الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Military Expeditions
29. باب مَا جَاءَ فِي النُّزُولِ عَلَى الْحُكْمِ
باب: دشمن کی مسلمان کے فیصلہ پر رضا مندی کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1582
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابي الزبير، عن جابر، انه قال: رمي يوم الاحزاب سعد بن معاذ فقطعوا اكحله او ابجله، فحسمه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنار، فانتفخت يده، فتركه، فنزفه الدم، فحسمه اخرى، فانتفخت يده، فلما راى ذلك قال: اللهم لا تخرج نفسي حتى تقر عيني من بني قريظة، فاستمسك عرقه، فما قطر قطرة حتى نزلوا على حكم سعد بن معاذ، فارسل إليه، فحكم ان يقتل رجالهم ويستحيا نساؤهم يستعين بهن المسلمون، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اصبت حكم الله فيهم "، وكانوا اربع مائة، فلما فرغ من قتلهم، انفتق عرقه فمات، قال: وفي الباب، عن ابي سعيد، وعطية القرظي، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّهُ قَالَ: رُمِيَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَطَعُوا أَكْحَلَهُ أَوْ أَبْجَلَهُ، فَحَسَمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّارِ، فَانْتَفَخَتْ يَدُهُ، فَتَرَكَهُ، فَنَزَفَهُ الدَّمُ، فَحَسَمَهُ أُخْرَى، فَانْتَفَخَتْ يَدُهُ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَالَ: اللَّهُمَّ لَا تُخْرِجْ نَفْسِي حَتَّى تُقِرَّ عَيْنِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ، فَاسْتَمْسَكَ عِرْقُهُ، فَمَا قَطَرَ قَطْرَةً حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَحَكَمَ أَنْ يُقْتَلَ رِجَالُهُمْ وَيُسْتَحْيَا نِسَاؤُهُمْ يَسْتَعِينُ بِهِنَّ الْمُسْلِمُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَصَبْتَ حُكْمَ اللَّهِ فِيهِمْ "، وَكَانُوا أَرْبَعَ مِائَةٍ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَتْلِهِمْ، انْفَتَقَ عِرْقُهُ فَمَاتَ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَعَطِيَّةَ الْقُرَظِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ احزاب میں سعد بن معاذ رضی الله عنہ کو تیر لگا، کفار نے ان کی رگ اکحل یا رگ ابجل (بازو کی ایک رگ) کاٹ دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آگ سے داغا تو ان کا ہاتھ سوج گیا، لہٰذا آپ نے اسے چھوڑ دیا، پھر خون بہنے لگا، چنانچہ آپ نے دوبارہ داغا پھر ان کا ہاتھ سوج گیا، جب سعد بن معاذ رضی الله عنہ نے یہ دیکھا تو انہوں نے دعا کی: اے اللہ! میری جان اس وقت تک نہ نکالنا جب تک بنو قریظہ (کی ہلاکت اور ذلت سے) میری آنکھ ٹھنڈی نہ ہو جائے، پس ان کی رگ رک گئی اور خون کا ایک قطرہ بھی اس سے نہ ٹپکا، یہاں تک کہ بنو قریظہ سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے حکم پر (قلعہ سے) نیچے اترے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو بلایا انہوں نے آ کر فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں کو زندہ رکھا جائے جن سے مسلمان خدمت لیں ۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ان کے بارے میں اللہ کے فیصلہ کے موافق فیصلہ کیا ہے، ان کی تعداد چار سو تھی، جب آپ ان کے قتل سے فارغ ہوئے تو سعد کی رگ کھل گئی اور وہ انتقال کر گئے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری اور عطیہ قرظی رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ (تحفة الأشراف: 2925) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی بنو قریظہ کی عورتیں مسلمانوں کی خدمت کے لیے ان میں تقسیم کر دی جائیں۔
۲؎: اس حدیث میں دلیل ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کے فیصلہ پر دشمنوں کا راضی ہو جانا اور اس پر اترنا جائز ہے، اور ان کی بابت جو بھی فیصلہ اس مسلمان کی طرف سے صادر ہو گا دشمنوں کے لیے اس کا ماننا ضروری ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (5 / 38 - 39)
حدیث نمبر: 1583
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبد الرحمن ابو الوليد الدمشقي، حدثنا الوليد بن مسلم، عن سعيد بن بشير، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " اقتلوا شيوخ المشركين، واستحيوا شرخهم "، والشرخ: الغلمان الذين لم ينبتوا، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، ورواه الحجاج بن ارطاة، عن قتادة، نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " اقْتُلُوا شُيُوخَ الْمُشْرِكِينَ، وَاسْتَحْيُوا شَرْخَهُمْ "، وَالشَّرْخُ: الْغِلْمَانُ الَّذِينَ لَمْ يُنْبِتُوا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَرَوَاهُ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ قَتَادَةَ، نَحْوَهُ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کے مردوں کو قتل کر دو اور ان کے لڑکوں میں سے جو بلوغت کی عمر کو نہ پہنچے ہوں انہیں کو چھوڑ دو، «شرخ» وہ لڑکے ہیں جن کے زیر ناف کے بال نہ نکلے ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- حجاج بن ارطاۃ نے قتادہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 121 (2670)، (تحفة الأشراف: 4592)، و مسند احمد (5/12، 20) (ضعیف) (سند میں قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (3952 / التحقيق الثاني)، ضعيف أبي داود (259) // (571 / 2670)، ضعيف الجامع الصغير (1063) بلفظ: واستبقوا شرخهم //
حدیث نمبر: 1584
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عبد الملك بن عمير، عن عطية القرظي، قال: " عرضنا على النبي صلى الله عليه وسلم يوم قريظة، فكان من انبت قتل، ومن لم ينبت خلي سبيله، فكنت ممن لم ينبت فخلي سبيلي "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم: انهم يرون الإنبات بلوغا، إن لم يعرف احتلامه ولا سنه، وهو قول احمد، وإسحاق.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيِّ، قَالَ: " عُرِضْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ قُرَيْظَةَ، فَكَانَ مَنْ أَنْبَتَ قُتِلَ، وَمَنْ لَمْ يُنْبِتْ خُلِّيَ سَبِيلُهُ، فَكُنْتُ مِمَّنْ لَمْ يُنْبِتْ فَخُلِّيَ سَبِيلِي "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّهُمْ يَرَوْنَ الْإِنْبَاتَ بُلُوغًا، إِنْ لَمْ يُعْرَفْ احْتِلَامُهُ وَلَا سِنُّهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
عطیہ قرظی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں قریظہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، تو جس کے (زیر ناف کے) بال نکلے ہوئے تھے اسے قتل کر دیا جاتا اور جس کے نہیں نکلے ہوتے اسے چھوڑ دیا جاتا، چنانچہ میں ان لوگوں میں سے تھا جن کے بال نہیں نکلے تھے، لہٰذا مجھے چھوڑ دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اگر بلوغت اور عمر معلوم نہ ہو تو وہ لوگ (زیر ناف کے) بال نکلنے ہی کو بلوغت سمجھتے تھے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحدود 17 (4404)، سنن النسائی/الطلاق 20 (3460)، وقطع السارق 17 (4996)، سنن ابن ماجہ/الحدود 4 (2541)، (تحفة الأشراف: 9904)، و مسند احمد (4/310)، و 5/312) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2541)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.