صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
The Book of The Stories of The Prophets
25. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلاَثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً وَقَالَ مُوسَى لأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي} إِلَى قَوْلِهِ: {وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ} :
25. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کا وعدہ کیا پھر اس میں دس راتوں کا اور اضافہ کر دیا اور اس طرح ان کے رب کی میعاد چالیس راتیں پوری کر دیں۔“ اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری غیر موجودگی میں میری قوم میں میرے خلیفہ رہو۔ اور ان کے ساتھ نرم رویہ رکھنا اور مفسدوں کے راستے پر مت چلنا۔ پھر جب موسیٰ ہمارے ٹھہرائے ہوئے وقت پر (ایک چلہ کے) بعد آئے اور ان کے رب نے ان سے گفتگو کی تو انہوں نے عرض کیا: میرے پروردگار! مجھے اپنا دیدار کرا کہ میں تجھ کو دیکھ لوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وأنا أول المؤمنين‏» تک۔
(25) Chapter. The Statement of Allah: “And We appointed for Musa (Moses) thirty nights... (up to)... And I am the first of the believers’ (V.7:142,143)
حدیث نمبر: 3399
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني عبد الله بن محمد الجعفي، حدثنا عبد الرزاق اخبرنا معمر، عن همام، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لولا بنو إسرائيل لم يخنز اللحم، ولولا حواء لم تخن انثى زوجها الدهر".(مرفوع) حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْلَا بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْنَزْ اللَّحْمُ، وَلَوْلَا حَوَّاءُ لَمْ تَخُنْ أُنْثَى زَوْجَهَا الدَّهْرَ".
مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے (سلویٰ کا گوشت جمع کر کے نہ رکھتے) تو گوشت کبھی نہ سڑتا۔ اور اگر حوا نہ ہوتیں (یعنی آدم علیہ السلام سے دغا نہ کرتیں) تو کوئی عورت اپنے شوہر کی خیانت کبھی نہ کرتی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Were it not for Bani Israel, meat would not decay; and were it not for Eve, no woman would ever betray her husband."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 611


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري3399عبد الرحمن بن صخرلولا بنو إسرائيل لم يخنز اللحم لولا حواء لم تخن أنثى زوجها الدهر
   صحيح البخاري3330عبد الرحمن بن صخرلولا بنو إسرائيل لم يخنز اللحم لولا حواء لم تخن أنثى زوجها
   صحيح مسلم3647عبد الرحمن بن صخرلولا حواء لم تخن أنثى زوجها الدهر
   صحيح مسلم3648عبد الرحمن بن صخرلولا بنو إسرائيل لم يخبث الطعام ولم يخنز اللحم لولا حواء لم تخن أنثى زوجها الدهر
   صحيفة همام بن منبه58عبد الرحمن بن صخرلولا بنو إسرائيل لم يخبث الطعام ولم يخنز اللحم لولا حواء لم تخن أنثى زوجها الدهر

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3399 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3399  
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ گوشت جمع کرنے کی عادت بنی اسرائیل میں پید ا ہوئی۔
پس گوشت سڑنا شروع ہوگیا۔
اگر یہ عادت اختیار نہ کی جاتی اور گوشت کو بروقت کھالیا جاتا تو اس کے سڑنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔
اسی طرح حضرت حواءحضرت آدم ؑ سے دغا نہ کرتیں تو ان کی بیٹیوں میں بھی یہ خوپیدانہ ہوتی۔
اللہ پاک منکرین حدیث کو سمجھ دے کہ فہم حدیث کے لئے وہ عقل سلیم سے کام لیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3399   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3399  
تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں دو مقامات پر ہے:
[3399 من طريق عبدالرزاق]
[3330، من طريق عبدالله بن المبارك كلاهما عن معمر عن همام عن أبي هريره به]
صحیح بخاری کے علاوہ یہ روایت درج ذیل کتابوں میں موجود ہے:
صحيح مسلم [63؍1468 وترقيم دارالسلام: 3648]
صحيح ابن حبان [الاحسان: 4157، نسخة محققه: 4169]
شرح السنة للبغوي [9؍164 ح2335 وقال: هذا حديث متفق على صحته]
المستخرج على صحيح مسلم لابي نعيم الاصبهاني [4؍143 ح3450]
امام بخاری سے پہلے اسے درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے:
ہمام بن منبہ [الصحيفة: 58]
أحمد بن حنبل [المسند 2؍315 ح8155]
ہمام بن منبہ بالاجماع ثقہ ہیں، لہٰذا یہ روایت بلحاظ اصول حدیث بالکل صحیح ہے۔
اس کے دوسرے شواہد کے لئے دیکھئیے:
مسند اسحاق بن راہویہ [117]
ومسند أحمد [2؍304]
وحلیۃ الاولیاء [8؍389]
ومستدرک الحاکم [4؍175]
منکرین حدیث نے اس حدیث کو رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب کہ تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ گوشت سڑنے کی وجہ قوم بنی اسرائیل نہیں بلکہ جراثیم ہیں۔۔۔
↰ عرض ہے کہ کیا ان جراثیم کی وجہ سے خود بخود گوشت خراب ہو جاتا ہے یا اس کے خراب ہونے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے اور یہ جراثیم اسی کے پیدا کردہ ہیں؟
نام نہاد تجربے کی وجہ سے صحیح حدیث کا رد کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رسول کا کام صرف قرآن پہنچانا تھا، اس نے پہنچا دیا۔ اب قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے منکرین حدیث کے نزدیک رسول کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔!!
منکرین حدیث سے درخواست ہے کہ اس صحیح حدیث کو رد کرنے کے لئے قرآن مجید کی وہ آیت پیش کریں جس میں یہ لکھا ہوا ہو کہ بنی اسرائیل کے وجود سے پہلے بھی دنیا میں گوشت گل سڑ جاتا تھا۔ اگر قرآن سے دلیل پیش نہ کر سکیں تو پھر ایسی مشین ایجاد کریں جس کے ذریعے وہ لوگوں کو زمانہ بنی اسرائیل سے پہلے والے دور میں لے جا کر دکھا دیں کہ دیکھو یہ گوشت گل سڑ رہا ہے۔ اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو پھر سوچ لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان رد کرنے والوں کا کیا انجام ہو گا؟
تنبیہ: بعض علماء نے اس حدیث کی دیگر تشریحات بھی لکھی ہیں، مثلاً دیکھئے: [مشكلات الأحاديث النبوية وبيانها، ص11]
لیکن ظاہر الفاظ کتاب و سنت پر ایمان لانے میں ہی نجات ہے۔ اِلا یہ کہ کوئی صحیح دلیل قرینہ صارفہ بن کر ظاہر کو مجاز کی طرف پھیر دے۔ «والحمدلله»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 22   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3399  
حدیث حاشیہ:
گوشت ذخیرہ کرنے کی عادت بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی۔
اس وقت گوشت خراب ہوگیا۔
اگر وہ یہ عادت اختیار نہ کرتے تو اس کے خراب ہونے کی نوبت ہی نہ آتی۔
اگرچہ اس میں خراب ہونے کی صلاحیت پہلے بھی موجود تھی لیکن کبھی خراب نہیں ہواتھا۔
اسی طرح اگرحضرت حواء اپنے خاوند حضرت آدم ؑ سے خیانت نہ کرتیں تو ان کی بیٹیوں میں یہ عادت پیدا نہ ہوتی۔
یہاں خیانت کا مطلب بدکاری نہیں بلکہ اس سے مراد انھیں پھل کھانے پر اکسانا ہے۔
منکرین حدیث فہم حدیث کے لیے عقل سلیم سے کام نہیں لیتے۔
صرف اعتراض برائے اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ اس حدیث کے متعلق انھوں نے خبث باطن کا اظہار کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3399   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3330  
´حوا علیہا السلام کا آدم علیہ السلام کو درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کرنا`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ يَعْنِي:" لَوْلَا بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْنَزْ اللَّحْمُ، وَلَوْلَا حَوَّاءُ لَمْ تَخُنَّ أُنْثَى زَوْجَهَا . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا (عبدالرزاق کی) روایت کی طرح کہ اگر قوم بنی اسرائیل نہ ہوتی تو گوشت نہ سڑا کرتا اور اگر حواء نہ ہوتیں تو عورت اپنے شوہر سے دغا نہ کرتی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3330]
فوائد و مسائل:
یہ روایت درج ذیل کتابوں میں بھی ہے:
[صحيح مسلم:1468، دارالسلام:3648]
[مسند احمد:315/2،ح8170]
[صحيفه همام بن منبه:57]
[صحيح ابن حبان:الاحسان:4157، 4169]
[شرح السنة للبغوي:164/9، ح2325، وقال:ھذا حدیث متفق علٰی صحتہ]
اس حدیث میں خیانت سے مراد یہ ہے کہ حوا علیہا السلام نے آدم علیہ السلام کو اس درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کیا جس درخت سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا تھا۔ یعنی اگر اس درخت کا پھل نہ کھایا جاتا تو آدم علیہ السلام جنت سے نہ اتارے جاتے اور نہ دنیا کی یہ خیانتیں ظہور پذیر ہوتیں۔ دیکھئے: [مشکلات الاحادیث النبویہ اللقصیمی:ص12،11]
اس حدیث میں خیانت سے مراد فواحش کا ارتکاب نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ حواء نے ابلیس کے وسوسے سے سہواً قبول کر کے آدم علیہ السلام کے سامنے پیش کر دیا پھر وہ کام ہو گیا جس کی وجہ سے جنت سے نکلنا پڑا۔ دیکھئے: [فتح الباری:368/6 ح3330]
امام بخاری رحمہ اللہ نے حوا علیہا السلام کو نہ خائن کہا اور نہ بدنام بلکہ ایک صحیح حدیث بیان کر دی جو ان کی پیدائش سے پہلے دنیا میں موجود تھی۔
   توفيق الباري في تطبيق القرآن و صحيح بخاري، حدیث/صفحہ نمبر: 32   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3330  
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) یہ فرمانا اے رسول! وہ وقت یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک (قوم کو) جانشین بنانے والا ہوں`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ يَعْنِي:" لَوْلَا بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْنَزْ اللَّحْمُ، وَلَوْلَا حَوَّاءُ لَمْ تَخُنَّ أُنْثَى زَوْجَهَا . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا (عبدالرزاق کی) روایت کی طرح کہ اگر قوم بنی اسرائیل نہ ہوتی تو گوشت نہ سڑا کرتا اور اگر حواء نہ ہوتیں تو عورت اپنے شوہر سے دغا نہ کرتی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3330]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3330 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً} � باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت بظاہر بہت مشکل ہے، کیوں کہ باب میں حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی تخلیق کا ذکر ہے، جبکہ حدیث شریف میں گوشت کے سکڑنے اور عورت کے دغا کرنے کا ذکر ہے۔
اگر باریک بینی سے غور کیا جائے تو یہاں پر باب سے حدیث کی مناسبت ظاہر ہو سکتی ہے، حدیث کو دو حصوں میں تقسیم کیجئے، پہلا حصہ اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے، اس حصے کا ترجمۃ الباب سے مناسبت یہ ہے کہ بنی اسرائیل بھی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، یعنی حدیث کے اس جزء میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولادوں کا ذکر ہے، اور دوسرا جو جزء ہے اس کا تعلق ترجمۃ الباب سے یہ ہے کہ اگر حضرت حواء علیہا السلام نہ ہوتیں، دراصل حضرت حواء حضرت آدم علیہ السلام کی مضاف الیہ ہیں۔
علامہ عبدالحق الھاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة للترجمة يمكن أن تكون من حيث أن خلق حواء مضاف إلى خلق آدم عليه السلام.» (1)
ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت کچھ یوں ہے کہ ممکن ہے کہ حضرت حواء مضاف ہوں حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت کی طرف۔
یعنی جس طرح حضرت آدم علیہ السلام کی بقیہ ساری اولادیں ہیں، بعین اسی طرح امی حواء علیہا السلام کی بھی ساری اولادیں ہی ہیں۔
لہذا یہاں سے حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت کا ہونا ثابت ہوتا ہے، جو واضح ترجمۃ الباب سے مناسبت رکھتا ہے۔
ایک اشکال اور اس کا جواب:
مذکورہ حدیث پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ کیا تمام خواتین کی دغے کی ذمہ دار حضرت حواء علیہا السلام ہیں؟ حدیث کے متن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنات آدم علیہ السلام میں دغا حضرت حواء علیہا السلام کی وجہ سے پیدا ہوا۔
جواب:
اس اشکال کا جواب کئی طریقوں سے دیا جا سکتا ہے، حقیقتا تمام خواتین کی ماں حضرت حواء علیہا السلام ہیں، یعنی خلقت اور عادات و اطوار کے اعتبار سے خواتین اپنی ماں پر گئی ہیں۔
علامہ القصیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علامہ محمد بھجۃ البیطار اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:
«أن طبيعة النساء واحدة، و استعدادهن واحد فى الخلقة والقابلية، لا فرق بين حواء وغيرها من اللائي جئن بعدها.» (2)
یعنی تمام خواتین کی طبیعت، استعداد، خلقت اور قابلیت میں یکساں ہیں، نہ حضرت حواء علیہا السلام میں ان اشیاء میں فرق ہے اور نہ ہی بعد میں آنے والی دیگر خواتین میں۔
علامہ صاحب کے اس قول سے خیانت سے کیا مراد ہے، واضح ہوتا ہے، لہذا خیانت سے مراد ہرگز وہ خیانت نہیں ہے کہ عورت فحش کام کرے تو اس کام کی ابتداء حضرت حواء علیہا السلام سے ہوئی، اس اعتراض کو دور کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«فيه اشارة إلى ما وقع من حواء فى تذيينها لآدم عليه السلام الأكل من الشجرة حتى وقع فى ذالك، فمعنى خيانتها انها قبلت ما زين لها إبليس حتى زينته لآدم عليه السلام . . . . . وليس المراد بالخيانة هنا ارتكاب الفواحش و حاشا كلا، ولكن لما مالت إلى شهوة النفس من أكل الشجرة و حسنت ذالك لآدم عليه السلام عد ذالك خيانة له، و أما من جاء بعدها من النساء فخيانة كل واحدة منهن بحسبها.» (1)
اس حدیث میں اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت حواء علیہا السلام نے درخت کے کھانے کو حضرت آدم علیہ السلام کے لیے مزین کیا، لہذا حضرت آدم علیہ السلام نے (ان کے کہنے پر) درخت میں سے کھا لیا، چنانچہ حدیث میں جو خیانت کے الفاظ ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ درخت کے کھانے کے عمل کو ابلیس نے حضرت حواء علیہا السلام پر مزین کیا، یہاں تک اس فعل کو حضرت حواء علیہا السلام نے حضرت آدم علیہ السلام کے لیے مزین کیا، (یہاں سے مراد ہے خیانت کی) . . . . . اور خیانت سے مراد ہرگز شہوت نہیں ہے، حضرت حواء علیہا السلام کا نفس راغب ہوا اور انہیں یہ اچھا لگا اور اس کی رغبت حضرت آدم علیہ السلام کو بھی دی اور وہ بھی اس طرف پیش قدم ہو گئے، اور عورتیں حضرت حواء علیہا السلام کے بعد آئیں، وہ بھی اس خیانت میں اپنے اپنے حساب سے شریک ہوئیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اقتباسات پر غور کرنے سے یہ جواب ملتا ہے کہ حدیث میں جس خیانت کا ذکر ہے، اس سے مراد فطری میلان ہے، یعنی اولاد اپنے والدین کے طور و طریقے پر ہوتی ہے، اسی طرح حضرت حواء علیہا السلام چونکہ تمام خواتین کی ماں ہیں، اسی لیے تمام خواتین حضرت حواء علیہا السلام کی مشابہ ہیں عادتا اور فطرتا، یہی مراد ہے حدیث کی۔
«قلت:» - یہ عاجز اور حقیر بندہ کہتا ہے کہ اس اشکال کا آسان ترین جواب یہ بھی ہے کہ اگر حدیث کے متن پر غور کیا جائے تو اشکال کا جواب حدیث کے متن ہی میں موجود ہے، غور کیجئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر حواء نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے شوہر سے دغا نہ کرتی۔
یعنی جب حضرت حواء علیہا السلام ہی نہ ہوتیں تو عورتیں کہاں سے پیدا ہوتیں، کیوں کہ تمام عورتوں کی والدہ حضرت حواء علیہا السلام ہیں، جب وہ ہی نہ ہوتیں تو کوئی اور خاتون کیسے ہوئی؟ لہذا حدیث سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ عورتوں کو خیانت کا ارتکاب کرنا امی حواء علیہا السلام نے سکھایا ہے، بلکہ اس سے مراد یہی ہے کہ اگر حضرت حواء علیہا السلام پیدا نہ ہوتیں تو عورتیں اپنے شوہر سے دغا نہ کرتیں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 22   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3647  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر حوّا علیہا السلام (خیانت نہ کرتی) تو کوئی عورت اپنے شوہر سے کبھی خیانت نہ کرتی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3647]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا،
شیطان نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے حوّا علیہا السلام کو اپنے پیچھے لگا لیا۔
اور پھر انہوں نے آدم علیہ السلام کو بھی اکسایا اور درخت کا پھل کھانے کی ترغیب دلائی،
ان کا شیطان کے وسوسے کو قبول کر کے آدم علیہ السلام کو اس کام کے لیے آمادہ کرنا ہی ان کی خیانت تھی،
قرآن مجید میں ہے:
﴿فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ﴾ (پھر شیطان نے ان کے لیے وسوسہ ڈالا)
﴿وَقَاسَمَهُمَا﴾ (اور دونوں سے بار بار قسم اٹھا کر کہا)
لیکن شارحین حدیث امام نووی رحمۃ اللہ علیہ۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے یہی لکھا ہے کہ شیطان کے وسوسے میں پہلے حوّا علیہا السلام آئیں اگرچہ کوشش تو دونوں کو بہلانے پھسلانے کی تھی،
جدید شارحین نے یہی نقل کیا ہے۔
(دیکھئے منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم ج2 ص 427 تکملۃ فتح الملہم ج1۔
126)

اور تمام عورتیں چونکہ حوّا علیہا السلام کی اولاد ہیں،
اس لیے ان کے اندر بھی یہ کمزوری موجود ہے کہ وہ جلد راہ راست سے بہک جاتی ہیں اور اپنے خاوند کو بھی اپنے پیچھے لگانے کی کوشش کرتی ہیں۔
اور اس کے لیے نقصان وخرابی کا باعث بنتی ہیں۔
اس لیے شوہر کو غضبناک ہونے کی بجائے حزم واحتیاط اختیار کرتے ہوئے ان کی خواہشات پر قابو پانا چاہیے یہ ایسے ہی جیسا کہ دوسری حدیث ہے۔
آدم علیہ السلام نے (بھول کر)
انکار کیا،
اور اب انکار کی عادت اس کی اولاد میں بھی موجود ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3647   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3648  
امام صاحب صحیفہ ہمام بن منبہ سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر بنو اسرائیل نہ ہوتے تو کھانا خراب نہ ہوتا اور گوشت بد بودار نہ ہوتا، اور اگر حوّا علیہا السلام نہ ہوتیں تو کوئی عورت کبھی اپنے خاوند سے خیانت نہ کرتی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3648]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بنو اسرائیل سے پہلے لوگوں کے اندر کھانے کا ذخیرہ کرنا گوشت کو اٹھارکھنے کا رواج نہ تھا۔
اس لیے کھانا خراب نہیں ہوتا تھا اور گوشت کے اندر بد بو پیدا نہیں ہوتی تھی لیکن بنواسرائیل نے کھانا رکھنا شروع کر دیا اور گوشت کو بھی رکھنے لگے اور ان سے یہ عادت بعد والی قوم میں سرایت کر گئی اور اس کا چلن عام ہو گیا۔
اس لیے کھانا خراب ہو جاتا ہے اور گوشت میں بد بو پیدا ہوجاتی ہے۔
لیکن اب نئی ایجادات کے نتیجہ میں امیر لوگ اس سے بچنے لگے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3648   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3330  
3330. حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے اس طرح بیان کرتے ہیں، یعنی: اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو کبھی گوشت خراب ہوکر بدبودار ہوتا اوراگر حواء نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے خاوند سے خیانت نہ کرتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3330]
حدیث حاشیہ:
بنی اسرائیل کو من و سلویٰ بطور انعام الٰہی ملا کرتا تھا اور انہیں اس کو جمع کرنے کی ممانعت کردی گئی تھی، مگر انہوں نے جمع کرنا شروع کردیا، سزا کے طور پر سلویٰ کا گوشت سڑا دیاگیا، اسی طرف حدیث میں اشارہ ہے۔
اسی طرح سب سے پہلے حضرت حوا ؑ نے شیطان کی سازش سے حضرت آدم ؑ کو جنت کے درخت کے کھانے کی ترغیب دلائی تھی۔
یہی عادت ان کی اولاد میں بھی پیدا ہوگئی۔
خیانت سے یہی مراد ہے۔
اب عورتوں میں عام بے وفائی اسی فطرت کا نتیجہ ہے۔
وہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے، جیسا کہ درج ذیل حدیث میں مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3330   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3330  
3330. حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے اس طرح بیان کرتے ہیں، یعنی: اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو کبھی گوشت خراب ہوکر بدبودار ہوتا اوراگر حواء نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے خاوند سے خیانت نہ کرتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3330]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ گوشت میں خراب ہونے کی خاصیت بنی اسرائیل کے بعد پیدا ہوئی۔
بلکہ خاصیت تو پہلے بھی تھی لیکن اس کا ظہور بنی اسرائیل کی اس حرکت سے ہوا کہ انھوں نے من وسلوٰى کی ذخیرہ اندوزی شروع کردی تھی۔
انھیں منع کیا گیا لیکن وہ باز نہ آئے تو انھیں سزا دی گئی کہ ان کا کھانا اور گوشت گل سڑ جاتا تھا۔
ان سے پہلے کسی نے بھی گوشت کی ذخیرہ اندوزی نہیں کی تھی اور نہ گوشت کی اس خصوصیت کا اظہار ہوا۔
اسی طرح حضرت حواء ؑ نے شیطان کی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہو کر حضرت آدم ؑ کو ممنوعہ درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کیا۔
چونکہ وہ بنات آدم کی والدہ ہیں تو ولادت کی وجہ سے بیٹیاں اس کے مشابہ ہو گئیں۔
وہ بھی بات کو بنا سنوار کر اپنے خاوند کے سامنے پیش کرتی ہیں۔
یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ کوئی عورت ایسی نہیں جو اپنے قول و فعل سے خاوند کو بات ماننے پر آمادہ نہ کر لیتی ہو۔
یہی اس کی خیانت ہے۔
اس خیانت سے مراد بے حیائی اور بے شرمی نہیں صرف ایسی بات کا مشورہ دینا مراد ہے جو خاوند کے لیے نقصان دہ ہو۔
یہ عورت کی طبیعت اور عادت میں داخل ہونے کی وجہ سے حوا کی تمام بیٹیوں میں موجود ہے۔
(فتح الباري: 444/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3330   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.