الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
The Book of As-Saum (The Fasting).
24. بَابُ الْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ:
24. باب: روزہ دار کا روزہ کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لینا۔
(24) Chapter. What is said regarding kissing by a fasting person.
حدیث نمبر: Q1928
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
وقال جابر بن زيد: إن نظر فامنى يتم صومه.وَقَالَ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ: إِنْ نَظَرَ فَأَمْنَى يُتِمُّ صَوْمَهُ.
‏‏‏‏ اور جابر بن زید نے کہا اگر روزہ دار نے شہوت سے دیکھا اور منی نکل آئی تو وہ اپنا روزہ پورا کر لے۔

حدیث نمبر: 1928
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، عن هشام، قال: اخبرني ابي، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم. ح وحدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليقبل بعض ازواجه وهو صائم"، ثم ضحكت.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُقَبِّلُ بَعْضَ أَزْوَاجِهِ وَهُوَ صَائِمٌ"، ثُمَّ ضَحِكَتْ.
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد عروہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ) اور ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعض ازواج کا روزہ دار ہونے کے باوجود بوسہ لے لیا کرتے تھے۔ پھر آپ ہنسیں۔

Narrated Hisham's father: Aisha said, "Allah's Apostle used to kiss some of his wives while he was fasting," and then she smiled.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 150


   صحيح البخاري1927عائشة بنت عبد اللهيقبل ويباشر وهو صائم أملككم لإربه
   صحيح البخاري1928عائشة بنت عبد اللهيقبل بعض أزواجه وهو صائم
   صحيح مسلم2576عائشة بنت عبد اللهيقبل وهو صائم يباشر وهو صائم أملككم لإربه
   صحيح مسلم2577عائشة بنت عبد اللهيقبل وهو صائم أملككم لإربه
   صحيح مسلم2578عائشة بنت عبد اللهيباشر وهو صائم
   صحيح مسلم2579عائشة بنت عبد اللهيباشر وهو صائم نعم أملككم لإربه
   صحيح مسلم2581عائشة بنت عبد اللهيقبلها وهو صائم
   صحيح مسلم2574عائشة بنت عبد اللهيقبلها وهو صائم فسكت ساعة ثم قال نعم
   صحيح مسلم2584عائشة بنت عبد اللهيقبل في رمضان وهو صائم
   صحيح مسلم2585عائشة بنت عبد اللهيقبل وهو صائم
   صحيح مسلم2583عائشة بنت عبد اللهيقبل في شهر الصوم
   صحيح مسلم2573عائشة بنت عبد اللهيقبل إحدى نسائه وهو صائم ثم تضحك
   صحيح مسلم2575عائشة بنت عبد اللهيقبلني وهو صائم أيكم يملك إربه كما كان رسول الله
   جامع الترمذي728عائشة بنت عبد اللهيباشرني وهو صائم أملككم لإربه
   جامع الترمذي729عائشة بنت عبد اللهيقبل ويباشر وهو صائم أملككم لإربه
   جامع الترمذي727عائشة بنت عبد اللهيقبل في شهر الصوم
   سنن أبي داود2386عائشة بنت عبد اللهيقبلها وهو صائم ويمص لسانها
   سنن أبي داود2384عائشة بنت عبد اللهيقبلني وهو صائم وأنا صائمة
   سنن أبي داود2383عائشة بنت عبد اللهيقبل في شهر الصوم
   سنن أبي داود2382عائشة بنت عبد اللهيقبل وهو صائم ويباشر وهو صائم أملك لإربه
   سنن النسائى الصغرى1653عائشة بنت عبد اللهيمتنع من وجهي وهو صائم ما مات حتى كان أكثر صلاته وهو جالس
   سنن ابن ماجه1683عائشة بنت عبد اللهيقبل في شهر الصوم
   سنن ابن ماجه1687عائشة بنت عبد اللهأملككم لإربه
   سنن ابن ماجه1684عائشة بنت عبد اللهيقبل وهو صائم أيكم يملك إربه كما كان رسول الله
   بلوغ المرام539عائشة بنت عبد اللهيقبل وهو صائم ويباشر وهو صائم ولكنه كان املككم لإربه
   المعجم الصغير للطبراني368عائشة بنت عبد الله يصيب من وجهها وهو صائم
   المعجم الصغير للطبراني373عائشة بنت عبد الله يباشر وهو صائم ، وأيكم يملك من إربه ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يملك ؟
   المعجم الصغير للطبراني382عائشة بنت عبد الله باشرني رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو صائم
   المعجم الصغير للطبراني402عائشة بنت عبد الله يمتنع من شيء من وجهي وهو صائم
   مسندالحميدي198عائشة بنت عبد اللهأن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقبلها وهو صائم؟
   مسندالحميدي199عائشة بنت عبد اللهكان يقبل بعض نسائه وهو صائم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 257  
´روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینا؟`
«. . . 464- وبه: أنها كانت تقول: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليقبل بعض أزواجه وهو صائم، ثم تضحك. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی بیویوں میں سے کسی بیوی کا بوسہ لے لیا کرتے تھے۔ پھر آپ (عائشہ رضی اللہ عنہا) ہنس پڑتی تھیں۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 257]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1928، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی بیوی کا بوسہ لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
➋ ہنسنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بوسہ لیتے تھے۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔
➍ سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ دونوں روزے کی حالت میں (بیوی کا) بوسہ لینے کی اجازت دیتے تھے۔ [المؤطا 292/1 ح655 و سنده صحيح]
معلوم ہوا کہ یہ اختیاری مسئلہ ہے یعنی اپنی شہوت پر کنٹرول رکھنے والے بڑی عمر والے شخص کے لئے اجازت ہے کہ وہ روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لے۔
➎ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بوڑھے کے لئے روزے کی حالت میں بوسے کی اجازت دیتے اور نوجوان کے لئے مکروہ سمجھتے تھے۔ [الموطأ 1/293 ح657 وسنده صحيح]
➏ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روزے دار کو بوسہ لینے اور بیوی کے ساتھ لیٹنے سے منع کرتے تھے۔ [الموطأ 1/293 ح658 وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ عام شخص خاص طور پر جوان آدمی کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ روزے کی حالت میں بوسہ نہ لے۔ واللہ اعلم
➐ ہر وقت شرم وحیا کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
➑ تحدیثِ نعمت اور لوگوں کی اصلاح کے لئے اپنا کوئی خاص واقعہ ضرورت کے پیشِ نظر سنایا جاسکتا ہے۔
➒ دین اسلام آسان اور دینِ فطرت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 464   
  ابوبكر قدوسي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1927  
´روزے کی حالت میں بیوی سے مباشرت`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے لیکن (اپنی ازواج کے ساتھ) «يقبل» (بوسہ لینا) و مباشرت (اپنے جسم سے لگا لینا) بھی کر لیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ: 1927]

فقہ الحدیث:
روزے کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور بخاری کی حدیث:
صحیح بخاری کی ایک حدیث کو لے کر منکرین حدیث عوام کو خوب گم راہ کرتے ہیں، اور سادہ لوح افراد ان کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ بخاری کی حدیث میں ہے کہ:
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کا بوسہ لے لیتے اور مباشرت فرمایا کرتے جب کہ آپ روزے سے ہوتے۔
اس حدیث کو لے کر منکرین حدیث، آئمہ حدیث اور امام بخاری کے وہ لتے لیتے ہیں کہ الامان ... ایسے ایسے جذباتی جملے بولتے ہیں کہ ہر کوئی دھوکہ کھا جاتا ہے .... مزید تفصیل میں جائے بغیر، کہ یہ کیا کرتے ہیں، ہم حدیث کی طرف جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں مباشرت میاں بیوی کے جنسی تعلقات اختیار کرنے کو بولا جاتا ہے، اور اسی تصور اور تاثر کو منکرین لے کر حقائق کو چھپاتے ہیں۔
عربی میں مباشرت کا معنی ہے بدن سے بدن ملانا، جسم کا جسم سے مس ہونا۔
امام شوکانی کہتے ہیں کہ: «ان المباشره فى الاصل التقاء البشرتين . . .»
یعنی مباشرت اصل میں دو جسموں کے ملنے کو کہتے ہیں۔ [منقول، تفهيم اسلام]
عون المعبود شرح سنن ابی داؤد میں ہے کہ:
«معني المباشرة ههنا المر باليد من التقاء البشرتين»
یعنی یہاں مباشرت سے صرف ہاتھ سے چھونا، اور دو جسموں کا ملنا مراد ہے۔
کیا اس میں حرام کا کوئی پہلو ہے؟
آپ کی بیوی ہے کوئی اچھوت تو نہیں کہ دن میں اگر آپ میاں بیوی روزے کی حالت میں بھی باہم مل کر آرام کر لیں، ایک دوسرے سے لپٹ جائیں، آپ اپنی بیوی سے محبت سے پیش آ جائیں، تو اس سے روزے کو کیا فرق پڑ جائے گا ..؟
لیکن برا ہو تعصب کا، انکار حدیث کا، کہ مقصد دین کی تفہیم نہ رہی بلکہ اپنے نظریات کی خاطر لوگوں کو دھوکہ دینا ٹھرا اور جذباتی فضاء بنا کر حدیث بارے نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔
اسی حدیث کا اگلا حصہ اس کی مزید وضاحت کرتا ہے، دیکھئے گا:
«كان املككم لاربه» یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہشات پر تم میں سب سے زیادہ قابو پانے والے تھے .... سمجھنے کے لیے مکرر عرض ہے اگر بار خاطر نہ ہو کہ:
آپ پنی بیویوں کا بوسہ لے لیتے، ان سے مباشرت کرتے اور آپ تم میں سے سب سے زیادہ اپنی خواہش پر قابو رکھنے والے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اگر مباشرت کا مطلب جنسی ملاپ ہی ہے تو خواہش پر قابو پانا کہاں گیا؟ .. آپ کو عربی نہ بھی آتی ہو . مفکر صاحب آپ کو دھوکہ بھی دینا چاھیں تو آپ ان سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں:
جناب پھر خواہش پر قابو کیسا ہووا؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اپنی خواہش پر ایسا قابو تھا تو مطلب یہی بنتا ہے نا کہ آپ کا عمل محض بیویوں سے دلجوئی کی، محبت کی ترغیب ہے۔ بتائیے اس میں کیا گناہ ہے؟ ...
اس حدیث کا صاف صاف مطلب ہے کہ بغیر شہوت کے، محض محبت کے ساتھ آپ اپنی بیوی سے قربت اختیار کر سکتے ہیں۔ ذرا انسانی نفسیات کی طرف آئیے ...
آپ کی بیوی، آپ سے گھنٹہ بھر پہلے اٹھ جاتی ہے، گرمی ہو یا سردی چولہے پر جا کے کھڑی ہو جاتی ہے، آپ کے لیے پکوان بناتی ہے، آپ کے ناز اٹھاتی ہے، اور پندرہ منٹ پہلے آپ کو ہولے سے آ کر اٹھاتی ہے کہ
جی سرتاج! سحری کیجئے۔
آپ مزے سے سحری کرتے ہیں، اور نماز پڑھ کر پھر سے دراز ہو جاتے ہیں، وہ بے چاری گھر بھر کے جھوٹے برتن دھو کے، سامان سمیٹ کے مزید تھک ہار کے بستر پر جاتی ہے ... ایسے میں آپ اس کو پیار سے سمیٹ لیتے ہیں، کیا محبت کی معراج ہے، اور کیسی انسانیت کی تکمیل ہے، اس کا جی کیسا اچھا ہو جاتا ہو گا، آپ اس کو گلے لگا لیں، بازوؤں میں چھپا لیں تو کیا برا کیا؟، اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے، رحم دل تھے۔
بردران عزیز! آپ منکرین حدیث کے غلط ترجموں سے اور دھوکوں سے گھبرا کے ارتھ نہ ہو جایا کریں، تحقیق احوال کر لیا کریں، یہ بےچارے عموماً عربی نہیں جانتے ہوتے، اور قران کا بھی علم بس گزارا ہی ہوتا ہے گو دعوے بہت کرتے ہیں، ان کے چکر میں آ کر اپنی بیویوں کو اچھوت نہ جانئے، وہ آپ کی محبت کی، توجہ کی روزے کے مشکل دنوں میں زیادہ محتاج ہیں۔
ایک بات آپ کے سوچنے کے لیے بھی عرض کرتا ہوں .... آپ ان بڑے بڑے ناموں کو، جو صرف سوشل میڈیا کے مرہون منت زندہ ہیں، دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہ بڑا علم رکھتے ہیں؟
سوال مگر یہ ہے کہ اس حدیث کے مفھوم کو چھپا کے، کیا یہ بد دیانتی کے مرتک نہیں ہوتے؟
اور جو دین کے معاملے میں بد دیانتی کرے، اس کو آپ اپنا دینی رہنماء مانے بیٹھے ہیں ... یاد رکھیے بھر برے لوگ بھی دین کے معاملے میں جھوٹ بولتے شرما جاتے ہیں، ان کو حیاء آ جاتی ہے، لیکن جو یہاں بھی دھوکہ دینے پر آ جائے اس کے حیاء باختگی کا کیا عالم ہو گا؟ ... اس لیے ایسے افراد سے دین کی رہنمائی لینے کا یہی مطلب ہے کہ آپ جان بوجھ کر اس دکاندار کے پاس جاتے ہیں جس کی آپ کو خبر ہے کہ:
اگر دودھ فروخت کرے گا تو کیمیکل ڈالے گا
اگر مسالے فروخت کرے گا تو برادہ شامل کرے گا
ارے نہیں بھائی! یہ عقیدے کے ملاوٹ ساز ہیں، جعل ساز تو ان سے کہین بہتر ہیں .. فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ ان جعل سازوں سے علم حاصل کرنا ہے اور حدیث کا انکار کر کے زندگی سے روحانیت ختم کرنی ہے یا درست عقائد کو شعار کرنا ہے۔
   محدث فورم، حدیث\صفحہ نمبر: 37802   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1687  
´روزہ دار کا بیوی سے مباشرت (ساتھ سونے) کا بیان۔`
اسود اور مسروق ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، اور پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں مباشرت کرتے (ساتھ سوتے) تھے؟، انہوں نے کہا: ہاں، آپ ایسا کرتے تھے، اور آپ تم سب سے زیادہ اپنی خواہش پر قابو رکھنے والے آدمی تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1687]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مرد قابل احترام خاتون سے اور عورتیں قابل احترام مرد سے ادب واحترام کا لحاظ رکھتے ہوئے شرم وحیا سے تعلق رکھنے والے معاملات کے مسائل دریافت کریں تو کوئی حرج نہیں۔

(2)
اس قسم کے مسائل پوچھتے اور بتاتے ہوئے الفاظ کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینا چاہے تاکہ مسئلہ بھی معلوم ہوجائے اور فحش گوئی بھی نہ ہو۔

(3)
مباشرت سے مراد بوس وکنار اور معانقہ وغیرہ جیسے معاملات ہیں۔

(4)
یہ جواز اس شخص کے لئے ہے۔
جسے اپنی ذات پر اعتماد ہو کہ جائز حد سے تجاوز نہیں کرے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1687   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 539  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لے لیتے تھے اور معانقہ بھی فرما لیتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری نسبت اپنی طبیعت پر زیادہ کنٹرول اور ضبط کرنے والے تھے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں اور ایک روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں فعل رمضان میں کرتے تھے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 539]
لغوی تشریح 539:
یُقَبَّلُ تَقبِیل سے ماخوذ ہے۔ بوسہ دینا۔
یُبَاشِرُ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے جسم سے جسم ملانا، بغل گیر ہونا۔ اس سے جماع مراد نہیں ہے۔
لِأِربَہ ہمزہ اور را دونوں پر فتحہ بھی پڑھا گیا ہے، یعنی حاجت، خواہش نفس (میاں بیوی کا صنفی تعلق)۔ اور ایک قول کے مطابق ہمزہ کے نیچے کسرہ اور را ساکن ہے۔ اس صورت میں دو احتمال ہیں: اس سے مراد حاجت ہے یا عضو مخصوص، یعنی اپنے جذبات پر یا اپنی شرمگاہ پر تمھاری نسبت خوب ضبط رکھنے والے تھے۔ اس حدیث کی رو سے بوسہ اور مباشرت جسمانی ایسے آدمی کے لیے مباح ہے جو اپنے آپ پر ق ابواور کنٹرول رکھنے کا حوصلہ اور طاقت رکھتا ہو۔ یہ رعایت ایسے آدمی کے لیے نہیں جسے اپنے نفس پر پورا کنٹرول نہ ہو۔ یہ قول اس مسئلے میں تمام اقوال و آراء سے زیادہ مناسب اور مبنی برعدل ہے۔

   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 539   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 727  
´روزہ دار کے بوسہ لینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ صیام (رمضان) میں بوسہ لیتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 727]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے روزے کی حالت میں بوسہ کا جواز ثابت ہوتا ہے،
اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس میں فرض اور نفل روزے کی تفریق صحیح نہیں،
رمضان کے روزے کی حالت میں بھی بوسہ لیا جا سکتا ہے،
لیکن یہ ایسے شخص کے لیے ہے جو اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھتا ہو اور جسے اپنے نفس پر قابو نہ ہو اس کے لیے یہ رعایت نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 727   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2384  
´روزہ دار بیوی کا بوسہ لے اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بوسہ لیتے اور آپ روزے سے ہوتے اور میں بھی روزے سے ہوتی۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2384]
فوائد ومسائل:
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ بات صحیح احادیث میں بھی بیان ہوئی ہے، اسی لیے شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
میاں بیوی کے لیے روزے کی حالت میں بوس و کنار جائز ہے مگر لازمی ہے کہ اپنے جذبات پر ضبط رکھنے والے ہوں۔
اگر حد سے بڑھنے کا اندیشہ ہو تو اس عمل سے بچنا لازمی ہے۔

(2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنے ان مخفی امور کو ذکر کرنا شرعی ضرورت کی بنا پر ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت ازدواج کی ایک حکمت یہ بھی رہی ہے کہ زوجین اور اندرون خانہ کی شرعی زندگی امت کے سامنے آئے اور ان کے لیے ہدایت اور اسوہ ثابت ہو۔
اگر یہ حقائق بیان نہ ہوتے تو دین کا بڑا حصہ ہم سے اوجھل رہتا اور بڑی آزمائش ہوتی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2384   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1928  
1928. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ روزے کی حالت میں اپنی کسی بیوی کو بوسہ دیتے تھے۔ پھر وہ خود ہی ہنس پڑیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1928]
حدیث حاشیہ:
(1)
دین اسلام دین فطرت ہے۔
اس میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔
یہاں بیوی کے تعلقات کو کسی حالت میں نظرانداز نہیں کیا گیا۔
اس میں بحالت روزہ بیوی سے بوس و کنار کو جائز رکھا گیا ہے بشرطیکہ ایسے حالات میں فریقین کو اپنے آپ پر کنٹرول ہو، البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو اپنی بیوی کو بوسہ دے جبکہ وہ دونوں روزے سے ہوں تو آپ نے فرمایا:
دونوں کا روزہ جاتا رہا۔
(سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث: 1686)
لیکن یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ اس میں ایک راوی ابو یزید ضِني مجہول ہے۔
امام دارقطنی نے فرمایا:
یہ حدیث ثابت نہیں۔
امام بخاری ؒ نے بھی اسے "منکر" قرار دیا ہے۔
(عمدةالقاري: 86/8) (2)
حضرت عائشہ ؓ کے ہنسنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود ہی صاحب واقعہ ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ ایسے موقع پر ہنس دینا کبھی شرمندگی کی وجہ سے ہوتا ہے کہ اپنے حالات کی خود ہی خبر دے رہی ہیں۔
بعض نے کہا ہے کہ اس سے اپنا مرتبہ اور مقام بنانا مقصود ہے جس سے آپ خوش ہوئی تھیں۔
(فتح الباري: 195/4)
یاد رہے کہ یہ بات سیدہ عائشہ ؓ سے ان کے بھانجے سیدنا عروہ ؒ بیان کرتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1928   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.