الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
Chapters on Supplication
86. باب
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3516
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا إبراهيم بن عمر بن ابي الوزير، حدثنا زنفل بن عبد الله ابو عبد الله، عن ابن ابي مليكة، عن عائشة، عن ابي بكر الصديق، ان النبي صلى الله عليه وسلم " كان إذا اراد امرا قال: اللهم خر لي واختر لي ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث زنفل وهو ضعيف عند اهل الحديث، ويقال له زنفل بن عبد الله العرفي وكان يسكن عرفات، وتفرد بهذا الحديث ولا يتابع عليه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْوَزِيرِ، حَدَّثَنَا زَنْفَلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ إِذَا أَرَادَ أَمْرًا قَالَ: اللَّهُمَّ خِرْ لِي وَاخْتَرْ لِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَنْفَلٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَيُقَالُ لَهُ زَنْفَلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَرَفِيُّ وَكَانَ يَسْكُنُ عَرَفَاتٍ، وَتَفَرَّدَ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ.
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کام کا ارادہ کرتے تو یہ دعا فرماتے: «اللهم خر لي واختر لي» اے اللہ! میرے لیے بہتر کا انتخاب فرما اور میرے لیے بہتر پسند فرما۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے
۲- اور ہم اسے زنفل کی روایت کے سوا اور کسی سند سے نہیں جانتے، اور یہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، اور انہیں زنفل بن عبداللہ عرفی بھی کہتے ہیں، وہ عرفات میں رہتے تھے، وہ اس حدیث میں منفرد ہیں، یعنی یہ روایت صرف انہوں نے ہی بیان کی ہے (کسی اور نے نہیں) اور کسی نے بھی ان کی متابعت نہیں کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6638) (ضعیف) (سند میں ”زنفل“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1515) // ضعيف الجامع الصغير (4330) //
حدیث نمبر: 3517
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا حبان بن هلال، حدثنا ابان هو ابن يزيد العطار، حدثنا يحيى، ان زيد بن سلام حدثه، ان ابا سلام حدثه، عن ابي مالك الاشعري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الوضوء شطر الإيمان، والحمد لله تملا الميزان وسبحان الله والحمد لله تملآن او تملا ما بين السموات والارض، والصلاة نور، والصدقة برهان، والصبر ضياء، والقرآن حجة لك او عليك، كل الناس يغدو فبائع نفسه فمعتقها او موبقها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا أَبَانُ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَنَّ زَيْدَ بْنَ سَلَّامٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا سَلَّامٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوُضُوءُ شَطْرُ الْإِيمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآَنِ أَوْ تَمْلَأُ مَا بَيْنَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ، وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو مالک اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو آدھا ایمان ہے، اور «الحمد لله» (اللہ کی حمد) میزان کو ثواب سے بھر دے گا اور «سبحان الله» اور «الحمد لله» یہ دونوں بھر دیں گے آسمانوں اور زمین کے درمیان کی جگہ کو یا ان میں سے ہر ایک بھر دے گا آسمانوں اور زمین کے درمیان کی ساری خلا کو (اجر و ثواب سے) «صلاة» نور ہے، اور «صدقة» دلیل اور کسوٹی ہے (ایمان کی) اور «صبر» روشنی ہے اور «قرآن» تمہارے حق میں حجت و دلیل ہے یا اور تمہارے خلاف حجت ہے۔ ہر انسان صبح اٹھ کر اپنے نفس کو فروخت کرتا ہے چنانچہ یا تو (اللہ کے یہاں فروخت کر کے) اس کو (جہنم سے) آزاد کرا لیتا ہے، یا (شیطان کے ہاں فروخت کر کے) اس کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطھارة 1 (223) (تحفة الأشراف: 12167) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: علماء نے اس کے کئی معانی بیان کیے ہیں، سب بہتر قول بقول صاحب تحفہ الاحوذی ہے کہ یہاں ایمان سے مراد «صلاة» ہے جیسا کہ ارشاد باری «وما كان الله ليضيع إيمانكم» (البقرۃ: ۱۴۳) میں «إيمان» سے مراد «صلاة» ہے، اور «صلاة» کے لیے وضو شرط ہے، (وضو میں طہارت کبریٰ بھی شامل ہے، اور بعض روایات میں «الطہور» کا لفظ بھی آیا ہے)۔
۲؎: صدقہ ایمان کی دلیل ہے، کیونکہ اللہ کے لیے صدقہ وہی کرتا ہے جس کو اللہ پر ایمان ہوتا ہے۔
۳؎: یعنی اگر قرآن پر عمل کیا ہو گا تو قرآن فائدہ دے گا، ورنہ خلاف میں گواہی دے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (280)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.