ہاشم بن قاسم، ابوعامر عقدی اور ابوعلی عبیداللہ بن عبدالمجید حنفی نے عکرمہ بن عمار سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ایاس بن سلمہ (بن اکوع) نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے میرے والد (سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ جن کا اصل نام سنان بن عمرو ہے) نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ آئے، ہم تعداد میں چودہ سو تھے اور اس (حدیبیہ کے کنویں) پر پچاس بکریاں (پانی پیتیں) تھیں وہ ان کی پیاس نہیں بجھا رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کے مینڈھ پر بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی یا اس میں لعاب ڈالا تو پانی جوش مارنے (زیادہ ہو کر اوپر اٹھنے) لگا، ہم نے (خود اور ہمارے جانوروں) پیا اور (برتنوں میں) پانی بھرا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیعت کے لیے درخت کی جڑوں (کے قریب والی جگہ) میں بلایا تو میں نے سب لوگوں سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی، پھر لوگ ایک ایک کر کے بیعت کرنے لگے حتی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی نصف تعداد تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلمہ! بیعت کر۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں تو لوگوں کے شروع ہی میں آپ سے بیعت کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دوبارہ بیعت کر۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہتا دیکھا۔۔ یعنی ان کے ساتھ کوئی اسلحہ نہیں تھا۔۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (دہرے) چمڑے کی ایک چھوٹی سی ڈھال یا اسی قسم کی ایک ڈھال دی (اور) آپ پھر سے بیعت لینے لگے حتی کہ جب آپ لوگوں کے آخر (کے حصے) میں تھے تو آپ نے فرمایا: ”سلمہ! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟“ کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں لوگوں کے شروع میں اور درمیان میں آپ کی بیعت کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر بیعت کر۔“ کہا: میں نے تیسری بار آپ کی بیعت کی، پھر آپ نے مجھ سے پوچھا: ”سلمہ! تمہاری وہ چمڑے کی ڈھال کہاں ہے جو میں نے تمہیں دی تھی؟“ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! مجھے میرے چچا عامر (بن اکوع رضی اللہ عنہ) نہتے ملے تو میں نے وہ انہیں دے دی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا: ”تیری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے (پہلے زمانے میں) کہا تھا: اے اللہ! مجھے ایسا دوست عطا کر دے جو مجھے میری جان سے زیادہ محبوب ہو۔“ پھر مشرکین نے ہمارے ساتھ صلح کے پیغاموں کا تبادلہ کیا حتی کہ ہم چل کر ایک دوسرے کے پاس گئے اور ہم نے صلح کر لی۔ کہا: میں طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے تابع (ان کا خادم) تھا، میں ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا، اس پر کھر پھیرتا تھا، ان کی خدمت کرتا تھا، کھانا بھی ان کے ہاں کھاتا تھا۔ میں نے اپنا گھر بار اور مال و دولت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کرتے ہوئے چھوڑ دیا تھا۔ کہا: جب ہم نے اور اہل مکہ نے باہم صلح کر لی اور ہم ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے تو میں ایک درخت کے پاس گیا، اس کے (زمین پر گرے ہوئے) کانٹے صاف کیے اور اس کے تنے (کے ساتھ والی جگہ) میں لیٹ گیا۔ تو میرے پاس اہل مکہ کے چار مشرک آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں کرنے لگے، مجھے ان سے شدید نفرت ہوئی اور میں ایک اور درخت کی طرف چلا گیا، انہوں نے اپنا اسلحہ لٹکایا اور لیٹ گئے، وہ اسی حالت میں تھے کہ کسی آواز دینے والے نے وادی کے نشیب سے آواز دی: اے مہاجرین! خبردار! ابن زنیم کو قتل کر دیا گیا ہے۔ (یہ سن کر) میں نے اپنی تلوار میان سے نکال لی، پھر ان چاروں پر نیند کی حالت میں دھاوا بول دیا، میں نے ان کا اسلحہ چھین لیا اور اس کا گٹھا بنا کر ہاتھ میں لے لیا، پھر میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو عزت بخشی ہے! تم میں جو بھی اپنا سر اٹھائے گا میں اس کا وہ حصہ تلوار سے اڑا دوں گا جس میں اس کی دونوں آنکھیں ہیں (اس کی کھوپڑی اڑا دوں گا)۔ پھر میں انہیں ہانکتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ کہا: میرے چچا عامر بھی عبلات (کے گھرانے میں) سے ایک آدمی کو، جسے مکرز کہا جاتا تھا، کھینچتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے آئے، جو ستر مشرکوں کے درمیان ایسے گھوڑے پر سوار تھا جس پر زرہ جیسا نمدہ ڈالا ہوا تھا (سوار کے علاوہ گھوڑا بھی جنگ کے لیے مسلح تھا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں چھوڑ دو تاکہ بدعہدی کی ابتدا بھی انہی کی طرف سے ہو اور دوسری بار بھی انہی کی طرف سے ہو۔“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف فرما دیا۔ (اس موقع پر) اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں تمہیں ان پر غالب کر دینے کے بعد، ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے۔“ پوری آیت نازل فرمائی۔ پھر ہم مدینہ کو لوٹے، راہ میں ایک منزل پر اترے، جہاں ہمارے اور بنی لحیان کے مشرکوں کے بیچ میں ایک پہاڑ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اس شخص کے لیے جو اس پہاڑ پر چڑھ جائے رات کو اور پہرہ دے آپ کا اور آپ کے اصحاب کا۔ سلمہ نے کہا: میں رات کو اس پہاڑ پر دو یا تین بار چڑھا (اور پہرہ دیتا رہا)، پھر ہم مدینہ میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنیاں اپنے رباح غلام کو دیں اور میں بھی اس کے ساتھ تھا، طلحہ کا گھوڑا لیے ہوئے چراگاہ میں پہنچانے کے لیے ان اونٹنیوں کے ساتھ، جب صبح ہوئی تو عبدالرحمان فزاری (مشرک) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کو لوٹ لیا اور سب کو ہانک لے گیا اور چرواہے کو مار ڈالا۔ میں نے کہا: اے رباح! تو یہ گھوڑا لے اور طلحہ کے پاس پہنچا دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر کہ کافروں نے آپ کی اونٹنیاں لوٹ لیں، پھر میں ایک ٹیلے پر کھڑا ہوا اور مدینہ کی طرف منہ کر کے تین بار آواز دی: ”یا صباحاہ۔“ اس کے بعد میں ان لٹیروں کے پیچھے روانہ ہوا، تیر مارتا ہوا اور رجز پڑھتا ہوا: ”میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔“ پھر میں کسی کے قریب ہوتا اور ایک تیر اس کی کاٹھی میں مارتا جو اس کے کندھے تک پہنچ جاتا (کاٹھی کو چیر کر) اور کہتا: یہ لے اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے، پھر قسم اللہ کی! میں برابر تیر مارتا رہا اور زخمی کرتا رہا، جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا تو میں درخت کے تلے آ کر اس کی جڑ میں بیٹھ جاتا اور ایک تیر مارتا، وہ سوار زخمی ہو جاتا، یہاں تک کہ وہ پہاڑ کے تنگ راستے میں گھسے اور میں پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اور وہاں سے پتھر مارنا شروع کیے اور برابر ان کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ کوئی اونٹ جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کا تھا نہ بچا جو میرے پیچھے نہ رہ گیا اور لٹیروں نے اس کو نہ چھوڑ دیا ہو (تو سب اونٹ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے ان سے چھین لیے)۔ سلمہ نے کہا: پھر میں ان کے پیچھے چلا، تیر مارتا ہوا یہاں تک کہ تیس چادروں سے زیادہ اور تیس بھالوں سے زیادہ ان سے چھین لیں، وہ اپنے تئیں ہلکا کرتے تھے (بھاگنے کے لیے) اور جو چیز وہ پھینکتے میں اس پر ایک نشان رکھ دیتا پتھر کا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو اس کو پہچان لیں (کہ یہ غنیمت کا مال ہے اور اس کو لے لیں)۔ یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی میں آئے اور وہاں ان کو بدر فزاری کا بیٹا ملا، وہ سب بیٹھے صبح کا ناشتہ کرنے لگے اور میں ایک چھوٹی ٹیکری کی چوٹی پر بیٹھا۔ فزاری نے کہا: یہ کون شخص ہے؟ وہ بولے: اس شخص نے ہم کو تنگ کر دیا، قسم اللہ کی! اندھیری رات سے ہمارے ساتھ ہے، برابر تیر مارے جاتا ہے یہاں تک کہ جو کچھ ہمارے پاس تھا سب چھین لیا۔ فزاری نے کہا: تم میں سے چار آدمی اس کو جا کر مار لیں۔ یہ سن کر چار آدمی میری طرف چڑھے پہاڑ پر، جب وہ اتنے دور آ گئے کہ میری بات سن سکیں تو میں نے کہا: تم مجھے جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: میں سلمہ ہوں، اکوع کا بیٹا (اکوع ان کے دادا تھے لیکن دادا کی طرف اپنے کو منسوب کیا بوجہ شہرت کے اور سلمہ کے باپ کا نام عمرو تھا اور عامر ان کے چچا تھے کیونکہ وہ اکوع کے بیٹے تھے)، قسم اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک کو بزرگی دی، میں تم میں سے جس کو چاہوں گا مار ڈالوں گا (تیر سے) اور تم میں سے کوئی مجھے نہیں مار سکتا۔ ان میں ایک شخص بولا: یہ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے، پھر وہ سب لوٹے۔ میں وہاں سے نہیں چلا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار نظر آئے جو درختوں میں گھس رہے تھے۔ سب سے آگے اخرم اسدی رضی اللہ عنہ تھے، ان کے پیچھے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ، ان کے پیچھے مقداد بن اسود کندی رضی اللہ عنہ۔ میں نے اخرم کے گھوڑے کی باگ تھام لی، یہ دیکھ کر وہ لٹیرے بھاگے۔ میں نے کہا: اے اخرم! تم ان سے بچے رہنا، ایسا نہ ہو یہ تم کو مار ڈالیں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نہ آ لیں۔ انہوں نے کہا: اے سلمہ! اگر تجھ کو یقین ہے اللہ کا اور آخرت کے دن کا اور تو جانتا ہے کہ جنت سچ ہے اور جہنم سچ ہے تو مت روک مجھ کو شہادت سے (یعنی بہت ہو گا تو یہی کہ میں ان لوگوں کے ہاتھ شہید ہوں گا اس سے کیا بہتر ہے)۔ میں نے ان کو چھوڑ دیا، ان کا مقابلہ عبدالرحمان فزاری سے ہوا، اخرم نے اس کے گھوڑے کو زخمی کیا اور عبدالرحمان نے برچھی سے اخرم کو شہید کیا اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ بیٹھا، اتنے میں سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہسوار آن پہنچے اور انہوں نے عبدالرحمان کو برچھی مار کر قتل کیا۔ تو قسم اس کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک کو بزرگی دی، میں ان کا پیچھا کرتا گیا، میں اپنے پاؤں سے ایسا دوڑ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے آپ کا کوئی صحابی نہ دکھلائی دیا نہ ان کا غبار، یہاں تک کہ وہ لٹیرے آفتاب ڈوبنے سے پہلے ایک گھاٹی میں پہنچے جہاں پانی تھا اور اس کا نام ذی قرد تھا، وہ اترے پانی پینے کو، پیاسے تھے، پھر مجھے دیکھا، میں ان کے پیچھے دوڑتا چلا آتا تھا، آخر میں نے ان کو پانی پر سے ہٹا دیا، وہ ایک قطرہ بھی نہ پی سکے، اب وہ دوڑتے چلے کسی گھاٹی کی طرف۔ میں بھی دوڑا اور ان میں سے کسی کو پا کر ایک تیر لگا دیا اس کے شانے کی ہڈی میں۔ اور میں نے کہا: لے اس کو اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا ہے۔ وہ بولا: (اللہ کرے اکوع کا بیٹا مرے اور) اس کی ماں اس پر روئے، کیا وہی اکوع ہے جو صبح کو میرے ساتھ تھا؟ میں نے کہا: ہاں، اے دشمن اپنی جان کے! وہی اکوع ہے جو صبح کو تیرے ساتھ تھا۔ سلمہ بن اکوع نے کہا: ان لٹیروں کے دو گھوڑے سقط ہو گئے (دوڑتے دوڑتے)، انہوں نے ان کو چھوڑ دیا ایک گھاٹی میں، میں ان گھوڑوں کو کھینچتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا۔ وہاں مجھ کو عامر ملے ایک چھاگل دودھ کی پانی ملا ہوا اور ایک چھاگل پانی کی لیے ہوئے، میں نے وضو کیا اور دودھ پیا (اللہ اکبر! سلمہ بن اکوع کی ہمت صبح سویرے سے دوڑتے دوڑتے رات ہو گئی، گھوڑے تھک گئے، اونٹ تھک گئے، لوگ مر گئے، اسباب رہ گیا پر سلمہ نہ تھکے اور دن بھر میں کچھ کھایا نہ پیا، اللہ جل جلالہ کی امداد تھی)۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب اونٹ لے لیے ہیں اور سب چیزیں جو میں نے مشرکوں سے چھینی تھیں، سب برچھیاں اور چادریں، اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ان اونٹوں میں سے جو میں نے چھینی تھی ایک اونٹ نحر کیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کی کلیجی اور کوہان بھون رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیجیے لشکر میں سے سو آدمی چن لینے کی، پھر میں لٹیروں کا پیچھا کرتا ہوں اور ان میں سے کوئی شخص باقی نہیں رہے جو اپنی قوم کو جا کر خبر دے (یعنی سب کو مار ڈالتا ہوں)۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیاں انگار کی روشنی میں کھل گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سلمہ! تو یہ کر سکتا ہے؟“ میں نے کہا: ہاں! قسم اس کی جس نے آپ کو بزرگی دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو اب غطفان کی سرحد میں پہنچ گئے، وہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔“ اتنے میں ایک شخص غطفان سے آیا، وہ بولا: فلاں شخص نے ان کے لیے ایک اونٹ کاٹا تھا، وہ اس کی کھال نکال رہے تھے، اتنے میں ان کو گرد معلوم ہوئی، وہ کہنے لگے: لوگ آ گئے، تو وہاں سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے دن ہمارے سواروں میں بہتر سوار ابوقتادہ ہیں اور پیادوں میں سب سے بڑھ کر سلمہ بن اکوع ہیں۔“ سلمہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو حصے دیے، ایک حصہ سوار کا اور ایک حصہ پیادے کا اور دونوں مجھے ہی دے دیے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے ساتھ عضباء پر بٹھایا مدینہ کو واپسی کے وقت۔ ہم چل رہے تھے کہ ایک انصاری جو دوڑنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا تھا کہنے لگا: کوئی ہے جو مدینہ کو مجھ سے آگے دوڑ جائے؟ اور بار بار یہی کہتا تھا، جب میں نے اس کا کہنا سنا تو اس سے کہا: تو بزرگ کی بزرگی نہیں کرتا اور بزرگ سے نہیں ڈرتا؟ وہ بولا: نہیں، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی کرتا ہوں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، مجھے چھوڑ دیجیے، میں اس مرد سے آگے بڑھوں گا دوڑ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا، اگر تیرا جی چاہے۔“ تب میں نے کہا: میں آتا ہوں تیری طرف، اور میں نے اپنا پاؤں ٹیڑھا کیا اور کود پڑا، پھر میں دوڑا اور جب ایک یا دو چڑھاؤ باقی رہے تو دم کو سنبھالا، پھر جو دوڑا تو اس سے مل گیا۔ یہاں تک کہ ایک گھونسا دیا میں نے اس کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں اور میں نے کہا: قسم اللہ کی! اب میں آگے بڑھا، پھر اس سے آگے پہنچا مدینہ کو (یعنی مسابقت درست ہے بلاعوض اور بعوض میں خلاف ہے)۔ پھر قسم اللہ کی! ہم صرف تین رات ٹھہرے، اس کے بعد خیبر کی طرف نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، تو میرے چچا عامر نے رجز پڑھنا شروع کیا: ”قسم اللہ کی! اگر اللہ ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ نہ پاتے، نہ صدقہ دیتے، نہ نماز پڑھتے، اور ہم تیرے فضل سے بے پروا نہیں ہوئے، تو جما رکھ ہمارے پاؤں کو اگر کافروں سے ملیں اور اپنی رحمت اور تسلی اتار ہمارے اوپر۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ لوگوں نے کہا: عامر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اسے بخشے۔“ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لیے خاص طور پر استغفار کرتے تو وہ ضرور شہید ہوتا، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پکارا اور وہ اپنے اونٹ پر تھے: یا نبی اللہ! آپ نے ہم کو عامر سے فائدہ کیوں نہ اٹھانے دیا؟ سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر جب ہم خیبر میں آئے تو اس کا بادشاہ مرحب تلوار ہلاتا ہوا نکلا اور یہ رجز پڑھتا تھا: ”قد علمت خیبر أني مرحب، شاکي السلاح بطل مجرب، إذا الحروب أقبلت تلهب۔“ یعنی خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، پورا ہتھیار بند، بہادر آزمودہ کار، جب لڑائیاں آئیں شعلے اڑاتی ہوئی۔ یہ سن کر میرے چچا عامر نکلے اس کے مقابلے کے لیے اور انہوں نے یہ رجز پڑھا: ”خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں، پورا ہتھیار بند، لڑائی میں گھسنے والا۔“ پھر دونوں کا ایک ایک وار ہوا تو مرحب کی تلوار میرے چچا عامر کی ڈھال پر پڑی اور عامر نے نیچے سے وار کرنا چاہا تو ان کی تلوار انہی کو آ لگی اور شہ رگ کٹ گئی، اسی سے وہ شہید ہو گئے۔ سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب کو دیکھا، وہ کہہ رہے تھے: عامر کا عمل لغو ہو گیا، اس نے اپنے تئیں آپ مار ڈالا۔ یہ سن کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا روتا ہوا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! عامر کا عمل لغو ہو گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون کہتا ہے؟“ میں نے کہا: آپ کے اصحاب کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جھوٹ کہا جس نے کہا، بلکہ اس کے لیے دوہرا ثواب ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایسے شخص کو نشان دوں گا جو دوست رکھتا ہے اللہ اور اس کے رسول کو یا اللہ اور رسول اس کو دوست رکھتے ہیں۔“ (ابن ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اللہ فتح دے گا اس کے ہاتھوں پر اور وہ بھاگنے والا نہیں)۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان کو کھینچتا ہوا لے آیا، ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا، وہ اسی وقت اچھے ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نشان دیا اور مرحب نکلا اور کہنے لگا: (قد علمت خیبر أني مرحب، شاکي السلاح بطل مجرب، إذا الحروب أقبلت تلهب) یعنی خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، پورا ہتھیار بند، بہادر آزمودہ کار، جب لڑائیاں آئیں شعلے اڑاتی ہوئی۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں یہ کہا: (أنا الذي سمتني أمي حيدرة، كليث غابات كريه المنظرة، أوفيهم بالصاع كيل السندرة) یعنی میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا، مثل اس شیر کے جو جنگلوں میں ہوتا ہے (یعنی شیر ببر)، نہایت ڈراؤنی صورت (کہ اس کے دیکھنے سے خوف پیدا ہو)، میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلے سندرہ دیتا ہوں (سندرہ صاع سے بڑا پیمانہ ہے یعنی وہ تو میرے اوپر ایک خفیف حملہ کرتے ہیں اور میں ان کا کام ہی تمام کر دیتا ہوں)۔ اس کے بعد انہوں نے مرحب کے سر پر تلوار مار کر اسے قتل کر دیا، پھر (خیبر کی) فتح انہی کے ہاتھوں پر ہوئی۔
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی سندوں سے حدیث بیان کرتے ہیں، یہ الفاظ عبداللہ دارمی کے ہیں کہ ایاس بن سلمہ، اپنے باپ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خیبر پہنچے اور ہماری تعداد چودہ سو (1400) تھی اور جب حدیبیہ کا چشمہ پچاس بکریوں کو بھی سیراب نہیں آ سکتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے اور آپﷺ نے دعا فرمائی، یا اس میں اپنا لب مبارک ڈالا، تو وہ جوش مار اٹھا، (پانی بلند ہو گیا) ہم نے خود بھی پانی پیا اور اپنے جانوروں کو بھی پلایا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کے دامن میں بیٹھ کر ہمیں بیعت کرنے کے لیے بلایا، تو میں نے آپ سے لوگوں کے آغاز میں بیعت کر لی، پھر لوگ مسلسل بیعت کرتے رہے، حتیٰ کہ جب آدھے لوگوں نے بیعت کر لی، آپﷺ نے فرمایا: ”اے سلمہ! بیعت کرو۔“ میں نے عرض کیا، میں تو آپ سے بیعت کر چکا ہوں، اے اللہ کے رسولﷺ! لوگوں کے آغاز میں، آپ نے فرمایا، ”دوبارہ کرو۔“ آپ نے مجھے عَزِل