الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
16. بَابُ مَا ذُكِرَ فِي ذَهَابِ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبَحْرِ إِلَى الْخَضِرِ:
16. باب: موسیٰ علیہ السلام کے خضر علیہ السلام کے پاس دریا میں جانے کے ذکر میں۔
(16) Chapter. What has been said about the journey of Prophet Musa (Moses) علیہ السلام (when he went) in the sea to meet Al-Khidr.
حدیث نمبر: Q74
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقوله تعالى: {هل اتبعك على ان تعلمني مما علمت رشدا}.وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا}.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (جو موسیٰ علیہ السلام کا قول ہے) کیا میں تمہارے ساتھ چلوں اس شرط پر کہ تم مجھے (اپنے علم سے کچھ) سکھاؤ۔

حدیث نمبر: 74
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثني محمد بن غرير الزهري، قال: حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثني ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، حدث ان عبيد الله بن عبد الله اخبره، عن ابن عباس، انه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري في صاحب موسى، قال ابن عباس: هو خضر فمر بهما ابي بن كعب، فدعاه ابن عباس، فقال: إني تماريت انا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سال موسى السبيل إلى لقيه، هل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يذكر شانه؟ قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل جاءه رجل، فقال: هل تعلم احدا اعلم منك؟ قال موسى: لا، فاوحى الله إلى موسى بلى عبدنا خضر، فسال موسى السبيل إليه؟ فجعل الله له الحوت آية، وقيل له: إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه، وكان يتبع اثر الحوت في البحر، فقال لموسى فتاه: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة، فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره، قال: ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا فوجدا خضرا، فكان من شانهما الذي قص الله عز وجل في كتابه".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ خَضِرٌ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ؟ قَالَ مُوسَى: لَا، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ، فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَيْهِ؟ فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، وَقِيلَ لَهُ: إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ، وَكَانَ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ لِمُوسَى فَتَاهُ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، قَالَ: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا، فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا الَّذِي قَصَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ".
ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا، ان سے یعقوب بن ابراہیم نے، ان سے ان کے باپ (ابراہیم) نے، انہوں نے صالح سے سنا، انہوں نے ابن شہاب سے، وہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے خبر دی کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحث و تکرار کرنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ وہ خضر علیہ السلام تھے۔ پھر ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور کہا کہ میں اور میرے یہ رفیق موسیٰ علیہ السلام کے اس ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے انہوں نے ملاقات چاہی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کچھ ذکر سنا ہے۔ انہوں نے کہا، ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ایک دن موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ (دنیا میں) کوئی آپ سے بھی بڑھ کر عالم موجود ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر ہے (جس کا علم تم سے زیادہ ہے) موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دریافت کیا کہ خضر علیہ السلام سے ملنے کی کیا صورت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان سے ملاقات کی علامت قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم اس مچھلی کو گم کر دو تو (واپس) لوٹ جاؤ، تب خضر سے تمہاری ملاقات ہو گی۔ تب موسیٰ (چلے اور) دریا میں مچھلی کی علامت تلاش کرتے رہے۔ اس وقت ان کے ساتھی نے کہا جب ہم پتھر کے پاس تھے، کیا آپ نے دیکھا تھا، میں اس وقت مچھلی کا کہنا بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے اس کا ذکر بھلا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، اسی مقام کی ہمیں تلاش تھی۔ تب وہ اپنے نشانات قدم پر (پچھلے پاؤں) باتیں کرتے ہوئے لوٹے (وہاں) انہوں نے خضر علیہ السلام کو پایا۔ پھر ان کا وہی قصہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں بیان کیا ہے۔

Narrated Ibn `Abbas: That he differed with Hur bin Qais bin Hisn Al-Fazari regarding the companion of (the Prophet) Moses. Ibn `Abbas said that he was Al Khadir. Meanwhile, Ubai bin Ka`b passed by them and Ibn `Abbas called him, saying "My friend (Hur) and I have differed regarding Moses' companion, whom Moses asked the way to meet. Have you heard the Prophet mentioning something about him? He said, "Yes. I heard Allah's Apostle saying, "While Moses was sitting in the company of some Israelites, a man came and asked him. "Do you know anyone who is more learned than you? Moses replied: "No." So Allah sent the Divine Inspiration to Moses: 'Yes, Our slave Khadir (is more learned than you.)' Moses asked (Allah) how to meet him (Khadir). So Allah made the fish as a sign for him and he was told that when the fish was lost, he should return (to the place where he had lost it) and there he would meet him (Al-Khadir). So Moses went on looking for the sign of the fish in the sea. The servant-boy of Moses said to him: Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish, none but Satan made me forget to remember it. On that Moses said: 'That is what we have been seeking? (18.64) So they went back retracing their footsteps, and found Khadir. (And) what happened further to them is narrated in the Holy Qur'an by Allah. (18.54 up to 18.82)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 74

   صحيح البخاري78عبد الله بن عباسبينما موسى في ملإ من بني إسرائيل إذ جاءه رجل فقال أتعلم أحدا أعلم منك قال موسى لا فأوحى الله إلى موسى بلى عبدنا خضر فسأل السبيل إلى لقيه فجعل الله له الحوت آية وقيل له إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه فكان موسى صلى الله عليه يتبع أثر الحوت في البحر
   صحيح البخاري74عبد الله بن عباسبينما موسى في ملإ من بني إسرائيل جاءه رجل فقال هل تعلم أحدا أعلم منك قال موسى لا فأوحى الله إلى موسى بلى عبدنا خضر فسأل موسى السبيل إليه فجعل الله له الحوت آية وقيل له إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه وكان يتبع أثر الحوت في البحر فقال لموسى فتاه أرأيت إذ
   مسندالحميدي375عبد الله بن عباسإن لي عبدا بمجمع البحرين هو أعلم منك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:74  
74. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان کا اور حضرت حر بن قیس بن حصن الفزاری ؓ کا حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کے متعلق اختلاف ہو گیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: وہ ساتھی حضرت خضر ہیں۔ اسی اثنا میں حضرت ابی بن کعب ؓ کا ان کے پاس سے گزر ہوا تو حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں بلایا اور کہا کہ میرا اور میرے اس ساتھی کا حضرت موسیٰ ؑ کے اس ہم نشین کے متعلق باہمی اختلاف ہو گیا جس کی ملاقات کے لیے موسیٰ ؑ نے راستہ دریافت کیا تھا۔ کیا آپ نے نبی ﷺ سے اس کے متعلق کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ایک دن موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے، اتنے میں ایک آدمی آیا اور آپ سے دریافت کیا کہ آپ کسی شخص کو اپنے سے زیادہ عالم جانتے ہیں؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا: نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ پر وحی نازل فرمائی: کیوں نہیں! ہمارا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:74]
حدیث حاشیہ:
1-
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد قصہ بیان کرنا نہیں بلکہ کتاب العلم میں اس واقعے کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اگر کسی شخص کو اپنے وطن میں رہتے ہوئے شرف علم کے حصول میں کامیابی نہ ہو تو اس کے لیے ہر قسم کی مشکلات اور صعوبتوں کو برداشت کیا جا سکتا ہے حتی کہ اگر اسے بحری سفر بھی کرنا پڑے تو بھی اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے باوجود اس کے کہ آپ جلیل القدر اور صاحب کتاب پیغمبر ہیں بحری سفر کیا جس کا مقصد ایک زائد از ضرورت علم کا حصول تھا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ضروری علوم تو پورے موجود تھے۔

حضرت حربن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے علم و فضل کی وجہ سے انھیں اپنی مجلس مشاورت میں شامل کیا تھا۔
اس مقام پر ان کا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ اختلاف ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی حضرت خضر علیہ السلام ہیں یا کوئی اور۔
حربن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موقف کے متعلق معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام کے علاوہ کس کا نام لیتے تھے؟ واضح رہے کہ اس واقعے کے متعلق ایک اور اختلاف بھی ہوا کہ اس موسیٰ علیہ السلام سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام بن عمران ہیں جو بنی اسرائیل کے رسول اور صاحب کتاب تھے یا کوئی اور موسیٰ ہیں؟ یہ اختلاف حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایک واعظ نوف البکالی کے درمیان ہوا۔
نوف البکالی کا موقف تھا کہ یہ کوئی اور موسیٰ ہیں کیونکہ اتنا بڑا نبی حضرت خضر کے پاس علم حاصل کرنے کے لیے جائے۔
یہ ناممکن ہے۔
چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تردید فرمائی۔
(صحیح البخاري، کتاب العلم، حدیث: 122)
اس کی تفصیل کتاب التفسیر میں بیان کی جائے گی۔

ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ سمندری سفر حاجی، عمرہ کرنے والے اور غازی کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں ہے۔
(سنن أبی داؤد، الجہاد، حدیث: 2489)
اس صحیح حدیث سے اس ضعیف حدیث کی تردید بھی ہو جاتی ہے کہ سمندری سفر طالب علم کےلیے صرف جائز ہی نہیں بلکہ مستحب ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب البیوع میں التجارة فی البحر عنوان قائم کر کے اسے مزید واضح فرمایا ہے۔

حضرت خضر زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں؟ وہ نبی تھے یا ولی؟ نیز ان کے علم کی حقیقت کیا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کس حیثیت سے ان کی شاگردی اختیار فرمائی؟ یہ تمام مباحث التفسیر میں ذکر ہوں گے۔
بإذن اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 74   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.