الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ لباس اور زینت کے احکام 3ق. باب تَحْرِيمِ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَغَيْرِ ذٰلَكَ لِلرِّجَالِ باب: مردوں کے لیے ریشم وغیرہ پہننے کی حرمت کے بیان میں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ریشمی جوڑا دیکھا مسجد کے دروازے پر تو کہا: یا رسول اللہ! آپ اس کو خرید لیتے اور پہنتے جمعہ کہ دن لوگوں میں اور جب باہر کے لوگ آتے ہیں تو بہتر ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”یہ تو وہ پہننے گا جس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں ہے۔“ بعد اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسے ہی کئی جوڑے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوڑا ان میں سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیا۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ یہ مجھے پہناتے ہیں اور آپ ہی نے عطارد کے جوڑے میں ایسا فرمایا تھا (عطارد اس جوڑے کو بیچنے والے کا نام تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تجھے پہننے کے لیے نہیں دیا ہے۔“ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ جوڑا اپنے ایک بھائی کو جو مشرک تھا مکہ میں دے دیا پہننے کو۔
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عطارد تمیمی کو دیکھا بازار میں ایک ریشمی جوڑا رکھے ہوئے (بیچنے کے لیے)اور وہ ایک ایسا شخص تھا جو بادشاہوں کے پاس جایا کرتا تھا اور ان سے روپیہ حاصل کرتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے عطارد کو دیکھا اس نے بازار میں ایک ریشمی جوڑا رکھا ہے اگر آپ اس کو خرید لیں اور جب عرب کے ایلچی آتے ہیں اس وقت پہنا کریں تو مناسب ہے۔ راوی نے کہا: میں سمجھتا ہوں انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمعہ کو بھی آپ پہنا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ریشمی کپڑا دنیا میں وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔“ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چند ریشمی جوڑے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی ایک جوڑا دیا اور سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو ایک اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ایک اور فرمایا: ”اس کو پھاڑ کر اپنی عورتوں کی سربندھن بنا دے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنا جوڑا لے کر آئے اور عرض کرنے لگے، یا رسول اللہ! آپ نے یہ جوڑا مجھے بھیجا اور کل ہی آپ نے عطارد کے جوڑے کے باب میں کیا فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے یہ جوڑا تمہارے پاس پہننے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے بھیجا کہ اس سے فائدہ حاصل کرو (اس کو بیچ کر)“ اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے اپنا جوڑا پہن لیا اور چلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایسی نگاہ سے دیکھا کہ ان کو معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کیا دیکھتے ہیں؟ آپ! ہی نے تو یہ جوڑا مجھے بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اس لیے نہیں بھیجا کہ تو خود پہنے بلکہ اس لیے بھیجا کہ پھاڑ کر اپنی عورتوں کے سربندھن بنا دے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے استبرق کا ایک جوڑا دیکھا جو بازار میں تھا، انہوں نے اس کو لے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور عرض کیا اس کو خرید لیجئیے عید میں پہننے کے لیے اور جس وقت باہر والوں کے گروہ آئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو اس کا لباس ہے جس کا آخرت میں حصہ نہیں۔“ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہما جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور تھا ٹھہرے رہے اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ایک جبہ بھیجا دیباج کا (استبرق اور دیباج دونوں ریشمی کپڑے ہیں) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کو لے کر آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے تو فرمایا تھا: ”یہ اس کا لباس ہے جس کا آخرت میں حصہ نہیں ہے۔“ پھر آپ نے مجھے کیسے بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اس کو بیچ ڈال اور اس کی قیمت کام میں لا۔“
ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت مروی ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو عطارد کی اولاد میں سے قبا پہنے دیکھا دیباج کا یا حریر کا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، آپ اس کو خرید لیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ریشمی جوڑا تحفہ میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو میرے پاس بھیج دیا۔ میں نے عرض کیا، یہ جوڑا آپ نے مجھے بھیجا اور میں تو سن چکا ہوں جو آپ نے اس کے باب میں فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اس لیے بھیجا کہ تو اس سے فائدہ اٹھائے (بیچ کر)۔“
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا اس میں یہ ہے کہ”میں نے تم کو اس لیے بھیجا کہ تم اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اس لیے نہیں بھیجا کہ تم پہنو۔“
یحییٰ بن ابی اسحاق نے کہا: مجھ سے سالم بن عبداللہ نے استبرق کے بارے میں پوچھا: میں نے کہا استبرق وہ سنگین دیباج ہے اور سخت۔ سالم نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے ایک جوڑا استبرق کا دیکھا اس شخص پر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے پھر بیان کیا ویسا ہی جیسے اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ ”میں نے تجھے اس لیے بھیجا تھا کہ تو اس سے مال حاصل کرے۔“
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جو مولیٰ تھے سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے اور ماموں تھے عطاء کے لڑکے کے، اس نے کہا: مجھ کو اسماء نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ میں نے سنا ہے تم حرام کہتے ہو تین چیزوں کو: ایک تو کپڑے کو جس میں ریشمی نقش ہوں۔ دوسرے ارجوان (یعنی سرخ ڈھڈھاتا) زین پوش کو۔ تیسرے تمام رجب کے مہینے میں روزے رکھنے کو۔ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رجب کے مہینے کے روزوں کو کون حرام کہے گا جو شخص ہمیشہ روزے رکھے گا (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمیشہ روزہ باستثناء عیدین اور ایام تشرق کے رکھتے تھے اور ان کا مذہب یہی ہے کہ صوم دھر مکروہ نہیں ہے) اور کپڑے کے ریشمی نقوشوں کا تو میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”حریر وہ پہنے گا جس کا آخرت میں حصہ نہیں۔“ تو مجھے ڈر ہوا کہ کہیں نقشی کپڑا بھی حریر نہ ہو اور ارجوانی زین پوش، تو خود عبداللہ رضی اللہ عنہ کا زین پوش ارجوانی ہے۔ یہ سب میں نے جا کر سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے کہا۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جبہ موجود ہے، پھر انہوں نے ایک جبہ نکالا کالی چادروں کا ان کی کسروانی (منسوب ہے طرف کسریٰ کی یعنی بادشاہ فارس کی) جس کا گریبان دیباج کا تھا اور اس کے دامنوں پر سنجاف تھے دیباج کے) سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: یہ جبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا ان کی وفات تک۔ جب وہ مر گئیں تو یہ جبہ میں نے لے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پہنا کرتے تھے اب ہم اس کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے ہیں شفا کے لیے (سنجاف حریر یعنی ریشم کی چار انگل تک درست ہے اس سے زیادہ حرام ہے جیسے دوسری حدیث میں آتا ہے۔ (نووی رحمتہ اللہ علیہ)۔
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ خطبہ پڑھتے تھے اور کہتے تھے خبردار ہو اے لوگو! مت پہناؤ اپنی عورتوں کو ریشمی کپڑے کیونکہ میں نے سنا ہے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے تھے میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”مت پہنو حریر کیونکہ جو کوئی دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں نہیں پہنے گا۔“
سیدنا ابوعثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہم کو لکھا ہم آذربائیجان میں تھے (وہ ایک ملک ہے ایران میں) اے عتبہ بن فرقد! یہ جو مال تیرے پاس ہے نہ تیرا کمایا ہوا ہے، نہ تیرے باپ کا، نہ تیری ماں کا، تو سیر کر مسلمانوں کو ان کے ٹھکانوں میں جیسے تو سیر ہوتا ہے اپنے ٹھکانے میں (یعنی بغیر طلب کے ان کو پہنچا دے) اور بچو تم عیش کرنے سے اور مشرکوں کی وضع سے اور ریشمی کپڑا پہننے سے مگر اتنا اور اٹھایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیچ کی انگلی اور کلمہ کی انگلی کو اور ملا لیا ان کو۔ (یعنی دو انگل حریر اگر حاشیہ میں یا اور کہیں لگا ہو تو درست ہے)۔
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔
ابوعثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم عتبہ بن فرقد کے پاس تھے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان آیا اس میں لکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں پہنے گا حریر مگر وہ شخص جس کو آخرت میں کچھ ملنے والا نہیں مگر اتنا درست ہے۔“ اور ابوعثمان رضی اللہ عنہ نے بتلایا اپنی دونوں انگلیوں سے جو انگوٹھے کے پاس ہیں جتنے گھنڈیاں ہوتی ہے طیالسہ کی پھر میں نے طیالسہ کو دیکھا۔ (طیالسہ جمع ہے طیلسان اور وہ سیاہ چادریں ہیں عرب کی)۔
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔
ابوعثمان نہدی سے روایت ہے، ہمارے پاس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی کتاب آئی اور ہم آذربائیجان میں تھے عتبہ بن فرقد کے ساتھ یا شام میں تھے اس میں یہ لکھا تھا «امابعد» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے حریر سے مگر اتنا دو انگل کے برابر۔ تو ہم نے دیر نہیں کی سمجھنے میں کہ مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقش ہیں۔
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔
سوید بن غفلہ سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا جابیہ میں (ایک مقام ہے) تو کہا: منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حریر پہننے سے مگر دو انگل یا تین چار انگل کے برابر۔
قتادہ سے اس سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز دیباج کی قبا پہنی جو تحفہ میں آئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت نکال ڈالی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھیج دی۔ لوگوں نے کہا: آپ نے یہ نکال ڈالی یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرائیل نے مجھ کو منع کیا۔“ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! جس چیز کو آپ نے ناپسند کیا مجھ کو دی۔ میرا کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تم کو پہننے کو نہیں دی۔ میں نے اس لیے دی کہ تم اس کو بیچ ڈالو۔“ پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دو ہزار درہم میں بیچ دی۔
امیرالمؤمنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ریشمی جوڑا آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھے بھیج دیا۔ میں نے اس کو پہنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تجھے اس لیے نہیں بھیجا کہ تو پہنے بلکہ اس لیے بھیجا ہے کہ پھاڑ کر اپنی عورتوں کے سربندھن بنا دے۔“
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک روز دومہ کے بادشاہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تحفہ ریشمی کپڑے کا بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھ کو دے دیا اور فرمایا: ”اس کو پھاڑ کر سربندھن بنا دے تینوں فاطمہ کے۔“ (ایک فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عالی شان صاحبزادی، دوسری فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی والدہ، تیسری فاطمہ بنت حمزہ رضی اللہ عنہ ان سب سے اللہ راضی ہو اور ہمارا حشر ان کے غلاموں میں کرے)۔
امیرالمومنین اسد اللہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ریشمی جوڑا مجھے دیا، میں اسے پہن کر نکلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ میں پایا پھر میں نے اس کو پھاڑ کر عورتوں کو دے دیا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ایک جبہ بھیجا سندس کا (جو ایک ریشمی کپڑا ہے) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے مجھ کو یہ بھیجا اور آپ ایسا ایسا فرما چکے ہیں اس کے باب میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تم کو پہننے کے لئے نہیں بھیجا بلکہ اس لیے کہ تم اس کو بیچ کر فائدہ اٹھاؤ۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو دنیا میں حریر پہنے گا وہ آخرت میں نہیں پہنے گا۔“
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک قبا آئی حریر کی تحفہ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پہنا اور نماز پڑھی اس میں اور پھر نماز سے فارغ ہو کر اس کو زور سے اتارا جیسے برا جانتے ہیں اس کو، پھر فرمایا: ”یہ پرہیزگاروں کے لائق نہیں ہے۔“
یزید بن حبیب اس سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں۔
|