الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
The Book of the Merits of the Companions
58. باب ذِكْرِ كَذَّابِ ثَقِيفٍ وَمُبِيرِهَا:
باب: ثقیف کے جھوٹے اور ہلاکو کا بیان۔
حدیث نمبر: 6496
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عقبة بن مكرم العمي ، حدثنا يعقوب يعني ابن إسحاق الحضرمي ، اخبرنا الاسود بن شيبان ، عن ابي نوفل ، رايت عبد الله بن الزبير على عقبة المدينة، قال: فجعلت قريش تمر عليه والناس حتى مر عليه عبد الله بن عمر، فوقف عليه، فقال: السلام عليك ابا خبيب، السلام عليك ابا خبيب، السلام عليك ابا خبيب، اما والله لقد كنت انهاك عن هذا، اما والله لقد كنت انهاك عن هذا، اما والله لقد كنت انهاك عن هذا، اما والله إن كنت ما علمت صواما قواما وصولا للرحم، اما والله لامة انت اشرها لامة خير، ثم نفذ عبد الله بن عمر، فبلغ الحجاج موقف عبد الله وقوله، فارسل إليه، فانزل عن جذعه، فالقي في قبور اليهود، ثم ارسل إلى امه اسماء بنت ابي بكر ، فابت ان تاتيه فاعاد عليها الرسول لتاتيني او لابعثن إليك من يسحبك بقرونك، قال: فابت، وقالت: والله لا آتيك حتى تبعث إلي من يسحبني بقروني، قال: فقال: اروني سبتي فاخذ نعليه، ثم انطلق يتوذف حتى دخل عليها، فقال: كيف رايتني صنعت بعدو الله؟ قالت: رايتك افسدت عليه دنياه، وافسد عليك آخرتك بلغني انك، تقول له: يا ابن ذات النطاقين، انا والله ذات النطاقين، اما احدهما فكنت ارفع به طعام رسول الله صلى الله عليه وسلم، وطعام ابي بكر من الدواب، واما الآخر فنطاق المراة التي لا تستغني عنه، اما إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، حدثنا " ان في ثقيف كذابا، ومبيرا، فاما الكذاب: فرايناه، واما المبير: فلا إخالك إلا إياه، قال: فقام عنها، ولم يراجعها ".حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ الْحَضْرَمِيَّ ، أَخْبَرَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ ، عَنْ أَبِي نَوْفَلٍ ، رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ عَلَى عَقَبَةِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: فَجَعَلَتْ قُرَيْشٌ تَمُرُّ عَلَيْهِ وَالنَّاسُ حَتَّى مَرَّ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، فَوَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ، أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا، أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا، أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا، أَمَا وَاللَّهِ إِنْ كُنْتَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا وَصُولًا لِلرَّحِمِ، أَمَا وَاللَّهِ لَأُمَّةٌ أَنْتَ أَشَرُّهَا لَأُمَّةٌ خَيْرٌ، ثُمَّ نَفَذَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، فَبَلَغَ الْحَجَّاجَ مَوْقِفُ عَبْدِ اللَّهِ وَقَوْلُهُ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَأُنْزِلَ عَنْ جِذْعِهِ، فَأُلْقِيَ فِي قُبُورِ الْيَهُودِ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، فَأَبَتْ أَنْ تَأْتِيَهُ فَأَعَادَ عَلَيْهَا الرَّسُولَ لَتَأْتِيَنِّي أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكِ مَنْ يَسْحَبُكِ بِقُرُونِكِ، قَالَ: فَأَبَتْ، وَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا آتِيكَ حَتَّى تَبْعَثَ إِلَيَّ مَنْ يَسْحَبُنِي بِقُرُونِي، قَالَ: فَقَالَ: أَرُونِي سِبْتَيَّ فَأَخَذَ نَعْلَيْهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ يَتَوَذَّفُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: كَيْفَ رَأَيْتِنِي صَنَعْتُ بِعَدُوِّ اللَّهِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُكَ أَفْسَدْتَ عَلَيْهِ دُنْيَاهُ، وَأَفْسَدَ عَلَيْكَ آخِرَتَكَ بَلَغَنِي أَنَّكَ، تَقُولُ لَهُ: يَا ابْنَ ذَاتِ النِّطَاقَيْنِ، أَنَا وَاللَّهِ ذَاتُ النِّطَاقَيْنِ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكُنْتُ أَرْفَعُ بِهِ طَعَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَطَعَامَ أَبِي بَكْرٍ مِنَ الدَّوَابِّ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَنِطَاقُ الْمَرْأَةِ الَّتِي لَا تَسْتَغْنِي عَنْهُ، أَمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنَا " أَنَّ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابًا، وَمُبِيرًا، فَأَمَّا الْكَذَّابُ: فَرَأَيْنَاهُ، وَأَمَّا الْمُبِيرُ: فَلَا إِخَالُكَ إِلَّا إِيَّاهُ، قَالَ: فَقَامَ عَنْهَا، وَلَمْ يُرَاجِعْهَا ".
‏‏‏‏ ابونوفل سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ کی گھاٹی پر دیکھا (یعنی مکہ کا وہ ناکہ جو مدینہ کی راہ ہے) قریش کے لوگ ان پر سے گزرتے تھے اور اور لوگ بھی (ان کو حجاج نے سولی دے کر اسی پر رہنے دیا تھا) یہاں تک کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان پر نکلے وہاں کھڑے ہوئے اور «السلام عليكم ياخبيب» (ابوخبیب کنیت ہے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی، خبیب ان کے بڑے بیٹے تھے اور ابوبکر اور ابو بکیر بھی ان کی کنیت تھی) «السلام عليك اباخبيب، السلام عليك اباخبيب» (اس سے معلوم ہو اکہ میت کو تین بار سلام کرنا مستحب ہے) اللہ کی قسم! میں تو تم کو منع کرتا تھا اس سے (یعنی خلافت اور حکومت اختیار کرنے سے) اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں تم روزہ رکھنے والے اور رات کو عبادت کرنے والے اور ناتے کو جوڑنے والے تھے۔ اللہ کی قسم! وہ گروہ جس کے برے تم ہو وہ عمدہ گروہ ہے (یہ انہوں نے برعکس کہا: بطریق طنز کے یعنی برا گروہ ہے اور ایک روایت میں صاف ہے کہ وہ برا گروہ ہے)۔ یہ خبر سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حجاج کو پہنچی۔ اس نے ان کو سولی پر سے اتروا لیا اور یہود کے مقبرہ میں پھنکوا دیا (اور مردود یہ نہ سمجھا کہ اس سے کیا ہوتا ہے انسان کہیں بھی گرے پر اس کے اعمال اچھے ہونا ضروری ہیں)، پھر حجاج نے ان کی ماں سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کو بلا بھیجا، انہوں نے حجاج کے پاس آ نے سے انکار کیا۔ حجاج نے، پھر بلا بھیجا اور کہا: تم آتی ہو تو آؤ، ورنہ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جو تمہارا چونڈا پکڑ کر لائے (اللہ سمجھے اس مردود سے جس نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن سے ایسی بے ادبی کی) انہوں نے تب بھی آنے سے انکار کیا اور کہا: اللہ کی قسم! میں تیرے پاس نہ آؤں گی جب تک تو میرے پاس اس کو نہ بھیجے جو میرے بال کھنیچتا ہوا مجھ کو لائے۔ آخر حجاج نے کہا: میرے جوتے لاؤ اور جوتے پہن کر اکڑتا ہو اچلا یہاں تک کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا اور کہنے لگا: تم نے دیکھا، اللہ کی قسم! میں نے کیا کیا اللہ تعالیٰ کے دشمن سے (یہ حجاج نے اپنے اعتقاد کے موافق سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو کہا: ورنہ وہ مردود خود اللہ کا دشمن تھا)۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے دیکھا تو نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی دنیا بگاڑ دی اور اس نے تیری آخرت بگاڑ دی۔ میں نے سنا ہے تو سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو کہتا تھا دو کمربند والی کا بیٹا۔ بیشک اللہ کی قسم! میں دو کمربند والی ہوں ایک کمربند میں تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کھانا اٹھاتی تھی کہ جانور اس کو نہ کھا لیں اور ایک کمربند وہ تھا جو عورت کو درکار ہے۔ (سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے کمربند کو پھاڑ کر اس کے دو ٹکڑے کر لیے تھے، ایک سے تو کمربند باندھتی تھیں اور دوسرے کا دسترخوان بنایا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے تو یہ فضیلت تھی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی جس کو حجاج مردود عیب سمجھتا تھا اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو ذلیل کرنے کے لیے ان کو دو کمربند والی کا بیٹا کہتا تھا) تو خبردار رہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا تھا: ثقیف میں ایک جھوٹا پیدا ہو گا اور ایک ہلاکو۔ تو جھوٹے کو تو ہم نے دیکھ لیا اور ہلاکو میں نہیں سمجھتی سوائے تیرےکسی کو۔ یہ سن کر حجاج کھڑا ہو ا اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کو کچھ جو اب نہ دیا۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.