوى تكون قال فذهبت فإذا ه وعثما
ائذن له وبشره بالجنة فدخل وبشرته بالجنة جاء رجل آخر فضرب الباب فقلت من هذا فقال عمر فقلت يا رسول الله هذا عمر يستأذن قال افتح له وبشره بالجنة ففتحت الباب ودخل وبشرته بالجنة جاء رجل آخر فضرب الباب فقلت من هذا قال عثمان فقلت يا رسول الله هذا عثمان يست
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3710
´عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان` ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا، آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور اپنی حاجت پوری کی، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: ”ابوموسیٰ! تم دروازہ پر رہو کوئی بغیر اجازت کے اندر داخل نہ ہونے پائے“، پھر ایک شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا، تو میں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر ہوں، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ابوبکر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: ”انہیں آنے دو، اور انہیں جنت کی بشارت دے دو“، چنانچہ وہ اندر آئے اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دی، پھر ایک دوسرے شخص آئے او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3710]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس سے آپﷺ کا اشارہ اس حادثہ کی طرف تھا جس سے عثمان رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے آخری دور میں دوچار ہوئے پھر جام شہادت نوش کیا، نیز اس حدیث سے ان تینوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اوریہ کہ ان کے درمیان خلافت میں یہی ترتیب ہو گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3710
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7262
7262. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک باغ میں تشریف لے گئے اور مجھے دروازے کی نگرانی کا حکم دیا۔ پھر ایک آدمی آیا اور وہ اجازت طلب کرتا تھا۔ آپ ﷺ نےفرمایا: ”اسے اجازت کےساتھ جنت کی بھی بشارت دے دو۔“ وہ ابو بکر ؓ تھے۔ پھر سیدنا عمر ؓ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت سنا دو۔“ پھر سیدنا عثمان ؓ آئے تو آپ نے فرمایا: ”انہیں بھی اجازت کے ساتھ جنت کی خوشخبری دے دو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7262]
حدیث حاشیہ: ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ انہوں نے ایک شخص یعنی ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی اجازت کو کافی سمجھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7262
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7262
7262. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک باغ میں تشریف لے گئے اور مجھے دروازے کی نگرانی کا حکم دیا۔ پھر ایک آدمی آیا اور وہ اجازت طلب کرتا تھا۔ آپ ﷺ نےفرمایا: ”اسے اجازت کےساتھ جنت کی بھی بشارت دے دو۔“ وہ ابو بکر ؓ تھے۔ پھر سیدنا عمر ؓ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت سنا دو۔“ پھر سیدنا عثمان ؓ آئے تو آپ نے فرمایا: ”انہیں بھی اجازت کے ساتھ جنت کی خوشخبری دے دو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7262]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دروازے پر بیٹھنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7097) جبکہ اس روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا؟ ان دونوں روایات میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں ہے کیونکہ ابتدا میں انھوں نے خود اس چوکیداری کو اپنے ذمے لیا تھا لیکن جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذمے داری انھیں سونپ دی تھی۔ 2۔ بہر حال امام بخاری نے اس حدیث سے خبر واحد کی حجیت کو ثابت کیا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکیلے ان حضرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے مطلع کرتے تھے اور یہ قابل قدر حضرات اس پر یقین اور اعتماد کرتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7262