الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book on Jana\'iz (Funerals)
حدیث نمبر: 1005
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم، اخبرنا عيسى بن يونس، عن ابن ابي ليلى، عن عطاء، عن جابر بن عبد الله، قال: اخذ النبي صلى الله عليه وسلم بيد عبد الرحمن بن عوف، فانطلق به إلى ابنه إبراهيم فوجده يجود بنفسه، فاخذه النبي صلى الله عليه وسلم فوضعه في حجره فبكى، فقال له عبد الرحمن: اتبكي، اولم تكن نهيت عن البكاء، قال: " لا، ولكن نهيت عن صوتين احمقين فاجرين: صوت عند مصيبة، خمش وجوه، وشق جيوب، ورنة شيطان ". وفي الحديث كلام اكثر من هذا. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى ابْنِهِ إِبْرَاهِيمَ فَوَجَدَهُ يَجُودُ بِنَفْسِهِ، فَأَخَذَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَهُ فِي حِجْرِهِ فَبَكَى، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: أَتَبْكِي، أَوَلَمْ تَكُنْ نَهَيْتَ عَنِ الْبُكَاءِ، قَالَ: " لَا، وَلَكِنْ نَهَيْتُ عَنْ صَوْتَيْنِ أَحْمَقَيْنِ فَاجِرَيْنِ: صَوْتٍ عِنْدَ مُصِيبَةٍ، خَمْشِ وُجُوهٍ، وَشَقِّ جُيُوبٍ، وَرَنَّةِ شَيْطَانٍ ". وَفِي الْحَدِيثِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے بیٹے ابراہیم کے پاس لے گئے تو دیکھا کہ ابراہیم کا آخری وقت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کو اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا اور رو دیا۔ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: کیا آپ رو رہے ہیں؟ کیا آپ نے رونے منع نہیں کیا تھا؟ تو آپ نے فرمایا: نہیں، میں تو دو احمق فاجر آوازوں سے روکتا تھا: ایک تو مصیبت کے وقت آواز نکالنے، چہرہ زخمی کرنے سے اور گریبان پھاڑنے سے، دوسرے شیطان کے نغمے سے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2483) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: شیطان کے نغمے سے مراد غناء مزامیر ہیں، یعنی گانا بجانا۔

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 1006
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك، قال: وحدثنا، إسحاق بن موسى، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن عبد الله بن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن ابيه، عن عمرة انها اخبرته، انها سمعت عائشة، وذكر لها ان ابن عمر، يقول: " إن الميت ليعذب ببكاء الحي عليه "، فقالت عائشة: غفر الله لابي عبد الرحمن اما إنه لم يكذب ولكنه نسي او اخطا، إنما مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على يهودية يبكى عليها، فقال: " إنهم ليبكون عليها وإنها لتعذب في قبرها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح 74.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: وحَدَّثَنَا، إِسْحَاق بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا سَمِعْتُ عَائِشَةَ، وَذُكِرَ لَهَا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْهِ "، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: غَفَرَ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ وَلَكِنَّهُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ، إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا، فَقَالَ: " إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ 74.
عمرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کو کہتے سنا اور ان سے ذکر کیا گیا تھا کہ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میت پر لوگوں کے رونے کی وجہ سے اسے عذاب دیا جاتا ہے (عائشہ رضی الله عنہا نے کہا) اللہ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت فرمائے۔ سنو، انہوں نے جھوٹ نہیں کہا۔ بلکہ ان سے بھول ہوئی ہے یا وہ چوک گئے ہیں۔ بات صرف اتنی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک یہودی عورت کے پاس سے ہوا جس پر لوگ رو رہے تھے۔ تو آپ نے فرمایا: یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 32 (1289)، صحیح مسلم/الجنائز 9 (932)، سنن النسائی/الجنائز 7 (185) (تحفة الأشراف: 17948) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/المغازي 8 (3978)، صحیح مسلم/الجنائز 9 (931)، سنن ابی داود/ الجنائز 29 (3139)، سنن النسائی/الجنائز 15 (1856، 1858، 1859)، مسند احمد (2/38)، و (6/39، 57، 95، 209) من غیر ہذا الوجہ والسیاق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح الأحكام (28)
26. باب مَا جَاءَ فِي الْمَشْىِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ
26. باب: جنازے کے آگے چلنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Walking In Front Of (The Deceased Being Carried For) The Funeral
حدیث نمبر: 1007
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، واحمد بن منيع، وإسحاق بن منصور، ومحمود بن غيلان، قالوا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، قال: " رايت النبي صلى الله عليه وسلم، وابا بكر، وعمر يمشون امام الجنازة ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر سب کو جنازے کے آگے آگے چلتے دیکھا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجنائز 49 (3179)، سنن النسائی/الجنائز 56 (1946)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 16 (1482)، مسند احمد (2/8، 122) (تحفة الأشراف: 682) (صحیح) وأخرجہ ما لک في المؤطا/الجنائز 2 (8) عن الزہري مرسلاً۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1482)
حدیث نمبر: 1008
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا عمرو بن عاصم، عن همام، عن منصور، وزياد، وسفيان، كلهم يذكر وبكر الكوفي، انه سمعه من الزهري، عن سالم بن عبد الله، عن ابيه، قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم وابا بكر وعمر يمشون امام الجنازة.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَزِيَادٍ، وَسُفْيَانَ، كلهم يذكر وَبَكْرٍ الْكُوفِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما سب کو جنازے کے آگے آگے چلتے دیکھا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 6808و6812و6973) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح أيضا
حدیث نمبر: 1009
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم، وابو بكر، وعمر يمشون امام الجنازة ". قال الزهري: واخبرني سالم، ان اباه كان يمشي امام الجنازة. قال: وفي الباب، عن انس. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر هكذا رواه ابن جريج، وزياد بن سعد، وغير واحد، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه نحو حديث ابن عيينة، وروى معمر، ويونس بن يزيد، ومالك , وغير واحد من الحفاظ، عن الزهري، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يمشي امام الجنازة ". واهل الحديث كلهم يرون ان الحديث المرسل في ذلك اصح. قال ابو عيسى: وسمعت يحيى بن موسى، يقول: قال عبد الرزاق: قال ابن المبارك: حديث الزهري في هذا مرسل اصح من حديث ابن عيينة، قال ابن المبارك: وارى ابن جريج اخذه عن ابن عيينة. قال ابو عيسى: وروى همام بن يحيى هذا الحديث، عن زياد وهو: ابن سعد، ومنصور، وبكر، وسفيان، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، وإنما هو سفيان بن عيينة، روى عنه همام، واختلف اهل العلم في المشي امام الجنازة، فراى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: ان المشي امامها افضل، وهو قول: الشافعي، واحمد، قال: وحديث انس في هذا الباب غير محفوظ.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ ". قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ هَكَذَا رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ، وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَرَوَى مَعْمَرٌ، وَيُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، وَمَالِكٌ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، عن الزُّهْرِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ ". وَأَهْلُ الْحَدِيثِ كُلُّهُمْ يَرَوْنَ أَنَّ الْحَدِيثَ الْمُرْسَلَ فِي ذَلِكَ أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت يَحْيَى بْنَ مُوسَى، يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا مُرْسَلٌ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: وَأَرَى ابْنَ جُرَيْجٍ أَخَذَهُ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ زِيَادٍ وَهُوَ: ابْنُ سَعْدٍ، وَمَنْصُورٍ، وَبَكْرٍ، وَسُفْيَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَإِنَّمَا هُوَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، رَوَى عَنْهُ هَمَّامٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَشْيِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ، فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: أَنَّ الْمَشْيَ أَمَامَهَا أَفْضَلُ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، قَالَ: وَحَدِيثُ أَنَسٍ فِي هَذَا الْبَابِ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما جنازے کے آگے آگے چلتے تھے۔ زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ ان کے والد عبداللہ بن عمر جنازے کے آگے چلتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کی حدیث اسی طرح ہے، اسے ابن جریج، زیاد بن سعد اور دیگر کئی لوگوں نے زہری سے ابن عیینہ کی حدیث ہی کی طرح روایت کیا ہے، اور زہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمر سے روایت کی ہے۔ معمر، یونس بن یزید اور حفاظ میں سے اور بھی کئی لوگوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے آگے چلتے تھے۔ زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے چلتے تھے۔ تمام محدثین کی رائے ہے کہ مرسل حدیث ہی اس باب میں زیادہ صحیح ہے،
۲- ابن مبارک کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں زہری کی حدیث مرسل ہے، اور ابن عیینہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،
۳- ابن مبارک کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابن جریج نے یہ حدیث ابن عیینہ سے لی ہے،
۴- ہمام بن یحییٰ نے یہ حدیث زیاد بن سعد، منصور، بکر اور سفیان سے اور ان لوگوں نے زہری سے، زہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمر سے روایت کی ہے۔ اور سفیان سے مراد سفیان بن عیینہ ہیں جن سے ہمام نے روایت کی ہے،
۵- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، انس کی حدیث اس باب میں غیر محفوظ ہے ۱؎،
۶- جنازے کے آگے چلنے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جنازے کے آگے چلنا افضل ہے۔ شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں۔

تخریج الحدیث: «و موطا امام مالک/الجنائز 2 (8)، انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 19393) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ملاحظہ ہو اگلی حدیث (۱۰۱۰) رہی ابن مسعود کی روایت جو آگے آ رہی ہے «الجنازة متبوعة ولا تتبع وليس منها من تقدمها» تو یہ روایت صحیح نہیں ہے جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آ رہی ہے۔ (ملاحظہ ہو: ۱۰۱۱)

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة أيضا
حدیث نمبر: 1010
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن بكر، حدثنا يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، عن انس، " ان النبي صلى الله عليه وسلم، وابا بكر، وعمر، وعثمان كانوا يمشون امام الجنازة ". قال ابو عيسى: سالت محمدا عن هذا الحديث، فقال: هذا حديث خطا، اخطا فيه محمد بن بكر، وإنما يروى هذا الحديث عن يونس، عن الزهري، ان النبي صلى الله عليه وسلم وابا بكر، وعمر كانوا يمشون امام الجنازة، قال الزهري: واخبرني سالم، ان اباه كان يمشي امام الجنازة، قال محمد: هذا اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسٍ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَانُوا يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ خَطَأٌ، أَخْطَأَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ كَانُوا يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا أَصَحُّ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم جنازے کے آگے چلتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: یہ حدیث غلط ہے اس میں محمد بن بکر نے غلطی کی ہے۔ یہ حدیث یونس سے روایت کی جاتی ہے، اور یونس زہری سے (مرسلاً) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر جنازے کے آگے چلتے تھے۔ زہری کہتے ہیں: مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے آگے چلتے تھے،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ زیادہ صحیح ہے۔ (دیکھئیے سابقہ حدیث ۱۰۰۹)

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 16 (1483) (تحفة الأشراف: 1562) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1483)
27. باب مَا جَاءَ فِي الْمَشْىِ خَلْفَ الْجَنَازَةِ
27. باب: جنازے کے پیچھے چلنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Walking Behind (The Deceased Being Carried For) The Funeral
حدیث نمبر: 1011
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وهب بن جرير، عن شعبة، عن يحيى إمام بني تيم الله، عن ابي ماجد، عن عبد الله بن مسعود، قال: سالنا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المشي خلف الجنازة، قال: " ما دون الخبب فإن كان خيرا عجلتموه، وإن كان شرا فلا يبعد إلا اهل النار الجنازة متبوعة ولا تتبع وليس منها من تقدمها ". قال ابو عيسى: هذا حديث لا يعرف من حديث عبد الله بن مسعود إلا من هذا الوجه، قال: سمعت محمد بن إسماعيل يضعف حديث ابي ماجد لهذا، وقال محمد: قال الحميدي: قال ابن عيينة: قيل ليحيى: من ابو ماجد هذا، قال: طائر طار فحدثنا، وقد ذهب بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا، راوا ان المشي خلفها افضل، وبه يقول: سفيان الثوري، وإسحاق. قال: إن ابا ماجد رجل مجهول لا يعرف، إنما يروى عنه حديثان عن ابن مسعود، ويحيى إمام بني تيم الله ثقة، يكنى ابا الحارث، ويقال له: يحيى الجابر، ويقال له: يحيى المجبر ايضا، وهو كوفي، روى له شعبة، وسفيان الثوري، وابو الاحوص، وسفيان بن عيينة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَحْيَى إِمَامِ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي مَاجِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَشْيِ خَلْفَ الْجَنَازَةِ، قَالَ: " مَا دُونَ الْخَبَبِ فَإِنْ كَانَ خَيْرًا عَجَّلْتُمُوهُ، وَإِنْ كَانَ شَرًّا فَلَا يُبَعَّدُ إِلَّا أَهْلُ النَّارِ الْجَنَازَةُ مَتْبُوعَةٌ وَلَا تَتْبَعُ وَلَيْسَ مِنْهَا مَنْ تَقَدَّمَهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل يُضَعِّفُ حَدِيثَ أَبِي مَاجِدٍ لِهَذَا، وقَالَ مُحَمَّدٌ: قَالَ الْحُمَيْدِيُّ: قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: قِيلَ لِيَحْيَى: مَنْ أَبُو مَاجِدٍ هَذَا، قَالَ: طَائِرٌ طَارَ فَحَدَّثَنَا، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا، رَأَوْا أَنَّ الْمَشْيَ خَلْفَهَا أَفْضَلُ، وَبِهِ يَقُولُ: سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَإِسْحَاق. قَالَ: إِنَّ أَبَا مَاجِدٍ رَجُلٌ مَجْهُولٌ لَا يُعْرَفُ، إِنَّمَا يُرْوَى عَنْهُ حَدِيثَانِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَيَحْيَى إِمَامُ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ ثِقَةٌ، يُكْنَى أَبَا الْحَارِثِ، وَيُقَالُ لَهُ: يَحْيَى الْجَابِرُ، وَيُقَالُ لَهُ: يَحْيَى الْمُجْبِرُ أَيْضًا، وَهُوَ كُوفِيٌّ، رَوَى لَهُ شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَأَبُو الْأَحْوَصِ، وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنازے کے پیچھے چلنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ایسی چال چلے جو دلکی چال سے دھیمی ہو۔ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے جلدی قبر میں پہنچا دو گے اور اگر برا ہے تو جہنمیوں ہی کو دور ہٹایا جاتا ہے۔ جنازہ کے پیچھے چلنا چاہیئے، اس سے آگے نہیں ہونا چاہیئے، جو جنازہ کے آگے چلے وہ اس کے ساتھ جانے والوں میں سے نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو ابو حامد کی اس حدیث کو ضعیف بتاتے سنا ہے،
۳- محمد بن اسماعیل بخاری کا بیان ہے کہ حمیدی کہتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا: ابوماجد کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ایک اڑتی چڑیا ہے جس سے ہم نے روایت کی ہے، یعنی مجہول راوی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجنائز 50 (3084)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 16 (1484) (ضعیف) (سند میں یحییٰ الجابر لین الحدیث، اور ابو ماجد مجہول ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1484) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (324)، ضعيف الجامع الصغير (5066)، المشكاة (1669)، ضعيف أبي داود (698 / 3184) //
28. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الرُّكُوبِ خَلْفَ الْجَنَازَةِ
28. باب: جنازے کے پیچھے سواری پر چلنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Ride Behind The Funeral
حدیث نمبر: 1012
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا عيسى بن يونس، عن ابي بكر بن ابي مريم، عن راشد بن سعد، عن ثوبان، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة، فراى ناسا ركبانا، فقال: " الا تستحيون، إن ملائكة الله على اقدامهم وانتم على ظهور الدواب ". قال: وفي الباب، عن المغيرة بن شعبة، وجابر بن سمرة. قال ابو عيسى: حديث ثوبان قد روي عنه موقوفا، قال محمد: الموقوف منه اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ، فَرَأَى نَاسًا رُكْبَانًا، فَقَالَ: " أَلَا تَسْتَحْيُونَ، إِنَّ مَلَائِكَةَ اللَّهِ عَلَى أَقْدَامِهِمْ وَأَنْتُمْ عَلَى ظُهُورِ الدَّوَابِّ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ثَوْبَانَ قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مَوْقُوفًا، قَالَ مُحَمَّدٌ: الْمَوْقُوفُ مِنْهُ أَصَحُّ.
ثوبان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں نکلے، آپ نے کچھ لوگوں کو سوار دیکھا تو فرمایا: کیا تمہیں شرم نہیں آتی؟ اللہ کے فرشتے پیدل چل رہے ہیں اور تم جانوروں کی پیٹھوں پر بیٹھے ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ثوبان کی حدیث، ان سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ان کی موقوف روایت زیادہ صحیح ہے،
۲- اس باب میں مغیرہ بن شعبہ اور جابر بن سمرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 15 (1480) (ضعیف) (سند میں ابو بکر بن ابی مریم ضعیف ہیں)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث جنازہ کے پیچھے سوار ہو کر چلنے کی کراہت پر دلالت کرتی ہے مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کی روایت اس کے معارض ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «الراكب يسير خلف الجنازة والماشي يمشي خلفها وأمامها عن يمينها ويسارها قريبا منها» سوار آدمی جنازے کے پیچھے چلتا ہے جب کہ پیدل چلنے والا اس کے پیچھے، آگے، دائیں، بائیں قریب ہو کر چلتا ہے۔ ان دونوں روایتوں میں تطبیق کئی طرح سے دی جاتی ہے ایک یہ کہ ثوبان کی روایت ضعیف ہے، دوسرے یہ کہ یہ غیر معذور کے سلسلہ میں ہے اور مغیرہ بن شعبہ کی روایت معذور شخص کے سلسلہ میں ہے، تیسرے یہ کہ ثوبان کی روایت میں یہ نہیں ہے کہ وہ سوار جنازے کے پیچھے تھے، ہو سکتا ہے کہ وہ جنازے کے آگے رہے ہوں یا جنازہ کے بغل میں رہے ہوں اس صورت میں یہ مغیرہ کی حدیث کے منافی نہ ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1480) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (323)، الأحكام ص (75) الملحق، المشكاة (1672)، ضعيف الجامع الصغير (2177) //
29. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
29. باب: جنازے کے پیچھے سواری پر چلنے کی رخصت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Permitting That
حدیث نمبر: 1013
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، حدثنا شعبة، عن سماك، قال: سمعت جابر بن سمرة، يقول: " كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في جنازة ابي الدحداح وهو على فرس له يسعى ونحن حوله وهو يتوقص به ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، قَال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: " كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةِ أَبِي الدَّحْدَاحِ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لَهُ يَسْعَى وَنَحْنُ حَوْلَهُ وَهُوَ يَتَوَقَّصُ بِهِ ".
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابودحداح کے جنازے میں تھے، آپ لوٹتے وقت ایک گھوڑے پر سوار تھے جو تیز چل رہا تھا، ہم اس کے اردگرد تھے اور وہ آپ کو لے کر اچھلتے ہوئے چل رہا تھا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 28 (965)، سنن ابی داود/ الجنائز 48 (3178)، مسند احمد (5/90) (تحفة الأشراف: 2180) (صحیح) وأخرجہ: سنن النسائی/الجنائز 95 (2028) من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح الأحكام (75)
حدیث نمبر: 1014
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن الصباح الهاشمي، حدثنا ابو قتيبة، عن الجراح، عن سماك، عن جابر بن سمرة، " ان النبي صلى الله عليه وسلم اتبع جنازة ابي الدحداح ماشيا ورجع على فرس ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ، عَنْ الْجَرَّاحِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّبَعَ جَنَازَةَ أَبِي الدَّحْدَاحِ مَاشِيًا وَرَجَعَ عَلَى فَرَسٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابودحداح کے جنازہ کے پیچھے پیدل گئے اور گھوڑے پر سوار ہو کر لوٹے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2143) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ جنازے سے واپسی میں سوار ہو کر واپس آنا جائز ہے، علماء اسے بلا کراہت جائز قرار دیتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (1013)

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.