الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: شکار کے احکام و مسائل
The Book on Hunting
حدیث نمبر: 1484
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد , حدثنا عبدة , عن عبيد الله بن عمر , عن صيفي , عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن لبيوتكم عمارا , فحرجوا عليهن ثلاثا , فإن بدا لكم بعد ذلك منهن شيء فاقتلوه " , قال ابو عيسى: هكذا روى عبيد الله بن عمر , هذا الحديث , عن صيفي , عن ابي سعيد الخدري , وروى مالك بن انس هذا الحديث , عن صيفي , عن ابي السائب مولى هشام بن زهرة , عن ابي سعيد , عن النبي صلى الله عليه وسلم , وفي الحديث قصة، حدثنا بذلك الانصاري , حدثنا معن , حدثنا مالك , وهذا اصح من حديث عبيد الله بن عمر , وروى محمد بن عجلان , عن صيفي , نحو رواية مالك.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا عَبْدَةُ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عَنْ صَيْفِيٍّ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِبُيُوتِكُمْ عُمَّارًا , فَحَرِّجُوا عَلَيْهِنَّ ثَلَاثًا , فَإِنْ بَدَا لَكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ مِنْهُنَّ شَيْءٌ فَاقْتُلُوهُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ , هَذَا الْحَدِيثَ , عَنْ صَيْفِيٍّ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , وَرَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثَ , عَنْ صَيْفِيٍّ , عَنْ أَبِي السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْأَنْصَارِيُّ , حَدَّثَنَا مَعْنٌ , حَدَّثَنَا مَالِكٌ , وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَر , وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ , عَنْ صَيْفِيٍّ , نَحْوَ رِوَايَةِ مَالِكٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے گھروں میں گھریلو سانپ رہتے ہیں، تم انہیں تین بار آگاہ کر دو تم تنگی میں ہو (یعنی دیکھو دوبارہ نظر نہ آنا ورنہ تنگی و پریشانی سے دوچار ہو گا) پھر اگر اس تنبیہ کے بعد کوئی سانپ نظر آئے تو اسے مار ڈالو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس حدیث کو عبیداللہ بن عمر نے بسند «صيفي عن أبي سعيد الخدري» روایت کیا ہے جب کہ مالک بن انس نے اس حدیث کو بسند «صيفي عن أبي السائب مولى هشام بن زهرة عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا، اس حدیث میں ایک قصہ بھی مذکور ہے ۱؎۔ ہم سے اس حدیث کو انصاری نے بسند «معن عن مالک عن صیفی عن أبی السائب عن أبی سعیدالخدری» سے روایت کیا ہے، اور یہ عبیداللہ بن عمر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، محمد بن عجلان نے بھی صیفی سے مالک کی طرح روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 37 (2236)، سنن ابی داود/ الأدب 174 (5256-5259) سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 280 (969) (تحفة الأشراف: 4080) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس قصہ کی تفصیل کے لیے دیکھئیے صحیح مسلم کتاب السلام حدیث رقم (۲۲۳۶)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الضعيفة تحت الحديث (3163)
حدیث نمبر: 1485
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد , حدثنا ابن ابي زائدة , حدثنا ابن ابي ليلى , عن ثابت البناني , عن عبد الرحمن بن ابي ليلى , قال: قال ابو ليلى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا ظهرت الحية في المسكن , فقولوا لها: إنا نسالك بعهد نوح , وبعهد سليمان بن داود , ان لا تؤذينا , فإن عادت فاقتلوها " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب , لا نعرفه من حديث ثابت البناني , إلا من هذا الوجه من حديث ابن ابي ليلى.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى , عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , قَالَ: قَالَ أَبُو لَيْلَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا ظَهَرَتِ الْحَيَّةُ فِي الْمَسْكَنِ , فَقُولُوا لَهَا: إِنَّا نَسْأَلُكِ بِعَهْدِ نُوحٍ , وَبِعَهْدِ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ , أَنْ لَا تُؤْذِيَنَا , فَإِنْ عَادَتْ فَاقْتُلُوهَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ , إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى.
ابولیلیٰ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب گھر میں سانپ نکلے تو اس سے کہو: ہم نوح اور سلیمان بن داود کے عہد و اقرار کی رو سے یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمیں نہ ستاؤ پھر اگر وہ دوبارہ نکلے تو اسے مار دو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس حدیث کو ثابت بنانی کی روایت سے صرف ابن ابی لیلیٰ ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 174 (5260)، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 280 (968)، (تحفة الأشراف: 12152) (ضعیف) (سند میں ”محمد بن أبی لیلیٰ“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1508) // ضعيف الجامع الصغير (590) //
16. باب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الْكِلاَبِ
16. باب: کتوں کو مارنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Killing Dogs
حدیث نمبر: 1486
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع , حدثنا هشيم , اخبرنا منصور بن زاذان , ويونس بن عبيد , عن الحسن , عن عبد الله بن مغفل , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لولا ان الكلاب امة من الامم لامرت بقتلها كلها , فاقتلوا منها كل اسود بهيم " , قال: وفي الباب , عن ابن عمر , وجابر , وابي رافع , وابي ايوب , قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن مغفل , حديث حسن صحيح , ويروى في بعض الحديث: ان الكلب الاسود البهيم شيطان , والكلب الاسود البهيم الذي لا يكون فيه شيء من البياض , وقد كره بعض اهل العلم صيد الكلب الاسود البهيم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , أَخْبَرَنَا مَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ , وَيُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا كُلِّهَا , فَاقْتُلُوا مِنْهَا كُلَّ أَسْوَدَ بَهِيمٍ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَجَابِرٍ , وَأَبِي رَافِعٍ , وَأَبِي أَيُّوبَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ , حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَيُرْوَى فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ: أَنَّ الْكَلْبَ الْأَسْوَدَ الْبَهِيمَ شَيْطَانٌ , وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ الْبَهِيمُ الَّذِي لَا يَكُونُ فِيهِ شَيْءٌ مِنَ الْبَيَاضِ , وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ صَيْدَ الْكَلْبِ الْأَسْوَدِ الْبَهِيمِ.
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں تو میں تمام کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیتا، سو اب تم ان میں سے ہر کالے سیاہ کتے کو مار ڈالو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن مغفل کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، جابر، ابورافع، اور ابوایوب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض احادیث میں مروی ہے کہ کالا کتا شیطان ہوتا ہے ۲؎،
۴- «الأسود البهيم» اس کتے کو کہتے ہیں جس میں سفیدی بالکل نہ ہو،
۵- بعض اہل علم نے کالے کتے کے کئے شکار کو مکروہ سمجھا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصید 1 (2845)، سنن النسائی/الصید 10 (4285)، و 14 (4293)، سنن ابن ماجہ/الصید 2 (3204)، (تحفة الأشراف: 9649)، و مسند احمد (4/85، 86)، و (5/54، 56، 57) سنن الدارمی/الصید 3 (2051) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ابتداء میں سارے کتوں کے مارنے کا حکم ہوا پھر کالے سیاہ کتوں کو چھوڑ کر یہ حکم منسوخ ہو گیا، بعد میں کسی بھی کتے کو جب تک وہ موذی نہ ہو مارنے سے منع کر دیا گیا، حتیٰ کہ شکار، زمین، جائیداد، مکان اور جانوروں کی حفاظت و نگہبانی کے لیے انہیں پالنے کی اجازت بھی دی گئی۔
۲؎: یہ حدیث صحیح مسلم (رقم ۱۵۷۲) میں جابر رضی الله عنہ سے مروی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (4102 / التحقيق الثانى)، غاية المرام (148)، صحيح أبي داود (2535)
17. باب مَا جَاءَ مَنْ أَمْسَكَ كَلْبًا مَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ)
17. باب: کتا پالنے سے ثواب میں کمی کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About How Much Is Deducted From The Reward Of One Who Keeps A Dog
حدیث نمبر: 1487
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع , حدثنا إسماعيل بن إبراهيم , عن ايوب , عن نافع , عن ابن عمر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اقتنى كلبا ليس بضار , ولا كلب ماشية , نقص من اجره كل يوم قيراطان " , قال: وفي الباب , عن عبد الله بن مغفل , وابي هريرة , وسفيان بن ابي زهير , قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح , وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " او كلب زرع ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لَيْسَ بِضَارٍ , وَلَا كَلْبَ مَاشِيَةٍ , نَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَسُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " أَوْ كَلْبَ زَرْعٍ ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایسا کتا پالا یا رکھا جو سدھایا ہوا شکاری اور جانوروں کی نگرانی کرنے والا نہ ہو تو اس کے ثواب میں سے ہر دن دو قیراط کے برابر کم ہو گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا: «أو كلب زرع» یا وہ کتا کھیتی کی نگرانی کرنے والا نہ ہو،
۳- اس باب میں عبداللہ بن مغفل، ابوہریرہ، اور سفیان بن أبی زہیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصید والذبائح 6 (5482)، صحیح مسلم/المساقاة 10 (البیوع 31)، (1574)، سنن النسائی/الصید 12 (4289) و 13 (4291-4292) (تحفة الأشراف: 7549)، وط/الاستئذان 5 (13)، و مسند احمد (2/4، 8، 37، 47، 60)، وسنن الدارمی/الصید 2 (2047) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: قیراط ایک وزن ہے جو اختلاف زمانہ کے ساتھ بدلتا رہا ہے، یہ کسی چیز کا چوبیسواں حصہ ہوتا ہے، کتا پالنے سے ثواب میں کمی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں: ایسے گھروں میں فرشتوں کا داخل نہ ہونا، گھر والے کی غفلت کی صورت میں برتن میں کتے کا منہ ڈالنا، پھر پانی اور مٹی سے دھوئے بغیر اس کا استعمال کرنا، ممانعت کے باوجود کتے کا پالنا، گھر میں آنے والے دوسرے لوگوں کو اس سے تکلیف پہنچنا وغیرہ وغیرہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2534)
حدیث نمبر: 1488
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا حماد بن زيد , عن عمرو بن دينار , عن ابن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " امر بقتل الكلاب , إلا كلب صيد , او كلب ماشية " , قال: قيل له: إن ابا هريرة كان يقول: او كلب زرع , فقال: إن ابا هريرة له زرع , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ , إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ , أَوْ كَلْبَ مَاشِيَةٍ " , قَالَ: قِيلَ لَهُ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُولُ: أَوْ كَلْبَ زَرْعٍ , فَقَالَ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَهُ زَرْعٌ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری یا جانوروں کی نگرانی کرنے والے کتے کے علاوہ دیگر کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا ابن عمر رضی الله عنہما سے کہا گیا: ابوہریرہ رضی الله عنہ یہ بھی کہتے تھے: «أو كلب زرع» یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے کتے (یعنی یہ بھی مستثنیٰ ہیں)، تو ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: ابوہریرہ رضی الله عنہ کے پاس کھیتی تھی (اس لیے انہوں نے اس کے بارے میں پوچھا ہو گا)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 17 (3323)، (دون ما استشنیٰ منہا) صحیح مسلم/المساقاة 10 (البیوع 31) (1571)، سنن النسائی/الصید 9 (4382- 4284)، سنن ابن ماجہ/الصید 1 (3202)، (دون ماستثنی منھا) (تحفة الأشراف: 7353)، وط/الاستئذان 5 (14)، و مسند احمد (2/22-23، 113، 132، 136)، سنن الدارمی/الصید 3 (2050) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2549)
حدیث نمبر: 1489
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الحلواني , وغير واحد , قالوا: اخبرنا عبد الرزاق , اخبرنا معمر , عن الزهري، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة , ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من اتخذ كلبا , إلا كلب ماشية , او صيد , او زرع , انتقص من اجره كل يوم قيراط " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , ويروى عن عطاء بن ابي رباح: انه رخص في إمساك الكلب , وإن كان للرجل شاة واحدة , حدثنا بذلك إسحاق بن منصور، حدثنا حجاج بن محمد , عن ابن جريج , عن عطاء بهذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ , قَالُوا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنِ اتَّخَذَ كَلْبًا , إِلَّا كَلْبَ مَاشِيَةٍ , أَوْ صَيْدٍ , أَوْ زَرْعٍ , انْتَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَيُرْوَى عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ: أَنَّهُ رَخَّصَ فِي إِمْسَاكِ الْكَلْبِ , وَإِنْ كَانَ لِلرَّجُلِ شَاةٌ وَاحِدَةٌ , حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ , عَنْ عَطَاءٍ بِهَذَا.
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک چہرے سے درخت کی شاخوں کو ہٹا رہے تھے اور آپ خطبہ دے رہے تھے، آپ نے فرمایا: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں تو میں انہیں مارنے کا حکم دیتا ۱؎، سو اب تم ان میں سے ہر سیاہ کالے کتے کو مار ڈالو، جو گھر والے بھی شکاری، یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے یا بکریوں کی نگرانی کرنے والے کتوں کے سوا کوئی دوسرا کتا باندھے رکھتے ہیں ہر دن ان کے عمل (ثواب) سے ایک قیراط کم ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- یہ حدیث بسند «حسن البصریٰ عن عبد الله بن مغفل عن النبي صلى الله عليه وسلم» مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1486 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کتوں کو دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق آپ نے اس لیے کہا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «وما من دآبة في الأرض ولا طائر يطير بجناحيه إلا أمم أمثالكم» یعنی: جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند ہیں جو اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں۔ (سورة الأنعام: ۳۸) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شکار، جانوروں اور کھیتی کی حفاظت کے لیے کتے پالنا جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3204)
حدیث نمبر: 1490
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبيد بن اسباط بن محمد القرشي , حدثنا ابي , عن الاعمش , عن إسماعيل بن مسلم , عن الحسن , عن عبد الله بن مغفل , قال: إني لممن يرفع اغصان الشجرة عن وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب , فقال: " لولا ان الكلاب امة من الامم , لامرت بقتلها , فاقتلوا منها كل اسود بهيم , وما من اهل بيت يرتبطون كلبا , إلا نقص من عملهم كل يوم قيراط , إلا كلب صيد , او كلب حرث , او كلب غنم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن , وقد روي هذا الحديث من غير وجه , عن الحسن , عن عبد الله بن مغفل , عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ , حَدَّثَنَا أَبِي , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ , قَالَ: إِنِّي لَمِمَّنْ يَرْفَعُ أَغْصَانَ الشَّجَرَةِ عَنْ وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ , فَقَالَ: " لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ , لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا , فَاقْتُلُوا مِنْهَا كُلَّ أَسْوَدَ بَهِيمٍ , وَمَا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ يَرْتَبِطُونَ كَلْبًا , إِلَّا نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِمْ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ , إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ , أَوْ كَلْبَ حَرْثٍ , أَوْ كَلْبَ غَنَمٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بھی جانوروں کی نگرانی کرنے والے یا شکاری یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے کتے کے سوا کوئی دوسرا کتا پالے گا تو ہر روز اس کے ثواب میں سے ایک قیراط کم ہو گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- عطا بن ابی رباح نے کتا پالنے کی رخصت دی ہے اگرچہ کسی کے پاس ایک ہی بکری کیوں نہ ہو۔ اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 3 (3322) وبدء الخلق 17 (3324)، صحیح مسلم/المساقاة 10 (البیوع 31)، (19)، سنن ابی داود/ الصید 1 (2844)، سنن النسائی/الصید 14 (4294)، سنن ابن ماجہ/الصید 2 (3204)، (تحفة الأشراف: 15271)، و مسند احمد (2/267، 345) (صحیح) (لیس عند (خ) ”أو صید“ إلا معلقا بعد الحدیث 2323)۔»

وضاحت:
۱؎: عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے مروی حدیث رقم: ۱۴۸۷ میں دو قیراط کا ذکر ہے، اس کی مختلف توجیہ کی گئی ہیں: (۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ایک قیراط کی خبر دی جسے ابوہریرہ رضی الله عنہ نے روایت کی، بعد میں دو قیراط کی خبر دی جسے ابن عمر رضی الله عنہما نے روایت کی۔ (۲) ایک قیراط اور دو قیراط کا فرق کتے کے موذی ہونے کے اعتبار سے ہو سکتا ہے، (۳) یہ ممکن ہے کہ دو قیراط کی کمی کا تعلق مدینہ منورہ سے ہو، اور ایک قیراط کا تعلق اس کے علاوہ سے ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3205)
18. باب مَا جَاءَ فِي الذَّكَاةِ بِالْقَصَبِ وَغَيْرِهِ
18. باب: بانس وغیرہ سے ذبح کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Slaughtering With Reeds And The Like
حدیث نمبر: 1491
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد , حدثنا ابو الاحوص، عن سعيد بن مسروق , عن عباية بن رفاعة بن رافع بن خديج , عن ابيه , عن جده رافع بن خديج , قال: قلت: يا رسول الله , إنا نلقى العدو غدا , وليست معنا مدى , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " ما انهر الدم وذكر اسم الله عليه فكلوه , ما لم يكن سنا , او ظفرا , وساحدثكم عن ذلك: اما السن فعظم , واما الظفر فمدى الحبشة " , حدثنا محمد بن بشار , حدثنا يحيى بن سعيد , عن سفيان الثوري , قال: حدثنا ابي , عن عباية بن رفاعة , عن رافع بن خديج رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه , ولم يذكر فيه عباية , عن ابيه , وهذا اصح , وعباية , قد سمع من رافع , والعمل على هذا عند اهل العلم , لا يرون ان يذكى بسن , ولا بعظم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , قَال: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا نَلْقَى الْعَدُوَّ غَدًا , وَلَيْسَتْ مَعَنَا مُدًى , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَكُلُوهُ , مَا لَمْ يَكُنْ سِنًّا , أَوْ ظُفُرًا , وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ: أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ , وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ " , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ , عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ , وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَبَايَةَ , عَنْ أَبِيهِ , وَهَذَا أَصَحُّ , وَعَبَايَةُ , قَدْ سَمِعَ مِنْ رَافِعٍ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , لَا يَرَوْنَ أَنْ يُذَكَّى بِسِنٍّ , وَلَا بِعَظْمٍ.
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کل ہم دشمن سے ملیں گے اور ہمارے پاس (جانور ذبح کرنے کے لیے) چھری نہیں ہے (تو کیا حکم ہے؟)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو خون بہا دے ۱؎ اور اس پر اللہ کا نام یعنی بسم اللہ پڑھا گیا ہو تو اسے کھاؤ، بجز دانت اور ناخن سے ذبح کیے گئے جانور کے، اور میں تم سے دانت اور ناخن کی ۲؎ تفسیر بیان کرتا ہوں: دانت، ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے ۳؎۔ محمد بن بشار کی سند سے یہ بیان کیا، سفیان ثوری کہتے ہیں عبایہ بن رفاعہ سے، اور عبایہ نے رافع بن خدیج سے اور رافع نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی، اس میں «عباية عن أبيه» کا ذکر نہیں ہے اور یہی بات زیادہ صحیح ہے، عبایہ نے رافع سے سنا ہے، اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ دانت اور ہڈی سے ذبح کرنا درست نہیں سمجھتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرکة 3 (2488)، و 16 (2507)، والجہاد 191 (3075)، والذبائح 15 (5498)، و23 (5509)، و 36 (5543)، و 37 (5544)، صحیح مسلم/الأضاحي 4 (1968)، سنن ابی داود/ الضحایا 15 (2821)، سنن النسائی/الصید 17 (4302)، والضحایا 20 (4408)، و 26 (4421)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 9 (3183) (تحفة الأشراف: 3561)، و مسند احمد (3/463، 464)، و (4/140، 142) ویأتي برقم 1600 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس میں تلوار، چھری، تیز پتھر، لکڑی، شیشہ، سرکنڈا، بانس اور تانبے یا لوہے کی بنی ہوئی چیزیں شامل ہیں۔
۲؎: اس جملہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ اللہ کے رسول کا قول ہے یا راوی حدیث رافع بن خدیج رضی الله عنہ کا ہے۔
۳؎: ناخن کے ساتھ ذبح کرنے میں کفار کے ساتھ مشابہت ہے، نیز یہ ذبح کی صفت میں نہیں آتا، دانت و ناخن خواہ انسان کا ہو یا کسی اور جانور کا الگ اور جدا ہو یا جسم کے ساتھ لگا ہو، ان سے ذبح کرنا جائز نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3187)
19. باب مَا جَاءَ فِي الْبَعِيرِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ إِذَا نَدَّ فَصَارَ وَحْشِيًّا يُرْمَى بِسَهْمٍ أَمْ لاَ
19. باب: اونٹ، گائے اور بکری بدک کر وحشی بن جائیں تو انہیں تیر سے مارا جائے گا یا نہیں؟
Chapter: What Has Been Related About Camels, Cows, And Sheep, When They Flee And Become Wild: Are They Shot With An Arrow Or Not ?
حدیث نمبر: 1492
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد , حدثنا ابو الاحوص، عن سعيد بن مسروق , عن عباية بن رفاعة بن رافع , عن ابيه , عن جده رافع بن خديج , قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر , فند بعير من إبل القوم , ولم يكن معهم خيل , فرماه رجل بسهم , فحبسه الله , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن لهذه البهائم اوابد كاوابد الوحش , فما فعل منها هذا فافعلوا به هكذا "، حدثنا محمود بن غيلان , حدثنا وكيع , حدثنا سفيان , عن ابيه , عن عباية بن رفاعة , عن جده رافع بن خديج , عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه , ولم يذكر فيه عباية , عن ابيه , وهذا اصح , والعمل على هذا عند اهل العلم , وهكذا رواه شعبة , عن سعيد بن مسروق , نحو رواية سفيان.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ , فَنَدَّ بَعِيرٌ مِنْ إِبِلِ الْقَوْمِ , وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ خَيْلٌ , فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ , فَحَبَسَهُ اللَّهُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ , فَمَا فَعَلَ مِنْهَا هَذَا فَافْعَلُوا بِهِ هَكَذَا "، حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ , عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ , وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَبَايَةَ , عَنْ أَبِيهِ , وَهَذَا أَصَحُّ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَهَكَذَا رَوَاهُ شُعْبَةُ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ , نَحْوَ رِوَايَةِ سُفْيَانَ.
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، لوگوں کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا، ان کے پاس گھوڑے بھی نہ تھے، ایک آدمی نے اس کو تیر مارا سو اللہ نے اس کو روک دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان چوپایوں میں جنگلی جانوروں کی طرح بھگوڑے بھی ہوتے ہیں، اس لیے اگر ان میں سے کوئی ایسا کرے (یعنی بدک جائے) تو اس کے ساتھ اسی طرح کرو ۱؎۔ اس سند سے بھی رافع رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں یہ نہیں ذکر ہے کہ عبایہ نے اپنے والد سے روایت کی، یہ زیادہ صحیح ہے،
۱- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۲- اسی طرح شعبہ نے اسے سعید بن مسروق سے سفیان کی حدیث کی طرح روایت ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الدارمی/الأضاحي 15 (2020) وانظر تخریج حدیث رقم 1491 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اس پر بسم اللہ پڑھ کر تیر چلاؤ اور تیر لگ جانے پر اسے کھاؤ، کیونکہ بھاگنے اور بے قابو ہونے کی صورت میں اس کے جسم کا ہر حصہ محل ذبح ہے، گویا یہ اس شکار کی طرح ہے جو بے قابو ہو کر بھاگتا ہے۔
۲؎: یعنی: عبایہ کے والد کے تذکرہ کے بغیر، جیسے سفیان نے روایت کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح وهو تمام الحديث الذى قبله (1492)

Previous    1    2    3    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.