الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
64. باب مِنْهُ
64. باب: بیع عرایا سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1303
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الحلواني الخلال، حدثنا ابو اسامة، عن الوليد بن كثير، حدثنا بشير بن يسار مولى بني حارثة، ان رافع بن خديج، وسهل بن ابي حثمة حدثاه، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع المزابنة الثمر بالتمر، إلا لاصحاب العرايا، فإنه قد اذن لهم، وعن بيع العنب بالزبيب، وعن كل ثمر بخرصه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ مَوْلَى بَنِي حَارِثَةَ، أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ، وَسَهْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ حَدَّثَاهُ، " أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْمُزَابَنَةِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ، إِلَّا لِأَصْحَابِ الْعَرَايَا، فَإِنَّهُ قَدْ أَذِنَ لَهُمْ، وَعَنْ بَيْعِ الْعِنَبِ بِالزَّبِيبِ، وَعَنْ كُلِّ ثَمَرٍ بِخَرْصِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ یعنی سوکھی کھجوروں کے عوض درخت پر لگی کھجور بیچنے سے منع فرمایا، البتہ آپ نے عرایا والوں کو اجازت دی، اور خشک انگور کے عوض تر انگور بیچنے سے اور اندازہ لگا کر کوئی بھی پھل بیچنے سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس طریق سے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 83 (2191)، والشرب والمساقاة 17 (2384)، صحیح مسلم/البیوع 14 (1540)، سنن ابی داود/ البیوع 20 (2363)، سنن النسائی/البیوع 35 (4546)، (تحفة الأشراف: 3552و4646) و مسند احمد (4/2) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع
65. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّجْشِ فِي الْبُيُوعِ
65. باب: بیع میں نجش کے حرام ہونے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1304
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، واحمد بن منيع، قالا: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال قتيبة: يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تناجشوا ". قال: وفي الباب، عن ابن عمر، وانس. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم كرهوا النجش. قال ابو عيسى: والنجش ان ياتي الرجل الذي يفصل السلعة إلى صاحب السلعة، فيستام باكثر مما تسوى وذلك عندما يحضره المشتري، يريد ان يغتر المشتري به، وليس من رايه الشراء، إنما يريد ان يخدع المشتري بما يستام، وهذا ضرب من الخديعة، قال الشافعي: وإن نجش رجل فالناجش آثم فيما يصنع، والبيع جائز لان البائع غير الناجش.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ قُتَيْبَةُ: يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَنَاجَشُوا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا النَّجْشَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالنَّجْشُ أَنْ يَأْتِيَ الرَّجُلُ الَّذِي يَفْصِلُ السِّلْعَةَ إِلَى صَاحِبِ السِّلْعَةِ، فَيَسْتَامُ بِأَكْثَرَ مِمَّا تَسْوَى وَذَلِكَ عِنْدَمَا يَحْضُرُهُ الْمُشْتَرِي، يُرِيدُ أَنْ يَغْتَرَّ الْمُشْتَرِي بِهِ، وَلَيْسَ مِنْ رَأْيِهِ الشِّرَاءُ، إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَخْدَعَ الْمُشْتَرِيَ بِمَا يَسْتَامُ، وَهَذَا ضَرْبٌ مِنَ الْخَدِيعَةِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنْ نَجَشَ رَجَلٌ فَالنَّاجِشُ آثِمٌ فِيمَا يَصْنَعُ، وَالْبَيْعُ جَائِزٌ لِأَنَّ الْبَائِعَ غَيْرُ النَّاجِشِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نجش نہ کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے «نجش» کو ناجائز کہا ہے،
۴- «نجش» یہ ہے کہ ایسا آدمی جو سامان کے اچھے برے کی تمیز رکھتا ہو سامان والے کے پاس آئے اور اصل قیمت سے بڑھا کر سامان کی قیمت لگائے اور یہ ایسے وقت ہو جب خریدار اس کے پاس موجود ہو، مقصد صرف یہ ہو کہ اس سے خریدار دھوکہ کھا جائے اور وہ (دام بڑھا چڑھا کر لگانے والا) خریدنے کا خیال نہ رکھتا ہو بلکہ صرف یہ چاہتا ہو کہ اس کی قیمت لگانے کی وجہ سے خریدار دھوکہ کھا جائے۔ یہ دھوکہ ہی کی ایک قسم ہے،
۵- شافعی کہتے ہیں: اگر کوئی آدمی «نجش» کرتا ہے تو اپنے اس فعل کی وجہ سے وہ یعنی «نجش» کرنے والا گنہگار ہو گا اور بیع جائز ہو گی، اس لیے کہ بیچنے والا تو «نجش» نہیں کر رہا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 58 (2140)، و64 (2150)، و70 (2160)، والشروط 8 (2723)، صحیح مسلم/النکاح 6 (1413/52)، سنن ابی داود/ البیوع 46 (3438)، سنن النسائی/البیوع 16 (4510)، سنن ابن ماجہ/التجارات 13 (2174)، (تحفة الأشراف: 13123)، و موطا امام مالک/البیوع 45 (96)، و مسند احمد (2/238، 474، 487)، وانظر ما تقدم بأرقام: 1134، 1190، 1222) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2174)
66. باب مَا جَاءَ فِي الرُّجْحَانِ فِي الْوَزْنِ
66. باب: (ترازو) جھکا کر (زیادہ) تولنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1305
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، ومحمود بن غيلان، قالا: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن سماك بن حرب، عن سويد بن قيس، قال: جلبت انا ومخرفة العبدي بزا من هجر، فجاءنا النبي صلى الله عليه وسلم فساومنا بسراويل وعندي وزان يزن بالاجر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " للوزان زن وارجح ". قال: وفي الباب، عن جابر، وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث سويد حديث حسن صحيح، واهل العلم يستحبون الرجحان في الوزن، وروى شعبة هذا الحديث، عن سماك، فقال: عن ابي صفوان وذكر الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: جَلَبْتُ أَنَا وَمَخْرَفَةُ الْعَبْدِيُّ بَزًّا مِنْ هَجَرَ، فَجَاءَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَاوَمَنَا بِسَرَاوِيلَ وَعِنْدِي وَزَّانٌ يَزِنُ بِالْأَجْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِلْوَزَّانِ زِنْ وَأَرْجِحْ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سُوَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَهْلُ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ الرُّجْحَانَ فِي الْوَزْنِ، وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سِمَاكٍ، فَقَالَ: عَنْ أَبِي صَفْوَانَ وَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
سوید بن قیس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اور مخرمہ عبدی دونوں مقام ہجر سے ایک کپڑا لے آئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے ہم سے ایک پائجامے کا مول بھاؤ کیا۔ میرے پاس ایک تولنے ولا تھا جو اجرت لے کر تولتا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تولنے والے سے فرمایا: جھکا کر تول۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سوید رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اہل علم جھکا کر تولنے کو مستحب سمجھتے ہیں،
۳- اس باب میں جابر اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اور شعبہ نے بھی اس حدیث کو سماک سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے «عن سوید بن قیس» کی جگہ «عن ابی صفوان» کہا ہے پھر آگے حدیث ذکر کی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 7 (3336)، سنن النسائی/البیوع 54 (4596)، سنن ابن ماجہ/التجارات 34 (2220)، واللباس 12 (3579) (تحفة الأشراف: 4810)، و مسند احمد 4/352)، وسنن الدارمی/البیوع 47 (2627) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2220)
67. باب مَا جَاءَ فِي إِنْظَارِ الْمُعْسِرِ وَالرِّفْقِ بِهِ
67. باب: تنگ دست قرض دار کو مہلت دینے اور تقاضے میں نرمی کرنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1306
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا إسحاق بن سليمان الرازي، عن داود بن قيس، عن زيد بن اسلم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من انظر معسرا، او وضع له اظله الله يوم القيامة تحت ظل عرشه يوم لا ظل إلا ظله ". قال: وفي الباب، عن ابي اليسر، وابي قتادة، وحذيفة، وابن مسعود، وعبادة، وجابر. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا، أَوْ وَضَعَ لَهُ أَظَلَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي الْيَسَرِ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَحُذَيْفَةَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَعُبَادَةَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی تنگ دست (قرض دار) کو مہلت دے یا اس کا کچھ قرض معاف کر دے، تو اللہ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سایہ کے نیچے جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں ابویسر (کعب بن عمرو)، ابوقتادہ، حذیفہ، ابن مسعود، عبادہ اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر مسند احمد (2/359)، (تحفة الأشراف: 12324) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (2 / 37)، أحاديث البيوع
حدیث نمبر: 1307
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(قدسي) حدثنا حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن شقيق، عن ابي مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حوسب رجل ممن كان قبلكم، فلم يوجد له من الخير شيء، إلا انه كان رجلا موسرا، وكان يخالط الناس، وكان يامر غلمانه، ان يتجاوزوا عن المعسر، فقال الله عز وجل: نحن احق بذلك منه تجاوزوا عنه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو اليسر كعب بن عمرو.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حُوسِبَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مِنَ الْخَيْرِ شَيْءٌ، إِلَّا أَنَّهُ كَانَ رَجُلًا مُوسِرًا، وَكَانَ يُخَالِطُ النَّاسَ، وَكَانَ يَأْمُرُ غِلْمَانَهُ، أَنْ يَتَجَاوَزُوا عَنِ الْمُعْسِرِ، فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: نَحْنُ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ تَجَاوَزُوا عَنْهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْيَسَرِ كَعْبُ بْنُ عَمْرٍو.
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلی امتوں میں سے ایک آدمی کا حساب (اس کی موت کے بعد) لیا گیا، تو اس کے پاس کوئی نیکی نہیں ملی، سوائے اس کے کہ وہ ایک مالدار آدمی تھا، لوگوں سے لین دین کرتا تھا اور اپنے خادموں کو حکم دیتا تھا کہ (تقاضے کے وقت) تنگ دست سے درگزر کریں، تو اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں سے) فرمایا: ہم اس سے زیادہ اس کے (درگزر کے) حقدار ہیں، تم لوگ اسے معاف کر دو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 6 (البیوع 27)، (1561)، (تحفة الأشراف: 9992)، و مسند احمد (4/120) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع
68. باب مَا جَاءَ فِي مَطْلِ الْغَنِيِّ أَنَّهُ ظُلْمٌ
68. باب: مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1308
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مطل الغني ظلم، وإذا اتبع احدكم على ملي، فليتبع ". قال: وفي الباب، عن ابن عمر، والشريد بن سويد الثقفي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ، فَلْيَتْبَعْ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَالشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ۱؎ اور جب تم میں سے کوئی کسی مالدار کی حوالگی میں دیا جائے تو چاہیئے کہ اس کی حوالگی اسے قبول کرے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں ابن عمر اور شرید بن سوید ثقفی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحوالة 2 (2288)، والاستقراض 12 (2400)، صحیح مسلم/المساقاة 7 (البیوع 28) (1564)، سنن ابی داود/ البیوع 10 (3345)، سنن النسائی/البیوع 100 (4692)، و 101 (4695)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 8 (الأحکام 48)، (2403)، (تحفة الأشراف: 13662)، وط/البیوع 40 (84)، و مسند احمد (2/245، 254، 260، 315، 377، 380، 463، 465)، سنن الدارمی/البیوع 48 (2628) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: قرض کی ادائیگی کے باوجود قرض ادا نہ کرنا ٹال مٹول ہے، بلا وجہ قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لینا کبیرہ گناہ ہے۔
۲؎: اپنے ذمہ کا قرض دوسرے کے ذمہ کر دینا یہی حوالہ ہے، مثلاً زید عمرو کا مقروض ہے پھر زید مقابلہ بکر سے یہ کہہ کر کرا دے کہ اب میرے ذمہ کے قرض کی ادائیگی بکر کے سر ہے اور بکر اسے تسلیم بھی کر لے تو عمرو کو یہ حوالگی قبول کرنی چاہیئے، اس میں گویا حسن معاملہ کی ترغیب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2403)
حدیث نمبر: 1309
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن عبد الله الهروي، قال: حدثنا هشيم، قال: حدثنا يونس بن عبيد، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مطل الغني ظلم، وإذا احلت على مليء، فاتبعه، ولا تبع بيعتين في بيعة ". قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح ومعناه: إذا احيل احدكم على ملي فليتبع، فقال بعض اهل العلم: إذا احيل الرجل على مليء، فاحتاله، فقد برئ المحيل وليس له ان يرجع على المحيل، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: إذا توي مال هذا بإفلاس المحال عليه فله ان يرجع على الاول، واحتجوا بقول عثمان وغيره، حين قالوا: ليس على مال مسلم توى، قال إسحاق: معنى هذا الحديث ليس على مال مسلم توي هذا إذا احيل الرجل على آخر، وهو يرى انه ملي فإذا هو معدم، فليس على مال مسلم توى.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَرَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُحِلْتَ عَلَى مَلِيءٍ، فَاتْبَعْهُ، وَلَا تَبِعْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَاهُ: إِذَا أُحِيلَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَى مَلِيءٍ، فَاحْتَالَهُ، فَقَدْ بَرِئَ الْمُحِيلُ وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَى الْمُحِيلِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا تَوِيَ مَالُ هَذَا بِإِفْلَاسِ الْمُحَالِ عَلَيْهِ فَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَى الْأَوَّلِ، وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِ عُثْمَانَ وَغَيْرِهِ، حِينَ قَالُوا: لَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوًى، قَالَ إِسْحَاق: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوِيَ هَذَا إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَى آخَرَ، وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ مَلِيٌّ فَإِذَا هُوَ مُعْدِمٌ، فَلَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوًى.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور جب تم کسی مالدار کے حوالے کئے جاؤ تو اسے قبول کر لو، اور ایک بیع میں دو بیع نہ کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی قرض وصول کرنے میں کسی مالدار کے حوالے کیا جائے تو اسے قبول کرنا چاہیئے،
۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب آدمی کو کسی مالدار کے حوالے کیا جائے اور وہ حوالہ قبول کر لے تو حوالے کرنے والا بری ہو جائے گا اور قرض خواہ کے لیے درست نہیں کہ پھر حوالے کرنے والے کی طرف پلٹے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: کہ «محتال علیہ» جس آدمی کی طرف تحویل کیا گیا ہے، کے مفلس ہو جانے کی وجہ سے اس کے مال کے ڈوب جانے کا خطرہ ہو تو قرض خواہ کے لیے جائز ہو گا کہ وہ پہلے کی طرف لوٹ جائے، ان لوگوں نے اس بات پر عثمان رضی الله عنہ وغیرہ کے قول سے استدلال کیا ہے کہ مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے،
۵- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اس حدیث «ليس على مال مسلم توي» مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی قرض خواہ کسی کے حوالے کیا گیا اور اسے مالدار سمجھ رہا ہو لیکن درحقیقت وہ غریب ہو تو ایسی صورت میں مسلمان کا مال ضائع نہ ہو گا (اور وہ اصل قرض دار سے اپنا مال طلب کر سکتا ہے)۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصدقات 8 (الأحکام 48)، (2404)، (تحفة الأشراف: 8535)، و مسند احمد (2/71) (صحیح)»
69. باب مَا جَاءَ فِي الْمُلاَمَسَةِ وَالْمُنَابَذَةِ
69. باب: بیع ملامسہ اور بیع منابذہ کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1310
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، ومحمود بن غيلان، قالا: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع المنابذة، والملامسة ". قال: وفي الباب، عن ابي سعيد، وابن عمر. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، ومعنى هذا الحديث ان يقول: إذا نبذت إليك الشيء فقد وجب البيع بيني وبينك، والملامسة ان يقول: إذا لمست الشيء فقد وجب البيع، وإن كان لا يرى منه شيئا مثل ما يكون في الجراب او غير ذلك، وإنما كان هذا من بيوع اهل الجاهلية، فنهى عن ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْمُنَابَذَةِ، وَالْمُلَامَسَةِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنْ يَقُولَ: إِذَا نَبَذْتُ إِلَيْكَ الشَّيْءَ فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ بَيْنِي وَبَيْنَكَ، وَالْمُلَامَسَةُ أَنْ يَقُولَ: إِذَا لَمَسْتَ الشَّيْءَ فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ، وَإِنْ كَانَ لَا يَرَى مِنْهُ شَيْئًا مِثْلَ مَا يَكُونُ فِي الْجِرَابِ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ، وَإِنَّمَا كَانَ هَذَا مِنْ بُيُوعِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع منابذہ اور بیع ملامسہ سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوسعید اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے: جب میں تمہاری طرف یہ چیز پھینک دوں تو میرے اور تمہارے درمیان بیع واجب ہو جائے گی۔ (یہ منابذہ کی صورت ہے) اور ملامسہ یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے: جب میں یہ چیز چھولوں تو بیع واجب ہو جائے گی اگرچہ وہ سامان کو بالکل نہ دیکھ رہا ہو۔ مثلاً تھیلے وغیرہ میں ہو۔ یہ دونوں جاہلیت کی مروج بیعوں میں سے تھیں لہٰذا آپ نے اس سے منع فرمایا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 10 (368)، ومواقیت الصلاة 30 (584)، والبیوع 63 (2146)، واللباس 20 (5819)، و21 (5821)، صحیح مسلم/البیوع 1 (1511)، سنن النسائی/البیوع 23 (4513)، و26 (4517 و 4521)، سنن ابن ماجہ/التجارات 12 (2169)، (تحفة الأشراف: 13661)، وط/البیوع 35 (76)، واللباس 8 (17)، و مسند احمد (2/379، 419، 464)، 476، 480)، 491)، 496، 521)، 529) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ اس میں دھوکہ ہے، «مبیع» (سودا) مجہول ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع
70. باب مَا جَاءَ فِي السَّلَفِ فِي الطَّعَامِ وَالثَّمَرِ
70. باب: غلے اور کھجور میں بیع سلف (پیشگی قیمت ادا کرنے) کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1311
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا سفيان، عن ابن ابي نجيح، عن عبد الله بن كثير، عن ابي المنهال، عن ابن عباس، قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، وهم يسلفون في الثمر، فقال: " من اسلف، فليسلف في كيل معلوم، ووزن معلوم إلى اجل معلوم ". قال: وفي الباب، عن ابن ابي اوفى، وعبد الرحمن بن ابزى. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، اجازوا السلف في الطعام، والثياب وغير ذلك، مما يعرف حده، وصفته، واختلفوا في السلم في الحيوان، فراى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، السلم في الحيوان جائزا، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وكره بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، السلم في الحيوان، وهو قول: سفيان، واهل الكوفة، ابو المنهال اسمه عبد الرحمن بن مطعم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، وَهُمْ يُسْلِفُونَ فِي الثَّمَرِ، فَقَالَ: " مَنْ أَسْلَفَ، فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ، وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَجَازُوا السَّلَفَ فِي الطَّعَامِ، وَالثِّيَابِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، مِمَّا يُعْرَفُ حَدُّهُ، وَصِفَتُهُ، وَاخْتَلَفُوا فِي السَّلَمِ فِي الْحَيَوَانِ، فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، السَّلَمَ فِي الْحَيَوَانِ جَائِزًا، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، السَّلَمَ فِي الْحَيَوَانِ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، أَبُو الْمِنْهَالِ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُطْعِمٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور اہل مدینہ پھلوں میں سلف کیا کرتے تھے یعنی قیمت پہلے ادا کر دیتے تھے، آپ نے فرمایا: جو سلف کرے وہ متعین ناپ تول اور متعین مدت میں سلف کرے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن ابی اوفی اور عبدالرحمٰن بن ابزی رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ غلہ، کپڑا، اور جن چیزوں کی حد اور صفت معلوم ہو اس کی خریداری کے لیے پیشگی رقم دینے کو جائز کہتے ہیں،
۴- جانور خریدنے کے لیے پیشگی رقم دینے میں اختلاف ہے،
۵- بعض اہل علم جانور خریدنے کے لیے پیشگی رقم دینے کو جائز کہتے ہیں۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے جانور خریدنے کے لیے پیشگی دینے کو مکروہ سمجھا ہے۔ سفیان اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/السلم 1 (2239)، و2 (2240)، و 7 (2253)، صحیح مسلم/المساقاة 25 (1604)، سنن ابی داود/ البیوع 57 (3463)، سنن النسائی/البیوع 63 (4620)، سنن ابن ماجہ/التجارات 59 (4480)، (تحفة الأشراف: 5820)، و مسند احمد (1/217، 222، 282، 358) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2280)
71. باب مَا جَاءَ فِي أَرْضِ الْمُشْتَرَكِ يُرِيدُ بَعْضُهُمْ بَيْعَ نَصِيبِهِ
71. باب: مشترکہ زمین جس کا حصہ دار اپنا حصہ بیچنا چاہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1312
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم، حدثنا عيسى بن يونس، عن سعيد، عن قتادة، عن سليمان اليشكري، عن جابر بن عبد الله، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من كان له شريك في حائط، فلا يبيع نصيبه من ذلك، حتى يعرضه على شريكه ". قال ابو عيسى: هذا حديث إسناده ليس بمتصل، سمعت محمدا يقول: سليمان اليشكري، يقال: إنه مات في حياة جابر بن عبد الله، قال: ولم يسمع منه قتادة، ولا ابو بشر، قال محمد: ولا نعرف لاحد منهم سماعا من سليمان اليشكري، إلا ان يكون عمرو بن دينار، فلعله سمع منه في حياة جابر بن عبد الله، قال: وإنما يحدث قتادة، عن صحيفة سليمان اليشكري، وكان له كتاب عن جابر بن عبد الله، حدثنا ابو بكر العطار عبد القدوس قال: قال علي بن المديني، قال يحيى بن سعيد: قال سليمان التيمي: ذهبوا بصحيفة جابر بن عبد الله إلى الحسن البصري فاخذها، او قال: فرواها، وذهبوا بها إلى قتادة، فرواها، واتوني بها، فلم اروها، يقول: رددتها.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ كَانَ لَهُ شَرِيكٌ فِي حَائِطٍ، فَلَا يَبِيعُ نَصِيبَهُ مِنْ ذَلِكَ، حَتَّى يَعْرِضَهُ عَلَى شَرِيكِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ، سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: سُلَيْمَانُ الْيَشْكُرِيُّ، يُقَالُ: إِنَّهُ مَاتَ فِي حَيَاةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ قَتَادَةُ، وَلَا أَبُو بِشْرٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَا نَعْرِفُ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ سَمَاعًا مِنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، فَلَعَلَّهُ سَمِعَ مِنْهُ فِي حَيَاةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: وَإِنَّمَا يُحَدِّثُ قَتَادَةُ، عَنْ صَحِيفَةِ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، وَكَانَ لَهُ كِتَابٌ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ عَبْدُ الْقُدُّوسِ قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: قَالَ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ: ذَهَبُوا بِصَحِيفَةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ فَأَخَذَهَا، أَوْ قَالَ: فَرَوَاهَا، وَذَهَبُوا بِهَا إِلَى قَتَادَةَ، فَرَوَاهَا، وَأَتَوْنِي بِهَا، فَلَمْ أَرْوِهَا، يَقُولُ: رَدَدْتُهَا.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کے باغ میں کوئی ساجھی دار ہو تو وہ اپنا حصہ اس وقت تک نہ بیچے جب تک کہ اسے اپنے ساجھی دار پر پیش نہ کر لے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: سلیمان یشکری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جابر بن عبداللہ کی زندگی ہی میں مر گئے تھے، ان سے قتادہ اور ابوبشر کا سماع نہیں ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: میں نہیں جانتا ہوں کہ ان میں سے کسی نے سلیمان یشکری سے کچھ سنا ہو سوائے عمرو بن دینار کے، شاید انہوں نے جابر بن عبداللہ کی زندگی ہی میں سلیمان یشکری سے حدیث سنی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ قتادہ، سلیمان یشکری کی کتاب سے حدیث روایت کرتے تھے، سلیمان کے پاس ایک کتاب تھی جس میں جابر بن عبداللہ سے مروی احادیث لکھی تھیں،
۳- سلیمان تمیمی کہتے ہیں: لوگ جابر بن عبداللہ کی کتاب حسن بصری کے پاس لے گئے تو انہوں نے اسے لیا یا اس کی روایت کی۔ اور لوگ اسے قتادہ کے پاس لے گئے تو انہوں نے بھی اس کی روایت کی اور میرے پاس لے کر آئے تو میں نے اس کی روایت نہیں کی میں نے اسے رد کر دیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ مؤلف، وانظر مسند احمد (3/357) (صحیح لغیرہ) و أخرجہ کل من: صحیح مسلم/المساقاة 28 (البیوع 49)، (1608)، سنن ابی داود/ البیوع 75 (3513)، سنن النسائی/البیوع 80 (4650)، و 107 (4704، 4705)، (تحفة الأشراف: 2272)، و مسند احمد (3/312، 316، 397)، وسنن الدارمی/البیوع 83 (2670) معناہ في سیاق حدیث ”الشفعة“»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (5 / 373)، أحاديث البيوع

Previous    7    8    9    10    11    12    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.