الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْجُمُعَةِ جمعہ کے احکام و مسائل 13. باب تَخْفِيفِ الصَّلاَةِ وَالْخُطْبَةِ: باب: نماز اور خطبہ مختصر پڑھانے کا بیان۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور خطبہ بیچ بیچ کا تھا (یعنی نہ بہت لمبا، نہ چھوٹا)۔
سیدنا جابر بن سمره رضی اللہ عنہ کہتے: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی نمازیں پڑھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور خطبہ دونوں درمیانے ہوتے تھے۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی نمازیں پڑھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور خطبہ دونوں درمیانے ہوتے تھے۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور آواز بلند ہو جاتی اور غصہ زیادہ ہو جاتا گویا وہ ایک ایسے لشکر سے ڈرانے والے تھے کہ صبح شام آیا اور فرماتے تھے: ”میں اور قیامت یوں بھیجا گیا ہوں۔“ اور اپنے کلمہ کی اور بیچ کی انگلی ملاتے اور کہتے: «أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ» ”اللہ کی حمد کے بعد، جانو کہ ہر بات سے بہتر اللہ کی کتاب ہے اور ہر چال سے بہتر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی چال ہے۔ اور سب کاموں سے برے، نئے کام ہیں اور نیا نیا کام گمراہی ہے، پھر فرماتے کہ میں ہر مؤمن کا دوست ہوں اس کی جان سے زیادہ پھر جو مؤمن مر کر مال چھوڑ جائے وہ اس کے گھر والوں کا ہے اور جو قرض یا بچے چھوڑے ان کی پرورش میری طرف سے ہے اور ان کا خرچ مجھ پر ہے۔“
جعفر بن محمد اپنے باپ سے اور وہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور پھر اس کے بعد بلند آواز سے یہ فرمایا اور اوپر کی روایت کے مثل حدیث بیان کی۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھتے تھے لوگوں پر اور ان لفظوں سے اس کی حمد و ثناء کرتے تھے، جو اس کی درگاہ کے لائق ہیں، پھر فرماتے تھے: «مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِىَ لَهُ وَخَيْرُ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ» ”جس کو اللہ راہ بتا دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں۔ اور سب باتوں سے بہتر اللہ کی کتاب ہے۔“ پھر بیان کی حدیث مثل حدیث ثقفی کے یعنی جو اپور گزری۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ضماد مکہ میں آیا (ضماد ایک شخص کا نام ہے) اور وہ قبیلہ ازدشنؤہ میں سے تھا اور جنوں اور آسیب وغیرہ کو جھاڑتا تھا تو مکہ کے نادانوں سے سنا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مجنون ہیں (پناہ اللہ تعالیٰ کی) تو اس نے کہا: ذرا میں ان کو دیکھوں شايد اللہ میرے ہاتھ سے انہیں اچھا کر دے۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور کہا: اے محمد! میں جنون کو جھاڑتا ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے جس کو چاہتا ہے شفا دیتا ہے تو کیا آپ کو خواہش ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِىَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ» یعنی سب خوبیاں اللہ میں ہیں، میں اس کی خوبیاں بیان کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں جس کو اللہ راہ بتائے اسے کون بہکائے اور جسے وہ بہکائے اسے کون راہ بتائے، اور گواہی دیتا ہوں میں کہ کوئی معبود لائق عبادت کے نہیں، سوائے اللہ تعالیٰ کے۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندہ اور بھیجے ہوئے ہیں۔ اب بعد حمد کے جو کہو کہوں۔“ ضماد نے کہا: پھر تو کہو ان کلمات کو ( «الحمدالله» کہ ضماد پر ایمان کا روپ چڑھ گیا) غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تین بار پڑھا۔ پھر ضماد نے کہا: بھئی میں نے کاہنوں کی باتیں سنیں، جادوگروں کے اقوال سنے، شاعروں کے اشعار سنے، مگر ان کلمات کے برابر میں نے کسی کو نہیں سنا اور یہ تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں۔ پھر ضماد نے کہا اپنا ہاتھ لائیے کہ میں اسلام کی بیعت کروں۔ غرض انہوں نے بیعت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم سے اور تمہاری قوم (کی طرف) سے بیعت لیتا ہوں۔“ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور وہ ان (ضماد) کی قوم پر گزرے تو اس لشکر کے سردار نے کہا کہ تم نے اس قوم سے تو کچھ نہیں لوٹا۔ تب ایک شخص نے کہا کہ ہاں میں نے ایک لوٹا ان سے لیا ہے۔ انہوں نے حکم دیا کہ جاؤ اسے پھیر دو اس لیے کہ یہ ضماد کی قوم ہے (اور وہ ضماد کی بیعت کے سبب سے امان میں آ چکے ہیں)۔
واصل بن حیان نے کہا کہ ابووائل نے کہا کہ خطبہ پڑھا ہم پر سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے اور بہت مختصر پڑھا اور نہایت بلیغ پھر جب وہ اترے منبر سے تو ہم نے کہا: اے ابوالیقظان! تم نے بہت بلیغ خطبہ پڑھا اور نہایت مختصر کہا اور اگر آپ ذرا اس خطبہ کو طویل کرتے تو بہتر ہوتا۔ تب سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے: ”آدمی کا نماز کو لمبا کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کے سمجھ دار ہونے کی نشانی ہے سو تم نماز کو لمبا کیا کرو اور خطبہ کو چھوٹا اور بعض بیان جادو ہوتا ہے۔“ (یعنی تاثیر رکھتا ہے)۔
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خطبہ پڑھا اور اس نے کہا «مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشِدَ وَمَنْ يَعْصِهِمَا فَقَدْ غَوَى» یعنی ”جو اطاعت کرے اللہ اور اس کے رسول کی اس نے راہ پائی اور جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کیا برا خطیب ہے۔ یوں کہو: «وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ» “ ابن نمیر نے اپنی روایت میں کہا: «فَقَدْ غَوِىَ» ۔
صفوان بن یعلیٰ نے اپنے باپ سے روایت کی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کے منبر پر پڑھتے تھے «وَنَادَوْا يَا مَالِكُ» ۔
عمرو کی بہن رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے سوره «ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر یاد کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعہ کو خطبہ میں منبر پر پڑھا کرتے تھے۔
اس سند سے بھی مذکورہ حدیث کی مانند روایت آئی ہے۔
حارثہ کی بیٹی نے کہا کہ نہیں یاد کی میں نے سوره «ق» مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک منہ سے سن کر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ہر جمعہ میں پڑھا کرتے تھے اور ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تنور ایک تھا۔ (یہ اپنا قریب بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ سبحان اللہ! کیا خوش نصیب لوگ تھے۔ کاش! یہ فقیر اس تنور کا خادم ہوتا)۔
سیدہ ام ہشام رضی اللہ عنہا بنت حارثہ بن نعمان نے کہا کہ ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تنور ایک ہی تھا، دو برس یا ایک برس اور کچھ ماہ تک۔ اور نہیں سیکھا میں نے سورۂ ق کو مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ہر جمعہ میں منبر پر پڑھتے تھے، جب لوگوں پر خطبہ پڑھتے۔
عمارہ بن رؤیبہ نے بشر، مروان کے بیٹے کو دیکھا کہ منبر پر دونوں ہاتھ اٹھائے ہے (یعنی دعا کے لئے) تو کہا کہ اللہ خراب کرے ان دونوں ہاتھوں کو میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ اس سے زیادہ نہ کرتے تھے اور اشارہ کیا اپنے کلمہ کی انگلی سے۔
حصین بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے بشر بن مروان کو جمعہ کے دن دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھا پھر باقی حدیث اسی طرح بیان کی۔
|