الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Military Expeditions
10. باب مَا جَاءَ فِي أَهْلِ الذِّمَّةِ يَغْزُونَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ هَلْ يُسْهَمُ لَهُمْ
باب: مال غنیمت میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ذمیوں کے حصہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1558
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن الفضيل بن ابي عبد الله، عن عبد الله بن نيار الاسلمي، عن عروة، عن عائشة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى بدر، حتى إذا كان بحرة الوبرة، لحقه رجل من المشركين يذكر منه جراة ونجدة، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " الست تؤمن بالله ورسوله؟ "، قال: لا، قال: " ارجع، فلن استعين بمشرك "، وفي الحديث كلام اكثر من هذا، هذا حديث حسن غريب، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، قالوا: لا يسهم لاهل الذمة وإن قاتلوا مع المسلمين العدو، وراى بعض اهل العلم: ان يسهم لهم إذا شهدوا القتال مع المسلمين. (حديث مرفوع) ويروى عن الزهري، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " اسهم لقوم من اليهود قاتلوا معه "، حدثنا بذلك قتيبة بن سعيد، اخبرنا عبد الوارث بن سعيد، عن عزرة بن ثابت، عن الزهري، بهذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ الْفُضَيْلِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نِيَارٍ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى بَدْرٍ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِحَرَّةِ الْوَبَرَةِ، لَحِقَهُ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَذْكُرُ مِنْهُ جُرْأَةً وَنَجْدَةً، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَسْتَ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " ارْجِعْ، فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ "، وَفِي الْحَدِيثِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: لَا يُسْهَمُ لِأَهْلِ الذِّمَّةِ وَإِنْ قَاتَلُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ الْعَدُوَّ، وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنْ يُسْهَمَ لَهُمْ إِذَا شَهِدُوا الْقِتَالَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ. (حديث مرفوع) وَيُرْوَى عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَسْهَمَ لِقَوْمٍ مِنَ الْيَهُودِ قَاتَلُوا مَعَهُ "، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَزْرَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، بِهَذَا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے لیے نکلے، جب آپ حرۃ الوبرہ ۱؎ پہنچے تو آپ کے ساتھ ایک مشرک ہو لیا جس کی جرات و دلیری مشہور تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں، آپ نے فرمایا: لوٹ جاؤ، میں کسی مشرک سے ہرگز مدد نہیں لوں گا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- حدیث میں اس سے بھی زیادہ کچھ تفصیل ہے،
۲- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ ذمی کو مال غنیمت سے حصہ نہیں ملے گا اگرچہ وہ مسلمانوں کے ہمراہ دشمن سے جنگ کریں،
۴- کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ جب ذمی مسلمانوں کے ہمراہ جنگ میں شریک ہوں تو ان کو حصہ دیا جائے گا،
۵- زہری سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی ایک جماعت کو حصہ دیا جو آپ کے ہمراہ جنگ میں شریک تھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجہاد 51 (1817)، سنن ابی داود/ الجہاد 153 (2732)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 27 (2832)، (تحفة الأشراف: 16358)، وسنن الدارمی/السیر54 (2538) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مدینہ سے چار میل کی دوری پر ہے۔
۲؎: بعض روایتوں میں ہے کہ اس کی بہادری و جرات مندی اس قدر مشہور تھی کہ صحابہ اسے دیکھ کر خوش ہو گئے، پھر اس نے خود ہی صراحت کر دی کہ میں صرف اور صرف مال غنیمت میں حصہ لینے کی خواہش میں شریک ہو رہا ہوں، پھر اس نے جب ایمان نہ لانے کی صراحت کر دی تو آپ نے اس کا تعاون لینے سے انکار کر دیا۔ پھر بعد میں اس نے ایمان کا اقرار کیا اور آپ کی اجازت سے شریک جنگ ہوا، یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کافر سے مدد لینا جائز ہے یا نہیں۔ ایک جماعت کا یہ خیال ہے کہ مدد لینا جائز ہے اور بعض کی رائے ہے کہ بوقت ضرورت مدد لی جا سکتی ہے جیسا کہ آپ نے جنگ حنین کے موقع پر صفوان بن امیہ وغیرہ سے اسلحہ کی امداد لی تھی اسی طرح بنو قینقاع کے یہود یوں سے بھی مدد لی تھی، بہرحال اسلحہ اور افرادی امداد دونوں کی شدید ضرورت و حاجت کے موقع پر لینے کی گنجائش ہے۔

قال الشيخ الألباني: (حديث عائشة) صحيح، (حديث الزهري) ضعيف الإسناد، ابن ماجة (2832)
حدیث نمبر: 1559
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا حفص بن غياث، حدثنا بريد بن عبد الله بن ابي بردة، عن جده ابي بردة، عن ابي موسى، قال: " قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفر من الاشعريين خيبر، فاسهم لنا مع الذين افتتحوها "، هذا حديث حسن صحيح غريب، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، قال الاوزاعي: من لحق بالمسلمين قبل ان يسهم للخيل، اسهم له، وبريد يكنى ابا بريدة وهو ثقة، وروى عنه سفيان الثوري، وابن عيينة، وغيرهما.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: " قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ خَيْبَرَ، فَأَسْهَمَ لَنَا مَعَ الَّذِينَ افْتَتَحُوهَا "، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: مَنْ لَحِقَ بِالْمُسْلِمِينَ قَبْلَ أَنْ يُسْهَمَ لِلْخَيْلِ، أُسْهِمَ لَهُ، وَبُرَيْدٌ يُكْنَى أَبَا بُرَيْدَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ، وَرَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَغَيْرُهُمَا.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اشعری قبیلہ کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خیبر آیا، جن لوگوں نے خیبر فتح کیا تھا آپ نے ان کے ساتھ ہمارے لیے بھی حصہ مقرر کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اوزاعی کہتے ہیں: گھوڑے کے لیے حصہ مقرر کرنے سے پہلے جو مسلمانوں کے ساتھ مل جائے، اس کو حصہ دیا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فرض الخمس 15 (3136)، والمناقب 37 (3876)، والمغازي 38 (4230)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 41 (2502)، سنن ابی داود/ الجہاد 151 (2725)، (تحفة الأشراف: 9049) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض لوگ کہتے ہیں کہ مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اور فتح حاصل ہونے کے بعد جو پہنچے اسے بھی حصہ دیا جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2436)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.