الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
84. بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ:
84. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
(84) Chapter. The sickness of the Prophet and his death.
حدیث نمبر: 4432
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: لما حضر رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي البيت رجال، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" هلموا اكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده"، فقال بعضهم: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد غلبه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله، فاختلف اهل البيت واختصموا، فمنهم من، يقول: قربوا يكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده، ومنهم من يقول غير ذلك، فلما اكثروا اللغو والاختلاف، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قوموا"، قال عبيد الله: فكان يقول ابن عباس: إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين ان يكتب لهم ذلك الكتاب لاختلافهم ولغطهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلُمُّوا أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ"، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ، فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ وَاخْتَصَمُوا، فَمِنْهُمْ مَنْ، يَقُولُ: قَرِّبُوا يَكْتُبُ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ غَيْرَ ذَلِكَ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا اللَّغْوَ وَالِاخْتِلَافَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُومُوا"، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَكَانَ يَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ لِاخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب ہوا تو گھر میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لاؤ، میں تمہارے لیے ایک دستاویز لکھ دوں، اگر تم اس پر چلتے رہے تو پھر تم گمراہ نہ ہو سکو گے۔ اس پر (عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی سختی ہو رہی ہے، تمہارے پاس قرآن موجود ہے۔ ہمارے لیے تو اللہ کی کتاب بس کافی ہے۔ پھر گھر والوں میں جھگڑا ہونے لگا، بعض نے تو یہ کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز لکھنے کی دے دو کہ اس پر آپ ہدایت لکھوا دیں اور تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو سکو۔ بعض لوگوں نے اس کے خلاف دوسری رائے پر اصرار کیا۔ جب شور و غل اور نزاع زیادہ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے جاؤ۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ مصیبت سب سے بڑی یہ تھی کہ لوگوں نے اختلاف اور شور کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ ہدایت نہیں لکھنے دی۔

Narrated Ubaidullah bin `Abdullah: Ibn `Abbas said, "When Allah's Apostle was on his deathbed and there were some men in the house, he said, 'Come near, I will write for you something after which you will not go astray.' Some of them ( i.e. his companions) said, 'Allah's Apostle is seriously ill and you have the (Holy) Qur'an. Allah's Book is sufficient for us.' So the people in the house differed and started disputing. Some of them said, 'Give him writing material so that he may write for you something after which you will not go astray.' while the others said the other way round. So when their talk and differences increased, Allah's Apostle said, "Get up." Ibn `Abbas used to say, "No doubt, it was very unfortunate (a great disaster) that Allah's Apostle was prevented from writing for them that writing because of their differences and noise."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 717


   صحيح البخاري3168عبد الله بن عباسائتوني بكتف أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع أمرهم بثلاث قال أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري4431عبد الله بن عباسائتوني أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع أوصاهم بثلاث قال أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري4432عبد الله بن عباسهلموا أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده فقال بعضهم إن رسول الله قد غلبه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت واختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده ومنهم من يقول غير ذلك
   صحيح البخاري7366عبد الله بن عباسهلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده قال عمر إن النبي غلبه الوجع وعندكم القرآن فحسبنا كتاب الله واختلف أهل البيت واختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله كتابا لن تضلوا بعده ومنهم من يقول ما قال عمر
   صحيح البخاري3053عبد الله بن عباسائتوني بكتاب أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع فقالوا هجر رسول الله قال دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه أوصى عند موته بثلاث أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري114عبد الله بن عباسقوموا عني ولا ينبغي عندي التنازع خرج ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله وبين كتابه
   صحيح مسلم4232عبد الله بن عباسائتوني أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعدي فتنازعوا وما ينبغي عند نبي تنازع أوصيكم بثلاث أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح مسلم4234عبد الله بن عباسهلم أكتب لكم كتابا لا تضلون بعده فقال عمر إن رسول الله قد غلب عليه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت فاختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله كتابا لن تضلوا بعده ومنهم من يقول ما قال عمر
   صحيح مسلم4233عبد الله بن عباسائتوني بالكتف والدواة أو اللوح والدواة أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فقالوا إن رسول الله يهجر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 114  
´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں `
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، قَالَ: ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا، فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، قَالَ: قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ " . . . .»
. . . ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ` جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 114]

تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تکلیف دیکھ کر یہ رائے دی تھی کہ ایسی تکلیف کے وقت آپ تحریر کی تکلیف کیوں فرماتے ہیں۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رائے پر سکوت فرمایا اور اس واقعہ کے بعد چار روز آپ زندہ رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس خیال کا اظہار نہیں فرمایا۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقد كان عمر افقه من ابن عباس حيث اكتفي بالقرآن على انه يحتمل ان يكون صلى الله عليه وسلم كان ظهرله حين هم بالكتاب انه مصلحة ثم ظهر له اواوحي اليه بعد ان المصلحة فى تركه ولو كان واجبا لم يتركه عليه الصلوٰة والسلام لاختلافهم لانه لم يترك التكليف بمخالفة من خالف وقد عاش بعدذلك اياما ولم يعاود امرهم بذلك .»
خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت زیادہ سمجھ دار تھے، انہوں نے قرآن کو کافی جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتاً یہ ارادہ ظاہر فرمایا تھا مگر بعد میں اس کا چھوڑنا بہتر معلوم ہوا۔ اگر یہ حکم واجب ہوتا تو آپ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے بعد کئی روز زندہ رہے مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث سات طریقوں سے مذکور ہوئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 114   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4432  
4432. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا اور گھر میں کچھ لوگ موجود تھے تو نبی ﷺ نے فرمایا: آؤ، میں تمہیں ایسی دستاویز لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔ بعض حضرات نے کہا: رسول اللہ ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے جبکہ تمہارے پاس قرآن مجید موجود ہے اور اللہ کی کتاب ہمیں کافی ہے، چنانچہ گھر والوں میں کچھ اختلاف پیدا ہو گیا جس کی بنا پر وہ جھگڑنے لگے۔ ان میں سے کچھ کہتے تھے کہ کاغذ اور دوات کو آپ کے قریب کر دیا جائے تاکہ تمہارے لیے ایسی دستاویز لکھ دیں جس کے بعد گمراہی کا اندیشہ نہ رہے جبکہ کچھ حضرات اس کے خلاف تھے۔ جب لوگوں کی بے فائدہ باتیں زیادہ ہونے لگیں اور اختلاف کا آغاز ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ عبیداللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے: یہ کیسی مصیبت ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے تحریر کرنے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4432]
حدیث حاشیہ:
یہ رحلت سے چار دن پہلے کی بات ہے۔
جب مرض نے شدت اختیار کی تو آپ ﷺ نے فرمایا، لاؤ تمہیں کچھ لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو۔
بعض نے کہا کہ آپ پر شدت درد غالب ہے، قرآن ہمارے پاس موجود ہے اور ہم کو کافی ہے۔
اس پر آپس میں اختلاف ہوا۔
کوئی کہتا تھا سامان کتابت لے آؤ کہ ایسا نوشتہ لکھا جائے، کوئی کچھ اور کہتا تھا یہ شورو شغف بڑھا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم سب اٹھ جاؤ۔
یہ پنج شنبہ کا واقعہ ہے۔
اسی روز آپ نے تین وصیتیں فرمائیں۔
یہود کو عرب سے نکال دیا جائے۔
وفود کی عزت ہمیشہ اسی طرح کی جائے جیسا میں کرتا رہا ہوں۔
قرآن مجید کو ہر کام میں معمول بنایا جائے۔
بعض روایات کے مطابق کتاب اللہ اور سنت پر تمسک کا حکم فرمایا۔
آج مغرب تک کی جملہ نمازیں حضور ﷺ نے خود پڑھائی تھیں مگر عشاء میں نہ جاسکے اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو فرمایا کہ وہ نماز پڑھائے۔
جس کے تحت حضرت صدیق ؓ نے حیات نبوی میں سترہ نمازوں کی امامت فرمائی۔
رضي الله عنه وأرضاہ آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4432   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4432  
4432. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا اور گھر میں کچھ لوگ موجود تھے تو نبی ﷺ نے فرمایا: آؤ، میں تمہیں ایسی دستاویز لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔ بعض حضرات نے کہا: رسول اللہ ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے جبکہ تمہارے پاس قرآن مجید موجود ہے اور اللہ کی کتاب ہمیں کافی ہے، چنانچہ گھر والوں میں کچھ اختلاف پیدا ہو گیا جس کی بنا پر وہ جھگڑنے لگے۔ ان میں سے کچھ کہتے تھے کہ کاغذ اور دوات کو آپ کے قریب کر دیا جائے تاکہ تمہارے لیے ایسی دستاویز لکھ دیں جس کے بعد گمراہی کا اندیشہ نہ رہے جبکہ کچھ حضرات اس کے خلاف تھے۔ جب لوگوں کی بے فائدہ باتیں زیادہ ہونے لگیں اور اختلاف کا آغاز ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ عبیداللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے: یہ کیسی مصیبت ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے تحریر کرنے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4432]
حدیث حاشیہ:

یہ واقعہ وفات سے چار دن پہلے کا ہے۔
جب بیماری نے شدت اختیار کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قلم دوات لاؤ میں تمھیں کچھ لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو۔
اس امر کی بجا آوری پر اختلاف ہوا۔
کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کہتے تھے کہ آپ پر شدت درد کا غلبہ ہے، قرآن ہمارے پاس موجود ہے اور وہ ہمیں کافی ہے اور کچھ حضرات کہتے تھے کہ سامان کتابت لے آؤ تاکہ دستاویز لکھ دی جائے۔

دراصل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے قرائن سے معلوم کر لیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کا مذکورہ امر وجوب کے لیے نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو اختلاف کے باوجود رسول اللہ ﷺ ضرور اس کے مطابق عمل کرتے جبکہ اس کے بعد آپ چار دن زندہ رہے ہیں۔
ان بقیہ ایام میں جو حضرات سامان کتابت لانے کی خواہش رکھتے تھے انھوں نے بھی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔
رسول اللہﷺ نے بھی حضرت عمر ؓ کی رائے کا انکار نہیں کیا بلکہ خاموشی اختیار کر کے اس کے درست ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔
اس سے حضرت عمر ؓ کی قوت فہم اور وقت نظر کا پتہ چلتا ہے۔
انھیں بھی قرائن سے پتہ لگ گیا تھا کہ یہ دستاویز ضروری نہیں۔
اگر ضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس اختلاف کی وجہ سے اسے نظر انداز نہ کرتے۔
(فتح الباري: 168/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4432   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.