الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز میں سہو و نسیان سے متعلق احکام و مسائل
The Book on As-Shw
191. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الدَّابَّةِ فِي الطِّينِ وَالْمَطَرِ
191. باب: کیچڑ اور بارش میں سواری پر نماز پڑھ لینے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Salat On The Riding Animal During Muddy And Rainy Conditions
حدیث نمبر: 411
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا شبابة بن سوار، حدثنا عمر بن الرماح البلخي، عن كثير بن زياد، عن عمرو بن عثمان بن يعلى بن مرة، عن ابيه، عن جده، انهم كانوا مع النبي صلى الله عليه وسلم في مسير، فانتهوا إلى مضيق وحضرت الصلاة فمطروا السماء من فوقهم والبلة من اسفل منهم " فاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على راحلته واقام او اقام فتقدم على راحلته فصلى بهم يومئ إيماء يجعل السجود اخفض من الركوع ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، تفرد به عمر بن الرماح البلخي، لا يعرف إلا من حديثه، وقد روى عنه غير واحد من اهل العلم، وكذلك روي عن انس بن مالك انه صلى في ماء وطين على دابته، والعمل على هذا عند اهل العلم، وبه يقول: احمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الرَّمَّاحِ الْبَلْخِيُّ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ، فَانْتَهَوْا إِلَى مَضِيقٍ وَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَمُطِرُوا السَّمَاءُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَالْبِلَّةُ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ " فَأَذَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَأَقَامَ أَوْ أَقَامَ فَتَقَدَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ فَصَلَّى بِهِمْ يُومِئُ إِيمَاءً يَجْعَلُ السُّجُودَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّكُوعِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، تَفَرَّدَ بِهِ عُمَرُ بْنُ الرَّمَّاحِ الْبَلْخِيُّ، لَا يُعْرَفُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ صَلَّى فِي مَاءٍ وَطِينٍ عَلَى دَابَّتِهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق.
یعلیٰ بن مرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ ایک سفر میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے، وہ ایک تنگ جگہ پہنچے تھے کہ نماز کا وقت آ گیا، اوپر سے بارش ہونے لگی، اور نیچے کیچڑ ہو گئی، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی سواری ہی پر اذان دی اور اقامت کہی اور سواری ہی پر آگے بڑھے اور انہیں نماز پڑھائی، آپ اشارہ سے نماز پڑھتے تھے، سجدہ میں رکوع سے قدرے زیادہ جھکتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، عمر بن رماح بلخی اس کے روایت کرنے میں منفرد ہیں۔ یہ صرف انہیں کی سند سے جانی جاتی ہے۔ اور ان سے یہ حدیث اہل علم میں سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے،
۲- انس بن مالک سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے پانی اور کیچڑ میں اپنی سواری پر نماز پڑھی،
۳- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11851) (ضعیف الإسناد) (سند میں ”عمروبن عثمان“ مجہول الحال اور عثمان بن یعلی“ مجہول العین ہیں)»

وضاحت:
۱؎: جب ایسی صورت حال پیش آ جائے اور دوسری جگہ وقت کے اندر ملنے کا امکان نہ ہو تو نماز کا قضاء کرنے سے بہتر اس طرح سے نماز ادا کر لینا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
192. باب مَا جَاءَ فِي الاِجْتِهَادِ فِي الصَّلاَةِ
192. باب: نماز میں خوب محنت اور کوشش کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Striving With The Salat
حدیث نمبر: 412
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، وبشر بن معاذ العقدي، قالا: حدثنا ابو عوانة، عن زياد بن علاقة، عن المغيرة بن شعبة، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى انتفخت قدماه، فقيل له: اتتكلف هذا وقد غفر لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر، قال: " افلا اكون عبدا شكورا " قال: وفي الباب عن ابي هريرة , وعائشة، قال ابو عيسى: حديث المغيرة بن شعبة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَبِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَفَخَتْ قَدَمَاهُ، فَقِيلَ لَهُ: أَتَتَكَلَّفُ هَذَا وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ: " أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَعَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے نماز پڑھی یہاں تک کہ آپ کے پیر سوج گئے تو آپ سے عرض کیا گیا: کیا آپ ایسی زحمت کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے گئے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ اور عائشہ رضی الله عنہما سے احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التہجد 6، وتفسیر الفتح 2 (4836)، والرقاق 20 (6471)، صحیح مسلم/المنافقین 18 (2820)، سنن النسائی/قیام اللیل 17 (1645)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 200 (1419، 1420)، (تحفة الأشراف: 11498)، مسند احمد (4/251، 255) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی زیادہ دیر تک نفل نماز پڑھنے کا بیان۔
۲؎: تو جب بخشے بخشائے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم بطور شکرانے کے زیادہ دیر تک نفل نماز پڑھا کرتے تھے یعنی عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت لگاتے تھے تو ہم گنہگار امتیوں کو تو اپنے کو بخشوانے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی طرف مسنون اعمال کے ذریعے اور زیادہ دھیان دینا چاہیئے۔ البتہ بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1419 - 1420)
193. باب مَا جَاءَ أَنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الصَّلاَةُ
193. باب: قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے محاسبہ کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About 'The First Thing The Slave (Of Allah) Will Be Reckoned For On The Day Of Judgement Is The Salat'
حدیث نمبر: 413
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(قدسي) حدثنا علي بن نصر بن علي الجهضمي، حدثنا سهل بن حماد، حدثنا همام، قال: حدثني قتادة، عن الحسن، عن حريث بن قبيصة، قال: قدمت المدينة، فقلت: اللهم يسر لي جليسا صالحا، قال: فجلست إلى ابي هريرة، فقلت: إني سالت الله ان يرزقني جليسا صالحا فحدثني بحديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم لعل الله ان ينفعني به، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن اول ما يحاسب به العبد يوم القيامة من عمله صلاته فإن صلحت فقد افلح وانجح وإن فسدت فقد خاب وخسر، فإن انتقص من فريضته شيء قال الرب عز وجل: انظروا هل لعبدي من تطوع فيكمل بها ما انتقص من الفريضة، ثم يكون سائر عمله على ذلك " قال: وفي الباب عن تميم الداري، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن غريب من هذا الوجه، وقد روي هذا الحديث من غير هذا الوجه عن ابي هريرة، وقد روى بعض اصحاب الحسن، عن الحسن، عن قبيصة بن حريث غير هذا الحديث، والمشهور هو قبيصة بن حريث، وروي عن انس بن حكيم، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا.(قدسي) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ حُرَيْثِ بْنِ قَبِيصَةَ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ يَسِّرْ لِي جَلِيسًا صَالِحًا، قَالَ: فَجَلَسْتُ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقُلْتُ: إِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ أَنْ يَرْزُقَنِي جَلِيسًا صَالِحًا فَحَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ، فَإِنِ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ فَيُكَمَّلَ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ الْحَسَنِ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ حُرَيْثٍ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَالْمَشْهُورُ هُوَ قَبِيصَةُ بْنُ حُرَيْثٍ، وَرُوِي عَنْ أَنَسِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا.
حریث بن قبیصہ کہتے ہیں کہ میں مدینے آیا: میں نے کہا: اے اللہ مجھے نیک اور صالح ساتھی نصیب فرما، چنانچہ ابوہریرہ رضی الله عنہ کے پاس بیٹھنا میسر ہو گیا، میں نے ان سے کہا: میں نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ مجھے نیک ساتھی عطا فرما، تو آپ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے، جسے آپ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہو، شاید اللہ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا محاسبہ ہو گا، اگر وہ ٹھیک رہی تو کامیاب ہو گیا، اور اگر وہ خراب نکلی تو وہ ناکام اور نامراد رہا، اور اگر اس کی فرض نمازوں میں کوئی کمی ۱؎ ہو گی تو رب تعالیٰ (فرشتوں سے) فرمائے گا: دیکھو، میرے اس بندے کے پاس کوئی نفل نماز ہے؟ چنانچہ فرض نماز کی کمی کی تلافی اس نفل سے کر دی جائے گی، پھر اسی انداز سے سارے اعمال کا محاسبہ ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- یہ حدیث دیگر اور سندوں سے بھی ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہے،
۳- حسن کے بعض تلامذہ نے حسن سے اور انہوں نے قبیصہ بن حریث سے اس حدیث کے علاوہ دوسری اور حدیثیں بھی روایت کی ہیں اور مشہور قبیصہ بن حریث ہی ہے ۲؎، یہ حدیث بطریق: «أنس بن حكيم عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» بھی روایت کی گئی ہے،
۴- اس باب میں تمیم داری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الصلاة 9 (466)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 202 (1425)، (تحفة الأشراف: 17393)، مسند احمد (2/425) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ کمی خشوع خضوع اور اعتدال کی کمی بھی ہو سکتی ہے، اور تعداد کی کمی بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ آپ نے فرمایا ہے دیگر سارے اعمال کا معاملہ بھی یہی ہو گا تو زکاۃ میں کہاں خشوع خضوع کا معاملہ ہے؟ وہاں تعداد ہی میں کمی ہو سکتی ہے، اللہ کا فضل بڑا وسیع ہے، عام طور پر نماز پڑھتے رہنے والے سے اگر کوئی نماز رہ گئی تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ معاملہ فرما دے گا، ان شاءاللہ۔
۲؎: یعنی: ان کے نام میں اختلاف ہے، قبیصہ بن حریث بھی کہا گیا ہے، اور حریث بن قبیصہ بھی کہا گیا ہے، تو زیادہ مشہور قبیصہ بن حریث ہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1425 - 1426)
194. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَىْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ وَمَا لَهُ فِيهِ مِنَ الْفَضْلِ
194. باب: دن و رات میں بارہ رکعتیں سنت پڑھنے کے ثواب کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About One Who Prays Twelve Rak'ah Of Sunnah In A and Night, And What Virtues He Will Have For That
حدیث نمبر: 414
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن رافع النيسابوري، حدثنا إسحاق بن سليمان الرازي، حدثنا المغيرة بن زياد، عن عطاء، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ثابر على ثنتي عشرة ركعة من السنة بنى الله له بيتا في الجنة، اربع ركعات قبل الظهر، وركعتين بعدها وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء، وركعتين قبل الفجر " قال: وفي الباب عن ام حبيبة، وابي هريرة , وابي موسى , وابن عمر، قال ابو عيسى 12: حديث عائشة حديث غريب من هذا الوجه، ومغيرة بن زياد قد تكلم فيه بعض اهل العلم من قبل حفظه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ، أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَبِي مُوسَى , وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى 12: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ قَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو بارہ رکعت سنت ۱؎ پر مداومت کرے گا اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے ۲؎، دو رکعتیں اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث اس سند سے غریب ہے،
۲- سند میں مغیرہ بن زیاد پر بعض اہل علم نے ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے،
۳- اس باب میں ام حبیبہ، ابوہریرہ، ابوموسیٰ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/قیام اللیل 66 (1795، 1796)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 100 (1140)، (تحفة الأشراف: 17393) (صحیح) (تراجع الألبانی 621)»

وضاحت:
۱؎: فرض نمازوں کے علاوہ ہر نماز کے ساتھ اس سے پہلے یا بعد میں جو سنت پڑھی جاتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم وہ ہے جس پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مداومت فرمائی ہے، انہیں سنت موکدہ یا سنن رواتب کہا جاتا ہے، دوسری قسم وہ ہے جس پر آپ نے مداومت نہیں فرمائی ہے انہیں سنن غیر موکدہ کہا جاتا ہے، سنن موکدہ کل ۱۲ رکعتیں ہیں، جس کی تفصیل اس روایت میں ہے، ان سنتوں کو گھر میں پڑھنا افضل ہے۔ لیکن اگر گھر میں پڑھنا مشکل ہو جائے، جیسے گھر کے لیے اٹھا رکھنے میں سرے سے بھول جانے کا خطرہ ہو تو مسجد ہی ادا کر لینی چاہیئے۔
۲؎: اس حدیث میں ظہر کے فرض سے پہلے چار رکعت کا ذکر ہے اور عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کی روایت میں دو رکعت کا ذکر ہے، تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ دونوں طرح سے جائز ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا عمل دونوں طرح سے تھا کبھی ایسا کرتے اور کبھی ویسا، یا یہ بھی ممکن ہے کہ گھر میں دو رکعتیں پڑھ کر نکلتے اور مسجد میں پھر دو پڑھتے، یا یہ بھی ہوتا ہو گا کہ گھر میں چار پڑھتے اور مسجد جا کر تحیۃ المسجد کے طور پر دو پڑھتے تو ابن عمر نے اس کو سنت مؤکدہ والی دو سمجھا، ایک تطبیق یہ بھی ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما کا بیان کردہ واقعہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا اپنا فعل ہے (جو کبھی چار کا بھی ہوتا تھا) مگر عائشہ رضی الله عنہا اورام حبیبہ رضی الله عنہما کی یہ حدیث قولی ہے جو امت کے لیے ہے، اور بہرحال چار میں ثواب زیادہ ہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1140)
حدیث نمبر: 415
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا مؤمل هو ابن إسماعيل، حدثنا سفيان الثوري، عن ابي إسحاق، عن المسيب بن رافع، عن عنبسة بن ابي سفيان، عن ام حبيبة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى في يوم وليلة ثنتي عشرة ركعة بني له بيت في الجنة، اربعا قبل الظهر وركعتين بعدها، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء، وركعتين قبل صلاة الفجر " قال ابو عيسى: وحديث عنبسة، عن ام حبيبة في هذا الباب حديث حسن صحيح، وقد روي عن عنبسة من غير وجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ هُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ، أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ عَنْبَسَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَنْبَسَةَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص رات اور دن میں بارہ رکعت سنت پڑھے گا، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں اس کے بعد، دو مغرب کے بعد، دو عشاء کے بعد اور دو فجر سے پہلے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
عنبسہ کی حدیث جو ام حبیبہ رضی الله عنہا سے مروی ہے اس باب میں حسن صحیح ہے۔ اور وہ عنبسہ سے دیگر اور سندوں سے بھی مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 14 (729)، سنن ابی داود/ الصلاة 290 (1250)، سنن النسائی/قیام اللیل 66 (1797، 1798)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 100 (1141)، (تحفة الأشراف: 15862)، مسند احمد (6/326، 327، 426)، سنن الدارمی/الصلاة 144 (1478) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1141)
195. باب مَا جَاءَ فِي رَكْعَتَىِ الْفَجْرِ مِنَ الْفَضْلِ
195. باب: فجر کی دونوں سنتوں کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Virtue Of The Two Rak'ah (Before) Fajr
حدیث نمبر: 416
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا صالح بن عبد الله الترمذي، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن زرارة بن اوفى، عن سعد بن هشام، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها " قال: وفي الباب عن علي , وابن عمر , وابن عباس، قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح، وقد روى احمد بن حنبل، عن صالح بن عبد الله الترمذي حديث عائشة.(مرفوع) حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَابْنِ عُمَرَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ التِّرْمِذِيِّ حَدِيثَ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: فجر کی دونوں رکعتیں دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے ان سب سے بہتر ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، ابن عمر، اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ جنہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ان میں پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 14 (725)، سنن النسائی/قیام اللیل 56 (1760، 265)، (تحفة الأشراف: 16106)، مسند احمد (6/149) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (437)
196. باب مَا جَاءَ فِي تَخْفِيفِ رَكْعَتَىِ الْفَجْرِ وَمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِيهِمَا
196. باب: فجر کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھنے اور ان سورتوں کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Brevity Of The Two Rak'ah Of Fajr And What The Prophet (S) Would Recite In Them
حدیث نمبر: 417
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان وابو عمار، قالا: حدثنا ابو احمد الزبيري، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن مجاهد، عن ابن عمر، قال: " رمقت النبي صلى الله عليه وسلم شهرا فكان يقرا في الركعتين قبل الفجر ب: قل يا ايها الكافرون و قل هو الله احد " قال: وفي الباب عن ابن مسعود , وانس , وابي هريرة , وابن عباس، وحفصة، وعائشة، قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن، ولا نعرفه من حديث الثوري، عن ابي إسحاق إلا من حديث ابي احمد، والمعروف عند الناس حديث إسرائيل، عن ابي إسحاق، وقد روى عن ابي احمد، عن إسرائيل هذا الحديث ايضا، وابو احمد الزبيري ثقة. حافظ، قال: سمعت بندارا، يقول: ما رايت احدا احسن حفظا من ابي احمد الزبيري، وابو احمد اسمه محمد بن عبد الله بن الزبير الكوفي الاسدي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَأَبُو عَمَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " رَمَقْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا فَكَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ بِ: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ , وَأَنَسٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَحَفْصَةَ، وَعَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَلَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي أَحْمَدَ، وَالْمَعْرُوفُ عِنْدَ النَّاسِ حَدِيثُ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، وَقَدْ رَوَى عَنْ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا، وَأَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ثِقَةٌ. حَافِظٌ، قَالَ: سَمِعْت بُنْدَارًا، يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ حِفْظًا مِنْ أَبِي أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيِّ، وَأَبُو أَحْمَدَ اسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ الْكُوفِيُّ الْأَسَدِيُّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو ایک مہینے تک دیکھتا رہا، فجر سے پہلے کی دونوں رکعتوں میں آپ «قل يا أيها الكافرون» اور «‏قل هو الله أحد‏» پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے،
۲- اور ہم ثوری کی روایت کو جسے انہوں نے ابواسحاق سے روایت کی ہے صرف ابواحمد زبیری ہی کے طریق سے جانتے ہیں، (جب کہ) لوگوں (محدثین) کے نزدیک معروف «عن إسرائيل عن أبي إسحاق» ہے بجائے «سفیان ابی اسحاق» کے،
۳- اور ابواحمد زبیری کے واسطہ سے بھی اسرائیل سے روایت کی گئی ہے،
۴- ابواحمد زبیری ثقہ اور حافظ ہیں، میں نے بندار کو کہتے سنا ہے کہ میں نے ابواحمد زبیری سے زیادہ اچھے حافظے والا نہیں دیکھا، ابواحمد کا نام محمد بن عبداللہ بن زبیر کوفی اسدی ہے،
۵- اس باب میں ابن مسعود، انس، ابوہریرہ، ابن عباس، حفصہ اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الافتتاح 68 (993)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 102 (1149)، (تحفة الأشراف: 7388)، مسند احمد (2/94، 95، 99) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1149)
197. باب مَا جَاءَ فِي الْكَلاَمِ بَعْدَ رَكْعَتَىِ الْفَجْرِ
197. باب: فجر کی دونوں رکعتوں کے بعد گفتگو کے جائز ہونے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Talking After The Two Rak'ah (Before) Fajr
حدیث نمبر: 418
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يوسف بن عيسى المروزي، حدثنا عبد الله بن إدريس، قال: سمعت مالك بن انس، عن ابي النضر، عن ابي سلمة، عن عائشة، قالت: " كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلى ركعتي الفجر، فإن كانت له إلي حاجة كلمني وإلا خرج إلى الصلاة " قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد كره بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم الكلام بعد طلوع الفجر حتى يصلي صلاة الفجر، إلا ما كان من ذكر الله او مما لا بد منه، وهو قول احمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، قَال: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، فَإِنْ كَانَتْ لَهُ إِلَيَّ حَاجَةٌ كَلَّمَنِي وَإِلَّا خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ الْكَلَامَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ حَتَّى يُصَلِّيَ صَلَاةَ الْفَجْرِ، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ أَوْ مِمَّا لَا بُدَّ مِنْهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعتیں پڑھ چکتے اور اگر آپ کو مجھ سے کوئی کام ہوتا تو (اس بارے میں) مجھ سے گفتگو فرما لیتے، ورنہ نماز کے لیے نکل جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے فجر کے طلوع ہونے بعد سے لے کر فجر پڑھنے تک گفتگو کرنا مکروہ قرار دیا ہے، سوائے اس کے کہ وہ گفتگو ذکر الٰہی سے متعلق ہو یا بہت ضروری ہو، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التہجد 24 (1161)، و25 (1162)، صحیح مسلم/المسافرین 17 (773)، سنن ابی داود/ الصلاة 293 (1262، 1263)، (کلہم بذکر الاضطجاع علی الشق الأیمن)، (تحفة الأشراف: 17711) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فعل کے بعد اب کسی کے قول اور رائے کی کیا ضرورت؟ ہاں ابن مسعود رضی الله عنہ نے جو لوگوں کو بات کرتے دیکھ کر منع کیا تھا؟ تو یہ لایعنی گفتگو کا معاملہ ہو گا، بہرحال اجتماعی طور پر لایعنی بات چیت ایسے وقت خاص طور پر، نیز کسی بھی وقت مناسب نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1147 و 1148)
198. باب مَا جَاءَ لاَ صَلاَةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلاَّ رَكْعَتَيْنِ
198. باب: طلوع فجر کے بعد سوائے فجر کی دو رکعت سنت کے کوئی نماز نہیں۔
Chapter: What Has Been Related About 'There Is No Salat After Fajr Begins Except For Two Rak'ah'
حدیث نمبر: 419
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة الضبي، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن قدامة بن موسى، عن محمد بن الحصين، عن ابي علقمة، عن يسار مولى ابن عمر، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا صلاة بعد الفجر إلا سجدتين "ومعنى هذا الحديث إنما يقول: لا صلاة بعد طلوع الفجر إلا ركعتي الفجر، قال: وفي الباب عن عبد الله بن عمر، وحفصة، قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث قدامة بن موسى، وروى عنه غير واحد، وهو ما اجتمع عليه اهل العلم كرهوا ان يصلي الرجل بعد طلوع الفجر إلا ركعتي الفجر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ قُدَامَةَ بْنِ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ يَسَارٍ مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ إِلَّا سَجْدَتَيْنِ "وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ إِنَّمَا يَقُولُ: لَا صَلَاةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍ، وَحَفْصَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ قُدَامَةَ بْنِ مُوسَى، وَرَوَى عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، وَهُوَ مَا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ أَهْلُ الْعِلْمِ كَرِهُوا أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: طلوع فجر کے بعد سوائے دو رکعت (سنت فجر) کے کوئی نماز نہیں۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ طلوع فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے دو رکعت سنت کے اور کوئی نماز نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف قدامہ بن موسیٰ ہی کے طریق سے جانتے ہیں اور ان سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور حفصہ رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں،
۳- اور یہی قول ہے جس پر اہل علم کا اجماع ہے: انہوں نے طلوع فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے فجر کی دونوں سنتوں کے کوئی اور نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 299 (1278)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 18 (234)، (تحفة الأشراف: 8570)، مسند احمد (2/23، 57) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی: مستقل طور پر کوئی سنت نفل اس درمیان ثابت نہیں، ہاں اگر کوئی گھر سے فجر کی سنتیں پڑھ کر مسجد آتا ہے، اور جماعت میں ابھی وقت باقی ہے تو دو رکعت بطور تحیۃ المسجد کے پڑھ سکتا ہے، بلکہ پڑھنا ہی چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (478)، صحيح أبي داود (1159)
199. باب مَا جَاءَ فِي الاِضْطِجَاعِ بَعْدَ رَكْعَتَىِ الْفَجْرِ
199. باب: فجر کی دونوں سنتوں کے بعد لیٹنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Lying On One's Side After The Two Rak'ah Of Fajr
حدیث نمبر: 420
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا بشر بن معاذ العقدي، حدثنا عبد الواحد بن زياد، حدثنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا صلى احدكم ركعتي الفجر فليضطجع على يمينه " قال: وفي الباب عن عائشة، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وقد روي عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " إذا صلى ركعتي الفجر في بيته اضطجع على يمينه " وقد راى بعض اهل العلم ان يفعل هذا استحبابا.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فَلْيَضْطَجِعْ عَلَى يَمِينِهِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " إِذَا صَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فِي بَيْتِهِ اضْطَجَعَ عَلَى يَمِينِهِ " وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُفْعَلَ هَذَا اسْتِحْبَابًا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی فجر کی دو رکعت (سنت) پڑھے تو دائیں کروٹ پر لیٹے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے،
۳- عائشہ رضی الله عنہا سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب فجر کی دونوں رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تو اپنی دائیں کروٹ لیٹتے،
۴- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ ایسا استحباباً کیا جائے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 293 (1261)، (تحفة الأشراف: 12435)، مسند احمد (2/415) (صحیح) (بعض اہل علم کی تحقیق میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے لیٹنے کی بات صحیح ہے، اور قول نبوی والی حدیث معلول ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: إعلام أہل العصر بأحکام رکعتی الفجر: تالیف: محدث شمس الحق عظیم آبادی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ، تالیف: عبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے فجر کی سنت کے بعد تھوڑی دیر دائیں پہلو پر لیٹنا مسنون ہے، بعض لوگوں نے اسے مکروہ کہا ہے، لیکن یہ رائے صحیح نہیں، قولی اور فعلی دونوں قسم کی حدیثوں سے اس کی مشروعیت ثابت ہے، بعض لوگوں نے اس روایت پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اعمش مدلس راوی ہیں انہوں نے ابوصالح سے عن کے ذریعہ روایت کی ہے اور مدلس کا عنعنہ مقبول نہیں ہوتا، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ابوصالح سے اعمش کا عنعنہ اتصال پر محمول ہوتا ہے، حافظ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں «ھو مدلس ربما دلّس عن ضعیف ولا یدری بہ فمتی قال نا فلان فلا کلام، ومتی قال عن تطرق إلیہ احتمال التدلیس إلافی شیوخ لہ أکثر عنہم کا براہیم وأبي وائل وابی صالح السمّان، فإن روایتہ عن ہذا الصنف محمولۃ علی الاتصال» ہاں، یہ لیٹنا محض خانہ پری کے لیے نہ ہو، جیسا کہ بعض علاقوں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ صرف پہلو زمین سے لگا کر فوراً اٹھ بیٹھتے ہیں، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اس وقت تک لیٹے رہتے تھے جب تک کہ بلال رضی الله عنہ آ کر اقامت کے وقت کی خبر نہیں دیتے تھے۔ مگر خیال ہے کہ اس دوران اگر نیند آنے لگے تو اٹھ جانا چاہیئے، اور واقعتاً نیند آ جانے کی صورت میں جا کر وضو کرنا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (1206)، صحيح أبي داود (1146)

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.