الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Military Expeditions
26. باب مَا جَاءَ فِي أَمَانِ الْعَبْدِ وَالْمَرْأَةِ
باب: غلام اور عورت کو امان دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1579
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن اكثم، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم، عن كثير بن زيد، عن الوليد بن رباح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن المراة لتاخذ للقوم "، يعني: تجير على المسلمين، وفي الباب، عن ام هانئ، وهذا حديث حسن غريب، وسالت محمدا، فقال: هذا حديث صحيح، وكثير بن زيد قد سمع من الوليد بن رباح، والوليد بن رباح سمع من ابي هريرة، وهو مقارب الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الْمَرْأَةَ لَتَأْخُذُ لِلْقَوْمِ "، يَعْنِي: تُجِيرُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، وَفِي الْبَاب، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا، فَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَكَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ قَدْ سَمِعَ مِنْ الْوَلِيدِ بْنِ رَبَاحٍ، وَالْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ سَمِعَ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَهُوَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان عورت کسی کو پناہ دے سکتی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے،
۳- کثیر بن زید نے ولید بن رباح سے سنا ہے اور ولید بن رباح نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے سنا ہے اور وہ مقارب الحدیث ہیں،
۴- اس باب میں ام ہانی رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14809) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: بعض روایات میں ہے کہ مسلمانوں کا ادنی آدمی بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے، اس حدیث اور ام ہانی کے سلسلہ میں آپ کا فرمان: «قد أجرنا من أجرت يا أم هاني» سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان عورت بھی کسی کو پناہ دے سکتی ہے، اور اس کی دی ہوئی پناہ کو کسی مسلمان کے لیے توڑ ناجائز نہیں۔
۲؎: یعنی مسلمانوں میں سے کوئی ادنی شخص کسی کو پناہ دے تو اس کی دی ہوئی پناہ سارے مسلمانوں کے لیے قبول ہو گی کوئی اس پناہ کو توڑ نہیں سکتا۔

قال الشيخ الألباني: (حديث أبي هريرة) حسن، (حديث أم هانئ) صحيح (حديث أبي هريرة)، المشكاة (3978 / التحقيق الثاني)، (حديث أم هانئ)، صحيح أبي داود (2468)، الصحيحة (2049)
حدیث نمبر: 1579M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد الدمشقي، حدثنا الوليد بن مسلم، اخبرني ابن ابي ذئب، عن سعيد المقبري، عن ابي مرة مولى عقيل بن ابي طالب، عن ام هانئ، انها قالت: اجرت رجلين من احمائي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد امنا من امنت "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم اجازوا امان المراة، وهو قول احمد، وإسحاق: اجاز امان المراة والعبد، وقد روي من غير وجه، وابو مرة مولى عقيل بن ابي طالب ويقال له ايضا: مولى ام هانئ ايضا واسمه يزيد، وقد روي عن عمر بن الخطاب: انه اجاز امان العبد، روي، عن علي بن ابي طالب، وعبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ذمة المسلمين واحدة يسعى بها ادناهم "، قال ابو عيسى: ومعنى هذا عند اهل العلم: ان من اعطى الامان من المسلمين، فهو جائز على كلهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَجَرْتُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَحْمَائِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ أَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَجَازُوا أَمَانَ الْمَرْأَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق: أَجَازَ أَمَانَ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَأَبُو مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَيُقَالُ لَهُ أَيْضًا: مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ أَيْضًا وَاسْمُهُ يَزِيدُ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: أَنَّهُ أَجَازَ أَمَانَ الْعَبْدِ، رُوِيَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ مَنْ أَعْطَى الْأَمَانَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَهُوَ جَائِزٌ عَلَى كُلِّهِمْ.
ام ہانی سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر کے دو رشتے داروں کو پناہ دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے بھی اس کو پناہ دی جس کو تم نے پناہ دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- (یہ حدیث) کئی سندوں سے مروی ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، انہوں نے عورت کے پناہ دینے کو جائز قرار دیا ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، انہوں نے عورت اور غلام کے پناہ دینے کو جائز قرار دیا ہے،
۴- راوی ابو مرہ مولیٰ عقیل بن ابی طالب کو مولیٰ ام ہانی بھی کہا گیا ہے، ان کا نام یزید ہے،
۵- عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی ہے، انہوں نے غلام کے پناہ دینے کو جائز قرار دیا ہے،
۶- علی بن ابی طالب اور عبداللہ بن عمرو کے واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ نے فرمایا: تمام مسلمانوں کی پناہ یکساں ہے جس کے لیے ان کا ادنی آدمی بھی کوشش کر سکتا ہے ۲؎،
۷- اہل علم کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے، اگر مسلمانوں میں سے کسی نے امان دے دی تو درست ہے اور ہر مسلمان اس کا پابند ہو گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 4 (357)، والجزیة 9 (3171)، والأدب 94 (6158)، صحیح مسلم/المسافرین 13 (336/82) سنن ابی داود/ الجہاد167 (2763)، (تحفة الأشراف: 18018)، وط/قصر الصلاة فی السفر 8 (28)، و مسند احمد (6/343، 423)، و سنن الدارمی/الصلاة 151 (1494) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: (حديث أبي هريرة) حسن، (حديث أم هانئ) صحيح (حديث أبي هريرة)، المشكاة (3978 / التحقيق الثاني)، (حديث أم هانئ)، صحيح أبي داود (2468)، الصحيحة (2049)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.