الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book on Zakat
23. باب مَا جَاءَ مَنْ لاَ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ
باب: زکاۃ لینا کس کس کے لیے جائز نہیں؟
حدیث نمبر: 652
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر محمد بن بشار، حدثنا ابو داود الطيالسي، حدثنا سفيان بن سعيد ح. وحدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن ريحان بن يزيد، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تحل الصدقة لغني ولا لذي مرة سوي ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وحبشي بن جنادة، وقبيصة بن مخارق. قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن عمرو حديث حسن، وقد روى شعبة، عن سعد بن إبراهيم هذا الحديث بهذا الإسناد، ولم يرفعه، وقد روي في غير هذا الحديث، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تحل المسالة لغني ولا لذي مرة سوي وإذا كان الرجل قويا محتاجا ولم يكن عنده شيء فتصدق عليه اجزا عن المتصدق عند اهل العلم " ووجه هذا الحديث عند بعض اهل العلم على المسالة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ ح. وحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ رَيْحَانَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَحُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، وَقَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ هَذَا الْحَدِيثَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَقَدْ رُوِيَ فِي غَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَحِلُّ الْمَسْأَلَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ قَوِيًّا مُحْتَاجًا وَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ شَيْءٌ فَتُصُدِّقَ عَلَيْهِ أَجْزَأَ عَنِ الْمُتَصَدِّقِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ " وَوَجْهُ هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى الْمَسْأَلَةِ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں اور نہ کسی طاقتور اور صحیح سالم شخص کے لیے مانگنا جائز ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن ہے،
۲- اور شعبہ نے بھی یہ حدیث اسی سند سے سعد بن ابراہیم سے روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے،
۳- اس باب میں ابوہریرہ، حبشی بن جنادہ اور قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اور اس حدیث کے علاوہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں اور نہ کسی ہٹے کٹے کے لیے مانگنا جائز ہے اور جب آدمی طاقتور و توانا ہو لیکن محتاج ہو اور اس کے پاس کچھ نہ ہو اور اسے صدقہ دیا جائے تو اہل علم کے نزدیک اس دینے والے کی زکاۃ ادا ہو جائے گی۔ بعض اہل علم نے اس حدیث کی توجیہ یہ کی ہے کہ «لا تحل له الصدقة» کا مطلب ہے کہ اس کے لیے مانگنا درست نہیں ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الزکاة 23 (1634)، (تحفة الأشراف: 8626)، مسند احمد (2/164)، سنن الدارمی/الزکاة 15 (1679) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «ذی مرّۃ» کے معنی «ذی قوّۃ» کے ہیں اور «سویّ» کے معنی جسمانی طور پر صحیح و سالم کے ہیں۔
۲؎: یعنی «لا تحل له الصدقة» میں صدقہ مسئلہ (مانگنے) کے معنی میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (1444)، الإرواء (877)
حدیث نمبر: 653
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن سعيد الكندي، حدثنا عبد الرحيم بن سليمان، عن مجالد، عن عامر الشعبي، عن حبشي بن جنادة السلولي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في حجة الوداع وهو واقف بعرفة، اتاه اعرابي فاخذ بطرف ردائه فساله إياه فاعطاه وذهب فعند ذلك حرمت المسالة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن المسالة لا تحل لغني ولا لذي مرة سوي إلا لذي فقر مدقع او غرم مفظع، ومن سال الناس ليثري به ماله كان خموشا في وجهه يوم القيامة ورضفا ياكله من جهنم، ومن شاء فليقل ومن شاء فليكثر ".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ السَّلُولِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ، أَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ فَأَخَذَ بِطَرَفِ رِدَائِهِ فَسَأَلَهُ إِيَّاهُ فَأَعْطَاهُ وَذَهَبَ فَعِنْدَ ذَلِكَ حَرُمَتِ الْمَسْأَلَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ إِلَّا لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ، وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ لِيُثْرِيَ بِهِ مَالَهُ كَانَ خُمُوشًا فِي وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَرَضْفًا يَأْكُلُهُ مِنْ جَهَنَّمَ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيُقِلَّ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُكْثِرْ ".
حبشی بن جنادہ سلولی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے سنا آپ عرفہ میں کھڑے تھے، آپ کے پاس ایک اعرابی آیا اور آپ کی چادر کا کنارا پکڑ کر آپ سے مانگا، آپ نے اسے دیا اور وہ چلا گیا، اس وقت مانگنا حرام ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں نہ کسی ہٹے کٹے صحیح سالم آدمی کے لیے سوائے جان لیوا فقر والے کے اور کسی بھاری تاوان میں دبے شخص کے۔ اور جو لوگوں سے اس لیے مانگے کہ اس کے ذریعہ سے اپنا مال بڑھائے تو یہ مال قیامت کے دن اس کے چہرے پر خراش ہو گا۔ اور وہ جہنم کا ایک گرم پتھر ہو گا جسے وہ کھا رہا ہو گا، تو جو چاہے اسے کم کر لے اور جو چاہے زیادہ کر لے ا؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3291) (صحیح) (سند میں مجالد ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر حدیث صحیح لغیرہ ہے، صحیح الترغیب 802، وتراجع الألبانی 557)»

وضاحت:
ا؎: مانگنے کی عادت اختیار کرنے والوں کو اس وعید پر غور وفکر کرنا چاہیئے، بالخصوص دین حق کی اشاعت و دعوت کا کام کرنے والے داعیان و مبلغین کو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (3 / 384) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (877)، ضعيف الجامع الصغير (1781) //
حدیث نمبر: 654
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا يحيى بن آدم، عن عبد الرحيم بن سليمان نحوه. قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحِيمِ بْنِ سُلَيْمَانَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
اس سند سے بھی عبدالرحیم بن سلیمان سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح) (اس میں بھی مجالد ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ ہے)»

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.