الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
3. باب وُجُوبِ الْكَفَّارَةِ عَلَى مَنْ حَرَّمَ امْرَأَتَهُ وَلَمْ يَنْوِ الطَّلاَقَ:
3. باب: کفارہ کا واجب ہونا اس پر جس نے اپنی عورت سے کہا: کہ تو مجھ پر حرام ہے اور نیت طلاق کی نہ تھی۔
حدیث نمبر: 3678
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا حجاج بن محمد ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني عطاء ، انه سمع عبيد بن عمير ، يخبر انه: سمع عائشة ، تخبر ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يمكث، عند زينب بنت جحش فيشرب، عندها عسلا، قالت: فتواطات انا وحفصة ان ايتنا ما دخل عليها النبي صلى الله عليه وسلم، فلتقل: إني اجد منك ريح مغافير اكلت مغافير، فدخل على إحداهما، فقالت ذلك له، فقال: " بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش، ولن اعود له "، فنزل: لم تحرم ما احل الله لك إلى قوله: إن تتوبا سورة التحريم آية 1 - 4، لعائشة، وحفصة، وإذ اسر النبي إلى بعض ازواجه حديثا سورة التحريم آية 3، لقوله: بل شربت عسلا ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ ، يُخْبِرُ أَنَّهُ: سَمِعَ عَائِشَةَ ، تُخْبِرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ، عَنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَيَشْرَبُ، عَنْدَهَا عَسَلًا، قَالَت: فَتَوَاطَأتُ أَنَا وَحَفْصَةُ أَنَّ أَيَّتَنَا مَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْتَقُلْ: إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا، فقَالَت ذَلِكَ لَهُ، فقَالَ: " بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عَنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَلَنْ أَعُودَ لَهُ "، فَنَزَلَ: لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ إِلَى قَوْلِهِ: إِنْ تَتُوبَا سورة التحريم آية 1 - 4، لِعَائِشَةَ، وَحَفْصَةَ، وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا سورة التحريم آية 3، لِقَوْلِهِ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا ".
عبید بن عمیر نے خبر دی کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ بتا رہی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہرتے اور ان کے پاس سے شہد نوش فرماتے تھے: کہا: میں اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے اتفاق کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم (پہلے) تشریف لائیں، وہ کہے: مجھے آپ سے مغافیر کی بو محسوس ہو رہی ہے۔ کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟آپ ان میں سے ایک کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کے سامنے یہی بات کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلکہ میں نے زینب بنت حجش کے ہاں سے شہد پیا ہے۔ اور آئندہ ہرگز نہیں پیوں گا۔" اس پر (قرآن) نازل ہوا: "آپ کیوں حرام ٹھہراتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے" اس فرمان تک: "اگر تم دونوں توبہ کرو۔"۔۔ یہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا کے لیے کہا گیا۔۔ "اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی سے راز کی بات کہی" اس سے مراد (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان) ہے: "بلکہ میں نے شہد پیا ہے <انڈر لائن > 
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ٹھہرتے اور وہاں شہد پیتے۔ تو میں نے اور حفصہ نے ایکا (اتفاق) کیا کہ ہم میں سے جس کے ہاں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں وہ کہے۔ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مغافیر کی بو محسوس ہوتی ہے، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر کھایا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ایک کے ہاں تشریف لائے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات کہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ میں نے زینب بنت جحش کے ہاں شہد پیا ہے اور آئندہ نہیں پیوں گا۔ اس پر یہ آیت اتری: (آپ وہ چیز کیوں حرام ٹھہراتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال قرار دی ہے۔) ﴿اِنْ تَتُوْبَا﴾
ترقیم فوادعبدالباقی: 1474

   صحيح البخاري4912عائشة بنت عبد اللهأشرب عسلا عند زينب بنت جحش فلن أعود له وقد حلفت لا تخبري بذلك أحدا
   صحيح البخاري6691عائشة بنت عبد اللهشربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك
   صحيح البخاري5267عائشة بنت عبد اللهيمكث عند زينب بنت جحش ويشرب عندها عسلا فتواصيت أنا وحفصة أن أيتنا دخل عليها النبي فلتقل إني أجد منك ريح مغافير أكلت مغافير فدخل على إحداهما فقالت له ذلك فقال لا بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له
   صحيح مسلم3678عائشة بنت عبد اللهشربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزل لم تحرم ما أحل الله لك إلى قوله إن تتوبا
   سنن أبي داود3714عائشة بنت عبد اللهيمكث عند زينب بنت جحش فيشرب عندها عسلا فتواصيت أنا وحفصة أيتنا ما دخل عليها النبي فلتقل إني أجد منك ريح مغافير فدخل على إحداهن فقالت له ذلك فقال بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت لم تحرم ما أحل الله لك تبتغي
   سنن النسائى الصغرى3410عائشة بنت عبد اللهشربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك
   سنن النسائى الصغرى3826عائشة بنت عبد اللهشربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك إلى إن تتوبا إلى الله
   سنن النسائى الصغرى3450عائشة بنت عبد اللهيمكث عند زينب ويشرب عندها عسلا فتواصيت وحفصة أيتنا ما دخل عليها النبي فلتقل إني أجد منك ريح مغافير فدخل على إحديهما فقالت ذلك له فقال بل شربت عسلا عند زينب وقال لن أعود له فنزل يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3678  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
مَغَافِيْر:
مَغْفُوْر کی جمع ہے۔
یہ عرفط نامی بوٹی کا ایک قسم کا پھول ہے جس سے بدبو پھوٹتی ہے۔
فوائد ومسائل:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو چونکہ یہ بات معلوم تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں شہد پیتے ہیں اور شہد کی مکھیاں علاقہ کی جڑی بوٹیوں سے رس چوس کر شہد تیار کرتی ہیں اور مدینہ کے علاقہ میں عرفط بوٹی تھی جس کے پھول سے بد بو پھوٹتی تھی اس لیے دونوں نے توریہ و تعریض سے کام لیتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر کھایا ہے؟ تا کہ رس کی بد بو کی طرف اشارہ کیا جا سکے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بو کو ناپسند فرماتے تھے،
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہد پینے کے لیے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں زیادہ قیام نہیں کریں گے،
اور ان کا یہی مقصود تھا،
اور آیت میں راز کی بات کہی اس لیے فرمایا گیا ہے کہ بخاری شریف میں ہے:
(قَدْ حَلَفْتُ)
(میں نے قسم اٹھائی ہے)
(وَلَا تُخْبِرِيْ بِذٰلِكَ اَحَداً)
(تم کسی کو اس کی خبر نہ دینا)
اور ایک اور روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی باری کے دن حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں حضرت ماریہ قبطیہ کو بلا لیا تھا کیونکہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اپنے باپ کے گھر کچھ وقت کے لیے چلی گئی تھیں واپسی پر انھوں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل کیے ہوئے دیکھا تو اعتراض کیا،
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام قرار دے دیا اور فرمایا اس کی اطلاع کی دوسری بیوی کو نہ دینا لیکن حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے درمیانی دیوار پر ہاتھ مار کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو متوجہ کر کے انہیں بتا دیا۔
اور اور ان دونوں واقعات کے بعد سورہ تحریم کی ابتدائی آیات کا نزول ہوا،
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے قول کی بنیاد یہی دوسرا واقعہ ہے۔
کیونکہ قرآن مجید میں اس کو قسم قرار دیا گیا ہے:
﴿قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ﴾ (التحریم: 2) (اللہ تعالیٰ نے تم پر قسموں کو کھول ڈالنا لازم ٹھہرایا ہے)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3678   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.