الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
149. بَابُ لاَ يُعَذَّبُ بِعَذَابِ اللَّهِ:
149. باب: اللہ کے عذاب (آگ) سے کسی کو عذاب نہ کرنا۔
(149) Chapter. One should not to punish (anybody) with Allah’s punishment.
حدیث نمبر: 3017
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن ايوب، عن عكرمة، ان عليا رضي الله عنه، حرق قوما فبلغ ابن عباس، فقال: لو كنت انا لم احرقهم لان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تعذبوا بعذاب الله، ولقتلتهم"، كما قال النبي صلى الله عليه وسلم:" من بدل دينه فاقتلوه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، حَرَّقَ قَوْمًا فَبَلَغَ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أُحَرِّقْهُمْ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ، وَلَقَتَلْتُهُمْ"، كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب نے ‘ ان سے عکرمہ نے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ایک قوم کو (جو عبداللہ بن سبا کی متبع تھی اور علی رضی اللہ عنہ کو اپنا رب کہتی تھی) جلا دیا تھا۔ جب یہ خبر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو ملی تو آپ نے کہا کہ اگر میں ہوتا تو کبھی انہیں نہ جلاتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ کے عذاب کی سزا کسی کو نہ دو ‘ البتہ میں انہیں قتل ضرور کرتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص اپنا دین تبدیل کر دے اسے قتل کر دو۔

Narrated `Ikrima: `Ali burnt some people and this news reached Ibn `Abbas, who said, "Had I been in his place I would not have burnt them, as the Prophet said, 'Don't punish (anybody) with Allah's Punishment.' No doubt, I would have killed them, for the Prophet said, 'If somebody (a Muslim) discards his religion, kill him.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 260


   صحيح البخاري3017عبد الله بن عباسمن بدل دينه فاقتلوه
   صحيح البخاري6922عبد الله بن عباسمن بدل دينه فاقتلوه
   سنن أبي داود4351عبد الله بن عباسمن بدل دينه فاقتلوه
   سنن النسائى الصغرى4066عبد الله بن عباسمن بدل دينه فاقتلوه
   سنن النسائى الصغرى4065عبد الله بن عباسمن بدل دينه فاقتلوه
   سنن النسائى الصغرى4067عبد الله بن عباسمن بدل دينه فاقتلوه
   سنن النسائى الصغرى4064عبد الله بن عباسمن بدل دينه فاقتلوه
   سنن ابن ماجه2535عبد الله بن عباسمن بدل دينه فاقتلوه
   بلوغ المرام1032عبد الله بن عباس من بدل دينه فاقتلوه
   مسندالحميدي543عبد الله بن عباسمن بدل دينه فاقتلوه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6922  
´مرتد عورت کی شرعی سزا`
«. . . أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِزَنَادِقَةٍ، فَأَحْرَقَهُمْ . . .»
. . . سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ بےدین لوگ لائے گئے۔ آپ نے ان کو جلوا دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ: 6922]

فوائد و مسائل:
اگر کوئی مسلمان دین اسلام سے منحرف ہو جائے، تو اسے مرتد کہا جاتا ہے۔ اس کی سزا شریعت اسلامیہ میں یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔
حنفی مقلدین نے اس عمومی حکم سے بلا جواز عورت کو مستثنیٰ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مرد مرتد ہو جائے، تو اس کو قتل کیا جائے گا، لیکن عورت مرتد ہو، تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ اسے قید کر دیا جائے گا۔ احناف کا یہ مذہب مذکورہ بالا فرمان نبوی کے خلاف ہے جیسا کہ:
◈ شارح صحیح بخاری، علامہ، ابوالحسن، علی بن خلف بن عبدالملک، ابن بطال رحمہ اللہ (م: 449 ھ) مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
لفظ «من» مرد و عورت دونوں کے لیے مستعمل ہے۔ اس عموم میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو خاص کر کے عورتوں کو اس حکم سے مستشنٰی قرار نہیں دیا۔ امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کفر مسلمان مردوں اور عورتوں کی طرف سے کیا جانے والا سب سے بڑا گناہ اور سب سے عظیم جرم ہے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بہت سے احکام اور کفر سے کم جرائم پر حدود مذکورہ ہیں، مثلاً زنا، چوری، شراب نوشی، قذف کی حد اور قصاص، یہ سب احکام و حدود جو کہ ارتداد سے کم درجہ کے ہیں، یہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے لازم ہیں (پھر ارتداد میں عورت مستشنٰی کیسے ہوگئی؟)۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بھی عام ہے کہ جو بھی اپنا دین بدلے، اسے قتل کر دو۔ اس صورت حال میں کسی کے لیے کیسے جائز ہے کہ وہ اس سب سے بڑے گناہ میں مردوں اور عورتوں کی سزا میں فرق کرے اور اس سے عورتوں کو مستشنیٰ کر دے، جبکہ دیگر چھوٹے گناہوں میں اس پر سزا لازم کر دے؟ یہ واضح غلطی ہے۔ [شرح صحيح البخاري: 573/8، 574]

◈ شارح صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ مرتد مرد کی طرح مرتد عورت کو بھی قتل کر دیا جائے گا۔ البتہ احناف نے اس حدیث کو مرد کے ساتھ خاص کیا ہے اور عورتوں کو قتل کرنے سے ممانعت والی حدیث کو اپنی دلیل بنانے کی کوشش کی ہے، جبکہ جمہور فقہاء کرام نے اس ممانعت کو اس عورت پر محمول کیا ہے، جو اصلاً کافر ہو اور اس نے جنگ میں قتل و قتال میں حصہ نہ لیا ہو، کیونکہ اس حدیث کی بعض سندوں میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقتولہ عورت کو دیکھا، تو فرمایا: یہ تو لڑائی نہیں کر سکتی تھی، (پھر اسے کیوں قتل کیا گیا؟)، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ [فتح الباري فى شرح صحيح البخاري: 272/12]
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 69، حدیث\صفحہ نمبر: 26   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1032  
´مجرم (بدنی نقصان پہنچانے والے) سے لڑنے اور مرتد کو قتل کرنے کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنا دین بدل لے اسے قتل کر دو۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1032»
تخریج:
«أخرجه البخاري، استتابة المرتدين.....، باب حكم المرتد والمرتدة.....، حديث:6922.»
تشریح:
یہ حدیث بھی صریح اور واضح دلیل ہے کہ شرعاً مرتد کی سزا قتل ہے‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔
اب اگر کوئی علی الاعلان مرتد ہو جائے تو عدالت اس کے ثبوت کے بعد قتل کی سزا دے گی اور اسے قتل کر دیا جائے گا۔
البتہ اگر وہ ظاہری نہیں بلکہ اندرونی طور پر مرتد ہے اور اس کے ارتداد کا علم نہیں تو اسے قتل کی سزا نہیں دی جائے گی۔
اور اگر کسی شخص کو جبراً کلمۂکفر کہنے پر مجبور کیا جائے تو ایسی صورت میں بھی وہ مستوجب سزا نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1032   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4351  
´مرتد (دین اسلام سے پھر جانے والے) کے حکم کا بیان۔`
عکرمہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو جو اسلام سے پھر گئے تھے آگ میں جلوا دیا، ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا: مجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ میں انہیں جلاؤں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم انہیں وہ عذاب نہ دو جو اللہ کے ساتھ مخصوص ہے میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی رو سے انہیں قتل کر دیتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جو اسلام چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کر لے اسے قتل کر دو پھر جب علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا: اللہ ابن عباس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4351]
فوائد ومسائل:
1) آگ سے عذاب دینا اللہ عزوجل کے لیے خاص ہے۔
کسی بھی شخص کوجائز نہیں کہ کسی مجرم کو آگ سے سزا دے خواہ اس کا جرم کس قدر بڑا ہو۔
اور دین اسلام سے مرتد ہوجانے والےکی سزاقتل ہے۔

2) آیت کریمہ (لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ) (البقرۃ 256) دین جبروا کراہ نہیں۔
۔
۔
۔
کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص کو جبرا اسلام میں داخل نہیں کیا جائے گا۔
جہاد وقتال اسلام کے غلبہ اور اس کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ہے۔
اگرکوئی شخص مسلمان نہیں ہونا چاہتا تواسے جزیہ دے کر مسلمانوں کے ماتحت رہنا ہوگا۔
لیکن اگر کوئی اسلام قبول کرلیتا ہے تواس پر اسلام کے تمام احکام و فرائض لازم آتے ہیں اور واپسی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔
اگر یہ راہ کھلی رکھی جائے تو یہ دین نہیں بچوں کا کھیل بن کر رہ جائے گا اس لیے اسلام قبول کرنے والے کو سوچ سمجھ کر یہ اقدام کرنا چاہئے کہ اب واپسی نہ ممکن ہے اور اس حقیقت سے مشرکین مکہ اور تمام اہل جاہلیت آگاہ تھے کہ اسلام قبول کر نے کے معنی یہ ہیں کہ اپنی سابقہ طرز زندگی کے بالکل برعکس ایک نیا طرز زندگی اپنانا پڑے گا۔
اس مسئلے کو دوسرے انداز سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مرتد ہونا بغاوت ہے اور بغاوت کسی بھی مذہب وملت قانون اور حکومت میں ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے.
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4351   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3017  
3017. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھیں خبر ملی کہ حضرت علی ؓنے کچھ لوگوں کو آگ میں جلادیا ہے توحضرت ابن عباس ؓنے فرمایا: اگر میں ہوتا تو انھیں ہرگز نہ جلاتا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کے عذاب (آگ) سے کسی کو عذاب نہ دو۔ ہاں میں انھیں قتل کروا دیتا جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: جو شخص اپنا دین بدلے، اسے قتل کردو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3017]
حدیث حاشیہ:
یہ لوگ سبائیہ تھے۔
عبداللہ بن سبا یہودی کے تابعدار جو مسلمانوں کو خراب کر ڈالنے کے لئے بظاہر مسلمان ہوگیا تھا اور اندر سے کافر تھا۔
اس مردود نے اپنے تابعداروں کو یہ تعلیم کی تھی کہ حضرت علی ؓمعاذ اللہ آدمی نہیں ہیں بلکہ خدا ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ یہ بتوں کی پرستش کرتے تھے۔
رافضیوں میں ایک فرقہ نصیری ہے جو حضرت علی ؓ کو خدائے بزرگ اور امام جعفر صادق ؒ کو خدائے خورد کہتا ہے لا حولَ ولا قوةَ إلا باللہ (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3017   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3017  
3017. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھیں خبر ملی کہ حضرت علی ؓنے کچھ لوگوں کو آگ میں جلادیا ہے توحضرت ابن عباس ؓنے فرمایا: اگر میں ہوتا تو انھیں ہرگز نہ جلاتا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کے عذاب (آگ) سے کسی کو عذاب نہ دو۔ ہاں میں انھیں قتل کروا دیتا جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: جو شخص اپنا دین بدلے، اسے قتل کردو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3017]
حدیث حاشیہ:

حضرت علی ؓکے دور حکومت میں کچھ لوگ حکومتی وظائف لیتے لیکن درپردہ وہ بتوں کے پجاری تھے۔
انھیں گرفتار کرکے حضرت علی ؓکے پاس لایا گیا تو آپ نے انھیں قیدکردیا، پھر لوگوں سے مشورہ میں طے پایا کہ انھیں قتل کردیا جائے لیکن حضرت علی ؓکا موقف تھا کہ ان کے ساتھ وہی سلوک کیاجائے جو انھوں نے ہمارے باپ حضرت ابراہیم ؑکے ساتھ کیا،چنانچہ انھوں نے آگ کا آلاؤ تیار کیا، پھر انھیں جلا کر بھسم کرڈالا۔
(فتح الباري: 183/6)

دورحاضر میں آلات حرب،مثلاً:
توپ،راکٹ اور گولہ بارود وغیرہ تمام آگ ہی کی قسم سے ہیں۔
چونکہ کفار نے اس قسم کا اسلحہ استعمال کرنا شروع کردیا ہے،لہذا جواباً ایسا اسلحہ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اب توپٹرول بم ایجاد ہوچکے ہیں وہ جہاں گرتے ہیں وہاں آگ بھڑک اٹھتی ہے اور ہرچیز کو جلا کر راکھ کردیتی ہے۔
ہمارےرجحان کے مطابق ان جدید ہتھیاروں کا استمال امردیگر است، البتہ مطلق طور پر کسی کوآگ میں جلانا شرعی اور اخلاقی طور پسند نہیں کیا جاسکتا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3017   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.