الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: شکار کے احکام و مسائل
The Book on Hunting
حدیث نمبر: 1474
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى , غير واحد , قالوا: حدثنا ابو عاصم، عن وهب ابي خالد , قال: حدثتني ام حبيبة بنت العرباض بن سارية، عن ابيها , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نهى يوم خيبر عن لحوم كل ذي ناب من السبع , وعن كل ذي مخلب من الطير , وعن لحوم الحمر الاهلية , وعن المجثمة , وعن الخليسة , وان توطا الحبالى حتى يضعن ما في بطونهن " , قال محمد بن يحيى: سئل ابو عاصم عن المجثمة , قال: ان ينصب الطير , او الشيء فيرمى , وسئل عن الخليسة , فقال: الذئب , او السبع يدركه الرجل فياخذه منه فيموت في يده قبل ان يذكيها.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى , غَيْرُ وَاحِدٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ وَهْبٍ أَبِي خَالِدٍ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَاريةَ، عَنْ أَبِيهَا , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ , وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ , وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ , وَعَنِ الْمُجَثَّمَةِ , وَعَنِ الْخَلِيسَةِ , وَأَنْ تُوطَأَ الْحَبَالَى حَتَّى يَضَعْنَ مَا فِي بُطُونِهِنَّ " , قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: سُئِلَ أَبُو عَاصِمٍ عَنِ الْمُجَثَّمَةِ , قَالَ: أَنْ يُنْصَبَ الطَّيْرُ , أَوِ الشَّيْءُ فَيُرْمَى , وَسُئِلَ عَنِ الْخَلِيسَةِ , فَقَالَ: الذِّئْبُ , أَو السَّبُعُ يُدْرِكُهُ الرَّجُلُ فَيَأْخُذُهُ مِنْهُ فَيَمُوتُ فِي يَدِهِ قَبْلَ أَنْ يُذَكِّيَهَا.
عرباض بن ساریہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے دن ہر کچلی والے درندے ۱؎ پنجے والے پرندے ۲؎، پالتو گدھے کے گوشت، «مجثمة» اور «خليسة» سے منع فرمایا، آپ نے حاملہ (لونڈی جو نئی نئی مسلمانوں کی قید میں آئے) کے ساتھ جب تک وہ بچہ نہ جنے جماع کرنے سے بھی منع فرمایا۔ راوی محمد بن یحییٰ قطعی کہتے ہیں: ابوعاصم سے «مجثمة» کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: پرندے یا کسی دوسرے جانور کو باندھ کر اس پر تیر اندازی کی جائے (یہاں تک کہ وہ مر جائے) اور ان سے «خليسة» کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: «خليسة» وہ جانور ہے، جس کو بھیڑیا یا درندہ پکڑے اور اس سے کوئی آدمی اسے چھین لے پھر وہ جانور ذبح کئے جانے سے پہلے اس کے ہاتھ میں مر جائے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف ویأتي عندہ برقم 1564 (تحفة الأشراف: 9892)، وانظر مسند احمد (4/127) (صحیح) (سند میں ”ام حبیبہ“ مجہول ہیں، ”خلیسہ“ کے سوا تمام ٹکڑے شواہد کی بنا پر صحیح ہیں)»

وضاحت:
۱؎: مثلاً بھیڑیا، شیر اور چیتا وغیرہ۔ ۲؎: گدھ اور باز وغیرہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح - صحيح مفرقا إلا الخليسة -، الصحيحة (4 / 238 - 239 و 1673 و 2358 و 2391)، الإرواء (2488)، صحيح أبي داود (1883 و 2507)
حدیث نمبر: 1475
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الاعلى , حدثنا عبد الرزاق , عن الثوري، عن سماك , عن عكرمة , عن ابن عباس , قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يتخذ شيء فيه الروح غرضا " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل عليه عند اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , عَنْ الثَّوْرِيِّ، عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَّخَذَ شَيْءٌ فِيهِ الرُّوحُ غَرَضًا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جاندار کو نشانہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصید 2 (1957)، سنن النسائی/الضحایا 41 (4448)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 10 (3187)، (تحفة الأشراف: 6112)، و مسند احمد (1/216، 273، 280، 285، 340، 345) (صحیح) (مؤلف اور ابن ماجہ کی سند میں سماک وعکرمہ کی وجہ سے کلام ہے، دیگر کی سند یں صحیح ہیں)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3187)
10. باب مَا جَاءَ فِي ذَكَاةِ الْجَنِينِ
10. باب: ماں کے پیٹ میں موجود بچہ کے ذبیحہ کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Slaughtering The Fetus
حدیث نمبر: 1476
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا يحيى بن سعيد , عن مجالد. ح قال: حدثنا سفيان بن وكيع , حدثنا حفص بن غياث , عن مجالد , عن ابي الوداك، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ذكاة الجنين ذكاة امه " , قال: وفي الباب , عن جابر , وابي امامة , وابي الدرداء , وابي هريرة , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وقد روي من غير هذا الوجه , عن ابي سعيد , والعمل على هذا عند اهل العلم , من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , وهو قول سفيان الثوري , وابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق , وابو الوداك اسمه: جبر بن نوف.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ مُجَالِدٍ. ح قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ , حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ , عَنْ مُجَالِدٍ , عَنْ أَبِي الْوَدَّاكِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " ذَكَاةُ الْجَنِينِ ذَكَاةُ أُمِّهِ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ جَابِرٍ , وَأَبِي أُمَامَةَ , وَأَبِي الدَّرْدَاءِ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَابْنِ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَأَبُو الْوَدَّاكِ اسْمُهُ: جَبْرُ بْنُ نَوْفٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنین ۱؎ کی ماں کا ذبح ہی جنین کے ذبح کے لیے کافی ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور یہ اس سند کے علاوہ سے بھی ابو سعید خدری سے ہے،
۳- اس باب میں جابر، ابوامامہ، ابو الدرداء، اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- صحابہ کرام اور ان کے علاوہ لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الضحایا 18 (2827)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 15 (3199)، و مسند احمد (3/31، 53)، (تحفة الأشراف: 3986) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ”مجالد“ ضعیف ہیں، دیکھئے: الارواء رقم 2539)»

وضاحت:
۱؎: بچہ جب تک ماں کی پیٹ میں رہے اسے جنین کہا جاتا ہے۔
۲؎: یعنی جب کسی جانور کو ذبح کیا جائے پھر اس کے پیٹ سے بچہ (مردہ) نکلے تو اس بچے کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ بچہ مادہ جانور کے جسم کا ایک حصہ ہے، لہٰذا اسے ذبح نہیں کیا جائے گا، البتہ زندہ نکلنے کی صورت میں وہ بچہ ذبح کے بعد ہی حلال ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3199)
11. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ كُلِّ ذِي نَابٍ وَذِي مِخْلَبٍ
11. باب: ہر کیچلی دانت والے درندے اور پنجہ والے پرندے کی حرمت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Eat Anything That Possesses Canine Teeth Or Talons
حدیث نمبر: 1477
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحسن , حدثنا عبد الله بن مسلمة , عن مالك بن انس , عن ابن شهاب , عن ابي إدريس الخولاني، عن ابي ثعلبة الخشني، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كل ذي ناب من السباع " , حدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي , وغير واحد , قالوا: حدثنا سفيان بن عيينة , عن الزهري، عن ابي إدريس الخولاني نحوه , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وابو إدريس الخولاني اسمه: عائذ الله بن عبد الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ , عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ " , حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ نَحْوَهُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَأَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ اسْمُهُ: عَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ.
ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی دانت والے درندے سے منع فرمایا ۱؎۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ /الصید 29 (5530)، والطب 57 (5780)، صحیح مسلم/الصید 3 (1932)، والأطعمة 33 (1932)، سنن ابی داود/ الأطعمة 33 (2802)، سنن النسائی/الصید 28 (4335)، و 30 (4343)، سنن ابن ماجہ/الصید 13 (3232)، (تحفة الأشراف: 11874)، و مسند احمد (4/193) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دانت (یعنی کچلیوں) سے شکار اور چیر پھاڑ کرنے والے جانور مثلاً شیر، چیتا، بھیڑیا، ہاتھی، اور بندر وغیرہ یہ سب حرام ہیں، اسی طرح ان کے کیے ہوئے شکار اگر مر گئے ہوں تو ان کا کھانا جائز نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3232)
حدیث نمبر: 1478
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان , حدثنا ابو النضر هاشم بن القاسم , حدثنا عكرمة بن عمار , عن يحيى بن ابي كثير , عن ابي سلمة، عن جابر , قال: " حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم يعني: يوم خيبر , الحمر الإنسية , ولحوم البغال , وكل ذي ناب من السباع , وذي مخلب من الطير " , قال: وفي الباب , عن ابي هريرة , وعرباض بن سارية , وابن عباس وقال ابو عيسى: حديث جابر حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ , حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: " حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي: يَوْمَ خَيْبَرَ , الْحُمُرَ الْإِنْسِيَّةَ , وَلُحُومَ الْبِغَالِ , وَكُلَّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ , وَذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ وقَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ فتح خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھے، خچر کے گوشت، ہر کچلی دانت والے درندے اور پنجہ والے پرندے کو حرام کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جابر کی حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، عرباض بن ساریہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3162) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (8 / 138)
حدیث نمبر: 1479
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا عبد العزيز بن محمد , عن محمد بن عمرو , عن ابي سلمة، عن ابي هريرة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حرم كل ذي ناب من السباع " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن , والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , وهو قول عبد الله بن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حَرَّمَ كُلَّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی دانت والے درندے کو حرام قرار دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- صحابہ کرام اور دیگر لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر: سنن ابن ماجہ/الصید 13 (3233)، (تحفة الأشراف: 15046)، و مسند احمد (2/336، 366، 448) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: سورۃ الانعام کی آیت «قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا أو لحم خنزير فإنه رجس أو فسقا أهل لغير الله به» (الأنعام: ۱۴۵) کے عام مفہوم سے یہ استدلال کرنا کہ ہر کچلی دانت والے درندے اور پنجہ والے پرندے حلال ہیں درست نہیں کیونکہ باب کی یہ حدیث اور سورۃ المائدہ کی آیت «وما أكل السبع إلا ما ذكيتم» (المائدة: ۳) سورۃ الانعام کی مذکورہ آیت کے لیے مخص ہے نیز سورۃ المائدہ کی آیت مدنی ہے جب کہ سورۃ الانعام کی آیت مکی ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (3233)
12. باب مَا قُطِعَ مِنَ الْحَىِّ فَهُوَ مَيِّتٌ
12. باب: زندہ جانور سے کاٹا ہوا گوشت مردار کے حکم میں ہے۔
Chapter: What Has Been Related About: Whatever Is Cut From Something Living, Then It Is Dead Flesh
حدیث نمبر: 1480
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني , حدثنا سلمة بن رجاء , قال: حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار , عن زيد بن اسلم , عن عطاء بن يسار , عن ابي واقد الليثي، قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة وهم يجبون اسنمة الإبل , ويقطعون اليات الغنم , فقال: " ما قطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة " , حدثنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني , حدثنا ابو النضر، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار نحوه , قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن غريب , لا نعرفه إلا من حديث زيد بن اسلم , والعمل على هذا عند اهل العلم , وابو واقد الليثي اسمه: الحارث بن عوف.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ , حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يَجُبُّونَ أَسْنِمَةَ الْإِبِلِ , وَيَقْطَعُونَ أَلْيَاتِ الْغَنَمِ , فَقَالَ: " مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ مَيْتَةٌ " , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجَوْزَجَانِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ نَحْوَهُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَأَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ: الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ.
ابوواقد حارث بن عوف لیثی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، وہاں کے لوگ (زندہ) اونٹوں کے کوہان اور (زندہ) بکریوں کی پٹھ کاٹتے تھے، آپ نے فرمایا: زندہ جانور کا کاٹا ہوا گوشت مردار ہے ۱؎۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس حدیث کو صرف زید بن اسلم کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصید 3 (2858) (تحفة الأشراف: 15515)، وسنن الدارمی/الصید 9 (2061) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ذبح کیے بغیر زندہ جانور کا وہ حصہ جو کاٹا گیا ہے اسی طرح حرام اور ناجائز ہے جس طرح دوسرے مردہ جانور حرام ہیں، اس لیے اس کاٹے گئے حصہ کا کھانا جائز نہیں، یہ طریقہ زمانہ جاہلیت کا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3216)
13. باب مَا جَاءَ فِي الذَّكَاةِ فِي الْحَلْقِ وَاللَّبَّةِ
13. باب: حلق اور لبہ (سینے کے اوپری حصہ) میں ذبح کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Slaughtering At The Neck And Throat
حدیث نمبر: 1481
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد , ومحمد بن العلاء , قالا: حدثنا وكيع , عن حماد بن سلمة. ح وحدثنا احمد بن منيع , حدثنا يزيد بن هارون , انبانا حماد بن سلمة , عن ابي العشراء، عن ابيه , قال: قلت: يا رسول الله , اما تكون الذكاة إلا في الحلق واللبة , قال: " لو طعنت في فخذها لاجزا عنك " , قال احمد بن منيع , قال يزيد بن هارون: هذا في الضرورة , قال: وفي الباب , عن رافع بن خديج , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب , لا نعرفه إلا من حديث حماد بن سلمة , ولا نعرف لابي العشراء , عن ابيه , غير هذا الحديث , واختلفوا في اسم ابي العشراء , فقال بعضهم: اسمه اسامة بن قهطم , ويقال: اسمه يسار بن برز , ويقال: ابن بلز ويقال: اسمه عطارد نسب إلى جده.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ , قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي الْعُشَرَاءِ، عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَمَا تَكُونُ الذَّكَاةُ إِلَّا فِي الْحَلْقِ وَاللَّبَّةِ , قَالَ: " لَوْ طَعَنْتَ فِي فَخِذِهَا لَأَجْزَأَ عَنْكَ " , قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ: هَذَا فِي الضَّرُورَةِ , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ , لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ , وَلَا نَعْرِفُ لِأَبِي الْعُشَرَاءِ , عَنْ أَبِيهِ , غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ , وَاخْتَلَفُوا فِي اسْمِ أَبِي الْعُشَرَاءِ , فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اسْمُهُ أُسَامَةُ بْنُ قِهْطِمٍ , وَيُقَالُ: اسْمُهُ يَسَارُ بْنُ بَرْزٍ , وَيُقَالُ: ابْنُ بَلْزٍ وَيُقَالُ: اسْمُهُ عُطَارِدٌ نُسِبَ إِلَى جَدِّهِ.
ابوالعشراء کے والد اسامہ بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ذبح (شرعی) صرف حلق اور لبہ ہی میں ہو گا؟ آپ نے فرمایا: اگر اس کی ران میں بھی تیر مار دو تو کافی ہو گا، یزید بن ہارون کہتے ہیں: یہ حکم ضرورت کے ساتھ خاص ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف حماد بن سلمہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اس حدیث کے علاوہ ابو العشراء کی کوئی اور حدیث ان کے باپ سے ہم نہیں جانتے ہیں، ابوالعشراء کے نام کے سلسلے میں اختلاف ہے: بعض لوگ کہتے ہیں: ان کا نام اسامہ بن قھطم ہے، اور کہا جاتا ہے ان کا نام یسار بن برز ہے اور ابن بلز بھی کہا جاتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا نام عطارد ہے دادا کی طرف ان کی نسبت کی گئی ہے،
۳- اس باب میں رافع بن خدیج سے بھی روایت آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الضحایا 16 (2825)، سنن النسائی/الضحایا 25 (4413)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 9 (3184)، (تحفة الأشراف: 15694) و مسند احمد (4/334)، سنن الدارمی/الأضاحي 12 (2015) (ضعیف) (سند میں ”ابوالعشراء“ مجہول ہیں، ان کے والد بھی مجہول ہیں مگر صحابی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3184)
14. باب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الْوَزَغِ
14. باب: چھپکلی مارنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Killing Geckos
حدیث نمبر: 1482
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا وكيع , عن سفيان , عن سهيل بن ابي صالح , عن ابيه , عن ابي هريرة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من قتل وزغة بالضربة الاولى , كان له كذا وكذا حسنة , فإن قتلها في الضربة الثانية , كان له كذا وكذا حسنة , فإن قتلها في الضربة الثالثة , كان له كذا وكذا حسنة " , قال: وفي الباب , عن ابن مسعود , وسعد، وعائشة، وام شريك , قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ قَتَلَ وَزَغَةً بِالضَّرْبَةِ الْأُولَى , كَانَ لَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً , فَإِنْ قَتَلَهَا فِي الضَّرْبَةِ الثَّانِيَةِ , كَانَ لَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً , فَإِنْ قَتَلَهَا فِي الضَّرْبَةِ الثَّالِثَةِ , كَانَ لَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ , وَسَعْدٍ، وَعَائِشَةَ، وَأُمِّ شَرِيكٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چھپکلی ۱؎ کو پہلی چوٹ میں مارے گا اس کو اتنا ثواب ہو گا، اگر اس کو دوسری چوٹ میں مارے گا تو اس کو اتنا ثواب ہو گا اور اگر اس کو تیسری چوٹ میں مارے گا تو اس کو اتنا ثواب ہو گا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن مسعود، سعد، عائشہ اور ام شریک سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 38 (الحیؤن2) (2240)، سنن ابی داود/ الأدب 175 (5263)، سنن ابن ماجہ/الصید 12 (3228)، (تحفة الأشراف: 12661)، و مسند احمد (2/355) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ہندوستان میں لوگ گرگٹ کو غلط طور پر وزع سمجھ کر اس کو مانا ثواب کا کام سمجھتے ہیں جب کہ وہ عام طور پر جنگل جھاڑی میں رہتا ہے اور چھپکلی اپنی ضرر رسانیوں کے ساتھ گھروں میں پائی جاتی ہے، اس لیے اس کا مارنا موذی کو مارنا ہے جس کے مارنے کا ثواب بھی ہے۔
۲؎: صحیح مسلم میں ہے کہ پہلی چوٹ میں مارنے پر سو اور دوسری میں اس سے کم اور تیسری میں اس سے بھی کم نیکیاں ملیں گی، امام نووی کہتے ہی: پہلی چوٹ میں نیکیوں کی کثرت کا سبب یہ ہے تاکہ لوگ اسے مارنے میں پہل کریں اور اسے مار کر مذکورہ ثواب کے مستحق ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
15. باب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الْحَيَّاتِ
15. باب: سانپ مارنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Killing Snakes
حدیث نمبر: 1483
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا الليث , عن ابن شهاب , عن سالم بن عبد الله , عن ابيه , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اقتلوا الحيات , واقتلوا ذا الطفيتين , والابتر , فإنهما يلتمسان البصر , ويسقطان الحبلى " , قال: وفي الباب , عن ابن مسعود , وعائشة , وابي هريرة , وسهل بن سعد , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وقد روي عن ابن عمر , عن ابي لبابة , ان النبي صلى الله عليه وسلم: " نهى بعد ذلك عن قتل حيات البيوت وهي: العوامر " , ويروى عن ابن عمر , عن زيد بن الخطاب ايضا , وقال عبد الله بن المبارك: إنما يكره من قتل الحيات قتل الحية التي تكون دقيقة , كانها فضة , ولا تلتوي في مشيتها.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْتُلُوا الْحَيَّاتِ , وَاقْتُلُوا ذَا الطُّفْيَتَيْنِ , وَالْأَبْتَرَ , فَإِنَّهُمَا يَلْتَمِسَانِ الْبَصَرَ , وَيُسْقِطَانِ الْحُبْلَى " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ , وَعَائِشَةَ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ أَبِي لُبَابَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى بَعْدَ ذَلِكَ عَنْ قَتْلِ حَياتِ الْبُيُوتِ وَهِيَ: الْعَوَامِرُ " , وَيُرْوَى عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَيْضًا , وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنَّمَا يُكْرَهُ مِنْ قَتْلِ الْحَيَّاتِ قَتْلُ الْحَيَّةِ الَّتِي تَكُونُ دَقِيقَةً , كَأَنَّهَا فِضَّةٌ , وَلَا تَلْتَوِي فِي مِشْيَتِهَا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سانپوں کو مارو، خاص طور سے اس سانپ کو مارو جس کی پیٹھ پہ دو (کالی) لکیریں ہوتی ہیں اور اس سانپ کو جس کی دم چھوٹی ہوتی ہے اس لیے کہ یہ دونوں بینائی کو زائل کر دیتے ہیں اور حمل کو گرا دیتے ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے وہ ابولبابہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد گھروں میں رہنے والے سانپوں کو جنہیں «عوامر» (بستیوں میں رہنے والے سانپ) کہا جاتا ہے، مارنے سے منع فرمایا ۲؎: ابن عمر اس حدیث کو زید بن خطاب ۳؎ سے بھی روایت کرتے ہیں،
۳- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، ابوہریرہ اور سہل بن سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: سانپوں کے اقسام میں سے اس سانپ کو بھی مارنا مکروہ ہے جو پتلا (اور سفید) ہوتا ہے گویا کہ وہ چاندی ہو، وہ چلنے میں بل نہیں کھاتا بلکہ سیدھا چلتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 14 (3297)، صحیح مسلم/السلام 37 (الحیؤن 1) (2233)، سنن ابی داود/ الأدب 174 (5252)، سنن ابن ماجہ/الطب 42 (3535)، (تحفة الأشراف: 6821) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ان دونوں میں ایسا زہر ہوتا ہے کہ انہیں دیکھنے والا نابینا ہو جاتا ہے اور حاملہ کا حمل گر جاتا ہے۔
۲؎: یہ ممانعت اس لیے ہے کہ یہ جن و شیاطین بھی ہو سکتے ہیں، انہیں مارنے سے پہلے وہاں سے غائب ہو جانے یا اپنی شکل تبدیل کر لینے کی تین بار آگاہی دے دینی چاہیئے، اگر وہ وہاں سے غائب نہ ہو پائیں یا اپنی شکل نہ بدلیں تو وہ ابو سعید خدری سے مروی حدیث کی روشنی میں انہیں مار سکتے ہیں۔
۳؎: زید بن خطاب عمر بن خطاب (رضی الله عنہما) کے بڑے بھائی ہیں، یہ عمر رضی الله عنہ سے پہلے اسلام لائے، بدر اور دیگر غزوات میں شریک رہے، ان سے صرف ایک حدیث گھروں میں رہنے والے سانپوں کو نہ مارنے سے متعلق آئی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Previous    1    2    3    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.