الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
The Book of Divorce
8. بَابُ: {لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ} :
8. باب: اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا ”اے پیغمبر! جو چیز اللہ نے تیرے لیے حلال کی ہے اسے تو اپنے اوپر کیوں حرام کرتا ہے“۔
(8) Chapter. “O Prophet! Why do you forbid (for yourself) that which Allah has allowed to you…?” (V.66:1)
حدیث نمبر: 5267
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني الحسن بن محمد بن صباح، حدثنا حجاج، عن ابن جريج، قال: زعم عطاء انه سمع عبيد بن عمير، يقول: سمعت عائشة رضي الله عنها،" ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يمكث عند زينب بنت جحش ويشرب عندها عسلا، فتواصيت انا وحفصة ان ايتنا دخل عليها النبي صلى الله عليه وسلم فلتقل إني اجد منك ريح مغافير اكلت مغافير، فدخل على إحداهما، فقالت له ذلك، فقال: لا، بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن اعود له، فنزلت يايها النبي لم تحرم ما احل الله لك إلى إن تتوبا إلى الله سورة التحريم آية 1 - 4 لعائشة وحفصة، وإذ اسر النبي إلى بعض ازواجه سورة التحريم آية 3 لقوله: بل شربت عسلا".(مرفوع) حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: زَعَمَ عَطَاءٌ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلًا، فَتَوَاصَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ أَنَّ أَيَّتَنَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْتَقُلْ إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا، فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: لَا، بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَلَنْ أَعُودَ لَهُ، فَنَزَلَتْ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ إِلَى إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ سورة التحريم آية 1 - 4 لِعَائِشَةَ وَحَفْصَةَ، وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ سورة التحريم آية 3 لِقَوْلِهِ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا".
مجھ سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد اعور نے، ان سے ابن جریج نے کہ عطاء بن ابی رباح نے یقین کے ساتھ کہا کہ انہوں نے عبید بن عمیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں ٹھہرتے تھے اور ان کے یہاں شہد پیا کرتے تھے۔ چنانچہ میں نے اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے مل کر صلاح کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے جس کے یہاں بھی تشریف لائیں تو آپ سے یہ کہا جائے کہ آپ کے منہ سے مغافیر (ایک خاص قسم کے بدبودار گوند) کی مہک آتی ہے، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد ہم میں سے ایک کے یہاں تشریف لائے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات کہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں نے زینب بنت جحش کے ہاں شہد پیا ہے، اب دوبارہ نہیں پیوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك‏» کہ اے نبی! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔ سے «‏‏‏‏إن تتوبا إلى الله‏» تک۔ یہ عائشہ رضی اللہ عنہما اور حفصہ رضی اللہ عنہما کی طرف خطاب ہے «وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه‏» ۔ حدیث سے آپ کا یہی فرمانا مراد ہے کہ میں نے مغافیر نہیں کھایا بلکہ شہد پیا ہے۔

Narrated `Ubaid bin `Umar: I heard `Aisha saying, "The Prophet used to stay for a long while with Zanab bint Jahsh and drink honey at her house. So Hafsa and I decided that if the Prophet came to anyone of us, she should say him, "I detect the smell of Maghafir (a nasty smelling gum) in you. Have you eaten Maghafir?' " So the Prophet visited one of them and she said to him similarly. The Prophet said, "Never mind, I have taken some honey at the house of Zainab bint Jahsh, but I shall never drink of it anymore." So there was revealed: 'O Prophet ! Why do you ban (for you) that which Allah has made lawful for you . . . If you two (wives of Prophet) turn in repentance to Allah,' (66.1-4) addressing Aisha and Hafsa. 'When the Prophet disclosed a matter in confidence to some of his wives.' (66.3) namely his saying: But I have taken some honey."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 192


   صحيح البخاري4912عائشة بنت عبد اللهأشرب عسلا عند زينب بنت جحش فلن أعود له وقد حلفت لا تخبري بذلك أحدا
   صحيح البخاري6691عائشة بنت عبد اللهشربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك
   صحيح البخاري5267عائشة بنت عبد اللهيمكث عند زينب بنت جحش ويشرب عندها عسلا فتواصيت أنا وحفصة أن أيتنا دخل عليها النبي فلتقل إني أجد منك ريح مغافير أكلت مغافير فدخل على إحداهما فقالت له ذلك فقال لا بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له
   صحيح مسلم3678عائشة بنت عبد اللهشربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزل لم تحرم ما أحل الله لك إلى قوله إن تتوبا
   سنن أبي داود3714عائشة بنت عبد اللهيمكث عند زينب بنت جحش فيشرب عندها عسلا فتواصيت أنا وحفصة أيتنا ما دخل عليها النبي فلتقل إني أجد منك ريح مغافير فدخل على إحداهن فقالت له ذلك فقال بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت لم تحرم ما أحل الله لك تبتغي
   سنن النسائى الصغرى3410عائشة بنت عبد اللهشربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك
   سنن النسائى الصغرى3826عائشة بنت عبد اللهشربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك إلى إن تتوبا إلى الله
   سنن النسائى الصغرى3450عائشة بنت عبد اللهيمكث عند زينب ويشرب عندها عسلا فتواصيت وحفصة أيتنا ما دخل عليها النبي فلتقل إني أجد منك ريح مغافير فدخل على إحديهما فقالت ذلك له فقال بل شربت عسلا عند زينب وقال لن أعود له فنزل يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5267  
5267. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ سیدہ زینب بنت حجش‬ ؓ ک‬ے پاس ٹھہرتے اور ان کے ہاں شہد نوش کرتے تھے میں نے اور حفصہ‬ ؓ ن‬ے باہم مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی ﷺ تشریف لائیں وہ آپ سے کہے کہ میں آپ سے مغافیر کی بو پاتی ہوں، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ چنانچہ آپ ﷺ دونوں میں سے ہر ایک کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ سے یہی بات کہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی بات نہیں، میں نے زینب بنت حجش کے ہاں شہد پیا ہے، اب دوبارہ نہیں پیوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اے نبی! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔۔۔ اگر تم دونوں توبہ کرلو۔ یہ خطاب سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬و ہے۔ اور جب نبی نے کسی بیوی سے راز کی بات کی۔ تو اس سے مراد آپ کا یہ کہنا ہے: میں نے (مغافر نہیں بلکہ) شہد پیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5267]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث لا کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کا رد کیا ہے جوکہتے ہیں عورت کے حرام کرنے میں کچھ لازم نہیں آتا کیونکہ انہوں نے اسی آیت سے دلیل لی ہے تو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کردیا کہ یہ آیت شہد کے حرام کر لینے میں اتری ہے نہ کہ عورت کے حرام کر لینے میں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بڑی نفرت تھی کہ آپ کے بدن یا کپڑے میں سے کوئی بد بو آئے۔
آپ انتہائی نفاست پسند تھے۔
ہمیشہ خوشبو میں معطر رہتے تھے۔
حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما نے یہ صلاح اس لیے کی کہ آپ شہد پینا چھوڑ کر اس دن سے زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرنا چھوڑ دیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5267   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5267  
5267. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ سیدہ زینب بنت حجش‬ ؓ ک‬ے پاس ٹھہرتے اور ان کے ہاں شہد نوش کرتے تھے میں نے اور حفصہ‬ ؓ ن‬ے باہم مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی ﷺ تشریف لائیں وہ آپ سے کہے کہ میں آپ سے مغافیر کی بو پاتی ہوں، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ چنانچہ آپ ﷺ دونوں میں سے ہر ایک کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ سے یہی بات کہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی بات نہیں، میں نے زینب بنت حجش کے ہاں شہد پیا ہے، اب دوبارہ نہیں پیوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اے نبی! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔۔۔ اگر تم دونوں توبہ کرلو۔ یہ خطاب سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬و ہے۔ اور جب نبی نے کسی بیوی سے راز کی بات کی۔ تو اس سے مراد آپ کا یہ کہنا ہے: میں نے (مغافر نہیں بلکہ) شہد پیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5267]
حدیث حاشیہ:
(1)
جو حضرات کہتے ہیں کہ بیوی کو خود پر حرام قرار دینے سے کچھ لازم نہیں آتا انھوں نے اسی آیت سے دلیل لی ہے۔
لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی تردید کی ہے کہ یہ آیت شہد کے حرام کرنے پر نازل ہوئی تھی،عورت کے حرام کرنے پر نہیں۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طبعاً بہت نفاست پسند تھے۔
آپ کو بہت نفرت تھی کہ آپ کے بدن یا کپڑوں سے کسی قسم کی بو آئے،اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات خوشبو سے معطر رہتے تھے۔
شہد کو حرام کردینے کی بھی یہی وجہ تھی۔
چونکہ آپ نے قسم بھی اٹھائی تھی جیسا کہ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے،(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4912)
اس لیے آپ کو قسم کا کفارہ دینے کے متعلق کہا گیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف یہ تھا کہ بیوی کو حرام کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی بلکہ قسم کا کفارہ دینا ہوگا جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا:
میں نے اپنی بیوی کو اپنے آپ پر حرام کرلیا ہے تو انھوں نے فرمایا:
تو غلط کہتا ہے۔
وہ تجھ پر حرام نہیں ہوئی،پھر آپ نے سورۂ تحریم کی پہلی آیت پڑھی اور فرمایا کہ تجھے ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔
(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3449)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5267   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.