الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل 75. بَابُ اسْتِحُبَابِ الذِّكْرِ إِذَا رَكِبَ دَابَّتَهُ مُتَوَجِّهَا لَسَفَرِ حَجُّ أَوْ غَرْرِهِ وَبَيَانِ الْأَفْضَلِ مِنْ ذٰلِكَ الذِّكْرِ باب: مسافر کو حج وغیرہ کے موقع پر سواری پر سوار ہو کر ذکر و ازکار کرنا مستحب ہے، اور اس ذکر میں سے سب سے افضل ذکر کا بیان۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر سوار ہوتے کہیں سفر میں جانے کو تو تین بار «الله اكبر» فرماتے پھر یہ دعا پڑھتے «سُبْحَانَ الَّذِى سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِى سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِى السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِى الأَهْلِ اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِى الْمَالِ وَالأَهْلِ» یعنی ”پاک ہے پروردگار جس نے ہمارا دبیل کر دیا اس جانور کو اور ہم اس کو دبا نہ سکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں، یااللہ! ہم مانگتے ہیں تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری اور ایسے کام جسے تو پسند کرے، یااللہ! آسان کر دے ہم پر اس سفر کو اور اس لمبان کو ہم پر تھوڑا کر دے، یا اللہ! تو رفیق ہے سفر میں اور تو خلیفہ ہے گھر میں، یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے سفر کی تکلیفوں اور رنج و غم سے اور برے حال میں لوٹ کر آنے سے مال میں اور گھر والوں میں۔“ (یہ تو جاتے وقت پڑھتے) اور جب لوٹ کر آتے جب بھی (یہی دعا پڑھتے)، مگر اس میں اتنا زیادہ کرتے «آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» یعنی ”ہم لوٹنے والے ہیں اور توبہ کرنے والے، خاص اپنے رب کو پوجنے والے او اسی کی تعریف کرنے والے۔“
سیدنا عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو اللہ تعالٰی سے پناہ مانگتے سفر کی مشقتوں سے اور غمگین ہو کر لوٹنے سے اور بھلائی کے بعد برائی کی طرف لوٹنے سے اور اہل و عیال میں برائی کے دیکھنے سے۔
عاصم سے اسی اسناد سے وہی دعا مذکور ہوئی۔ مگر عبدالواحد کی روایت میں «فِى الْمَالِ وَالأَهْلِ» ہے اور محمد بن حازم کی روایت میں یہ ہے کہ اہل کا لفظ پہلے بولتے جب لوٹتے اور دونوں کی روایتوں میں یہ لفظ ہے «اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ» سے آخرت تک یعنی ”یااللہ! پناہ مانگتا ہوں سفر کی مشقتوں سے۔“
|