الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
4. بَابُ لاَ يَتَوَضَّأُ مِنَ الشَّكِّ حَتَّى يَسْتَيْقِنَ:
4. باب: اس بارے میں کہ جب تک وضو ٹوٹنے کا پورا یقین نہ ہو محض شک کی وجہ سے نیا وضو نہ کرے۔
(4) Chapter. One should not repeat ablution if in doubt unless and until he is convinced (that he has lost his ablution by having Hadath).
حدیث نمبر: 137
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا الزهري، عن سعيد بن المسيب. ح وعن عباد بن تميم، عن عمه، انه شكا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الرجل الذي يخيل إليه انه يجد الشيء في الصلاة، فقال:" لا ينفتل او لا ينصرف حتى يسمع صوتا او يجد ريحا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيٌّ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ. ح وَعَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، أَنَّهُ شَكَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلُ الَّذِي يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَجِدُ الشَّيْءَ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ:" لَا يَنْفَتِلْ أَوْ لَا يَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا".
ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے زہری نے سعید بن المسیب کے واسطے سے نقل کیا، وہ عباد بن تمیم سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے چچا (عبداللہ بن زید) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ایک شخص ہے جسے یہ خیال ہوتا ہے کہ نماز میں کوئی چیز (یعنی ہوا نکلتی) معلوم ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (نماز سے) نہ پھرے یا نہ مڑے، جب تک آواز نہ سنے یا بو نہ پائے۔


Hum se ’Ali ne bayan kiya, un se Sufyan ne, un se Zohri ne Sa’eed bin Al-Musayyab ke waaste se naql kiya, woh ’Abbad bin Tameem se riwayat karte hain, woh apne chacha (Abdullah bin Zaid) se riwayat karte hain ke unhon ne Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam se shikaayat ki ke ek shakhs hai jise yeh khayaal hota hai ke Namaz mein koi cheez (yani hawa nikalti) ma’loom hue hai. Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya ke (Namaz se) na phire ya na mude, jab tak aawaaz na sune ya bu na paaye.

Narrated `Abbas bin Tamim: My uncle asked Allah's Apostle about a person who imagined to have passed wind during the prayer. Allah' Apostle replied: "He should not leave his prayers unless he hears sound or smells something."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 139


   صحيح البخاري137عبد الله بن زيدلا ينصرف حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا
   صحيح البخاري177عبد الله بن زيدلا ينصرف حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا
   صحيح البخاري2056عبد الله بن زيدالرجل يجد في الصلاة شيئا أيقطع الصلاة قال لا حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا
   صحيح مسلم804عبد الله بن زيدلا ينصرف حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا
   سنن أبي داود176عبد الله بن زيدلا ينفتل حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا
   سنن النسائى الصغرى160عبد الله بن زيدلا ينصرف حتى يجد ريحا أو يسمع صوتا
   سنن ابن ماجه513عبد الله بن زيدالرجل يجد الشيء في الصلاة فقال لا حتى يجد ريحا أو يسمع صوتا
   بلوغ المرام76عبد الله بن زيد يأتي أحدكم الشيطان في صلاته فينفخ في مقعدته ،‏‏‏‏ فيخيل إليه أنه أحدث ،‏‏‏‏ ولم يحدث ،‏‏‏‏ فإذا وجد ذلك فلا ينصرف حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا
   مسندالحميدي417عبد الله بن زيدلا ينفتل حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 137  
´ہوا خارج ہونے کا شک ہو تو محض شک سے وضو نہیں ٹوٹتا`
«. . . وَعَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، أَنَّهُ شَكَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلُ الَّذِي يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَجِدُ الشَّيْءَ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: لَا يَنْفَتِلْ أَوْ لَا يَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا . . .»
. . . وہ عباد بن تمیم سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے چچا (عبداللہ بن زید) سے روایت کرتے ہیں کہ` انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ایک شخص ہے جسے یہ خیال ہوتا ہے کہ نماز میں کوئی چیز (یعنی ہوا نکلتی) معلوم ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (نماز سے) نہ پھرے یا نہ مڑے، جب تک آواز نہ سنے یا بو نہ پائے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ لاَ يَتَوَضَّأُ مِنَ الشَّكِّ حَتَّى يَسْتَيْقِنَ:: 137]

تشریح:
اگر نماز پڑھتے ہوئے ہوا خارج ہونے کا شک ہو تو محض شک سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ جب تک ہوا خارج ہونے کی آواز یا اس کی بدبو معلوم نہ کر لے۔ باب کا یہی مقصد ہے۔ یہ حکم عام ہے خواہ نماز کے اندر ہو یا نماز کے باہر۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث سے ایک بڑا قاعدہ کلیہ نکلتا ہے کہ کوئی یقینی کام شک کی وجہ سے زائل نہ ہو گا۔ مثلاً ہر فرش یا ہر جگہ یا ہر کپڑا جو پاک صاف اور ستھرا ہو اب اگر کوئی اس کی پاکی میں شک کرے تو وہ شک غلط ہو گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 137   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 160  
´ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی گئی کہ آدمی (بسا اوقات) نماز میں محسوس کرتا ہے کہ ہوا خارج ہو گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک بو نہ پا لے، یا آواز نہ سن لے نماز نہ چھوڑے ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 160]
160۔ اردو حاشیہ:
➊ اگر نماز کے دوران میں ہوا نکلنے کا شبہ پڑے تو محض وہم اور شک کی بنیاد پر نماز سے نہیں نکلنا چاہیے جب تک یقین نہ ہو جائے کہ ہوا خارج ہوئی ہے کیونکہ فقہ کا قاعدہ ہے کہ اشیاء اپنی اصل ہی پر رہتی ہیں جب تک اس کے برعکس کا یقین نہ ہو۔ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔ [الأشباه و النظائر]
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہوا نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تبھی تو نماز سے نکلنے کا کہا گیا ہے۔
➌ اگر کسی چیز کا علم نہ ہو تو اس کے متعلق پوچھنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو جس قسم کا مسئلہ درپیش ہوتا، وہ فوراًً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 160   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث513  
´حدث کے بغیر وضو کے واجب نہ ہونے کا بیان۔`
عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس شخص کا معاملہ لے جایا گیا جس نے نماز میں (حدث کا) شبہ محسوس کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، شک و شبہ سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک کہ وہ گوز کی آواز نہ سن لے، یا بو نہ محسوس کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 513]
اردو حاشہ:
(1)
ہوا خارج ہونے سے پہلے وضو ٹوٹ جاتا ہے خواہ آواز آئے یا نہ آئے۔

(2)
محض شک سے وضو نہیں ٹوٹتا کیونکہ پیشاب پاخانہ وغیرہ سے وضو ٹوٹنا صحیح دلائل سے ثابت ہے۔
یہاں صرف یہ مسئلہ بتایا گیا ہے کہ وضو ٹوٹنے کا یقین یا ظن غالب ہونا چاہیے محض وہم اور شک کی بنیاد پر وضو کے لیے نہیں جانا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 513   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:137  
137. حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک ایسے شخص کا حال بیان کیا جسے یہ خیال ہو جاتا تھا کہ وہ دوران نماز میں کسی چیز (ہوا نکلنے) کو محسوس کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: وہ نماز سے اس وقت تک نہ پھرے جب تک ہوا نکلنے کی آواز یا بو نہ پائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:137]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک اصل کوثابت کرتے ہیں کہ جب کوئی عمل یقین و اعتماد سے شروع کیا گیا ہو تو جب تک اس کی جانب مخالف میں بھی یقین کی کیفیت پیدا نہ ہو جائے، اس وقت تک وہ عمل قائم رکھا جائے گا، صرف تردد اور شک سے اس عمل میں نقصان نہیں آنا چاہیے۔
اس سلسلے میں انھوں نے ایک خاص واقعے کا حوالہ دیا ہے کہ ایک شخص کو دوران نماز میں وضو ٹوٹنے کا اندیشہ ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کو اس وقت تک نماز پڑھتے رہنا چاہیے جب تک اسے نقض وضو کے متعلق اس درجے کا یقین نہ ہو جس درجے کا یقین وضو کے متعلق تھا کیونکہ صرف وسوسے اور شبہے کی وجہ سے نماز ختم کرنا درست نہیں۔
ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ جب شیطان دل میں اس طرح کا وسوسہ ڈالے تودل ہی دل میں شیطان کے اس وسوسے کی تکذیب کردے۔
صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ اگر ناک سے اس کی بدبو محسوس کرے یا کان سے اس کی آواز سنے تو نماز کوختم کردے۔
(عمدة القاري: 358/2)

علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بے وضو ہونے کا حکم صرف اس بات پر موقوف نہیں کہ وہ اس کی آواز سنے یا بدبو پائے کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہوا کے خروج کا یقین ہوتا ہے لیکن نہ اس کی آواز سنی جاتی ہے اور نہ اس کی بو ہی کا احساس ہوتا ہے، مثلاً:
ایک آدمی بہرا ہے یا مرض زکام کی وجہ سے اس کی قوت شامہ مفلوج ہوچکی ہے جس کی بنا پر وہ آواز یا بو کا احساس نہیں کر پاتا، ایسی صورت میں اسے وضو کرنا ہوگا کیونکہ اسے بے وضو ہونے کایقین ہوچکا ہے۔
(عمدة القاري: 359/2)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
(باب من لم ير الوساوس ونحوها من الشبهات)
وساوس کو شبہات کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔
(صحیح البخاري، البیوع، باب: 5)
لہٰذا اس حدیث سے یہ قاعدہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی یقینی معاملہ صرف شک کی وجہ سے مشکوک نہیں ہوتا اور نہ معاملات کو وساوس کی وجہ سے شبہات ہی میں تبدیل کرنا درست ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی چیزکو بلاوجہ شک وشبہ کی نظر سے دیکھنا جائز نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 137   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.