الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
حدیث نمبر: 2303
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن محمد بن زياد ، قال: سمعت ابا هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
شعبہ نے محمد بن زیاد سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے سنا۔۔۔اسی کے مانند۔
امام صاحب نے مذکورہ بالا روایت اپنے ایک اور استاد سے بیان کی ہے۔
9. باب التَّرْغِيبِ فِي الصَّدَقَةِ:
9. باب: صدقہ کی ترغیب دینا۔
Chapter: Encouragement to give Charity
حدیث نمبر: 2304
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وابن نمير ، وابو كريب كلهم، عن ابي معاوية، قال يحيى: اخبرنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، قال: كنت امشي مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرة المدينة عشاء، ونحن ننظر إلى احد، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا ابا ذر "، قال: قلت: لبيك يا رسول الله، قال: " ما احب ان احدا ذاك عندي ذهب امسى ثالثة، عندي منه دينار إلا دينارا ارصده لدين، إلا ان اقول به في عباد الله هكذا حثا بين يديه، وهكذا عن يمينه، وهكذا عن شماله "، قال: ثم مشينا، فقال: " يا ابا ذر "، قال: قلت: لبيك يا رسول الله، قال: إن الاكثرين هم الاقلون يوم القيامة، إلا من قال هكذا وهكذا وهكذا "، مثل ما صنع في المرة الاولى، قال: ثم مشينا، قال: " يا ابا ذر كما انت حتى آتيك "، قال: فانطلق حتى توارى عني، قال: سمعت لغطا وسمعت صوتا، قال: فقلت: لعل رسول الله صلى الله عليه وسلم عرض له، قال: فهممت ان اتبعه، قال: ثم ذكرت قوله لا تبرح حتى آتيك، قال: فانتظرته فلما جاء ذكرت له الذي سمعت، قال: فقال: " ذاك جبريل اتاني، فقال: من مات من امتك لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة "، قال: قلت: وإن زنى وإن سرق، قال: " وإن زنى وإن سرق ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ كُلُّهُمْ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرَّةِ الْمَدِينَةِ عِشَاءً، وَنَحْنُ نَنْظُرُ إِلَى أُحُدٍ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ "، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " مَا أُحِبُّ أَنَّ أُحُدًا ذَاكَ عِنْدِي ذَهَبٌ أَمْسَى ثَالِثَةً، عِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا دِينَارًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ، إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا حَثَا بَيْنَ يَدَيْهِ، وَهَكَذَا عَنْ يَمِينِهِ، وَهَكَذَا عَنْ شِمَالِهِ "، قَالَ: ثُمَّ مَشَيْنَا، فَقَالَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ "، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمُ الْأَقَلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا "، مِثْلَ مَا صَنَعَ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى، قَالَ: ثُمَّ مَشَيْنَا، قَالَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ كَمَا أَنْتَ حَتَّى آتِيَكَ "، قَالَ: فَانْطَلَقَ حَتَّى تَوَارَى عَنِّي، قَالَ: سَمِعْتُ لَغَطًا وَسَمِعْتُ صَوْتًا، قَالَ: فَقُلْتُ: لَعَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُرِضَ لَهُ، قَالَ: فَهَمَمْتُ أَنْ أَتَّبِعَهُ، قَالَ: ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَهُ لَا تَبْرَحْ حَتَّى آتِيَكَ، قَالَ: فَانْتَظَرْتُهُ فَلَمَّا جَاءَ ذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي سَمِعْتُ، قَالَ: فَقَالَ: " ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَانِي، فَقَالَ: مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ "، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ، قَالَ: " وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ ".
اعمش نے زید بن وہب سے اور انھوں نے حضرت ابوزر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: (ایک رات) عشاء کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی کالی پتھریلی زمین پر چل ر ہا تھا اور ہم احد پہاڑ کو دیکھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "ابو زر رضی اللہ عنہ!میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ہوں!فرمایا: " مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ یہ (کوہ) احد میرے پاس سونے کا ہو اور میں اس حالت میں تیسری شام کروں کہ میرے پاس اس میں سے ایک دینار بچا ہوا موجود ہو سوائے اس دینار کے جو میں نے قرض (کی ادائیگی) کے لئے بچایا ہو، اور میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح (خرچ) کروں۔آپ نے اپنے سامنے دونوں ہاتھوں سے بھر کر ڈالنے کا اشارہ کیا۔اس طرح (خرچ) کروں۔دائیں طرف سے۔۔۔اس طرح۔۔۔بائیں طرف سے۔۔۔" (ابو زر رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر ہم چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابو زر! رضی اللہ عنہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ہوں!آپ نے فرمایا: " یقیناً زیادہ مالدار ہی قیامت کے دن کم (مایہ) ہوں گے، مگر وہ جس نے اس طرح، اس طرح اور اس طرح (خرچ) کیا۔"جس طرح آپ نے پہلی بار کیاتھا۔ابوزر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم پھر چلے۔آپ نے فرمایا: "ابو زر رضی اللہ عنہ! میرے واپس آنے تک اسی حالت میں ٹھہرے رہنا۔"کہا: آپ چلے یہاں تک کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔میں نے شور سا سنا آواز سنی تو میں نے دل میں کہا شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز پیش آگئی ہے، چنانچہ میں نے پیچھے جانے کا ارادہ کرلیا پھر مجھے آپ کا یہ فرمان یاد آگیا: "میرے آنے تک یہاں سے نہ ہٹنا"تو میں نے آپ کاانتظار کیا، جب آپ و اپس تشریف لائے تو میں نے جو (کچھ) سنا تھا آپ کو بتایا۔آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ جبرائیل علیہ السلام تھے، میرے پاس آئے اور بتایا کہ آپ کی امت کاجو فرد اس حال میں فوت ہوگا کہ کسی چیز کو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتاتھا وہ جنت میں داخل ہوگا۔میں نے پوچھا: چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟انھوں نے کہا: چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔"
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں شام کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی پتھریلی زمین میں چل رہا تھا۔ اور ہم احد پہاڑ دیکھ رہے تھے۔ تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میں نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں حاضر ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ احد پہاڑ میرے پاس سونے کی شکل میں موجود ہو اور تیسری شام اس صورت میں آئے کہ میرے پاس اس سے ایک دینار بچا ہوا موجود ہو سوائے اس دینار کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے تیار رکھوں۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ میں اسے اللہ کے بندوں میں خرچ یا تقسیم کر دوں، اس طرف (آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر کر آگے ڈالا) اور اس طرح دائیں طرف اور اس طرح بائیں طرف، پھر ہم چلتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! حاضر ہوں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (زیادہ مالدار ہی قیامت کے دن کم رتبہ ہوں گے) مگر جس نے ادھر اُدھر ہر جگہ خرچ کیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کی طرح (آگےدائیں بائیں) کی طرف اشارہ فرمایا: پھر ہم چل پڑے آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میرے آنے تک اس حالت میں رہنا یعنی یہیں ٹھہرے رہنا کہیں نہ جانا آپصلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے حتی کہ میری نظروں سے چھپ گئے میں نے شور اور آواز سنی تو میں نے دل میں کہا۔ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دشمن کا سامنا ہے تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچنے کا قصد کیا۔ پھر مجھے آپصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد آ گیا کہ میرے آنے تک یہاں سے نہ ہلنا تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کیا تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے ان آوازوں کا تذکرہ کیا جو میں نے سنی تھیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جبرائیل ؑ تھے میرے پاس آئے اور بتایا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا جو فرد اس حال میں فوت ہو گا کہ اس نے اللہ کا کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے پوچھا: اے جبرائیل علیہ السلام!اگرچہ اس نے چوری اور زنا کیا ہو؟ اس نے جواب دیا اگرچہ اس نے چوری اور زنا کا ارتکاب کیا ہو۔
حدیث نمبر: 2305
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا جرير ، عن عبد العزيز وهو ابن رفيع ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، قال: خرجت ليلة من الليالي، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي وحده ليس معه إنسان، قال: فظننت انه يكره ان يمشي معه احد، قال: فجعلت امشي في ظل القمر، فالتفت فرآني، فقال: " من هذا؟ "، فقلت: ابو ذر جعلني الله فداءك، قال: " يا ابا ذر تعاله "، قال: فمشيت معه ساعة، فقال: " إن المكثرين هم المقلون يوم القيامة، إلا من اعطاه الله خيرا فنفح فيه يمينه وشماله وبين يديه ووراءه، وعمل فيه خيرا "، قال: فمشيت معه ساعة، فقال: " اجلس ها هنا "، قال: فاجلسني في قاع حوله حجارة، فقال لي: " اجلس ها هنا حتى ارجع إليك "، قال: فانطلق في الحرة حتى لا اراه، فلبث عني فاطال اللبث، ثم إني سمعته وهو مقبل، وهو يقول: " وإن سرق وإن زنى "، قال: فلما جاء لم اصبر، فقلت: يا نبي الله جعلني الله فداءك، من تكلم في جانب الحرة؟ ما سمعت احدا يرجع إليك شيئا، قال: " ذاك جبريل عرض لي في جانب الحرة، فقال: بشر امتك انه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة، فقلت: يا جبريل وإن سرق وإن زنى، قال: نعم، قال: قلت: وإن سرق وإن زنى، قال: نعم، قال: قلت: وإن سرق وإن زنى، قال: نعم وإن شرب الخمر ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ رُفَيْعٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: خَرَجْتُ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي وَحْدَهُ لَيْسَ مَعَهُ إِنْسَانٌ، قَالَ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَكْرَهُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَهُ أَحَدٌ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَمْشِي فِي ظِلِّ الْقَمَرِ، فَالْتَفَتَ فَرَآنِي، فَقَالَ: " مَنْ هَذَا؟ "، فَقُلْتُ: أَبُو ذَرٍّ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، قَالَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ تَعَالَهْ "، قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ: " إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمُ الْمُقِلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ خَيْرًا فَنَفَحَ فِيهِ يَمِينَهُ وَشِمَالَهُ وَبَيْنَ يَدَيْهِ وَوَرَاءَهُ، وَعَمِلَ فِيهِ خَيْرًا "، قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ: " اجْلِسْ هَا هُنَا "، قَالَ: فَأَجْلَسَنِي فِي قَاعٍ حَوْلَهُ حِجَارَةٌ، فَقَالَ لِي: " اجْلِسْ هَا هُنَا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ "، قَالَ: فَانْطَلَقَ فِي الْحَرَّةِ حَتَّى لَا أَرَاهُ، فَلَبِثَ عَنِّي فَأَطَالَ اللَّبْثَ، ثُمَّ إِنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُقْبِلٌ، وَهُوَ يَقُولُ: " وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى "، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ لَمْ أَصْبِرْ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، مَنْ تُكَلِّمُ فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ؟ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرْجِعُ إِلَيْكَ شَيْئًا، قَالَ: " ذَاكَ جِبْرِيلُ عَرَضَ لِي فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ، فَقَالَ: بَشِّرْ أُمَّتَكَ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى، قَالَ: نَعَمْ وَإِنْ شَرِبَ الْخَمْرَ ".
عبدالعزیز بن رفیع نے زید بن وہب سے اور انھوں نے ابو زر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں ایک رات (گھرسے) باہر نکلا تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے جارہے ہیں، آپ کے ساتھ کوئی انسان نہیں تو میں نے خیال کیا کہ آپ اس بات کو ناپسند کررہے ہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ چلے، چنانچہ میں چاند کے سائے میں چلنے لگا، آپ مڑے تو مجھے دیکھ لیا اور فرمایا: " یہ کون ہے؟"میں نے عرض کی: ابو زر رضی اللہ عنہ ہوں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابو زر (رضی اللہ عنہ) آجاؤ۔"کہا: میں کچھ دیر آپ کے ساتھ چلا تو آپ نے فرمایا: " بے شک زیادہ مال والے ہی قیامت کے دن کم (مایہ) ہوں گے، سوائے ان کے جن کو اللہ نے مال عطا فرمایا: اور ا نھوں نے اسے دائیں، بائیں اور آگے، پیچھے اڑا ڈالا اور اس میں نیکی کے کام کئے۔"میں ایک گھڑی آپ کے ساتھ چلتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں بیٹھ جاؤ۔"آپ نے مجھے ایک ہموار زمین میں بٹھا دیا جس کے گرد پتھر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: "یہیں بیٹھے رہنا یہاں تک کہ میں تمھارے پاس لوٹ آؤں۔"آپ پتھریلے میدان (حرے) میں چل پڑے حتیٰ کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے، آپ مجھ سے دور رکے رہے اور زیادہ دیرکردی، پھر میں نے آپ کی آواز سنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف آتے ہوئے فرمارہے تھے: "خواہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو۔"جب آپ تشریف لئے آئے تو میں صبر نہ کرسکا میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ مجھے آپ پر نثار فرمائے!آپ سیاہ پتھروں کے میدان (حرہ) کے کنارے کس سے گفتگو فرمارہے تھے؟میں نے تو کسی کو نہیں سناجو آپ کو جواب دے رہا ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو سیاہ پتھروں کے کنارے میرے سامنے آئے اور کہا: اپنی امت کو بشارت دے دیجئے کہ جو کوئی اس حالت میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا۔میں نے کہا: اے جبرئیل علیہ السلام! چاہے اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو؟انھوں نےکہا: ہاں!فرمایا: میں نے پھر کہا: خواہ اس نے چوری کی ہو خواہ اس نے زنا کیا ہو؟انھوں نے کہا: ہاں۔میں نے پھر (تیسری بار) پوچھا: خواہ اس نے چوری کی ہو خواہ اس نے زنا کیا ہو؟انھوں نے کہا: ہاں، خواہ اس نے شراب (بھی) پی ہو۔"
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک رات نکلا تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چلے جا رہے ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی شخص نہیں ہے تو میں نے خیال کیا آپصلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند کر رہے ہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ چلے، تو میں چاند کے سایہ میں چلنے لگا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مڑ کر دیکھ لیا۔ اور فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا ابو ذر ہوں، اللہ مجھے آپصلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابو ذر! آ جاؤ) تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ دیر چلا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زیادہ مال والے ہی قیامت کے دن کم مرتبہ ہوں گے مگر جن کو اللہ نے مال عطا فرمایا: اور انھوں نے اسے دائیں، بائیں اور آگے، پیچھے پھونک ڈالا اور اس میں نیکی کے کام کیے میں آپ کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں بیٹھو تو آپ نے مجھے ایک ہموار زمین پر بٹھا دیا جس کے گرد پتھر تھے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا۔ یہاں بیٹھو حتی کہ میں تیرے پاس لوٹ آؤں آپصلی اللہ علیہ وسلم پتھریلی زمین میں چلے حتی کہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے اور وہاں ٹھہرے رہے اور کافی دیر تک ٹھہرے رہے پھر میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم میری طرف آتے ہوئے فرما رہے تھے خواہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو میں صبر نہ کر سکا اور میں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ مجھے آپصلی اللہ علیہ وسلم پر نثارفرمائے! آپصلی اللہ علیہ وسلم سیاہ پتھروں کے کنارے کس سے گفتگو فرما رہے تھے؟ میں نے کسی کو کچھ جواب دیتے نہیں سنا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو سیاہ پتھروں کے کنارے میرے سامنے آئے اور کہا اپنی امت کو بشارت دیجیے جو اس حالت میں فوت ہو گا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرایا ہو گا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا تو میں نے کہا: اے جبرائیل علیہ السلام اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کا مرتکب ہوا ہو، اس نے کہا: جی ہاں! میں نے پھر پوچھا خواہ وہ چور ہو یا زانی؟ اس نے کہا: ہاں میں نے پھر تیسری بار پوچھا: خواہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو؟ اس نے کہا: ہاں اور اگرچہ وہ شرابی ہی کیوں نہ ہو۔
10. باب فِي الْكَنَّازِينَ لِلأَمْوَالِ وَالتَّغْلِيظِ عَلَيْهِمْ:
10. باب: مال کو خزانہ بنانے والوں کے بارے میں اور ان کو ڈانٹ۔
Chapter: Stern warning concerning those who hoard wealth
حدیث نمبر: 2306
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن الجريري ، عن ابي العلاء ، عن الاحنف بن قيس ، قال: قدمت المدينة فبينا انا في حلقة فيها ملا من قريش، إذ جاء رجل اخشن الثياب، اخشن الجسد، اخشن الوجه فقام عليهم، فقال: بشر الكانزين برضف يحمى عليه في نار جهنم، فيوضع على حلمة ثدي احدهم، حتى يخرج من نغض كتفيه، ويوضع على نغض كتفيه، حتى يخرج من حلمة ثدييه يتزلزل، قال: فوضع القوم رءوسهم، فما رايت احدا منهم رجع إليه شيئا، قال: فادبر، واتبعته حتى جلس إلى سارية، فقلت: ما رايت هؤلاء إلا كرهوا قلت لهم، قال: إن هؤلاء لا يعقلون شيئا، إن خليلي ابا القاسم صلى الله عليه وسلم دعاني فاجبته، فقال " اترى احدا "، فنظرت ما علي من الشمس، وانا اظن انه يبعثني في حاجة له، فقلت: اراه، فقال: " ما يسرني ان لي مثله ذهبا انفقه كله، إلا ثلاثة دنانير، ثم هؤلاء يجمعون الدنيا لا يعقلون شيئا "، قال: قلت: ما لك ولإخوتك من قريش، لا تعتريهم وتصيب منهم، قال: لا وربك لا اسالهم عن دنيا، ولا استفتيهم عن دين حتى الحق بالله ورسوله.وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَبَيْنَا أَنَا فِي حَلْقَةٍ فِيهَا مَلَأٌ مِنْ قُرَيْشٍ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ أَخْشَنُ الثِّيَابِ، أَخْشَنُ الْجَسَدِ، أَخْشَنُ الْوَجْهِ فَقَامَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: بَشِّرِ الْكَانِزِينَ بِرَضْفٍ يُحْمَى عَلَيْهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُوضَعُ عَلَى حَلَمَةِ ثَدْيِ أَحَدِهِمْ، حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ نُغْضِ كَتِفَيْهِ، وَيُوضَعُ عَلَى نُغْضِ كَتِفَيْهِ، حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ حَلَمَةِ ثَدْيَيْهِ يَتَزَلْزَلُ، قَالَ: فَوَضَعَ الْقَوْمُ رُءُوسَهُمْ، فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْهُمْ رَجَعَ إِلَيْهِ شَيْئًا، قَالَ: فَأَدْبَرَ، وَاتَّبَعْتُهُ حَتَّى جَلَسَ إِلَى سَارِيَةٍ، فَقُلْتُ: مَا رَأَيْتُ هَؤُلَاءِ إِلَّا كَرِهُوا قُلْتَ لَهُمْ، قَالَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا، إِنَّ خَلِيلِي أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي فَأَجَبْتُهُ، فَقَالَ " أَتَرَى أُحُدًا "، فَنَظَرْتُ مَا عَلَيَّ مِنَ الشَّمْسِ، وَأَنَا أَظُنُّ أَنَّهُ يَبْعَثُنِي فِي حَاجَةٍ لَهُ، فَقُلْتُ: أَرَاهُ، فَقَالَ: " مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي مِثْلَهُ ذَهَبًا أُنْفِقُهُ كُلَّهُ، إِلَّا ثَلَاثَةَ دَنَانِيرَ، ثُمَّ هَؤُلَاءِ يَجْمَعُونَ الدُّنْيَا لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا "، قَالَ: قُلْتُ: مَا لَكَ وَلِإِخْوَتِكَ مِنْ قُرَيْشٍ، لَا تَعْتَرِيهِمْ وَتُصِيبُ مِنْهُمْ، قَالَ: لَا وَرَبِّكَ لَا أَسْأَلُهُمْ عَنْ دُنْيَا، وَلَا أَسْتَفْتِيهِمْ عَنْ دِينٍ حَتَّى أَلْحَقَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ.
ابو علاء نے حضرت احنف بن قیس ؒسے روایت کی انھوں نے کہا: میں مدینہ آیا تو میں قریشی سر داروں کے ایک حلقے میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک کھردرے کپڑوں گٹھے ہو ئے جسم اور سخت چہرے والا ایک آدمی آیا اور ان کے سر پر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا۔مال و دولت جمع کرنے والوں کو اس تپتے ہو ئے پتھر کی بشارت سنا دو جس کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جا ئے گا اور اسے ان کے ایک فرد کی نو ک پستان پر رکھا جائے گا حتیٰ کہ وہ اس کے دونوں کندھوں کی باریک ہڈیوں سے لہراتا ہوا نکل جا ئے گا اور اسے اس کے شانوں کی باریک ہڈیوں پر رکھا جا ئے گا حتیٰ کہ وہ اس کے پستانوں کے سروں سے حرکت کرتا ہوا نکل جا ئے گا۔ (احنف نے) کہا: اس پر لو گوں نے اپنے سر جھکا لیے اور میں نے ان میں سے کسی کو نہ دیکھا کہ اسے کوئی جواب دیا ہو کہا پھر وہ لو ٹا اور میں نے اس کا پیچھا کیا حتیٰ کہ وہ ایک ستون کے ساتھ (ٹیک لگا کر) بیٹھ گیا میں نے کہا: آپ نے انھیں جو کچھ کہا ہے میں نے انھیں اس کو نا پسند کرتے ہو ئے ہی دیکھا ہے انھوں نے کہا: یہ لو گ کچھ سمجھتے نہیں میرے خلیل ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا یا میں نے لبیک کہا تو آپ نے فرمایا: "کیا تم احد (پہاڑ) کو دیکھتے ہو؟ میں نے دیکھا کہ مجھ پر کتنا سورج باقی ہے میں سمجھ رہا تھا کہ آپ مجھے اپنی کسی ضرورت کے لیے بھیجنا چا ہتے ہیں چنا نچہ میں نے عرض کی میں اسے دیکھ رہا ہوں تو آپ نے فر مایا: "میرے لیے یہ بات باعث مسرت نہ ہو گی کہ میرے پا س اس کے برا برا سونا ہو اور میں تین دیناروں کے سوا اس سارے (سونے) کو خرچ (بھی) کر ڈالوں۔پھر یہ لو گ ہیں دنیا جمع کرتے ہیں کچھ عقل نہیں کرتے۔میں نے ان سے پو چھا آپ کا اپنے (حکمران) قریشی بھائیوں کے ساتھ کیا معاملہ ہے آپ اپنی ضرورت کے لیے نہ ان کے پاس جا تے ہیں اور نہ ان سے کچھ لیتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا نہیں تمھا رے پرودیگار کا قسم! نہ میں ان سے دنیا کی کوئی چیز مانگوں گا نہ ہی ان سے کسی دینی مسئلے کے بارے میں پو چھوں گا یہاں تک کہ میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملوں۔
احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں مدینہ آیا اس اثناء میں کہ میں قریشی سرداروں کے ایک حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک آدمی آیا جس کے کپڑے موٹے تھے جسم میں خشونت تھی اور چہرہ پر بھی سختی تھی وہ آ کر ان کے پاس رک گیا اور کہنے لگا مال و دولت سمیٹنے والوں کو اس گرم پتھر سے آگاہ کرو (اطلاع و خبر دو) جس کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اسے ان کے ایک فرد کے پستان کی نوک پر رکھا جائے۔ گا حتی کہ وہ اس کے کندھےکی باریک ہڈی سے نکلے گا۔ اور اسے اس کے شانوں کی باریک ہڈیوں پر رکھا جائے گا حتی کہ وہ اس کے پستانوں کے سروں سے حرکت کرتا ہوا نکلے گا۔ احنف کہتے ہیں لوگوں نے اپنے سر جھکا لیے اور میں نے ان میں سے کسی کو اس کو کچھ جواب دیتے ہوئے نہیں دیکھا اور وہ واپس پلٹ گیا میں نے اس کا پیچھا کیا حتی کہ وہ ایک ستون کے ساتھ بیٹھا گیا تو میں نے کہا میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے کہ آپ نے انہیں جو کچھ کہا ہے انھوں نے اسے ناپسند سمجھا ہے اس نے کہا ان لوگوں کو کچھ عقل و شعور نہیں ہے میرے گہرے دوست ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم ! نے مجھے بلایا، میں نے لبیک کہا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمھیں احد نظر آ رہا ہے؟ میں نے دیکھا کہ کس قدر سورج کھڑا ہے (دن باقی ہے) کیونکہ میں سمجھ رہا تھا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی کسی ضرورت کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں میں اسے دیکھ ہوں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ بات میرے لیے مسرت کا باعث نہیں ہے کہ میرے پاس اس کے برابر سونا اور میں اس تمام کو خرچ کر ڈالوں مگر تین دینار جنھیں قرض چکانے کے لیے رکھ چھوڑوں) اس کے باوجود یہ لوگ دنیا جمع کرتے ہیں انھیں کچھ عقل نہیں ہے میں نے اس سے پوچھا: آپصلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے قریشی بھائیوں سے کیا معاملہ ہے؟ اپنی ضرورت کے لیے ان کے پاس نہیں جاتے اور نہ ان سے کچھ لیتے ہیں اس نے جواب دیا نہیں تیرے رب کی قسم! نہ میں ان سے دنیا کی کوئی چیز مانگوں گا اور نہ ہی ان سے کسی دینی مسئلہ کے بارے میں پوچھوں گا حتی کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے جا ملوں۔
حدیث نمبر: 2307
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا شيبان ابن فروخ ، حدثنا ابو الاشهب ، حدثنا خليد العصري ، عن الاحنف بن قيس ، قال: كنت في نفر من قريش، فمر ابو ذر وهو يقول: " بشر الكانزين بكي في ظهورهم، يخرج من جنوبهم، وبكي من قبل اقفائهم، يخرج من جباههم "، قال: ثم تنحى، فقعد، قال: قلت: من هذا؟، قالوا: هذا ابو ذر، قال: فقمت إليه فقلت ما شيء سمعتك تقول قبيل، قال: " ما قلت إلا شيئا قد سمعته من نبيهم صلى الله عليه وسلم "، قال: قلت: ما تقول في هذا العطاء؟، قال: " خذه فإن فيه اليوم معونة، فإذا كان ثمنا لدينك فدعه ".وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ ابْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ ، حَدَّثَنَا خُلَيْدٌ الْعَصَرِيُّ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: كُنْتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَمَرَّ أَبُو ذَرٍّ وَهُوَ يَقُولُ: " بَشِّرِ الْكَانِزِينَ بِكَيٍّ فِي ظُهُورِهِمْ، يَخْرُجُ مِنْ جُنُوبِهِمْ، وَبِكَيٍّ مِنْ قِبَلِ أَقْفَائِهِمْ، يَخْرُجُ مِنْ جِبَاهِهِمْ "، قَالَ: ثُمَّ تَنَحَّى، فَقَعَدَ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، قَالُوا: هَذَا أَبُو ذَرٍّ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ مَا شَيْءٌ سَمِعْتُكَ تَقُولُ قُبَيْلُ، قَالَ: " مَا قُلْتُ إِلَّا شَيْئًا قَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، قَالَ: قُلْتُ: مَا تَقُولُ فِي هَذَا الْعَطَاءِ؟، قَالَ: " خُذْهُ فَإِنَّ فِيهِ الْيَوْمَ مَعُونَةً، فَإِذَا كَانَ ثَمَنًا لِدِينِكَ فَدَعْهُ ".
خلید العصری نے حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ ؒ سے روایت کی انھوں نے کہا میں قریش کی ایک جماعت میں مو جو د تھا کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہو ئے گزرے: مال جمع کرنے والوں کو (آگ کے) ان داغوں کی بشارت سنا دو جو ان کی پشتوں پر لگائے جا ئیں گے اور ان کے پہلوؤں سے نکلیں گے اور ان داغوں کی جو ان کی گدیوں کی طرف سے لگا ئے جا ئیں گے اور ان کی پیشا بیوں سے نکلیں گے کہا: پھر وہ الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے میں نے پو چھا یہ صاحب کو ن ہیں؟ لو گوں نے بتا یا یہ ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں میں اٹھ کر ان کے پا س چلا گیا اور پو چھا کیا با ت تھی تھوڑی دیر پہلے میں نے سنی آپ کہہ رہے تھے؟انھوں نے جواب دیا میں نے اس بات کے سوا کچھ نہیں کہا جو میں نے ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی۔کہا میں نے پو چھا (حکومت سے ملنے والے) عطیے (وظیفے) کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا اسے لے لو کیونکہ آ ج یہ معونت (مدد) سے اور جب یہ تمھا رے دین کی قیمت ٹھہریں تو انھیں چھوڑ دینا۔
احنف بن قیس بیان کرتے ہیں کہ میں قریش کی ایک جماعت میں فروکش تھا کہ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہتے ہوئے گزرے مال جمع کرنے والوں کو ان داغوں کی خبر دو جو ان کی پشتوں پر لگائے جائیں گےاوران کے پہلوؤں سے نکلیں گے۔ اور داغوں کی جو ان کی گدیوں پر لگائے جائیں گے ان کی پیشانیوں سے نکلیں گے پھر وہ الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ قریشیوں نے بتایا یہ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں میں اٹھ کر ان کے پاس چلا گیا اور پوچھا ابھی آپ کیا کہہ رہے تھے؟ انھوں نے جواب دیا میں نے وہی بات کہی ہے جو میں نے ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے میں نے پوچھا ان وظائف (حکومت کی طرف سے ملنے والے) کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں انھوں نے جواب دیا لے لو کیونکہ آج یہ معونت (مدد) کا باعث ہیں اور جب یہ تیرے دین کی قیمت ٹھہریں تو انھیں چھوڑ دینا۔
11. باب الْحَثِّ عَلَى النَّفَقَةِ وَتَبْشِيرِ الْمُنْفِقِ بِالْخَلَفِ:
11. باب: سخاوت کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: Encouragement to spend and glad tidings of compensation for the one who spends on good deeds
حدیث نمبر: 2308
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني زهير بن حرب ، ومحمد بن عبد الله بن نمير ، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " قال الله تبارك وتعالى يا ابن آدم انفق انفق عليك "، وقال: يمين الله ملاى، وقال ابن نمير: ملآن سحاء لا يغيضها شيء الليل والنهار.حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَا ابْنَ آدَمَ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ "، وَقَالَ: يَمِينُ اللَّهِ مَلْأَى، وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: مَلْآنُ سَحَّاءُ لَا يَغِيضُهَا شَيْءٌ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ.
زہیر بن حرب اور محمد بن عبد اللہ بن نمیر نے کہا: سفیان بن عیینہ نے ہمیں ابو زنا د سے حدیث بیان کی انھوں نے اعراج سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روا یت کی وہ اس (سلسلہ سند) کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک لے جا تے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اللہ تعا لیٰ نے فرمایا ہے اے آدم کے بیٹے!تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔اور آپ نے فرمایا: " اللہ کا دایاں ہاتھ (اچھی طرح) بھرا ہوا ہے۔ ابن نمیر نے ملای کے بجا ئے ملان (کا لفظ) کہا۔۔اس کا فیض جا ری رہتا ہے دن ہو یا را ت کوئی چیز اس میں کمی نہیں کرتی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے آدم کے بیٹے! خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے۔
حدیث نمبر: 2309
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق بن همام ، حدثنا معمر بن راشد ، عن همام بن منبه اخي وهب بن منبه ، قال: هذا ما حدثنا ابو هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر احاديث منها، وقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله قال لي انفق انفق عليك، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يمين الله ملاى، لا يغيضها سحاء الليل والنهار، ارايتم ما انفق مذ خلق السماء والارض، فإنه لم يغض ما في يمينه، قال: وعرشه على الماء، وبيده الاخرى القبض، يرفع ويخفض ".وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ أَخِي وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ قَالَ لِي أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَمِينُ اللَّهِ مَلْأَى، لَا يَغِيضُهَا سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُذْ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَمِينِهِ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، وَبِيَدِهِ الْأُخْرَى الْقَبْضَ، يَرْفَعُ وَيَخْفِضُ ".
وہب بن منبہ کے بھا ئی ہمام بن منبہ سے روایت ہے کہا: یہ احادیث ہیں جو ہمیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں پھر انھوں نے چند احادیث بیان کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اللہ تعا لیٰ نے مجھ سے کہا ہے خرچ کرو میں تم پر خرچ کروں گا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اللہ کا دا یا ں ہاتھ بھرا ہوا دن رات عطا کی بارش برسانے والا ہے اس میں کوئی چیز کمی نہیں کرتی۔کیا تم نے دیکھا آسمان و زمین کی تخلیق سے لے کر (اب تک) اس نے کتنا خرچ کیا ہے؟جو کچھ اس کے دا ئیں ہا تھ میں ہے اس (عطا) نے اس میں کوئی کمی نہیں کی۔ آپ نے فرمایا: اس کا عرش پا نی پر ہے اس کے دوسرے ہا تھ میں قبضہ (یا واپسی کی قوت)) ہے وہ (جسے چا ہتا ہے) بلند کرتا ہے اور (جسے چا ہتا ہے) پست کرتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہےخرچ کرو، میں آپ پر خرچ کروں گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ دن رات خرچ کرنے سے اس میں کمی واقع نہیں ہوتی مجھے بتاؤ اس نے آسمان و زمین کی تخلیق سے لے کر کس قدر خرچ کیا ہے (اس کے باوجود) اس کے دائیں ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کمی نہیں ہوئی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا عرش پانی پر ہے اس کا دوسرا ہاتھ قبض کرتا ہے (مارتا ہے) کسی کو بلند کرتا ہے اور کسی کو پست کرتا ہے۔
12. باب فَضْلِ النَّفَقَةِ عَلَى الْعِيَالِ وَالْمَمْلُوكِ وَإِثْمِ مَنْ ضَيَّعَهُمْ أَوْ حَبَسَ نَفَقَتَهُمْ عَنْهُمْ:
12. باب: اہل و عیال پر خرچ کرنے کا بیان۔
Chapter: The virtue of spending on one's family and slaves, and the sin of the one who neglects them or withholds maintenance from them
حدیث نمبر: 2310
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو الربيع الزهراني ، وقتيبة بن سعيد ، كلاهما، عن حماد بن زيد ، قال ابو الربيع : حدثنا حماد ، حدثنا ايوب ، عن ابي قلابة ، عن ابي اسماء ، عن ثوبان ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " افضل دينار ينفقه الرجل دينار ينفقه على عياله، ودينار ينفقه الرجل على دابته في سبيل الله، ودينار ينفقه على اصحابه في سبيل الله "، قال ابو قلابة: وبدا بالعيال، ثم قال ابو قلابة: واي رجل اعظم اجرا من رجل ينفق على عيال صغار، يعفهم او ينفعهم الله به ويغنيهم.حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، كلاهما، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ أَبُو الرَّبِيعِ : حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفْضَلُ دِينَارٍ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ دِينَارٌ يُنْفِقُهُ عَلَى عِيَالِهِ، وَدِينَارٌ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلَى دَابَّتِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَدِينَارٌ يُنْفِقُهُ عَلَى أَصْحَابِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: وَبَدَأَ بِالْعِيَالِ، ثُمَّ قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: وَأَيُّ رَجُلٍ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنْ رَجُلٍ يُنْفِقُ عَلَى عِيَالٍ صِغَارٍ، يُعِفُّهُمْ أَوْ يَنْفَعُهُمُ اللَّهُ بِهِ وَيُغْنِيهِمْ.
ابو قلابہ نے ابو اسماء (رحبی) سے اور انھوں نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بہترین دینار جسے انسان خرچ کرتا ہے وہ دینا ر ہے جسے وہ اپنے اہل و عیالپر خرچ کرتا ہے اور وہ دینار ہے جسے انسان اللہ کی را ہ میں (جہاد کرنے کے لیے) اپنے جا نور (سواری) پر خرچ کرتا ہے اور وہ دینا ر ہے جسے وہ اللہ کے را ستے میں اپنے ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے۔پھر ابو قلابہ نے کہا: آپ نے اہل و عیال سے ابتدا فر ما ئی پھر ابو قلا بہ نے کہا: اجر میں اس آدمی سے بڑھ کر کو ن ہو سکتا ہے جو چھوٹے بچوں پر خرچ کرتا ہے وہ ان کو (سوال کی) ذلت سے بچاتا ہے یا اللہ اس کے ذریعے سے انھیں فائدہ پہنچاتا ہے اور غنی کرتا ہے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہترین دینا ر جسے انسان خرچ کرتا ہے وہ دینار ہے جسے وہ اپنے عیال پر خرچ کرتا ہے۔جسے انسان اپنے جہادی جاندار سواری پر صرف کرتا ہے اور وہ دینار ہے جسے وہ اپنے مجاہد ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے ابو قلابہ بیان کرتے ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا عیال سے فرمائی، پھر ابو قلابہ کہنے لگے۔ اس آدمی سے بڑھ کر اجر کس آدمی کا ہو سکتا ہے جو اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتا ہے، انہیں سوال کی ذلت سے بچاتا ہے یا اللہ انہیں اس کے ذریعہ نفع پہنچاتا ہے اور غنی کرتا ہے (عیال جن کے نان و نفقہ کا انسان ذمہ دار ہے۔ اس کے بیوی بچے نوکر، چاکر یا غلام)
حدیث نمبر: 2311
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، وابو كريب واللفظ لابي كريب، قالوا: حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن مزاحم بن زفر ، عن مجاهد ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " دينار انفقته في سبيل الله، ودينار انفقته في رقبة، ودينار تصدقت به على مسكين، ودينار انفقته على اهلك، اعظمها اجرا الذي انفقته على اهلك ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مُزَاحِمِ بْنِ زُفَرَ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي رَقَبَةٍ، وَدِينَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلَى مِسْكِينٍ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ، أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " (جن دیناروں پر اجر ملتا ہے ان میں سے) ایک دینا وہ ہے جسےتو نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ایک دیناروہ ہے جسے تو نے کسی کی گردن (کی آزادی) کے لیے خرچ کیا ایک دینا ر وہ ہے جسے تو نے مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تو نے اپنے گھر والوں پر صرف کیا ان میں سب سے عظیم اجر اس دینار کا ہے جسے تو نے اپنے اہل پر خرچ کیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دینار وہ ہے جسے تو نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہے ایک دینار وہ ہے جسے تونے گردن کی آزادی کے لیے خرچ کیا ہے۔ ایک دینار وہ ہے جس نے مسکین پر صدقہ کیا ہے اور ایک دینار وہ جسے تو نے اپنے اہل پر صرف کیا ہے۔ ان سب سے زیادہ اجر تمھیں اس دینار پر ملے گا جسے تونے اپنے اہل پر خرچ کیا ہے۔
حدیث نمبر: 2312
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سعيد بن محمد الجرمي ، حدثنا عبد الرحمن بن عبد الملك بن ابجر الكناني ، عن ابيه ، عن طلحة بن مصرف ، عن خيثمة ، قال: كنا جلوسا مع عبد الله بن عمرو ، إذ جاءه قهرمان له، فدخل، فقال: اعطيت الرقيق قوتهم، قال: لا، قال: فانطلق فاعطهم، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كفى بالمرء إثما ان يحبس عمن يملك قوته".حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَرْمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ الْكِنَانِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، إِذْ جَاءَهُ قَهْرَمَانٌ لَهُ، فَدَخَلَ، فَقَالَ: أَعْطَيْتَ الرَّقِيقَ قُوتَهُمْ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَانْطَلِقْ فَأَعْطِهِمْ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يَحْبِسَ عَمَّنْ يَمْلِكُ قُوتَهُ".
خثیمہ سے روایت ہے کہا: ہم حضرت عبد اللہبن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہو ئے تھے کہ اچا نک ان کا کا رندہ (مینیجر) ان کے پاس آیا وہ اندر داخل ہوا تو انھوں نے پو چھا: (کیا) تم نے غلا موں کو ان کا روزینہ دے دیا ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں انھوں نے کہا: جا ؤ انھیں دو۔ (کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انسان کے لیے اتنا گناہ ہی کا فی ہے کہ وہ جن کی خوراک کا مالک ہے انھیں نہ دے۔
خثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ناگہاں ان کا وکیل و نگران ان کے پاس آیا۔ اندر داخل ہوا۔ تو انھوں نے پوچھا غلاموں کو ان کی خوراک دے دی ہے، اس نے کہا: نہیں انھوں نے کہا۔ جاؤ، انہیں ان کا خرچ دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے انسان کے لیے اتنا گناہ ہی کافی ہے کہ جن کا وہ مالک ہے ان کی خوراک روک لے یعنی فرض میں کوتاہی ناقابل معافی ہے۔

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.