الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز خوف کا بیان
The Book of Salat-Ul-Khauf (Fear Prayer).
6. بَابُ التَّبْكِيرِ وَالْغَلَسِ بِالصُّبْحِ وَالصَّلاَةِ عِنْدَ الإِغَارَةِ وَالْحَرْبِ:
6. باب: حملہ کرنے سے پہلے صبح کی نماز اندھیرے میں جلدی پڑھ لینا اسی طرح لڑائی میں (طلوع فجر کے بعد فوراً ادا کر لینا)۔
(6) Chapter. Takbir (Allah is the Most Great) and offering the Fajr prayer early when it is still dark and offering As-Salat (the prayers) while attacking the enemy and in battles.
حدیث نمبر: 947
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، قال: حدثنا حماد، عن عبد العزيز بن صهيب، وثابت البناني، عن انس بن مالك،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الصبح بغلس، ثم ركب فقال: الله اكبر خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين، فخرجوا يسعون في السكك ويقولون: محمد، والخميس، قال: والخميس الجيش فظهر عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقتل المقاتلة وسبى الذراري، فصارت صفية لدحية الكلبي وصارت لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم تزوجها وجعل صداقها عتقها، فقال عبد العزيز لثابت: يا ابا محمد انت سالت انسا ما امهرها؟ قال: امهرها نفسها فتبسم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، وَثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الصُّبْحَ بِغَلَسٍ، ثُمَّ رَكِبَ فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ، فَخَرَجُوا يَسْعَوْنَ فِي السِّكَكِ وَيَقُولُونَ: مُحَمَّدٌ، وَالْخَمِيسُ، قَالَ: وَالْخَمِيسُ الْجَيْشُ فَظَهَرَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَتَلَ الْمُقَاتِلَةَ وَسَبَى الذَّرَارِيَّ، فَصَارَتْ صَفِيَّةُ لِدِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ وَصَارَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ تَزَوَّجَهَا وَجَعَلَ صَدَاقَهَا عِتْقَهَا، فَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيز لِثَابِتٍ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَنْتَ سَأَلْتَ أَنَسًا مَا أَمْهَرَهَا؟ قَالَ: أَمْهَرَهَا نَفْسَهَا فَتَبَسَّمَ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب اور ثابت بنانی نے، بیان کیا ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھا دی، پھر سوار ہوئے (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر پہنچ گئے اور وہاں کے یہودیوں کو آپ کے آنے کی اطلاع ہو گئی) اور فرمایا «الله اكبر» خیبر پر بربادی آ گئی۔ ہم تو جب کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہو گی۔ اس وقت خیبر کے یہودی گلیوں میں یہ کہتے ہوئے بھاگ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر سمیت آ گئے۔ راوی نے کہا کہ (روایت میں) لفظ «خميس» لشکر کے معنی میں ہے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوئی۔ لڑنے والے جوان قتل کر دئیے گئے، عورتیں اور بچے قید ہوئے۔ اتفاق سے صفیہ، دحیہ کلبی کے حصہ میں آئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا اور آزادی ان کا مہر قرار پایا۔ عبدالعزیز نے ثابت سے پوچھا: ابو محمد! کیا تم نے انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تھا کہ صفیہ کا مہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا تھا انہوں نے جواب دیا کہ خود انہیں کو ان کے مہر میں دے دیا تھا۔ کہا کہ ابو محمد اس پر مسکرا دیئے۔

Narrated Anas bin Malik: Allah's Apostle (p.b.u.h) offered the Fajr prayer when it was still dark, then he rode and said, 'Allah Akbar! Khaibar is ruined. When we approach near to a nation, the most unfortunate is the morning of those who have been warned." The people came out into the streets saying, "Muhammad and his army." Allah's Apostle vanquished them by force and their warriors were killed; the children and women were taken as captives. Safiya was taken by Dihya Al-Kalbi and later she belonged to Allah's Apostle go who married her and her Mahr was her manumission.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 14, Number 68


   صحيح البخاري371أنس بن مالكغزا خيبر فصلينا عندها صلاة الغداة بغلس فركب نبي الله وركب أبو طلحة وأنا رديف أبي طلحة فأجرى نبي الله في زقاق خيبر وإن ركبتي لتمس فخذ نبي الله ثم حسر الإزار عن فخذه حتى إني أنظر إلى بياض فخذ نبي الله
   صحيح البخاري4197أنس بن مالكخربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح البخاري3647أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح البخاري2945أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح البخاري2944أنس بن مالكإذا غزا قوما لم يغر حتى يصبح فإن سمع أذانا أمسك وإن لم يسمع أذانا أغار بعد ما يصبح فنزلنا خيبر ليلا
   صحيح البخاري947أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين خرجوا يسعون في السكك ويقولون محمد والخميس قال والخميس الجيش قتل المقاتلة وسبى الذراري صارت صفية لدحية الكلبي وصارت لرسول الله
   صحيح البخاري610أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح البخاري2991أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين أصبنا حمرا فطبخناها فنادى منادي النبي إن الله ورسوله ينهيانكم عن لحوم الحمر أكفئت القدور بما فيها
   صحيح البخاري4200أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين خرجوا يسعون في السكك قتل النبي المقاتلة وسبى الذرية كان في السبي صفية صارت إلى دحية الكلبي ثم صارت إلى النبي فجعل عتقها صداقها
   صحيح مسلم4667أنس بن مالكإنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح مسلم4666أنس بن مالكخربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين هزمهم الله
   صحيح مسلم4665أنس بن مالكغزا خيبر قال فصلينا عندها صلاة الغداة بغلس فركب نبي الله وركب أبو طلحة وأنا رديف أبي طلحة فأجرى نبي الله في زقاق خيبر وإن ركبتي لتمس فخذ نبي الله وانحسر الإزار عن فخذ نبي الله وإ
   صحيح مسلم3500أنس بن مالكخربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين هزمهم الله وقعت في سهم دحية جارية جميلة اشتراها رسول الله بسبعة أرؤس ثم دفعها إلى أم سليم تصنعها له وتهيئها تعتد في بيتها وهي صفية بنت حيي قال وجعل
   جامع الترمذي1550أنس بن مالكإذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   سنن أبي داود3009أنس بن مالكغزا خيبر فأصبناها عنوة فجمع السبي
   سنن النسائى الصغرى548أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر مرتين إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   سنن النسائى الصغرى3382أنس بن مالكغزا خيبر فصلينا عندها الغداة بغلس فركب النبي وركب أبو طلحة وأنا رديف أبي طلحة فأخذ نبي الله في زقاق خيبر وإن ركبتي لتمس فخذ رسول الله وإني لأرى بياض فخذ نبي الله فلما دخل القرية ق
   بلوغ المرام23أنس بن مالك ان الله ورسوله ينهيانكم عن لحوم الحمر الاهلية،‏‏‏‏ فإنها رجس
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم563أنس بن مالكالله اكبر، خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   المعجم الصغير للطبراني581أنس بن مالك الله أكبر ، خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 23  
´گدھے کا گوشت بالاتفاق حرام ہے`
«. . . فنادى: ان الله ورسوله ينهيانكم عن لحوم الحمر الاهلية،‏‏‏‏ فإنها رجس . . .»
. . . باآواز بلند اعلان کیا کہ اللہ اور اس کا رسول دونوں تمہیں گھریلو گدھوں کے گوشت کو کھانے سے منع فرماتے ہیں، کیونکہ وہ «رجس» (ناپاک) ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 23]

لغوی تشریح:
«يَوْمُ خَيْبَرَ» غزوۂ خیبر کا دن مراد ہے۔ خیبر مدینہ کی شمالی جانب 96 میل کے فاصلے پر ایک شہر ہے۔ یہاں یہود رہتے تھے۔ یہ غزوہ یہود کے ساتھ محرم 7 ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد واقع ہوا۔ فتح خیبر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسی جگہ اس شرط پر رہنے کا حق دیا کہ وہ اپنے کھیتوں کے اناج اور باغات کے پھلوں کا آدھا حصہ مسلمانوں کو دیں گے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کو تیماء اور اریحا کی طرف جلا وطن کر دیا۔
«يَنْهَيَانِكُمْ» میں تثنیہ کی ضمیر اللہ اور اس کے رسول کی طرف راجع ہے، یعنی تمہیں اللہ اور اس کا رسول منع فرماتے ہیں۔
«الْحُمُرِ» حا اور میم کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ اس کا واحد حمار ہے یعنی گدھا۔
«الْأَهْلِيَّةِ» گھریلو، پالتو (جنگلی نہیں) اہل کی طرف نسبت ہے، یعنی وہ جانور جسے انسان اپنے گھر میں اہل و عیال کی طرح پرورش کرتا اور پالتا ہے۔
«رِجْسٌ» را کے کسرہ اور جیم کے سکون کے ساتھ ہے۔ ہر وہ چیز جسے انسان گندگی تصور کرتا ہے، خواہ وہ نجس ہو یا نہ ہو، لہٰذا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ گدھے کا جوٹھا نجس اور ناپاک ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ گدھے کا گوشت بالاتفاق حرام ہے۔ صرف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اسے جائز سمجھتے تھے۔
➋ گدھے کا جوٹھا پاک ہے یا نہیں، اس بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام مالک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ پاک کہتے ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ کا ایک قول ہے کہ یہ نجس ہے۔ امام حسن بصری، ابن سیرین، اوزاعی اور اسحاق رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر کوئی پانی نہ ملے تو گدھے کے جوٹھے پانی سے وضو کیا جائے اور تیمم بھی کر لیا جائے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی یہی رائے ہے۔ مگر امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کی بات زیادہ قرین صواب ہے۔ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے بھی اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ «والله اعلم»

راویٔ حدیث: SR سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ER ابوطلحہ کنیت اور نام زید بن سہل بن اسود بن حرام انصاری ہے۔ کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ بیعت عقبہ اور تمام غزوات میں شریک رہے۔ غزوہ احد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے ان کا ہاتھ شل ہو گیا۔ معرکہ حنین میں بیس دشمنان اسلام کو قتل کیا۔ 34 یا بقول بعض 51 ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 23   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 563  
´اہم موقع پر اللہ اکبر کہنا مسنون ہے`
«. . . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الله اكبر، خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر، خراب ہوا خیبر، جب ہم کسی قوم کے پاس پہنچتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جنہیں (جہنم اور عذاب سے) ڈرایا گیا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 563]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2945، من حديث مالك به وصرح حميد الطّويل بالسماع عند البخاري 2943]

تفقه:
➊ جن کافروں تک دین اسلام کی دعوت پہلے پہنچ چکی ہو تو انھیں جنگ کے وقت دوبارہ دعوت دینا ضروری نہیں ہے۔
➋ کفار کے خلاف جہادی مہم میں رات کو تیاری کر کے صبح کے وقت حملہ کرنا بہتر ہے۔
➌ اپنی بات کی تائید کے لئے شرعی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے عند الضرورت قرآنی آیات سے استشہاد و استدلال جائز ہے۔
➍ اہم موقع پر اللہ اکبر کہنا مسنون ہے لیکن یاد رہے کہ ہمارے زمانے میں مروجہ نعرہ تکبیر کا کوئی ثبوت ہمارے علم میں نہیں ہے بلکہ سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ مرفوع حدیث سے اس کی ممانعت ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 2992، وصحيح مسلم 2704]
➎ وہ کافر جو دن رات مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوشاں ہیں، ان کے خلاف حملہ کی ابتداء کر کے اقدامی جہاد کیا جا سکتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 149   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 548  
´سفر میں غلس میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھی، (آپ خیبر والوں کے قریب ہی تھے) پھر آپ نے ان پر حملہ کیا، اور دو بار کہا: «اللہ أكبر» اللہ سب سے بڑا ہے خیبر ویران و برباد ہوا، جب ہم کسی قوم کے علاقہ میں اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 548]
548 ۔ اردو حاشیہ:
➊۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حملہ صبح کے بعد کیا کیونکہ آپ صبح کی اذان کا انتظار فرماتے تھے۔ اگر اذان سنتے تو حملہ نہ کرتے تاکہ وہاں مسلمان حملے میں نہ مارے جائیں اور اگر اذان نہ سنتے تو حملہ کر دیتے کہ سب کافر ہیں۔
خیبر ویران ہوا۔ یہ پیش گوئی ہو سکتی ہے جو واقعتاً پوری ہوئی۔ دعا بھی ہو سکتی ہے، پھر معنی ہوں گے خیبر ویران ہو جائے۔ یہ جملہ بطور فال بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر پہنچے تو وہ آگے سے ٹوکرے اور کدالیں لے کر آرہے تھے۔
➌جن کفار کو پہلے اسلام کی دعوت دی جاچکی ہو، ان پرچڑھائی کرنا جائز ہے۔
➍دشمن کا سامنا کرتے وقت اللہ اکبر کہنا مسنون عمل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 548   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1550  
´رات میں دشمن پر چھاپہ مارنے اور حملہ کرنے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر روانہ ہوئے تو وہاں رات کو پہنچے، اور آپ جب بھی کسی قوم کے پاس رات کو پہنچتے تو جب تک صبح نہ ہو جاتی اس پر حملہ نہیں کرتے ۱؎، پھر جب صبح ہو گئی تو یہود اپنے پھاوڑے اور ٹوکریوں کے ساتھ نکلے، جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہا: محمد ہیں، اللہ کی قسم، محمد لشکر کے ہمراہ آ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر! خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں اس وقت ڈرائے گئے لوگوں کی صبح، بڑی بری ہوتی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1550]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ اذان سے یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ مسلمانوں کی بستی ہے یا نہیں،
چنانچہ اگراذان سنائی دیتی تو حملہ سے رک جاتے بصورت دیگر حملہ کرتے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1550   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3009  
´خیبر کی زمینوں کے حکم کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے جہاد کیا، ہم نے اسے لڑ کر حاصل کیا، پھر قیدی اکٹھا کئے گئے (تاکہ انہیں مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3009]
فوائد ومسائل:
امام ابو دائود یہ حدیث بیا ن کرکے واضح کرنا چاہتے ہیں۔
کہ خیبر کا کچھ حصہ قتال سے اور کچھ حصہ صلح سے حاصل ہوا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3009   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 947  
947. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر صبح سویرے منہ اندھیرے پڑھی پھر سوار ہوئے، اس کے بعد فرمایا: اللہ أکبر، خیبر ویران ہو گیا، یقیناً جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو تنبیہ کردہ لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ لوگ، یعنی یہودی گلی کوچوں میں یہ کہتے ہوئے دوڑنے لگے: محمد اپنے لشکر سمیت آ گیا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے ان پر فتح حاصل کی، جنگجو لوگوں کو قتل کر دیا، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا، حضرت صفیہ‬ ؓ د‬حیہ کلبی کے حصے میں آئیں، پھر رسول اللہ ﷺ کے لیے ہو گئیں جن سے بعد میں آپ نے نکاح کر لیا اور ان کی آزادی ہی کو ان کا حق مہر قرار دیا۔ (راوی حدیث) عبدالعزیز نے اپنے شیخ ثابت سے دریافت کیا: اے ابو محمد! آپ نے حضرت انس ؓ سے پوچھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان (سیدہ صفیہ ؓ) کا حق مہر کیا مقرر کیا تھا؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ان کی ذات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:947]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ ﷺ نے صبح کی نماز سویرے اندھیرے منہ پڑھ لی اورسوار ہوتے وقت نعرہ تکبیر بلند کیا۔
خمیس لشکر کو اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں پانچ ٹکڑیاں ہوتی ہیں مقدمہ، ساقہ، میمنہ، میسرہ، قلب۔
صفیہ شاہزادی تھی آنحضرت ﷺ نے ان کی دلجوئی اور شرافت نسبی کی بنا پر انہیں اپنے حرم میں لے لیا اور آزاد فرما دیا ان ہی کو ان کے مہر میں دینے کا مطلب ان کوآزاد کر دینا ہے، بعد میں یہ خاتون ایک بہترین وفادار ثابت ہوئیں۔
امہا ت المومنین میں ان کا بھی بڑا مقام ہے۔
رضي اللہ عنها وأرضاھا۔
علامہ خطیب بغدادی ؒ لکھتے ہیں کہ حضرت صفیہ حی بن اخطب کی بیٹی ہیں جو بنی اسرائیل میں سے تھے اور ہارون ابن عمران ؑ کے نواسہ تھے۔
یہ صفیہ کنانہ بن ابی الحقیق کی بیوی تھیں جو جنگ خیبر میں بماہ محرم 7 ھ قتل کیا گیا اور یہ قید ہو گئیں تو ان کی شرافت نسبی کی بنا پر آنحضرت ﷺ نے ان کو اپنے حرم میں داخل فرمالیا، پہلے دحیہ بن خلیفہ کلبی کے حصہ غنیمت میں لگا دی گئی تھیں۔
بعد میں آنحضرت ﷺ نے ان کا حال معلوم فرماکر سات غلاموں کے بدلے ان کو دحیہ کلبی سے حاصل فرما لیا اس کے بعد یہ برضا ورغبت اسلام لے آئیں آنحضرت ﷺ نے اپنی زوجیت سے ان کومشرف فرمایا اور ان کو آزاد کر دیا اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر مقرر فرمایا۔
حضرت صفیہ نے 50 ھ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں۔
ان سے حضرت انس اور ابن عمر وغیرہ روایت کرتے ہیں حیی میں یائے مہملہ کا پیش اور نیچے دو نقطوں والی یاء کا زبر اور دوسری یاء پر تشدید ہے۔
صلوةالخو ف کے متعلق علامہ شوکانی ؒ نے بہت کافی تفصیلات پیش فرمائی ہیں اور چھ سات طریقوں سے اس کے پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔
علامہ فرماتے ہیں:
وَقَدْ اُخْتُلِفَ فِي عَدَدِ الْأَنْوَاعِ الْوَارِدَةِ فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ. فَقَالَ ابْنُ الْقِصَارِ الْمَالِكِيُّ:
إنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - صَلَّاهَا فِي عَشَرَةِ مَوَاطِنَ. وَقَالَ النَّوَوِيُّ:
إنَّهُ يَبْلُغُ مَجْمُوعُ أَنْوَاعِ صَلَاةِ الْخَوْفِ سِتَّةَ عَشَرَ وَجْهًا كُلُّهَا جَائِزَةٌ. وَقَالَ الْخَطَّابِيِّ:
صَلَاةُ الْخَوْفِ أَنْوَاعٌ صَلَّاهَا النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي أَيَّامٍ مُخْتَلِفَةٍ وَأَشْكَالٍ مُتَبَايِنَةٍ يَتَحَرَّى فِي كُلِّهَا مَا هُوَ أَحْوَطُ لِلصَّلَاةِ وَأَبْلَغُ فِي الْحِرَاسَةِ الخ۔
(نیل الاوطار)
یعنی صلوۃ خوف کی قسموں میں اختلاف ہے جو وارد ہوئی ہیں ابن قصار مالکی نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے اسے دس جگہ پڑھا ہے اور نووی کہتے ہیں کہ اس نماز کی تمام قسمیں سولہ تک پہنچی ہیں اور وہ سب جائز درست ہیں۔
خطابی نے کہا کہ صلوۃ الخوف کو آنحضرت ﷺ نے ایام مختلفہ میں مختلف طریقوں سے ادا فرمایا ہے۔
اس میں زیادہ تر قابل غور چیز یہی رہی ہے کہ نماز کے لیے بھی ہر ممکن احتیاط سے کام لیا جائے اور اس کا بھی خیال رکھا جائے کہ حفاظت اور نگہبانی میں بھی فرق نہ آنے پائے۔
علامہ ابن حزم نے اس کے چودہ طریقے بتلائے ہیں اور ایک مستقل رسالہ میں ان سب کا ذکر فرمایا ہے۔
الحمد للہ کہ اواخر محرم 1389ھ میں کتاب صلوة الخوف کی تبیض سے فراغت حاصل ہوئی، اللہ پاک ان لغزشوں کو معاف فرمائے جو اس مبارک کتاب کا ترجمہ لکھنے اور تشریحات پیش کرنے میں مترجم سے ہوئی ہونگی۔
وہ غلطیاں یقینامیری طرف سے ہیں۔
اللہ کے حبیب ﷺ کے فرامین عالیہ کا مقام بلند وبرتر ہے، آپ کی شان أوتیت جوامع الکلم ہے۔
اللہ سے مکرر دعا ہے کہ وہ میری لغزشوں کو معاف فرما کر اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے اور اس مبارک کتاب کے جملہ قدردانوں کو برکات دارین سے نوازے۔
آمین یا رب العالمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 947   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:947  
947. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر صبح سویرے منہ اندھیرے پڑھی پھر سوار ہوئے، اس کے بعد فرمایا: اللہ أکبر، خیبر ویران ہو گیا، یقیناً جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو تنبیہ کردہ لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ لوگ، یعنی یہودی گلی کوچوں میں یہ کہتے ہوئے دوڑنے لگے: محمد اپنے لشکر سمیت آ گیا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے ان پر فتح حاصل کی، جنگجو لوگوں کو قتل کر دیا، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا، حضرت صفیہ‬ ؓ د‬حیہ کلبی کے حصے میں آئیں، پھر رسول اللہ ﷺ کے لیے ہو گئیں جن سے بعد میں آپ نے نکاح کر لیا اور ان کی آزادی ہی کو ان کا حق مہر قرار دیا۔ (راوی حدیث) عبدالعزیز نے اپنے شیخ ثابت سے دریافت کیا: اے ابو محمد! آپ نے حضرت انس ؓ سے پوچھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان (سیدہ صفیہ ؓ) کا حق مہر کیا مقرر کیا تھا؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ان کی ذات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:947]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ شدت جنگ کے وقت جب اطمینان و سکون میسر نہ ہو تو نماز کو مؤخر کر دیا جائے۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید میں یہ عنوان قائم کیا ہے کہ ایسے حالات میں نماز کو مؤخر کر دینا ضروری نہیں بلکہ اطمینان و سکون میسر نہیں ہے تو بھی اسے اول وقت پڑھا جا سکتا ہے۔
(عمدة القاري: 149/5)
اگر عنوان کا آغاز لفظ تکبیر سے ہے تو امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ ہر ہولناک اور پریشان کن کام کے شروع میں اللہ أکبر کہنا ذکر مسنون ہے جیسا کہ جہاد کے موقع پر نعرۂ تکبیر بلند کرنا مجاہدین کی ایک شناختی علامت ہے۔
(فتح الباري: 588/2) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دشمن پر چڑھائی کرتے وقت الله أكبر کہنا درست ہے لیکن دینی اجتماعات کے موقع پر تقاریر کے دوران میں نعرۂ تکبیر لگانا محتاج دلیل ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 947   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.