الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Military Expeditions
47. باب مَا جَاءَ فِي الطِّيَرَةِ وَالْفَأْلِ
باب: بدشگونی اور بدفالی کا بیان۔
حدیث نمبر: 1614
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن سلمة بن كهيل، عن عيسى بن عاصم، عن زر، عن عبد الله بن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الطيرة من الشرك وما منا، ولكن الله يذهبه بالتوكل "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابي هريرة، وحابس التميمي، وعائشة، وابن عمر، وسعد، وهذا حديث حسن صحيح لا نعرفه إلا من حديث سلمة بن كهيل، وروى شعبة ايضا، عن سلمة هذا الحديث، قال: سمعت محمد بن إسماعيل، يقول: كان سليمان بن حرب، يقول في هذا الحديث: " وما منا ولكن الله يذهبه بالتوكل "، قال سليمان: هذا عندي قول عبد الله بن مسعود: " وما منا ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الطِّيَرَةُ مِنَ الشِّرْكِ وَمَا مِنَّا، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَحَابِسٍ التَّمِيمِيِّ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَسَعْدٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، وَرَوَى شُعْبَةُ أَيْضًا، عَنْ سَلَمَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ: كَانَ سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، يَقُولُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: " وَمَا مِنَّا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ "، قَالَ سُلَيْمَانُ: هَذَا عِنْدِي قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: " وَمَا مِنَّا ".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدفالی شرک ہے ۱؎۔ (ابن مسعود کہتے ہیں) ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کے دل میں اس کا وہم و خیال نہ پیدا ہو، لیکن اللہ تعالیٰ اس وہم و خیال کو توکل کی وجہ سے زائل کر دیتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف سلمہ بن کہیل کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- شعبہ نے بھی سلمہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے،
امام ترمذی کہتے ہیں:
۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: سلیمان بن حرب اس حدیث میں «وما منا ولكن الله يذهبه بالتوكل» کی بابت کہتے تھے کہ «وما منا» میرے نزدیک عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کا قول ہے،
۴- اس باب میں ابوہریرہ، حابس تمیمی، عائشہ، ابن عمر اور سعد رضی الله عنہم سے بھی روایتیں ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطب 24 (3910)، سنن ابن ماجہ/الطب 43 (3538)، (تحفة الأشراف: 9207) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ اعتقاد رکھنا کہ «طیرہ» یعنی بدفالی نفع یا نقصان پہنچانے میں موثر ہے شرک ہے، اور اس عقیدے کے ساتھ اس پر عمل کرنا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے، اس لیے اس طرح کا خیال آنے پر «لا إله إلا الله» پڑھنا بہتر ہو گا، کیونکہ جسے بھی بدشگونی کا خیال آئے تو اسے پڑھنے اور اللہ پر توکل کرنے کی وجہ سے اللہ یہ خیال اس سے دور فرما دے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3538)
حدیث نمبر: 1615
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن ابي عدي، عن هشام الدستوائي، عن قتادة، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا عدوى ولا طيرة، واحب الفال "، قالوا: يا رسول الله، وما الفال؟ قال: " الكلمة الطيبة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ، وَأُحِبُّ الْفَأْلَ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْفَأْلُ؟ قَالَ: " الْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جانے اور بدفالی و بدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۱؎ اور مجھ کو فال نیک پسند ہے، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! فال نیک کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: اچھی بات۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطب 44 (5756)، و 54 (5776)، صحیح مسلم/السلام 342 (2224)، (تحفة الأشراف: 1358)، و مسند احمد (3/118) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: چھوت چھات یعنی بیماری خود سے متعدی نہیں ہوتی، بلکہ یہ سب کچھ اللہ کے حکم اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر پر ہوتا ہے، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3537)
حدیث نمبر: 1616
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن رافع، حدثنا ابو عامر العقدي، عن حماد بن سلمة، عن حميد، عن انس بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " كان يعجبه إذا خرج لحاجة، ان يسمع يا راشد يا نجيح "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يُعْجِبُهُ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَةٍ، أَنْ يَسْمَعَ يَا رَاشِدُ يَا نَجِيحُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سننا اچھا لگتا تھا کہ جب کسی ضرورت سے نکلیں تو کوئی یا راشد یا نجیح کہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 624) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: راشد کا مطلب ہے صحیح راستہ اپنانے والا، اور نجیح کا مفہوم ہے جس کی ضرورت پوری کر دی گئی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (86)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.