الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
104. بَابُ مَا جَاءَ فِي غَسْلِ دَمِ الْحَيْضِ مِنَ الثَّوْبِ
باب: کپڑے سے حیض کا خون دھونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 138
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن هشام بن عروة، عن فاطمة بنت المنذر، عن اسماء بنت ابي بكر، ان امراة سالت النبي صلى الله عليه وسلم عن الثوب يصيبه الدم من الحيضة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حتيه ثم اقرصيه بالماء ثم رشيه وصلي فيه ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة , وام قيس بنت محصن. قال ابو عيسى: حديث اسماء في غسل الدم حسن صحيح، وقد اختلف اهل العلم في الدم يكون على الثوب فيصلي فيه قبل ان يغسله، قال بعض اهل العلم من التابعين: إذا كان الدم مقدار الدرهم فلم يغسله وصلى فيه اعاد الصلاة، وقال بعضهم: إذا كان الدم اكثر من قدر الدرهم اعاد الصلاة، وهو قول سفيان الثوري , وابن المبارك، ولم يوجب بعض اهل العلم من التابعين وغيرهم عليه الإعادة، وإن كان اكثر من قدر الدرهم، وبه يقول احمد , وإسحاق، وقال الشافعي: يجب عليه الغسل، وإن كان اقل من قدر الدرهم وشدد في ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الثَّوْبِ يُصِيبُهُ الدَّمُ مِنَ الْحَيْضَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حُتِّيهِ ثُمَّ اقْرُصِيهِ بِالْمَاءِ ثُمَّ رُشِّيهِ وَصَلِّي فِيهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَأُمِّ قَيْسِ بْنتِ مِحْصَنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَسْمَاءَ فِي غَسْلِ الدَّمِ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الدَّمِ يَكُونُ عَلَى الثَّوْبِ فَيُصَلِّي فِيهِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهُ، قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ: إِذَا كَانَ الدَّمُ مِقْدَارَ الدِّرْهَمِ فَلَمْ يَغْسِلْهُ وَصَلَّى فِيهِ أَعَادَ الصَّلَاةَ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا كَانَ الدَّمُ أَكْثَرَ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ أَعَادَ الصَّلَاةَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَلَمْ يُوجِبْ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ عَلَيْهِ الْإِعَادَةَ، وَإِنْ كَانَ أَكْثَرَ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: يَجِبُ عَلَيْهِ الْغَسْلُ، وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ وَشَدَّدَ فِي ذَلِكَ.
اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس کپڑے کے بارے میں پوچھا جس میں حیض کا خون لگ جائے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کھرچ دو، پھر اسے پانی سے مل دو، پھر اس پر پانی بہا دو اور اس میں نماز پڑھو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- خون کے دھونے کے سلسلے میں اسماء رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ اور ام قیس بنت محصن رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- کپڑے میں جو خون لگ جائے اور اسے دھونے سے پہلے اس میں نماز پڑھ لے … اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے ؛ تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدار میں ہو اور دھوے بغیر نماز پڑھ لے تو نماز دہرائے ۱؎، اور بعض کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہو تو نماز دہرائے ورنہ نہیں، یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا قول ہے ۲؎ اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے نماز کے دہرانے کو واجب نہیں کہا ہے گرچہ خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہو، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ۳؎، جب کہ شافعی کہتے ہیں کہ اس پر دھونا واجب ہے گو درہم کی مقدار سے کم ہو، اس سلسلے میں انہوں نے سختی برتی ہے ۴؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 63 (227)، والحیض 9 (307)، صحیح مسلم/الطہارة 33 (291)، و132 (291)، سنن ابی داود/ الطہارة 132 (360)، سنن النسائی/الطہارة 185 (294)، والحیض 26 (394)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 118 (629)، (تحفة الأشراف: 15744)، موطا امام مالک/الطہارة 28 (103)، سنن الدارمی/الطہارة 82 (799) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: سنن دارقطنی میں اس سلسلہ میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ایک حدیث بھی آئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں «إذا كان في الثوب قدر الدرهم من الدم غسل الثوب وأعيدت الصلاة» امام بخاری نے اس حدیث کو باطل کہا ہے کیونکہ اس میں ایک راوی روح بن غطیف منکر الحدیث ہے۔
۲؎: اور یہی قول امام ابوحنیفہ کا بھی ہے، وہ کہتے ہیں کہ قلیل نجاست سے بچ پانا ممکن نہیں اس لیے ان لوگوں نے اسے معفوعنہ کے درجہ میں قرار دیا ہے اور اس کی تحدید درہم کی مقدار سے کی ہے اور یہ تحدید انہوں نے مقام استنجاء سے اخذ کی ہے۔
۳؎: ان لوگوں کی دلیل جابر رضی الله عنہ کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں «إن النبي صلى الله عليه وسلم كان في غزوة ذات الرقاع فرمى رجل بسهم فنزفه الدم فركع وسجد ومضى في صلاته» لیکن جسم سے نکلنے والے عام خون، اور حیض کے خون میں فرق بالکل ظاہر ہے۔
۴؎: کیونکہ امام شافعی نجاست میں تفریق کے قائل نہیں ہیں، نجاست کم ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں ان کے نزدیک دھونا ضروری ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں جو نص ہے (وہ یہی حدیث ہے) وہ مطلق ہے اس میں کم و زیادہ کی کوئی تفصیل نہیں اور یہی راجح قول ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (629)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.