الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
5. بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ الْوَسَاوِسَ وَنَحْوَهَا مِنَ الْمُشَبَّهَاتِ:
5. باب: دل میں وسوسہ آنے سے شبہ نہ کرنا چاہئیے۔
(5) Chapter. Whoever does not consider dark suggestions by one’s ownself or similar things as doubtful (unclear) things.
حدیث نمبر: 2056
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن عباد بن تميم، عن عمه، قال:" شكي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، الرجل يجد في الصلاة شيئا، ايقطع الصلاة؟ قال: لا، حتى يسمع صوتا او يجد ريحا"، وقال ابن ابي حفصة: عن الزهري: لا وضوء إلا فيما وجدت الريح، او سمعت الصوت.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ:" شُكِيَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الرَّجُلُ يَجِدُ فِي الصَّلَاةِ شَيْئًا، أَيَقْطَعُ الصَّلَاةَ؟ قَالَ: لَا، حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا"، وَقَالَ ابْنُ أَبِي حَفْصَةَ: عَنِ الزُّهْرِيِّ: لَا وُضُوءَ إِلَّا فِيمَا وَجَدْتَ الرِّيحَ، أَوْ سَمِعْتَ الصَّوْتَ.
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عباد بن تمیم نے اور ان سے ان کے چچا عبداللہ بن زید مازنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر آیا جسے نماز میں کچھ شبہ ہوا نکلنے کا ہو جاتا ہے۔ آیا اسے نماز توڑ دینی چاہئے؟ فرمایا کہ نہیں۔ جب تک وہ آواز نہ سن لے یا بدبو نہ محسوس کر لے (اس وقت تک نماز نہ توڑے) ابن ابی حفصہ نے زہری سے بیان کیا (ایسے شخص پر) وضو واجب نہیں جب تک حدث کی بدبو نہ محسوس کرے یا آواز نہ سن لے۔

Narrated `Abbas bin Tamim: that his uncle said: "The Prophet was asked: If a person feels something during his prayer; should one interrupt his prayer?" The Prophet said: No! You should not give it up unless you hear a sound or smell something." Narrated Ibn Abi Hafsa: Az-Zuhri said, "There is no need of repeating ablution unless you detect a smell or hear a sound."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 272


   صحيح البخاري137عبد الله بن زيدلا ينصرف حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا
   صحيح البخاري177عبد الله بن زيدلا ينصرف حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا
   صحيح البخاري2056عبد الله بن زيدالرجل يجد في الصلاة شيئا أيقطع الصلاة قال لا حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا
   صحيح مسلم804عبد الله بن زيدلا ينصرف حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا
   سنن أبي داود176عبد الله بن زيدلا ينفتل حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا
   سنن النسائى الصغرى160عبد الله بن زيدلا ينصرف حتى يجد ريحا أو يسمع صوتا
   سنن ابن ماجه513عبد الله بن زيدالرجل يجد الشيء في الصلاة فقال لا حتى يجد ريحا أو يسمع صوتا
   بلوغ المرام76عبد الله بن زيد يأتي أحدكم الشيطان في صلاته فينفخ في مقعدته ،‏‏‏‏ فيخيل إليه أنه أحدث ،‏‏‏‏ ولم يحدث ،‏‏‏‏ فإذا وجد ذلك فلا ينصرف حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا
   مسندالحميدي417عبد الله بن زيدلا ينفتل حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 160  
´ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی گئی کہ آدمی (بسا اوقات) نماز میں محسوس کرتا ہے کہ ہوا خارج ہو گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک بو نہ پا لے، یا آواز نہ سن لے نماز نہ چھوڑے ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 160]
160۔ اردو حاشیہ:
➊ اگر نماز کے دوران میں ہوا نکلنے کا شبہ پڑے تو محض وہم اور شک کی بنیاد پر نماز سے نہیں نکلنا چاہیے جب تک یقین نہ ہو جائے کہ ہوا خارج ہوئی ہے کیونکہ فقہ کا قاعدہ ہے کہ اشیاء اپنی اصل ہی پر رہتی ہیں جب تک اس کے برعکس کا یقین نہ ہو۔ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔ [الأشباه و النظائر]
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہوا نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تبھی تو نماز سے نکلنے کا کہا گیا ہے۔
➌ اگر کسی چیز کا علم نہ ہو تو اس کے متعلق پوچھنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو جس قسم کا مسئلہ درپیش ہوتا، وہ فوراًً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 160   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث513  
´حدث کے بغیر وضو کے واجب نہ ہونے کا بیان۔`
عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس شخص کا معاملہ لے جایا گیا جس نے نماز میں (حدث کا) شبہ محسوس کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، شک و شبہ سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک کہ وہ گوز کی آواز نہ سن لے، یا بو نہ محسوس کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 513]
اردو حاشہ:
(1)
ہوا خارج ہونے سے پہلے وضو ٹوٹ جاتا ہے خواہ آواز آئے یا نہ آئے۔

(2)
محض شک سے وضو نہیں ٹوٹتا کیونکہ پیشاب پاخانہ وغیرہ سے وضو ٹوٹنا صحیح دلائل سے ثابت ہے۔
یہاں صرف یہ مسئلہ بتایا گیا ہے کہ وضو ٹوٹنے کا یقین یا ظن غالب ہونا چاہیے محض وہم اور شک کی بنیاد پر وضو کے لیے نہیں جانا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 513   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2056  
2056. حضرت عباد بن تمیم ؓ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ سے ایک شخص کے متعلق شکایت کی گئی کہ وہ نماز میں کوئی چیز محسوس کرتا ہے کیا وہ نماز توڑ دے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہ (توڑے) تاآنکہ وہ آواز سنے یا بو پائے۔ اب ابی حفصہ نے امام زہری سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ وضو اس وقت لازم ہوتاہے جب تو بدبو پائے یا آواز سنے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2056]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے تحت علامہ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
قَالَ الْغَزَالِيُّ الْوَرَعُ أَقْسَامٌ وَرَعُ الصِّدِّيقِينَ وَهُوَ تَرْكُ مَا لَا يُتَنَاوَلُ بِغَيْرِ نِيَّةِ الْقُوَّةِ عَلَى الْعِبَادَةِ وَوَرَعُ الْمُتَّقِينَ وَهُوَ تَرْكُ مَا لَا شُبْهَةَ فِيهِ وَلَكِنْ يُخْشَى أَنْ يَجُرَّ إِلَى الْحَرَامِ وَوَرَعُ الصَّالِحِينَ وَهُوَ تَرْكُ مَا يَتَطَرَّقُ إِلَيْهِ احْتِمَالُ التَّحْرِيمِ بِشَرْطِ أَنْ يَكُونَ لِذَلِكَ الِاحْتِمَالِ مَوْقِعٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَهُوَ وَرَعُ الْمُوَسْوَسِينَ قَالَ وَوَرَاءَ ذَلِكَ وَرَعُ الشُّهُودِ وَهُوَ تَرْكُ مَا يُسْقِطُ الشَّهَادَةَ أَيْ أَعَمُّ مِنْ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ الْمَتْرُوكُ حَرَامًا أَمْ لَا انْتَهَى وَغَرَضُ الْمُصَنِّفِ هُنَا بَيَانُ وَرَعِ الْمُوَسْوَسِينَ كَمَنْ يَمْتَنِعُ مِنْ أَكْلِ الصَّيْدِ خَشْيَةَ أَنْ يَكُونَ الصَّيْدُ كَانَ لِإِنْسَانٍ ثُمَّ أَفْلَتَ مِنْهُ وَكَمَنَ يَتْرُكُ شِرَاءَ مَا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ مِنْ مَجْهُولٍ لَا يَدْرِي أَمَالُهُ حَلَالٌ أَمْ حَرَامٌ وَلَيْسَتْ هُنَاكَ عَلَامَةٌ تَدُلُّ عَلَى الثَّانِي وَكَمَنَ يَتْرُكُ تَنَاوُلَ الشَّيْءِ لِخَبَرٍ وَرَدَ فِيهِ مُتَّفَقٍ عَلَى ضَعْفِهِ وَعَدَمِ الِاحْتِجَاجِ بِهِ وَيَكُونُ دَلِيلُ إِبَاحَته قَوِيا وتاويله مُمْتَنع أَو مستبعد۔
(فتح الباري)
یعنی امام غزالی ؒ نے ورع کو چار قسموں پر تقسیم کیا ہے ایک ورع صدیقین کا ہے وہ یہ کہ ان تمام کاموں کو چھوڑ دینا جن کا بطور نیت عبادت سے کوئی تعلق نہ ہو۔
متقین کا ورع یہ کہ ایسی چیزوں کو بھی چھوڑ دینا جن کی حلت میں کوئی شبہ نہیں مگر خطرہ ہے کہ ان کو عمل میں لانے سے کہیں حرام تک نوبت نہ پہنچ جائے، اور صالحین کا ورع یہ کہ ایسی چیزوں سے دور رہنا جن میں حرمت کے احتمال کے لیے کوئی بھی موقع نکل سکتا ہے۔
اگر ایسا نہ ہو تو وہ وسواسیوں کا ورع ہے اور ان کے علاوہ ایک ورع الشہود ہے جس کے ارتکاب سے انسان شہادت میں ناقابل اعتبا رہو جائے عام ہے کہ وہ حرام ہو یا نہ ہو۔
یہاں مصنف رحمۃ اللہ علیہ کی غرض وسوسہ والوں کے ورع کا بیان ہے جیسا کہ کسی شکار کا گوشت محض اس لیے نہ کھائے کہ شاید وہ شکار کسی اور آدمی نے بھی کیا ہو اور اس سے وہ جانور بھاگ گیا ہو۔
یا جیسا کہ ایسے آدمی کے ہاتھ سے خرید و فروخت چھوڑ دے جو مجہول ہو اور جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اس کا مال حرام کا ہے یا حلا ل کا۔
اور کوئی ظاہری دلیل بھی نہ ہو کہ اس کی حلت ہی پر یقین کیا جاسکے۔
اور جیسا کہ کوئی شخص ایسے آدمی کی روایت ترک کردے جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہو اور جس کے ساتھ حجت نہ پکڑی جاسکتی ہو، ایسے جملہ مشکوک حالات میں پرہیزگاری کا نام ورع ہے۔
مگر حد سے زیادہ گزر کر کسی مسلمان بھائی کے متعلق بلا تحقیق کوئی غلط گمان قائم کر لینا یہ بھی ورع کے سخت خلاف ہے۔
امام غزالی ؒ نے کسی جگہ لکھا ہے کہ کچھ لوگ نماز کے لیے اپنا لوٹا مصلی اس خیال سے ساتھ رکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں دنیا کے سارے مسلمان کے لوٹے اور مصلے استعمال کے لائق نہیں ہیں۔
اور ان سب میں شبہ داخل ہے۔
صرف انہی کا لوٹا اور مصلی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
امام غزالی ؒ نے ایسے پرہیزگاروں کو خود گندے قرار دیا ہے۔
اللهم احفظنا من جمیع الشبهات و الآفات۔
آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2056   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2056  
2056. حضرت عباد بن تمیم ؓ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ سے ایک شخص کے متعلق شکایت کی گئی کہ وہ نماز میں کوئی چیز محسوس کرتا ہے کیا وہ نماز توڑ دے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہ (توڑے) تاآنکہ وہ آواز سنے یا بو پائے۔ اب ابی حفصہ نے امام زہری سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ وضو اس وقت لازم ہوتاہے جب تو بدبو پائے یا آواز سنے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2056]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت وسوے کی حقیقت بیان کی ہے کہ یقین وایمان سے ثابت شدہ چیز کو محض وسوسے سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
وسوسہ یہ ہے کہ بلاوجہ ہر چیز کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھنا،مثلاً:
ایک شخص سے مال خریدا،خواہ مخواہ اس کے حرام ہونے کا گمان کرنا۔
اس قسم کی وسوسہ اندازی یا وسوسہ پیروی جائز نہیں۔
(2)
مذکورہ حدیث سے یہی بات ثابت کی گئی ہے کہ ایک شخص دوران نماز میں وضو ٹوٹ جانے کا وسوسہ پاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
طہارت کا یقین محض شک سے ختم نہیں ہوتا بلکہ حدث کا یقین ہوتو وضو باطل ہوتا ہے۔
چونکہ ہوا کا خارج ہونا کثیر الوقوع ہے، اس لیے حدیث میں اس کا ذکر ہے۔
اگر دلیل سے کسی چیز کی نجاست یا حرمت معلوم ہوجائے تو اس سے باز رہنا چاہیے،صرف وسوسوں کی بنا پر کسی چیز کو نجس خیال کرنا صحیح نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2056   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.