الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
11. بَابُ : الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ
11. باب: امام کے پیچھے قرات کا حکم۔
Chapter: Reciting behind the Imam
حدیث نمبر: 838
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا إسماعيل بن علية ، عن ابن جريج ، عن العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب ، ان ابا السائب ، اخبره انه سمع ابا هريرة ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من صلى صلاة لم يقرا فيها بام القرآن، فهي خداج غير تمام"، فقلت: يا ابا هريرة، فإني اكون احيانا وراء الإمام، فغمز ذراعي وقال:" يا فارسي، اقرا بها في نفسك".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ ، أَنَّ أَبَا السَّائِبِ ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ"، فَقُلْتُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، فَإِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ، فَغَمَزَ ذِرَاعِي وَقَالَ:" يَا فَارِسِيُّ، اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص و ناتمام ہے، ابوالسائب کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا پھر بھی سورۃ فاتحہ پڑھوں) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 11 (395)، سنن ابی داود/الصلاة 135 (821)، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة (2953)، سنن النسائی/الافتتاح 23 (910)، (تحفة الأشراف: 14935)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة 9 (39)، مسند احمد (2/241، 250، 285، 290، 457، 478، 487) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی بہرحال ہر شخص کو ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا چاہئے، امام ہو یا مقتدی، سری نماز ہو یا جہری، اہل حدیث کا یہی مذہب ہے، اور دلائل کی روشنی میں یہی قوی ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں  «القراءۃ خلف الإمام» نامی ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے، اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے، ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مقتدی کسی نماز میں قراءت نہ کرے نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں اور دلیل ان کی یہ ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا» جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو (سورة الأعراف: 204)، اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے سورۃ فاتحہ کا نہ پڑھنا ثابت نہیں ہوتا، اس لئے کہ مقتدی کو آہستہ سے سورۃ فاتحہ پڑھنا چاہئے جیسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اپنے دل میں پڑھ لے، اور یہ مثل خاموش رہنے کے ہے، خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آواز بلند نہ کرو، تاکہ امام کی قراءت میں حرج واقع نہ ہو، اور دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جب تم امام کے پیچھے ہو تو سوائے سورۃ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھو کیونکہ جو آدمی سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، تنویر العینین میں ہے کہ جو بھی صورت ہو اور جس طرح بھی ہو بہر حال سورۃ فاتحہ کا پڑھ لینا ہی بہتر ہے، اور یہی مقتدی کے لئے مناسب ہے، اور بیہقی نے یزید بن شریک سے روایت کی کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے قراءت خلف الامام کے بارے پوچھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: سورۃ فاتحہ پڑھا کرو، یزید نے کہا: اگرچہ جہری نماز میں ہو؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگرچہ جہری نماز میں ہو، احناف کی دوسری دلیل یہ حدیث ہے جس میں آپ نے ﷺ فرمایا:  «مالی انازع القرآن»، اور اس کا جواب یہ ہے کہ منازعت (چھینا جھپٹی) اسی وقت ہو گی جب مقتدی بآواز بلند قراءت کرے، اور آہستہ سے صرف سورۃ فاتحہ پڑھ لینے میں کسی منازعت کا اندیشہ نہیں، اور اسی حدیث میں یہ وارد ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: سورۃ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو، اور ممکن ہے کہ مقتدی امام کے سکتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھے، پس آیت اور حدیث دونوں کی تعمیل ہو گئی، اور کئی ایک حنفی علماء نے اس کو اعدل الاقوال کہا ہے، صحیح اور مختار مذہب یہ ہے کہ مقتدی ہر نماز میں جہری ہو یا سری سورۃ فاتحہ ضرور پڑھے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، خلاصہ کلام یہ کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے، خواہ وہ فرض ہو یا نفل اور خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے، امام ہو یا مقتدی ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی کیونکہ «لا» نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے، اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے لیے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو، اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ از روئے شرع نماز مخصوص اقوال و افعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے، لہذا بعض یا کل کی نفی سے ذات کی نفی ہو جائے گی، اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہو سکتی ہو تو وہ معنی مراد لیا جائے گا جو ذات سے قریب تر ہو، اور وہ صحت کی نفی ہے نہ کہ کمال کی، اس لیے کہ صحت اور کمال ان دونوں مجازوں میں سے صحت ذات سے اقرب اور کمال ذات سے ابعد ہے اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہوگی جو ذات سے اقرب ہے نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلے میں ذات سے ابعد ہے۔

It was narrated from Abu Sa’ib that he heard Abu Hurairah say: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whoever performs a prayer in which he does not recite Ummul Qur’an (the Mother of the Qur’an, i.e., Al- Fatihah), it is deficient; not complete.’” I said: ‘O Abu Hurairah, sometimes I am behind the Imam. He pressed my forearm and said: ‘O Persian! Recite it to yourself.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح البخاري772عبد الرحمن بن صخرفي كل صلاة يقرأ فما أسمعنا رسول الله أسمعناكم وما أخفى عنا أخفينا عنكم وإن لم تزد على أم القرآن أجزأت وإن زدت فهو خير
   صحيح مسلم884عبد الرحمن بن صخرفي كل صلاة قراءة فما أسمعنا النبي أسمعناكم وما أخفى منا أخفيناه منكم ومن قرأ بأم الكتاب فقد أجزأت عنه ومن زاد فهو أفضل
   صحيح مسلم882عبد الرحمن بن صخرلا صلاة إلا بقراءة
   صحيح مسلم883عبد الرحمن بن صخرفي كل الصلاة يقرأ فما أسمعنا رسول الله أسمعناكم وما أخفى منا أخفينا منكم فقال له رجل إن لم أزد على أم القرآن فقال إن زدت عليها فهو خير وإن انتهيت إليها أجزأت عنك
   سنن أبي داود821عبد الرحمن بن صخرمن صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج غير تمام
   سنن أبي داود820عبد الرحمن بن صخرلا صلاة إلا بقراءة فاتحة الكتاب فما زاد
   سنن أبي داود819عبد الرحمن بن صخرلا صلاة إلا بقرآن ولو بفاتحة الكتاب فما زاد
   سنن أبي داود797عبد الرحمن بن صخرفي كل صلاة يقرأ فما أسمعنا رسول الله أسمعناكم وما أخفى علينا أخفينا عليكم
   سنن النسائى الصغرى971عبد الرحمن بن صخرفي كل صلاة قراءة فما أسمعنا رسول الله أسمعناكم وما أخفاها أخفينا منكم
   سنن النسائى الصغرى970عبد الرحمن بن صخركل صلاة يقرأ فيها فما أسمعنا رسول الله أسمعناكم وما أخفاها أخفينا منكم
   سنن ابن ماجه838عبد الرحمن بن صخرمن صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج غير تمام
   المعجم الصغير للطبراني333عبد الرحمن بن صخر فى كل الصلاة ، الصلوات ، يقرأ ، فما أسمعنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أسمعناكم ، ومما أخفى علينا أخفينا عليكم
   مسندالحميدي1003عبد الرحمن بن صخر
   مسندالحميدي1004عبد الرحمن بن صخركل صلاة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب فهي خداج، فهي خداج
   مسندالحميدي1020عبد الرحمن بن صخرفي كل الصلاة اقرأ، فما أسمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أسمعناكم، وما أخفى منا أخفينا منكم، كل صلاة لا يقرأ فيها بأم القرآن، فهي خداج

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 797  
´ظہر کی قرآت کا بیان۔`
عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہر نماز میں قرآت کی جاتی ہے تو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بالجہر سنایا ہم نے بھی تمہیں (جہراً) سنا دیا اور جسے آپ نے چھپایا ہم نے بھی اسے تم سے چھپایا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 797]
797۔ اردو حاشیہ:
➊ مقصد یہ ہے کہ جو قرأت جہری تھی، ہم جہری کرتے ہیں اور جو سری تھی ہم بھی سری کرتے ہیں۔
➋ امت کا اجماع ہے کہ فجر، مغرب، عشاء (پہلی دو رکعتیں) جمعہ، عید اور استسقاء میں قرأت جہری ہوتی ہے اور ظہر، عصر اور مغرب کی تیسری اور عشاء کی آخری دونوں رکعتوں میں سری۔
➌ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین امت کا وہ پہلا عظیم طبقہ ہے، جس نے دین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا اور ان سے بعد کے لوگوں نے ان سے حاصل کیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 797   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 820  
´جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ اعلان کر دوں کہ سورۃ فاتحہ اور کوئی اور سورت پڑھے بغیر نماز نہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 820]
820۔ اردو حاشیہ:
مذکورہ روایات سنداً ضعیف ہیں۔ لیکن اس میں بیان کردہ باتیں دوسری روایات سے ثابت ہیں۔ یعنی منفرد شخص کے لئے سورت فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت یا قرآن سے کچھ حصہ پڑھنے کا حکم ہے۔ لیکن جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 820   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 821  
´جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں۔‏‏‏‏ راوی ابوسائب کہتے ہیں: اس پر میں نے کہا: ابوہریرہ! کبھی کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا کروں!) تو انہوں نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز ۱؎ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دی ہے، اس کا نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندے کے لیے اور میرے بندے کے لیے وہ بھی ہے جو وہ مانگے۔‏‏‏‏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑھو: بندہ «الحمد لله رب العالمين» کہتا ہے تو اللہ عزوجل کہتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی، بندہ «الرحمن الرحيم» کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بندے نے میری توصیف کی، بندہ «مالك يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بندے نے میری عظمت اور بزرگی بیان کی، بندہ «إياك نعبد وإياك نستعين» کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، پھر بندہ «اهدنا الصراط المستقيم * صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: یہ سب میرے بندے کے لیے ہیں اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 821]
821۔ اردو حاشیہ:
➊ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز بالکل ناقص اور ناتمام رہتی ہے، جس کی تعبیر دوسری احادیث میں کچھ یوں ہے:
«لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب» [صحيح بخاري۔ حديث 756۔ وصحيح مسلم۔ حديث 394]
اسماعیلی کی روایت میں جناب سفیان سے مروی ہے:
«لا تجزي صلوة لايقرا فيها بفاتحة الكتاب» [سنن دار قطني۔ حديث 1212]
جس نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ کافی نہیں ہوتی
فتح الباری، ابن خذیمہ، ابن حبان اور احمد میں ہے:
«لا تقبل صلوة لا يقرا فيها بام القران» (فتح الباری۔ شرح حدیث 756)
جس نماز میں ام القرآن فاتحہ نہ پڑھی جائے، وہ قبول نہیں ہوتی، اس قسم کے مختلف الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے۔ اس کا پڑھنا فرض اور واجب ہے۔ الا یہ کہ کوئی پڑھنے سے عاجز ہو۔
➋ اس حکم میں تمام قسم کی نمازیں (فرض، نفل، جنازہ، عید اور کسوف وغیرہ) اور تمام طرح کے نمازی (منفرد، امام، مقتدی، حاضر اور مسافر) شامل ہیں۔
➌ نفس میں پڑھنا اس سے مراد آواز نکالے بغیر زبان سے پڑھنا ہے، صرف ان الفاظ کا خیال اور تصور صحیح نہیں، اسے کسی طرح قراءت (پڑھنا) نہیں کہا جاتا۔ نیز یہ مسئلہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مذہب اور رائے محض نہیں۔ بلکہ ان کا استدلال صریح اور صحیح فرمان نبوی سے ہے۔
➍ سورہ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کرتے ہوئے صرف اسی کی تقسیم کی گئی ہے اور اس تقسیم میں بسم اللہ کو شمار نہیں کیا گیا ہے۔ یہ دلیل ہے کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا جزو نہیں ہے۔
➎ امام کے پیچھے ہونے کا اشکال آج کا نیا اشکال نہیں ہے بلکہ تابعین کے دور سے ہے، مگر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کے پڑھنے کا فتویٰ اور اس کی دلیل پیش فرما کر تمام اوہام کا ازالہ فرما دیا ہے۔
نیز آیت کریمہ:
«وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا» [اعراف۔ 104]
جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو کا مفہوم بھی واضح کر دیا کہ آہستہ سے پڑھو یعنی آواز نہ نکاؤ، اس میں انصات بھی ہے اور قرأت پر عمل بھی، نیز حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تفعلوا الا بام القران» یعنی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی قرأت کرو۔
➏ سورۃ فاتحہ نماز کی سب رکعات میں پڑھی جائے، جیسا کہ حضرت خلاد بن رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث «مسئي الصلواة» میں آیا کہ «ثم افعل ذلك فى صلوتك كلها» اور پوری نماز میں ایسا ہی کرو۔ [صحيح بخاري۔ حديث 793وصحيح مسلم حديث 397]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 821   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 971  
´دن کی نمازوں میں قرأت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہر نماز میں قرآت ہے، تو جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سنایا ہم تمہیں سنا رہے ہیں، اور جسے آپ نے ہم سے چھپایا ہم تم سے چھپا رہے ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 971]
971 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اشارہ ہے کہ نماز ظہر اور عصر میں آہستہ قرأت ہے۔ یہ نہیں کہ ان میں قرأت ہے ہی نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ دن کی نمازوں میں آہستہ قرأت کا راز شاید یہ ہے کہ دن میں شور و غل ہوتا ہے، جماعت بڑی ہو تو سماع مشکل ہو گا، جب کہ رات میں سکون ہوتا ہے، اس لیے رات کی نازوں میں قرأت بلند آواز سے ہوتی ہے۔ جس نماز میں زیادہ سکون ہوتا ہے، اس میں قرأت بھی طویل رکھی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ حدیث کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہر رکعت میں قرأت ہے اگرچہ پہلی دو میں قرأت اونچی کی جاتی ہے اور آخری رکعتوں میں آہستہ تاکہ نماز یادہ لمبی نہ ہو جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 971   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث838  
´امام کے پیچھے قرات کا حکم۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص و ناتمام ہے، ابوالسائب کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا پھر بھی سورۃ فاتحہ پڑھوں) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 838]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ نماز کارکن ہے۔
مقتدی اور اکیلے دونوں پر فرض ہے۔
کہ سورۃ فاتحہ پڑھیں۔

(2)
نقص دو طرح کا ہوتا ہے۔
مثلا ایک انسان کا بازو یا پاؤں کٹ جائے تو انسان زندہ رہ سکتاہے۔
اگرچہ وہ ناقص ہوگا۔
لیکن اگر کسی کا سر کاٹ دیا جائے۔
یا دل نکال دیا جائے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔
سورہ فاتحہ نہ پڑھنے سے ہونے واے نقص کو عام طور پر پہلی قسم کا نقص قرار دیا جاتا ہے۔
لیکن یہ قول درست نہیں کیونکہ مرفوع حدیث سے ثابت ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا۔ (لَاتَجْزِي صَلَاةٌ لَايُقْرَاءُ فِيْهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ)
جس نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے۔
وہ کفایت نہیں کرتی۔
 (صحیح ابن خذیمة، الصلاۃ، جماع أبواب الأذان والإقامة، با ب الذکر الدلیل علی أن الخداج۔
۔
۔
ھو النقص الذی لاتجزیٔ الصلواۃ معه، حدیث: 490)

 کفایت نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی پڑھی ہوئی نماز کافی نہیں دوبارہ پڑھنے پڑے گی۔

(3) (پڑھنا) (إِقْرَاء بِهَا فِي نَفْسِكَ)
دل میں پڑھ لے۔
اس کا مطلب زبان کو حرکت دیے بغیر دل میں سوچنا نہیں۔
کیونکہ اسے قراءت (پڑھنا)
نہیں کہا جاتا۔
بلکہ اس طرح پڑھنا مراد ہے۔
کہ ساتھ کھڑا ہوا نمازی آواز نہ سنے۔
اس طرح پڑھنا استماع اور انصات کے خلاف بھی نہیں ہے۔
جیسا کہ قراۃ فاتحہ خلف الامام کو استماع اور انصات کے خلاف باور کرا کے اس حکم نبویﷺسے انکار کیا جاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 838   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.