الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
2. بَابُ: {وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ} :
2. باب: آیت کی تفسیر ”اور پانچویں بار مرد یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں“۔
(2) Chapter. “And the fifth (testimony should be) the invoking of the Curse of Allah on him if he is of those who tell a lie (against her).” (V.24:7)
حدیث نمبر: 4746
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني سليمان بن داود ابو الربيع، حدثنا فليح، عن الزهري، عن سهل بن سعد، ان رجلا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ارايت رجلا راى مع امراته رجلا ايقتله فتقتلونه، ام كيف يفعل؟ فانزل الله فيهما ما ذكر في القرآن من التلاعن، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد قضي فيك وفي امراتك"، قال: فتلاعنا وانا شاهد عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، ففارقها، فكانت سنة ان يفرق بين المتلاعنين، وكانت حاملا، فانكر حملها، وكان ابنها يدعى إليها، ثم جرت السنة في الميراث ان يرثها، وترث منه ما فرض الله لها.(مرفوع) حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا رَأَى مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِمَا مَا ذُكِرَ فِي الْقُرْآنِ مِنَ التَّلَاعُنِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ قُضِيَ فِيكَ وَفِي امْرَأَتِكَ"، قَالَ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا شَاهِدٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَارَقَهَا، فَكَانَتْ سُنَّةً أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، وَكَانَتْ حَامِلًا، فَأَنْكَرَ حَمْلَهَا، وَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَيْهَا، ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِي الْمِيرَاثِ أَنْ يَرِثَهَا، وَتَرِثَ مِنْهُ مَا فَرَضَ اللَّهُ لَهَا.
مجھ سے ابوالربیع سلیمان بن داؤد نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے، ان سے زہری نے، ان سے سہل بن سعد نے کہ ایک صاحب (یعنی عویمر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسے شخص کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے جس نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو دیکھا ہو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ لیکن پھر آپ قصاص میں قاتل کو قتل کر دیں گے۔ پھر اسے کیا کرنا چاہئے؟ انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دو آیات نازل کیں جن میں لعان کا ذکر ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا اور میں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا۔ پھر آپ نے دونوں میں جدائی کرا دی اور دو لعان کرنے والوں میں اس کے بعد یہی طریقہ قائم ہو گیا کہ ان میں جدائی کرا دی جائے۔ ان کی بیوی حاملہ تھیں، لیکن انہوں نے اس کا بھی انکار کر دیا۔ چنانچہ جب بچہ پیدا ہوا تو اسے ماں ہی کے نام سے پکارا جانے لگا۔ میراث کا یہ طریقہ ہوا کہ بیٹا ماں کا وارث ہوتا ہے اور ماں اللہ کے مقرر کئے ہوئے حصہ کے مطابق بیٹے کی وارث ہوتی ہے۔

Narrated Sahl bin Sa`d: A man came to Allah's Messenger and said, "O Allah's Messenger ! Suppose a man saw another man with his wife, should he kill him whereupon you might kill him (i.e. the killer) (in Qisas) or what should he do?" So Allah revealed concerning their case what is mentioned of the order of Mula'ana. Allah's Apostle said to the man, "The matter between you and your wife has been decided." So they did Mula'ana in the presence of Allah's Messenger and I was present there, and then the man divorced his wife. So it became a tradition to dissolve the marriage of those spouses who were involved in a case of Mula'ana. The woman was pregnant and the husband denied that he was the cause of her pregnancy, so the son was (later) ascribed to her. Then it became a tradition that such a son would be the heir of his mother, and she would inherit of him what Allah prescribed for her.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 270


   صحيح البخاري4745سهل بن سعدأنزل الله القرآن فيك وفي صاحبتك أمرهما رسول الله بالملاعنة بما سمى الله في كتابه فلاعنها ثم قال يا رسول الله إن حبستها فقد ظلمتها طلقها فكانت سنة لمن كان بعدهما في المتلاعنين ثم قال رسول الله انظروا فإن جاءت به
   صحيح البخاري4746سهل بن سعدقضي فيك وفي امرأتك
   صحيح البخاري5259سهل بن سعدأنزل الله فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها قال سهل فتلاعنا وأنا مع الناس عند رسول الله فلما فرغا قال عويمر كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله
   صحيح البخاري7304سهل بن سعدانظروها فإن جاءت به أحمر قصيرا مثل وحرة فلا أراه إلا قد كذب وإن جاءت به أسحم أعين ذا أليتين فلا أحسب إلا قد صدق عليها فجاءت به على الأمر المكروه
   صحيح البخاري5308سهل بن سعدأنزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها قال سهل فتلاعنا وأنا مع الناس عند رسول الله فلما فرغا من تلاعنهما قال عويمر كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله
   صحيح البخاري5309سهل بن سعدقضى الله فيك وفي امرأتك قال فتلاعنا في المسجد وأنا شاهد فلما فرغا قال كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله حين فرغا من التلاعن فارقها عند النبي فقال ذاك تفريق بين كل متلاعنين
   صحيح مسلم3743سهل بن سعدنزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها قال عويمر كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله قال ابن شهاب فكانت سنة المتلاعنين
   سنن أبي داود2245سهل بن سعدأنزل فيك وفي صاحبتك قرآن فاذهب فأت بها قال سهل فتلاعنا وأنا مع الناس عند رسول الله فلما فرغا قال عويمر كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها عويمر ثلاثا قبل أن يأمره النبي فكانت تلك سنة المتلاعنين
   سنن أبي داود2251سهل بن سعدفرق بينهما رسول الله حين تلاعنا
   سنن أبي داود2248سهل بن سعدأبصروها فإن جاءت به أدعج العينين عظيم الأليتين فلا أراه إلا قد صدق
   سنن النسائى الصغرى3496سهل بن سعدأنزل الله فيك وفي صاحبتك فأت بها فجاء بها فتلاعنا فقال يا رسول الله والله لئن أمسكتها لقد كذبت عليها فارقها قبل أن يأمره رسول الله بفراقها فصارت سنة المتلاعنين
   سنن النسائى الصغرى3431سهل بن سعدنزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها فلما فرغ عويمر قال كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم536سهل بن سعدانزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فات بها
   بلوغ المرام940سهل بن سعدكذبت عليها يا رسول الله إن امسكتها فطلقها ثلاثا قبل ان يامره

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 536  
´غیر واقع شدہ یعنی فرضی مسائل پوچھنے سے اجتناب کرنا `
«. . . ان عويمرا العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي الانصاري، فقال له: ارايت يا عاصم لو ان رجلا وجد مع امراته رجلا ايقتله فتقتلونه ام كيف يفعل؟ . . .»
۔۔۔عویمر العجلانی رضی اللہ عنہ عاصم بن عدی الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے عاصم! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے؟ کیا وہ اسے قتل کر دے، تو آپ اس (قاتل) کو قتل کر دیں گے؟ یا وہ کیا کرے؟۔۔۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 536]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 566/2، 567 ح 1232، ك 29 ب 13، ح 34، التمهيد 183/6 - 185، الاستذكار: 1152 ● أخرجه البخاري 5259، ومسلم 1492، من حديث مالك به]
تفقہ:
شریعت میں لعان یہ ہے کہ خاوند چار دفعہ یہ قسم کھائے کہ میں اپنی بیوی کی طرف زنا کی نسبت کرنے یعنی اسے زنا سے متہم کرنے میں سچا ہوں اور پانچویں قسم یہ ہو کہ وہ کہے اگر وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہو تو وہ خدا کی لعنت کا مستحق ہو، پھر بیوی چار دفعہ خاوند کے جھوٹا ہونے پر قسم کھائے اور اس کی پانچویں قسم یہ ہو کہ اگر وہ سچا ہو تو وہ (بیوی) خدا کے غضب کی مستحق ہو یہ کہنے پر وہ حد زنا سے بری ہو جائے گی۔ [القاموس الوحيد ص 1478]
➋ لعان کا حکم قرآن مجید میں سورۃ النور میں نازل ہوا ہے۔ ديكهئے: [آيت: 6، 7]
➌ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لعان کے بعد خاوند بیوی میں خود بخود تفرقہ یعنی جدائی نہیں ہوتی بلکہ طلاق کے بعد جدائی ہوتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «باب اللعان و من طلق بعد اللعان» لعان کا باب اور جو شخص لعان کے بعد طلاق دے۔ [كتاب الطلاق باب: 29 قبل ح 5308]
➍ واقع شدہ مسئلہ پوچھنے میں شرمانا نہیں چاہئے اور غیر واقع شدہ یعنی فرضی مسائل پوچھنے سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہئے۔
➎ لعان کے بعد شرعی ثبوت کے بغیر فریقین پر حد جاری نہیں ہو گی۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 6   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 940  
´لعان کا بیان`
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے لعان کرنے والوں کے قصہ میں مروی ہے کہ جب دونوں لعان سے فارغ ہو گئے تو مرد بولا اے اللہ کے رسول! اور اگر میں اب اسے روک لوں گویا میں نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے پھر اس نے اس سے پہلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے حکم ارشاد فرماتے، تین طلاقیں دے دیں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 940»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب اللعان، حديث:5308، ومسلم، اللعان، حديث:1492.»
تشریح:
اس مرد نے اپنی لعان شدہ بیوی کو تین طلاقیں اس لیے دیں کہ اسے علم نہیں تھا کہ لعان بذات خود ہمیشہ کی جدائی کا موجب ہے‘ چنانچہ اس نے بیوی کو بذریعۂ طلاق ہی حرام کرنا چاہا‘ لہٰذا طلاق لغو ہوئی‘ کیونکہ طلاق اپنے مقام پر واقع ہی نہیں ہوئی۔
اگر ہم کہیں کہ جدائی محض لعان سے ہو جاتی ہے تو یہ ظاہر بات ہے، اور اگر کہیں کہ جدائی حاکم (اور عدالت) کے ذریعے سے واقع ہوتی ہے تو پھر یہ تو طے شدہ بات ہے کہ لعان کے بعد نکاح کے باقی رہنے کا کوئی امکان رہتا ہے نہ اس کے ہمیشہ رہنے کی کوئی سبیل ہی‘ بلکہ اس نکاح کو ختم کرنا اور عورت کو اس مرد پر ہمیشہ کے لیے حرام قرار دینا واجب ہوتا ہے‘ پس اس سے ثابت ہوا کہ تین طلاقیں محض مقصد لعان کو مؤکد کرنے کے لیے تھیں‘ اس لیے ایسے نکاح‘ جسے ہمیشہ کے لیے ختم کرنا مقصود ہوتا ہے‘ میں بیک وقت تین طلاقیں نافذ کرنے سے یہ ہر گز لازم نہیں آتا کہ جس نکاح کی بقا اور دوام مطلوب ہے اس میں بھی ایسا کرنا درست اور جائز ہے‘ لہٰذا ان لوگوں کا استدلال باطل ہوا جو یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں بیک وقت تین طلاقیں دینے اور ان کے واقع ہو جانے کا جواز موجود ہے۔
اور جب یہ طلاق غیرت و حمیت کی بنا پر دی گئی جبکہ ایسے موقع پر اس کا اظہار مطلوب بھی ہے اور قابل ستائش و تعریف بھی ‘ تو نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طلاق کے لغو ہونے کی اطلاع دینے کے لیے صرف لَا سَبِیلَ لَکَ عَلَیْھَا تیرا اس عورت پر کوئی حق نہیں کہنے پر اکتفا فرمایا جیسا کہ مسلم (۱۴۹۳)میں ہے۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ اب تیرا اس عورت پر کوئی حق باقی نہیں رہا‘ لہٰذا تیری طلاق واقع نہیں ہوگی بلکہ لغو ٹھہرے گی‘ اسی لیے آپ اس پر ناراض و غضبناک نہیں ہوئے جس طرح اس شخص پر ہوئے تھے جس کا قصہ محمود بن لبید نے بیان کیا ہے جو کہ طلاق کے باب میں (حدیث:۹۱۸ کے تحت) گزر چکا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 940   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2245  
´لعان کا بیان۔`
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عویمر بن اشقر عجلانی، عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے آ کر کہنے لگے: عاصم! ذرا بتاؤ، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی (اجنبی) شخص کو پا لے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر اس کے بدلے میں تم اسے بھی قتل کر دو گے، یا وہ کیا کرے؟ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھو، چنانچہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بغیر ضرورت) اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس کی اس قدر برائی کی کہ عاصم رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات گراں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2245]
فوائد ومسائل:
حضرت عويمر رضي الله عنه کا طلاق دینا گیرت اور غضب کی بناء پر تھا نہ کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے۔
(اس مسئلے کی وضاحت آگے حدیث نمبر 2250کے فائدے میں آرہی ہے۔
)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2245   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4746  
4746. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! بتائیں اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو اپنی بیوی کے ہمراہ مصروف کار دیکھے تو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ اس صورت میں آپ اسے بھی (قصاص میں) قتل کر دیں گے؟ یا پھر وہ کیا کرے؟ اللہ تعالٰی نے ان کے متعلق لعان کا حکم نازل فرمایا جو قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہے۔ چنانچہ ان دونوں نے لعان کیا۔ میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا۔ آپ نے اس عورت کو اس سے علیحدہ کر دیا۔ اب یہی طریقہ رائج ہو گیا کہ لعان کرنے والوں کے درمیان علیحدگی کر دی جائے۔ وہ عورت حاملہ تھی۔ مرد نے اس حمل کا انکار کر دیا تو اس کا بیٹا ماں کی طرف منسوب ہو کر پکارا جاتا تھا۔ پھر وراثت کے متعلق یہ طریقہ جاری ہوا کہ وہ لڑکا اپنی ماں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4746]
حدیث حاشیہ:
لعان کا بچہ اپنے باپ کا تو وارث نہ ہوگا کیونکہ باپ نے اپنا بیٹا ہونے سے انکار کیا ہے ماں کا وارث ضرور ہوگا۔
اس لئے کہ ماں نے اس کا ولد الزنا ہونا تسلیم نہیں کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4746   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4746  
4746. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! بتائیں اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو اپنی بیوی کے ہمراہ مصروف کار دیکھے تو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ اس صورت میں آپ اسے بھی (قصاص میں) قتل کر دیں گے؟ یا پھر وہ کیا کرے؟ اللہ تعالٰی نے ان کے متعلق لعان کا حکم نازل فرمایا جو قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہے۔ چنانچہ ان دونوں نے لعان کیا۔ میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا۔ آپ نے اس عورت کو اس سے علیحدہ کر دیا۔ اب یہی طریقہ رائج ہو گیا کہ لعان کرنے والوں کے درمیان علیحدگی کر دی جائے۔ وہ عورت حاملہ تھی۔ مرد نے اس حمل کا انکار کر دیا تو اس کا بیٹا ماں کی طرف منسوب ہو کر پکارا جاتا تھا۔ پھر وراثت کے متعلق یہ طریقہ جاری ہوا کہ وہ لڑکا اپنی ماں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4746]
حدیث حاشیہ:
لعان کے بعد مرد، عورت سے حق مہر یا دیگر اخراجات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا، نیز دوران عدت میں عورت کا نان ونفقہ یا رہائش وغیرہ مرد کے ذمے نہ ہوگی۔
پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب ہوگا۔
زانی یا خاوند کی طرف اسے منسوب نہیں کیا جائے گا۔
اگروضع حمل کےبعد عورت قرائن کی بنا پر مجرم ثابت ہوجائے توبھی اسے سنگسار نہیں کیا جائے گا، چونکہ خاوند اس لڑکے سے انکار کررہا ہے، اس لیے لعان کا بچہ خاوند کا وارث نہیں ہوگا لیکن ماں کا وارث ہوگا کیونکہ اس نے اسے ولد الزنا ہونا تسلیم نہیں کیا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4746   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.