الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
The Book of Oaths and Vows
25. بَابُ إِذَا حَرَّمَ طَعَامَهُ:
25. باب: اگر کوئی شخص اپنا کھانا اپنے اوپر حرام کر لے۔
(25) Chapter. If someone makes some food unlawful for himself.
حدیث نمبر: Q6691
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقوله تعالى: يايها النبي لم تحرم ما احل الله لك تبتغي مرضات ازواجك والله غفور رحيم {1} قد فرض الله لكم تحلة ايمانكم سورة التحريم آية 1-2 وقوله لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم سورة المائدة آية 87".وَقَوْلُهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ {1} قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ سورة التحريم آية 1-2 وَقَوْلُهُ لا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ سورة المائدة آية 87".
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ التحریم میں) فرمایا «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك تبتغي مرضاة أزواجك والله غفور رحيم * قد فرض الله لكم تحلة أيمانكم‏» اے نبی! آپ کیوں وہ چیز حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے، آپ اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہیں اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا بہت رحم کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اپنی قسموں کا کھول ڈالنا مقرر کر دیا ہے۔ اور (سورۃ المائدہ میں) فرمایا «لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم‏» حرام نہ کرو ان پاکیزہ چیزوں کو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں۔

حدیث نمبر: 6691
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحسن بن محمد، حدثنا الحجاج، عن ابن جريج، قال: زعم عطاء، انه سمع عبيد بن عمير، يقول: سمعت عائشة تزعم، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يمكث عند زينب بنت جحش، ويشرب عندها عسلا، فتواصيت انا وحفصة ان ايتنا دخل عليها النبي صلى الله عليه وسلم، فلتقل: إني اجد منك ريح مغافير اكلت مغافير، فدخل على إحداهما: فقالت ذلك له، فقال:" لا، بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش، ولن اعود له"، فنزلت: يايها النبي لم تحرم ما احل الله لك سورة التحريم آية 1 إن تتوبا إلى الله سورة التحريم آية 4، لعائشة، وحفصة، وإذ اسر النبي إلى بعض ازواجه حديثا، لقوله: بل شربت عسلا"، وقال لي إبراهيم بن موسى، عن هشام: ولن اعود له، وقد حلفت فلا تخبري بذلك احدا.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: زَعَمَ عَطَاءٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَزْعُمُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلًا، فَتَوَاصَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ أَنَّ أَيَّتَنَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْتَقُلْ: إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا: فَقَالَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" لَا، بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَلَنْ أَعُودَ لَهُ"، فَنَزَلَتْ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ سورة التحريم آية 1 إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ سورة التحريم آية 4، لِعَائِشَةَ، وَحَفْصَةَ، وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا، لِقَوْلِهِ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا"، وقَالَ لِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، عَنْ هِشَامٍ: وَلَنْ أَعُودَ لَهُ، وَقَدْ حَلَفْتُ فَلَا تُخْبِرِي بِذَلِكِ أَحَدًا.
ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا کہ عطاء کہتے تھے کہ انہوں نے عبید بن عمیر سے سنا، کہا میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ کہتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ام المؤمنین) زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں رکتے تھے اور شہد پیتے تھے۔ پھر میں نے اور (ام المؤمنین) حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے عہد کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئیں تو وہ کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے، آپ نے مغافیر تو نہیں کھائی ہے؟ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک کے یہاں تشریف لائے تو انہوں نے یہی بات آپ سے پوچھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں نے شہد پیا ہے زینب بنت جحش کے یہاں اور اب کبھی نہیں پیوں گا۔ (کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین ہو گیا کہ واقعی اس میں مغافیر کی بو آتی ہے) اس پر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك» اے نبی! آپ ایسی چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔ «إن تتوبا إلى الله» میں عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ ہے اور «وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا» سے اشارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی طرف ہے کہ نہیں میں نے شہد پیا ہے۔ اور مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے ہشام سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اب کبھی میں شہد نہیں پیوں گا میں نے قسم کھا لی ہے تم اس کی کسی کو خبر نہ کرنا (پھر آپ نے اس قسم کو توڑ دیا)۔

Narrated `Aisha: The Prophet used to stay (for a period) in the house of Zainab bint Jahsh (one of the wives of the Prophet ) and he used to drink honey in her house. Hafsa and I decided that when the Prophet entered upon either of us, she would say, "I smell in you the bad smell of Maghafir (a bad smelling raisin). Have you eaten Maghafir?" When he entered upon one of us, she said that to him. He replied (to her), "No, but I have drunk honey in the house of Zainab bint Jahsh, and I will never drink it again." Then the following verse was revealed: 'O Prophet ! Why do you ban (for you) that which Allah has made lawful for you?. ..(up to) If you two (wives of the Prophet turn in repentance to Allah.' (66.1-4) The two were `Aisha and Hafsa And also the Statement of Allah: 'And (Remember) when the Prophet disclosed a matter in confidence to one of his wives!' (66.3) i.e., his saying, "But I have drunk honey." Hisham said: It also meant his saying, "I will not drink anymore, and I have taken an oath, so do not inform anybody of that."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 78, Number 682


   صحيح البخاري4912عائشة بنت عبد اللهأشرب عسلا عند زينب بنت جحش فلن أعود له وقد حلفت لا تخبري بذلك أحدا
   صحيح البخاري6691عائشة بنت عبد اللهشربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك
   صحيح البخاري5267عائشة بنت عبد اللهيمكث عند زينب بنت جحش ويشرب عندها عسلا فتواصيت أنا وحفصة أن أيتنا دخل عليها النبي فلتقل إني أجد منك ريح مغافير أكلت مغافير فدخل على إحداهما فقالت له ذلك فقال لا بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له
   صحيح مسلم3678عائشة بنت عبد اللهشربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزل لم تحرم ما أحل الله لك إلى قوله إن تتوبا
   سنن أبي داود3714عائشة بنت عبد اللهيمكث عند زينب بنت جحش فيشرب عندها عسلا فتواصيت أنا وحفصة أيتنا ما دخل عليها النبي فلتقل إني أجد منك ريح مغافير فدخل على إحداهن فقالت له ذلك فقال بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت لم تحرم ما أحل الله لك تبتغي
   سنن النسائى الصغرى3410عائشة بنت عبد اللهشربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك
   سنن النسائى الصغرى3826عائشة بنت عبد اللهشربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك إلى إن تتوبا إلى الله
   سنن النسائى الصغرى3450عائشة بنت عبد اللهيمكث عند زينب ويشرب عندها عسلا فتواصيت وحفصة أيتنا ما دخل عليها النبي فلتقل إني أجد منك ريح مغافير فدخل على إحديهما فقالت ذلك له فقال بل شربت عسلا عند زينب وقال لن أعود له فنزل يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6691  
6691. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ سیدہ زینب حجش ؓ کے پاس ٹھہرا کرتے تھے اور وہاں شہد نوش فرماتے تھے۔ میں نے اور سیدہ حفصہ‬ ؓ ن‬ے پروگرام بنایا کہ جس کے پاس نبی ﷺ تشریف لائیں تو وہ کہے: میں آپ سے مغافیر کی بو پاتی ہوں۔ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ چنانچہ جب آپ ایک کے ہاں تشریف لائے تو اس نے آپ سے یہی کہا۔ تو آپ نے فرمایا: (میں نے مغافیر) نہیں (کھایا) بلکہ زینب بنت جحش‬ ؓ ک‬ے ہاں شہد نوش کیا ہے آئندہ میں شہد بھی نوش نہیں کروں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اے نبی! آپ ایسی چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے آپ کے لیے حلال کیا ہے؟ اس آیت کریمہ میں سے ﴿إن تَتُوبَا اِلَی اللہِ﴾ سے سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬ی طرف اشارہ ہے اور ﴿واِذاسرَّ النبُّی۔۔﴾ سے مراد آپ کا یہ کہنا ہے: نہیں بلکہ میں نے شہد نوش کیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق (آپ ﷺ نے فرمایا تھا):۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6691]
حدیث حاشیہ:
حفصہ بنت عمر ؓ کے خاوند اول حذافہ سہمی جنگ بدر کے بعد فوت ہو گئے تھے۔
3ھ میں ان کا نکاح ثانی رسول کریم ﷺ سے ہوا۔
بہت نیک خاتون تھیں۔
نماز روزہ کا بہت اہتمام کرنے والی 45ھ ماہ شعبان میں انتقال ہوا۔
رضي اللہ عنها۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6691   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6691  
6691. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ سیدہ زینب حجش ؓ کے پاس ٹھہرا کرتے تھے اور وہاں شہد نوش فرماتے تھے۔ میں نے اور سیدہ حفصہ‬ ؓ ن‬ے پروگرام بنایا کہ جس کے پاس نبی ﷺ تشریف لائیں تو وہ کہے: میں آپ سے مغافیر کی بو پاتی ہوں۔ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ چنانچہ جب آپ ایک کے ہاں تشریف لائے تو اس نے آپ سے یہی کہا۔ تو آپ نے فرمایا: (میں نے مغافیر) نہیں (کھایا) بلکہ زینب بنت جحش‬ ؓ ک‬ے ہاں شہد نوش کیا ہے آئندہ میں شہد بھی نوش نہیں کروں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اے نبی! آپ ایسی چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے آپ کے لیے حلال کیا ہے؟ اس آیت کریمہ میں سے ﴿إن تَتُوبَا اِلَی اللہِ﴾ سے سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬ی طرف اشارہ ہے اور ﴿واِذاسرَّ النبُّی۔۔﴾ سے مراد آپ کا یہ کہنا ہے: نہیں بلکہ میں نے شہد نوش کیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق (آپ ﷺ نے فرمایا تھا):۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6691]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ نذر معصیت یا لجاج کی مثال ہے، یعنی وہ نذر جس میں انسان کسی حلال چیز کو بطور نذر خود پر حرام کر لیتا ہے۔
ایسی نذر کے متعلق اہل کوفہ کا موقف ہے کہ قسم کا کفارہ دے کر ایسی نذر کا ختم کرنا ضروری ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ ایسی نذر کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اسے ختم کر دیا جائے اور اگر قسم اٹھائی ہے تو اس کا کفارہ دے، بصورت دیگر کفارہ نہیں ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی رجحان معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے حدیث کے آخر میں اس روایت کا حوالہ دیا ہے جس میں بصراحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قسم کھانے کا ذکر ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
(3)
واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کا ذکر کیا ہے وہ کتاب التفسیر، حدیث: 4912 میں ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6691   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.