الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
لباس اور زینت کے احکام
The Book of Clothes and Adornment
حدیث نمبر: 5395
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن ابي فروة الجهني ، قال: سمعت عبد الله بن عكيم ، يقول: كنا عند حذيفة بالمدائن فذكر نحوه، ولم يذكر في الحديث يوم القيامة.وحدثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ الْجُهَنِيِّ ، قال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُكَيْمٍ ، يقول: كُنَّا عِنْدَ حُذَيْفَةَ بِالْمَدَائِنِ فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِي الْحَدِيثِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
ابن ابی عمر نے ہمیں یہی حدیث بیان کی کہا: ہمیں سفیان نے ابو فروہ جہنی سے حدیث سنائی، کہا: میں نے عکیم رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے۔ہم مدا ئن میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے پھر اس کی طرح بیان کیا اور اس حدیث میں "قیامت کے دن" (کے الفاظ) ذکر نہیں کیے۔
امام صاحب یہی حدیث ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں، عبداللہ بن عکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: ہم مدائن میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھے، آگے مذکورہ بالا روایت ہے اور اس میں قیامت کے دن کا ذکر نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 5396
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني عبد الجبار بن العلاء ، حدثنا سفيان ، حدثنا ابن ابي نجيح اولا، عن مجاهد ، عن ابن ابي ليلى ، عن حذيفة ، ثم حدثنا يزيد ، سمعه من ابن ابي ليلى ، عن حذيفة ، ثم حدثنا ابو فروة ، قال: سمعت ابن عكيم ، فظننت ان ابن ابي ليلى إنما سمعه من ابن عكيم، قال: كنا مع حذيفة بالمدائن، فذكر نحوه ولم يقل يوم القيامة.وحدثني عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ أَوَّلًا، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، ثُمّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، سَمِعَهُ مِنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، ثُمّ حَدَّثَنَا أَبُو فَرْوَةَ ، قال: سَمِعْتُ ابْنَ عُكَيْمٍ ، فَظَنَنْتُ أَنَّ ابْنَ أَبِي لَيْلَى إِنَّمَا سَمِعَهُ مِنْ ابْنِ عُكَيْمٍ، قال: كُنَّا مَعَ حُذَيْفَةَ بِالْمَدَائِنِ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ وَلَمْ يَقُلْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
ابن ابی نجیح نے پہلے ہمیں مجا ہد سے، انھوں نے ابن ابی لیلیٰ سے، انھوں نے حضرت حذیفہ سے روایت کی۔پھر ہمیں یزید نے حدیث بیان کی، انھوں نے یہ حدیث ابن ابی لیلیٰ سے سنی، انھوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے، پھر ہمیں ابو فروہ نے حدیث بیان کی کہا: میں نے ابن عکیم رضی اللہ عنہ سے سنی اور میرا خیال یہ ہے کہ ابن ابی لیلیٰ نے بھی یہ حدیث ابن عکیم رضی اللہ عنہ سے سنی، انھوں نے کہا: ہم مدا ئن میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ (انکے دستے میں) تھے۔پھر اسی کے مانند بیان کیا اور "قیامت کے دن "کے الفاظ نہیں کہے۔
امام صاحب مختلف سندوں سے ابن عکیم سے بیان کرتے ہیں کہ ہم مدائن میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے اور مذکورہ بالا روایت بیان کی اور قیامت کے دن کا ذکر نہیں کیا۔
حدیث نمبر: 5397
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابى حدثنا شعبة ، عن الحكم، انه سمع عبد الرحمن يعني ابن ابي ليلى ، قال: شهدت حذيفة استسقى بالمدائن، فاتاه إنسان بإناء من فضة فذكره بمعنى حديث ابن عكيم عن حذيفة.وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حدثنا أبى حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْحَكَمِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: شَهِدْتُ حُذَيْفَةَ اسْتَسْقَى بِالْمَدَائِنِ، فَأَتَاهُ إِنْسَانٌ بِإِنَاءٍ مِنْ فِضَّةٍ فَذَكَرَهُ بِمَعْنَى حَدِيثِ ابْنِ عُكَيْمٍ عَنْ حُذَيْفَةَ.
عبید اللہ کے والد معاذ عنبری نے کہا: ہمیں شعبہ نے حکم سے حدیث بیان کی انھوں نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے سنا، انھوں نے کہا: میں نے دیکھا کہ مدا ئن میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے پا نی مانگا تو ایک شخص ان کے پاس چاندی کا برتن لے کر آیا پھر انھوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ابن عکیم رضی اللہ عنہ کی روا یت کے مانند بیان کیا۔
عبدالرحمٰن یعنی ابن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں، میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس مدائن میں تھا، انہوں نے پانی مانگا تو ان کے پاس ایک انسان چاندی کا برتن لایا، آگے ابن عکیم کی روایت کے ہم معنی روایت بیان کی۔
حدیث نمبر: 5398
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع . ح وحدثنا ابن المثنى ، وابن بشار ، قالا: حدثنا محمد بن جعفر . ح وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا ابن ابي عدي . ح وحدثني عبد الرحمن بن بشر ، حدثنا بهز كلهم، عن شعبة بمثل حديث معاذ وإسناده، ولم يذكر احد منهم في الحديث شهدت حذيفة غير معاذ وحده إنما قالوا إن حذيفة استسقى.وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ . ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ كُلُّهُمْ، عَنْ شُعْبَةَ بمثل حديث مُعَاذٍ وَإِسْنَادِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَحَدٌ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ شَهِدْتُ حُذَيْفَةَ غَيْرُ مُعَاذٍ وَحْدَهُ إِنَّمَا قَالُوا إِنَّ حُذَيْفَةَ اسْتَسْقَى.
وکیع محمد بن جعفر ابن ابی عدی اور بہز، ان سب نے شعبہ سے معاذ کی حدیث کے مانند انھی کی سند کے ساتھ حدیث روایت کی اور اکیلے معاذ کے سوا، ان میں سے کسی نے حدیث میں " میں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا "کے الفا ظ نہیں کہے۔سب نے یہی کیا: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے پانی مانگا۔
یہی روایت امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ سے معاذ کی حدیث اور سند کی طرح بیان کرتے ہیں اور کسی نے حدیث میں یہ بیان نہیں کیا: میں حذیفہ کے پاس تھا، صرف معاذ یہ بیان کرتا ہے، باقیوں نے صرف یہ کہا: حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پانی مانگا۔
حدیث نمبر: 5399
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا جرير ، عن منصور . ح وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن ابن عون كلاهما، عن مجاهد ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن حذيفة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمعنى حديث من ذكرنا.وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ كِلَاهُمَا، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَى حَدِيثِ مَنْ ذَكَرْنَا.
منصور اور ابن عون دونوں نے مجا ہد سے، انھوں نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے، انھوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لوگوں کی روایت کے ہم معنی حدیث بیان کی جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے مذکورہ بالا اساتذہ کی طرح حدیث بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 5400
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابى ، حدثنا سيف ، قال: سمعت مجاهدا ، يقول: سمعت عبد الرحمن بن ابي ليلى ، قال: استسقى حذيفة ، فسقاه مجوسي في إناء من فضة، فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا تلبسوا الحرير، ولا الديباج، ولا تشربوا في آنية الذهب والفضة، ولا تاكلوا في صحافها فإنها لهم في الدنيا ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حدثنا أبى ، حَدَّثَنَا سَيْفٌ ، قال: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا ، يقول: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى ، قال: اسْتَسْقَى حُذَيْفَةُ ، فَسَقَاهُ مَجُوسِيٌّ فِي إِنَاءٍ مِنْ فِضَّةٍ، فَقَالَ: إِنِّي سمعت رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا تَلْبَسُوا الْحَرِيرَ، وَلَا الدِّيبَاجَ، وَلَا تَشْرَبُوا فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَلَا تَأْكُلُوا فِي صِحَافِهَا فَإِنَّهَا لَهُمْ فِي الدُّنْيَا ".
‏سیف نے کہا کہ میں نے مجا ہد کو کہتے و ئے سنا، عبد اللہ الرحمن بن ابی لیلیٰ سے سنا، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے پانی مانگا تو ایک مجوسی ان کے پاس چاندی کے برتن میں پانی لا یا تو انھوں (حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتےہو ئے سناہے۔ "ریشم پہنو دیباج پہنو اور نہ سونے اور چاندی کے برتن میں پیو اور نہ ان (قیمتی دھاتوں) کی رکابیوں (پلیٹوں) میں کھا ؤکیونکہ یہ برتن دنیا میں ان (کفار) کے لیے ہیں۔
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں، حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پانی طلب کیا تو ایک مجوسی نے انہیں چاندی کے برتن میں پیش کیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: نہ ریشم پہنو اور نہ دیباج اور نہ سونے اور چاندی کے برتن میں پیو اور نہ ان کی پلیٹوں میں کھاؤ، کیونکہ یہ برتن دنیا میں ان کے لیے (کافروں کے لیے) ہیں۔
3ق. باب تَحْرِيمِ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَغَيْرِ ذٰلَكَ لِلرِّجَالِ
3ق. باب: مردوں کے لیے ریشم وغیرہ پہننے کی حرمت کے بیان میں۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 5401
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان عمر بن الخطاب راى حلة سيراء عند باب المسجد، فقال: يا رسول الله، لو اشتريت هذه فلبستها للناس يوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما يلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة "، ثم جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم منها حلل، فاعطى عمر منها حلة، فقال عمر: يا رسول الله، كسوتنيها وقد قلت في حلة عطارد ما قلت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني لم اكسكها لتلبسها "، فكساها عمر اخا له مشركا بمكة.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قال: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَأَى حُلَّةً سِيَرَاءَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَ هَذِهِ فَلَبِسْتَهَا لِلنَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلِلْوَفْدِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ "، ثُمَّ جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا حُلَلٌ، فَأَعْطَى عُمَرَ مِنْهَا حُلَّةً، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَسَوْتَنِيهَا وَقَدْ قُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا "، فَكَسَاهَا عُمَرُ أَخًا لَهُ مُشْرِكًا بِمَكَّةَ.
مالک نے نافع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے قریب (بازار میں) ایک ریشمی حُلَہ (ایک جیسی رشیمی چادروں کا جوڑا بکتے ہو ئے) دیکھا۔انھوں نے کہا: کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کتنا اچھا ہو اگر آپ یہ حلہ خریدلیں اور جمعہ کے دن لوگوں کے سامنے (خطبہ دینے کے لیے) اور جب کوئی وفد آپ کے پاس آئے تو اسے زیب تن فرما ئیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: "اس کو (دنیا میں) صرف وہ لو گ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان میں سے کچھ ریشمی حلے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک حلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عطا فرما یا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے مجھے یہ حلہ پہننے کے لیے دیا ہے حالانکہ آپ نے عطارد (بن حاجب بن ز رارہ جو مسجد کے دروازے کے باہر حلے بیچ رہے تھے) کے حلے کے بارے میں جو فرما یا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " میں نے یہ حلہ تم کو پہننے کے لیے نہیں دیا۔"پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ حلہ مکہ میں اپنے ایک بھا ئی کو دے دیا جو مشرک تھا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کے دروازہ کے پاس ایک ریشمی دھاری دار جوڑا دیکھا تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اے کاش، آپ اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن لوگوں کے لیے اور وفد کے لیے جب وہ آپ کے پاس آئیں پہن لیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو تو بس وہ لوگ پہنتے ہیں، جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، یعنی کافر پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس قسم کے جوڑے آئے تو آپ نے ان میں سے ایک جوڑا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت فرمایا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے یہ مجھے عنایت کیا ہے، حالانکہ آپ عطارد کے حلہ (جوڑا) کے بارے میں جو کہہ چکے ہیں، آپ کو معلوم ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں یہ پہننے کے لیے نہیں دیا ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ مکہ میں اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا۔
حدیث نمبر: 5402
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي . ح وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة . ح وحدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثنا يحيي بن سعيد كلهم، عن عبيد الله . ح وحدثني سويد بن سعيد ، حدثنا حفص بن ميسرة ، عن موسى بن عقبة كلاهما، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحو حديث مالك.وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ كُلُّهُمْ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ . ح وحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ حَدِيثِ مَالِكٍ.
عبید اللہ اور موسیٰ بن عقبہ دونوں نے نا فع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مالک کی حدیث کی طرح روایت کی۔
امام صاحب یہی روایت اپنے چار اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 5403
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا جرير بن حازم ، حدثنا نافع ، عن ابن عمر ، قال: راى عمر عطاردا التميمي يقيم بالسوق حلة سيراء، وكان رجلا يغشى الملوك ويصيب منهم، فقال عمر: يا رسول الله، إني رايت عطاردا يقيم في السوق حلة سيراء، فلو اشتريتها فلبستها لوفود العرب إذا قدموا عليك واظنه، قال: ولبستها يوم الجمعة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما يلبس الحرير في الدنيا من لا خلاق له في الآخرة "، فلما كان بعد ذلك اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بحلل سيراء، فبعث إلى عمر بحلة وبعث إلى اسامة بن زيد بحلة، واعطى علي بن ابي طالب حلة، وقال: شققها خمرا بين نسائك، قال: فجاء عمر بحلته يحملها، فقال: يا رسول الله، بعثت إلي بهذه وقد قلت بالامس في حلة عطارد ما قلت، فقال: " إني لم ابعث بها إليك لتلبسها، ولكني بعثت بها إليك لتصيب بها "، واما اسامة فراح في حلته، فنظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم نظرا، عرف ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد انكر ما صنع، فقال: يا رسول الله، ما تنظر إلي فانت بعثت إلي بها، فقال: " إني لم ابعث إليك لتلبسها، ولكني بعثت بها إليك لتشققها خمرا بين نسائك ".وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قال: رَأَى عُمَرُ عُطَارِدًا التَّمِيمِيَّ يُقِيمُ بِالسُّوقِ حُلَّةً سِيَرَاءَ، وَكَانَ رَجُلًا يَغْشَى الْمُلُوكَ وَيُصِيبُ مِنْهُمْ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَأَيْتُ عُطَارِدًا يُقِيمُ فِي السُّوقِ حُلَّةً سِيَرَاءَ، فَلَوِ اشْتَرَيْتَهَا فَلَبِسْتَهَا لِوُفُودِ الْعَرَبِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ وَأَظُنُّهُ، قَالَ: وَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ "، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحُلَلٍ سِيَرَاءَ، فَبَعَثَ إِلَى عُمَرَ بِحُلَّةٍ وَبَعَثَ إِلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ بِحُلَّةٍ، وَأَعْطَى عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ حُلَّةً، وَقَالَ: شَقِّقْهَا خُمُرًا بَيْنَ نِسَائِكَ، قَالَ: فَجَاءَ عُمَرُ بِحُلَّتِهِ يَحْمِلُهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَعَثْتَ إِلَيَّ بِهَذِهِ وَقَدْ قُلْتَ بِالْأَمْسِ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ، فَقَالَ: " إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ بِهَا إِلَيْكَ لِتَلْبَسَهَا، وَلَكِنِّي بَعَثْتُ بِهَا إِلَيْكَ لِتُصِيبَ بِهَا "، وَأَمَّا أُسَامَةُ فَرَاحَ فِي حُلَّتِهِ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظَرًا، عَرَفَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَنْكَرَ مَا صَنَعَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تَنْظُرُ إِلَيَّ فَأَنْتَ بَعَثْتَ إِلَيَّ بِهَا، فَقَالَ: " إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ إِلَيْكَ لِتَلْبَسَهَا، وَلَكِنِّي بَعَثْتُ بِهَا إِلَيْكَ لِتُشَقِّقَهَا خُمُرًا بَيْنَ نِسَائِكَ ".
جریر بن حازم نے کہا: ہمیں نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سےروایت بیان کی کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ عُطارد تمیمی بازار میں ایک ریشمی حلہ (بیچنے کے لیے) اس کی قیمت بتا رہا ہے۔ یہ بادشاہوں کے پاس جایا کرتا تھا اور ان سے انعام واکرا م وصول کرتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے عطارد کو دیکھا ہے وہ بازار میں ایک ریشمی حلہ بیچ رہا ہے، آپ اسے خرید لیتے تو آپ عرب کے وفود آتے (اس وقت) آپ اس کو زیب تن فرما تے اور میراخیال ہے (یہ بھی) کہا: اور جمعہ کے دن بھی آپ اسے زیب تن فرما تے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرما یا: " دنیا میں ریشم صرف وہی شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو تا۔اس واقعے کے بعد (کا ایک دن آیاتو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کئی ریشمی حلے آئے آپ نے ایک حلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھی بھیجا، ایک حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور ایک حلہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیا اور فرما یا: "اس کو پھاڑ کر اپنی عورتوں کو دوپٹے بنا دو۔"حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے حلے کو اٹھا کر لا ئے اور عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے یہ حلہ میرے پاس بھیجا ہے حالانکہ آپ نےکل ہی عطارد کے حلے کے متعلق فرمایا تھا۔جو آپ نے فرما یا تھا؟ آپ نے فرمایا: " میں نے تمھا رے پاس یہ حلہ اس لیے نہیں بھیجا کہ اسے تم خود پہنو، بلکہ میں نے تمھا رے پاس یہ اس لیے بھیجا ہے کہ تم کچھ (فائدہ) حاصل کرو۔ "تو رہے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ تو وہ اپنا حلہ پہن کر آگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس طرح دیکھا جس سے انھیں پتہ چل گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا ایسا کرنا پسند نہیں آیا امھوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں؟ آپ ہی نے تو اسے میرے پاس بھیجا تھا۔ آپ نے فرما یا: " میں نے تمھا رے پاس اسلیے نہیں بھیجا تھا کہ تم خود اس کو پہن لو۔بلکہ میں نے اس لیے اس حلے کو تمھا رے پاس بھیجا تھا کہ تم اس کو پھاڑ کر اپنی عورتوں میں دوپٹے بانٹ دو۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عطارد تیمی کو دیکھا، بازار میں ایک ریشمی دھاری دار جوڑا فروخت کر رہا ہے، وہ ایسا آدمی تھا، جو بادشاہوں کے پاس جاتا اور ان سے انعام پاتا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے عطارد کو دیکھا ہے، وہ بازار میں ریشمی دھاری دار جوڑا فروخت کرنا چاہتا ہے، اے کاش! آپ اسے خرید لیں اور عربی وفود جب آپ کے پاس آئیں تو اسے پہن لیں اور میرے خیال میں یہ بھی کہا: جمعہ کے دن پہن لیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا: اس کو دنیا میں صرف وہ لوگ پہنتے ہیں، جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس قسم کے جوڑے لائے گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوڑا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف بھیجا، ایک جوڑا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف بھیجا اور ایک جوڑا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا اور فرمایا: اس کو پھاڑ کر اپنی عورتوں کو دوپٹے بنا دو۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا جوڑا اٹھا کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے مجھے یہ بھیج دیا ہے، حالانکہ آپ کل عطارد کے جوڑے کے بارے میں جو فرما چکے ہیں، آپ کو معلوم ہے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے یہ تجھے اس لیے نہیں بھیجا ہے کہ اسے پہن لو، لیکن میں نے تو اس لیے بھیجا کہ اس سے اپنی ضرورت پوری کر لو۔ رہے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو وہ اپنا جوڑا پہن کر چل پڑے تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نظر سے دیکھا کہ وہ سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرکت کو برا محسوس کیا ہے تو عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے کس نظر سے دیکھ رہے ہیں، آپ ہی نے تو مجھے یہ بھیجا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تیری طرف اس لیے نہیں بھیجا کہ تو اسے پہن لے، بلکہ میں نے تو تجھے اس لیے بھیجا ہے کہ تو اسے پھاڑ کر اپنی عورتوں کے لیے دوپٹے بنا، ان میں تقسیم کر دے۔
حدیث نمبر: 5404
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني ابو الطاهر ، وحرملة بن يحيي ، واللفظ لحرملة، قالا: اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، حدثني سالم بن عبد الله ، ان عبد الله بن عمر ، قال: وجد عمر بن الخطاب حلة من إستبرق تباع بالسوق، فاخذها فاتى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ابتع هذه فتجمل بها للعيد وللوفد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما هذه لباس من لا خلاق له "، قال: فلبث عمر ما شاء الله ثم ارسل إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بجبة ديباج، فاقبل بها عمر حتى اتى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، قلت إنما هذه لباس من لا خلاق له او إنما يلبس هذه من لا خلاق له، ثم ارسلت إلي بهذه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تبيعها وتصيب بها حاجتك ".وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، وَاللَّفْظُ لِحَرْمَلَةَ، قالا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قال: وَجَدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ حُلَّةً مِنْ إِسْتَبْرَقٍ تُبَاعُ بِالسُّوقِ، فَأَخَذَهَا فَأَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْتَعْ هَذِهِ فَتَجَمَّلْ بِهَا لِلْعِيدِ وَلِلْوَفْدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ "، قَالَ: فَلَبِثَ عُمَرُ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجُبَّةِ دِيبَاجٍ، فَأَقْبَلَ بِهَا عُمَرُ حَتَّى أَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ أَوْ إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ، ثُمَّ أَرْسَلْتَ إِلَيَّ بِهَذِهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَبِيعُهَا وَتُصِيبُ بِهَا حَاجَتَكَ ".
یو نس نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے سالم بن عبد اللہ نے حدیث بیان کی کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ استبرق (موٹے ریشم) کا ایک حلہ بازار میں فروخت ہو تا ہوا دیکھا انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اسے خرید لیجئے اور عید اور وفود کی آمد پر اسے زیب تن فرمائیے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ صرف ایسے شخص کا لباس ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔"کہا: پھر جب تک اللہ کو منظور تھا وقت گزرا (لفظی ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی حالت میں رہے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس دیباج کا ایک جبہ بھیج دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرما یا تھا: "یہ اس شخص کا لباس ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔یاآپ نے (اس طرح) فرما یا تھا: " اس کووہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔"پھر آپ نے یہی میرے پاس بھیج دیا ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " (اس لیے کہ) تم اس کو فروخت کر دواوراس (کی قیمت) سے اپنی ضرورت پو ری کرلو۔"
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بازار میں ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے پایا تو اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی: اے اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں اور عید کے موقعہ پر اور وفد کے لیے خوش پوشی کا اظہار فرمائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو بس ان لوگوں کا لباس ہے، جن کا کوئی حصہ نہیں ہے پھر جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور تھا، حضرت ٹھہرے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیباج کا جبہ بھیجا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو لے کر بڑھے، حتی کہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! آپ کہہ چکے ہیں یہ تو بس ان لوگوں کا لباس ہے، جن کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یا اسے تو بس وہ لوگ پہنتے ہیں، جن کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ پھر آپ نے مجھے بھیج دیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب دیا: اور اسے بیچ کر، اس سے اپنی ضرورت پوری کر لو۔

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.