الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: تفسیر قرآن کریم 22. باب وَمِنْ سُورَةِ الأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ باب: سورۃ انبیاء سے بعض آیات کی تفسیر۔
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ويل» جہنم کی ایک وادی ہے (اور اتنی گہری ہے کہ) جب کافر اس میں گرے گا تو اس کو تہہ تک پہنچنے سے پہلے گرنے میں چالیس سال لگ جائیں گے“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم ابن لہیعہ کے سوا کسی اور کو نہیں جانتے کہ وہ اسے مرفوعاً روایت کرتا ہو۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4062) (ضعیف) (سند میں ابن لھیعہ اور دراج دونوں ضعیف راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث مولف ارشاد باری «ولكم الويل مما تصفون» (الأنبیاء: ۱۸) کی تفسیر میں لائے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (4 / 229) // ضعيف الجامع الصغير (6148) //
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر بیٹھا، اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے دو غلام ہیں، جو مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں، میرے مال میں خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں، میں انہیں گالیاں دیتا ہوں مارتا ہوں، میرا ان کا نپٹارا کیسے ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”انہوں نے، تمہارے ساتھ خیانت کی ہے، اور تمہاری نافرمانی کی ہے تم سے جو جھوٹ بولے ہیں ان سب کا شمار و حساب ہو گا تم نے انہیں جو سزائیں دی ہیں ان کا بھی شمار و حساب ہو گا، اب اگر تمہاری سزائیں ان کے گناہوں کے بقدر ہوئیں تو تم اور وہ برابر سرابر چھوٹ جاؤ گے، نہ تمہارا حق ان پر رہے گا اور نہ ان کا حق تم پر، اور اگر تمہاری سزا ان کے قصور سے کم ہوئی تو تمہارا فضل و احسان ہو گا، اور اگر تمہاری سزا ان کے گناہوں سے زیادہ ہوئی تو تجھ سے ان کے ساتھ زیادتی کا بدلہ لیا جائے گا، (یہ سن کر) وہ شخص روتا پیٹتا ہوا واپس ہوا، آپ نے فرمایا: ”کیا تم کتاب اللہ نہیں پڑھتے (اللہ نے فرمایا ہے) «ونضع الموازين القسط ليوم القيامة فلا تظلم نفس شيئا وإن كان مثقال» الآية ”اور ہم قیامت کے دن انصاف کا ترازو لگائیں گے پھر کسی نفس پر کسی طرح سے ظلم نہ ہو گا، اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہو گا ہم اسے لا حاضر کریں گے اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے“ (الانبیاء: ۴۷)، اس شخص نے کہا: قسم اللہ کی! میں اپنے اور ان کے لیے اس سے بہتر اور کوئی بات نہیں پاتا کہ ہم ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں، میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ وہ سب آزاد ہیں۔
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن غزوان کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- احمد بن حنبل نے بھی یہ حدیث عبدالرحمٰن بن غزوان سے روایت کی ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16608) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام نے تین معاملات کے سوا کسی بھی معاملے میں کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا، ایک تو یہ ہے کہ آپ نے کہا: میں بیمار ہوں، حالانکہ آپ بیمار نہیں تھے، (دوسرا) آپ نے سارہ کو اپنی بہن کہا: (جب کہ وہ آپ کی بیوی تھیں) (تیسرا، آپ نے بت توڑا) اور پوچھنے والوں سے آپ نے کہا: بڑے (بت) ان کے اس بڑے نے توڑے ہیں، (ان سے پوچھ لیں) ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے، اور ابوالزناد کے واسطہ سے ابن اسحاق کی روایت غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 8 (3357)، والنکاح 12 (5012)، صحیح مسلم/الفضائل 41 (2371) (تحفة الأشراف: 13865)، و مسند احمد (2/403) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مولف یہ حدیث ارشاد باری: «قال بل فعله كبيرهم هذا» (الانبیاء: ۶۴) کی تفسیر میں لائے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1916)
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”تم لوگ قیامت کے دن اللہ کے پاس ننگے اور غیر مختون جمع کئے جاؤ گے، پھر آپ نے آیت پڑھی «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا» ”ہم نے جیسے پہلے آدمی کو پیدا کیا ہے ویسا ہی دوبارہ لوٹا دیں گے (پیدا فرما دیں گے)“ (الانبیاء: ۱۰۴)، آپ نے فرمایا: ”قیامت کے دن جنہیں سب سے پہلے کپڑا پہنایا جائے گا وہ ابراہیم علیہ السلام ہوں گے، (قیامت کے دن) میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے جنہیں چھانٹ کر بائیں جانب (جہنم کی رخ) کر دیا جائے گا، میں کہوں گا پروردگار! یہ تو میرے اصحاب (امتی) ہیں، کہا جائے گا: آپ کو نہیں معلوم ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی باتیں (خرافات) دین میں پیدا (داخل) کر دیں۔ (یہ سن کر) میں بھی وہی بات کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام) نے کہی ہے «وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم فلما توفيتني كنت أنت الرقيب عليهم وأنت على كل شيء شهيد إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم» ”میں جب تک ان کے درمیان تھا ان کی دیکھ بھال کرتا رہا تھا، پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا آپ ان کے محافظ و نگہبان بن گئے، آپ ہر چیز سے واقف ہیں۔ اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے و غلام ہیں۔ (آپ انہیں سزا دے سکتے ہیں) اور اگر آپ انہیں معاف کر دیں تو آپ زبردست حکمت والے ہیں“ (المائدہ: ۱۱۸)، کہا جائے گا: یہ وہ لوگ ہیں کہ آپ نے جب سے ان کا ساتھ چھوڑا ہے یہ اپنی پہلی حالت سے پھر گئے ہیں۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2423 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح وهو مكرر الحديث (2552)
اس سند سے بھی شعبہ نے اسی طرح مغیرہ بن نعمان سے روایت کی ہے، اس حدیث کو سفیان ثوری نے مغیرہ بن نعمان سے اسی طرح روایت کی ہے،
۴- اس سے ان کی مراد اہل ردہ یعنی مرتدین کا گروہ ہے ۱؎۔ تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎ یعنی «إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك» میں «أحداث» سے مراد، اسلام سے مرتد ہونا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح وهو مكرر الحديث (2552)
|