الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
The Book of Medicine
45. بَابُ لاَ هَامَةَ:
45. باب: الو کو منحوس سمجھنا لغو ہے۔
(45) Chapter. No Hama.
حدیث نمبر: 5757
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن الحكم، حدثنا النضر، اخبرنا إسرائيل، اخبرنا ابو حصين، عن ابي صالح، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ".
ہم سے محمد بن حکم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے نضر بن شمیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو اسرائیل نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ابوحصین (عثمان بن عاصم اسدی) نے خبر دی، انہیں ابوصالح ذکوان نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھوت لگ جانا بدشگونی یا الو یا صفر کی نحوست یہ کوئی چیز نہیں ہے۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "There is no 'Adha, nor Tiyara, nor Hama, nor Safar."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 71, Number 653


   صحيح البخاري5717عبد الرحمن بن صخرلا عدوى لا صفر لا هامة
   صحيح البخاري5755عبد الرحمن بن صخرلا طيرة خيرها الفأل وما الفأل يا رسول الله قال الكلمة الصالحة يسمعها أحدكم
   صحيح البخاري5757عبد الرحمن بن صخرلا عدوى لا طيرة لا هامة لا صفر
   صحيح البخاري0عبد الرحمن بن صخرمن أعدى الأول
   صحيح البخاري5754عبد الرحمن بن صخرلا طيرة خيرها الفأل وما الفأل قال الكلمة الصالحة يسمعها أحدكم
   صحيح مسلم5798عبد الرحمن بن صخرلا طيرة خيرها الفأل وما الفأل قال الكلمة الصالحة يسمعها أحدكم
   صحيح مسلم5794عبد الرحمن بن صخرلا عدوى لا هامة لا نوء لا صفر
   صحيح مسلم5802عبد الرحمن بن صخرلا عدوى لا طيرة أحب الفأل الصالح
   صحيح مسلم5803عبد الرحمن بن صخرلا عدوى لا هامة لا طيرة أحب الفأل الصالح
   سنن أبي داود3912عبد الرحمن بن صخرلا عدوى لا هامة لا نوء لا صفر
   سنن أبي داود3913عبد الرحمن بن صخرلا غول
   سنن أبي داود3911عبد الرحمن بن صخرلا عدوى لا طيرة لا صفر لا هامة
   مسندالحميدي1150عبد الرحمن بن صخرلا عدوى، ولا طيرة، جرب بعير فأجرب مائة، ومن أعدى الأول

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3911  
´بدشگونی اور فال بد لینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ کسی کو کسی کی بیماری لگتی ہے، نہ کسی چیز میں نحوست ہے، نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے اور نہ کسی مردے کی کھوپڑی سے الو کی شکل نکلتی ہے تو ایک بدوی نے عرض کیا: پھر ریگستان کے اونٹوں کا کیا معاملہ ہے؟ وہ ہرن کے مانند (بہت ہی تندرست) ہوتے ہیں پھر ان میں کوئی خارشتی اونٹ جا ملتا ہے تو انہیں بھی کیا خارشتی کر دیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھلا پہلے اونٹ کو کس نے خارشتی کیا؟۔‏‏‏‏ معمر کہتے ہیں: زہری نے کہا: مجھ سے ایک شخص نے ابوہریرہ کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3911]
فوائد ومسائل:
1) رسول اللہ ﷺ نے اعرابی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے سمجھایا کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوتا ہے۔
یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ایک خارش زدہ اُونٹ نے باقی اُنٹ بھی خارش زدہ کر دیئے، بلکہ سن کچھ اللہ کی طرف سے اور اس کی مشیت سے ہو تا ہے۔
ایک گلے میں کتنے ہی اُونٹ ہوتے ہیں جو اس مرض سے محفوظ بھی رہتے ہیں
2) بیمار اُونٹ کا صحت مند کے ساتھ ملانے کی ممانعت اس غرض سے ہے کہ کم علم لوگ لا یعنی اوہامیں مبتلا نہ ہوں۔

3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا پہلے حدیث بیان کرکےاس کا انکار کرنا کو ئی تعجب کی بات نہیں، کیونکہ بھول جانا بشری تقاضا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3911   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5757  
5757. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: چھوت لگ جانا، بدشگونی لینا اور الو یا صفر کی نحوست کوئی شے نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5757]
حدیث حاشیہ:
الو یعنی بوم ایک شکاری پرندہ ہے اس کو دن میں نہیں سوجھتا تو بیچارہ رات کو نکلا کرتا ہے۔
آدمیوں کے ڈرسے اکثر جنگل اور ویرانہ میں رہتا ہے۔
عرب لوگ الو کو منحوس سمجھتے ان کا اعتقاد یہ تھا کہ آدمی کی روح مرنے کے بعد الو کے قالب میں آ جاتی ہے اور پکارتی پھرتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لغو خیال کا رد کیا۔
صفر پیٹ کا ایک کیڑا ہے جو بھوک کے وقت پیٹ کو نوچتا ہے، کبھی آدمی اس کی وجہ سے مر جاتا ہے عرب لوگ اس بیماری کو متعدی جانتے تھے۔
امام مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے صفر کے یہی معنی نقل کئے ہیں۔
بعضوں نے کہا صفر سے وہ مہینہ مراد ہے جو محرم کے بعد آتا ہے۔
عرب لوگ اسے بھی منحوس سمجھتے تھے اب تک ہندوستان میں بعض لوگ تیرہ تیزی کو منحوس جانتے اور ان دنوں میں شادی بیاہ نہیں کرتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5757   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5757  
5757. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: چھوت لگ جانا، بدشگونی لینا اور الو یا صفر کی نحوست کوئی شے نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5757]
حدیث حاشیہ:
عربوں کے ہاں عقیدہ تھا کہ مقتول کی ہڈیاں جب بوسیدہ اور پرانی ہو جاتی ہیں تو اس کی کھوپڑی سے ایک الو برآمد ہوتا ہے جو اس کی قبر کے اردگرد چکر لگاتا رہتا ہے اور پیاس، پیاس کہتا ہے۔
اگر مرنے والے کا بدلہ لے لیا جائے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے۔
اس وہم کی بنیاد پر وہ لوگ، جیسے بھی بن پڑتا بدلہ لینے پر اصرار کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لغو خیال کی تردید فرمائی ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ ابن جریج نے حضرت عطاء سے پوچھا:
"هَامَه" کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا:
لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ پرندہ انسانی روح ہوتا ہے جو چیختا چلاتا رہتا ہے، حالانکہ یہ انسانی روح نہیں بلکہ کوئی زمینی پرندہ ہے۔
(سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3918)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5757   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.