الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
23. باب وَمِنْ سُورَةِ الْحَجِّ
باب: سورۃ الحج سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3168
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(قدسي) حدثنا حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابن جدعان، عن الحسن، عن عمران بن حصين، ان النبي صلى الله عليه وسلم لما نزلت: يايها الناس اتقوا ربكم إن زلزلة الساعة شيء عظيم إلى قوله ولكن عذاب الله شديد سورة الحج آية 1 ـ 2 قال: انزلت عليه هذه الآية وهو في سفر، فقال: " اتدرون اي يوم ذلك؟ " فقالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " ذلك يوم يقول الله لآدم ابعث بعث النار، فقال: يا رب، وما بعث النار؟ قال: تسع مائة وتسعة وتسعون إلى النار وواحد إلى الجنة "، قال: فانشا المسلمون يبكون، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قاربوا وسددوا فإنها لم تكن نبوة قط إلا كان بين يديها جاهلية "، قال: فيؤخذ العدد من الجاهلية فإن تمت، وإلا كملت من المنافقين، وما مثلكم والامم إلا كمثل الرقمة في ذراع الدابة، او كالشامة في جنب البعير، ثم قال: " إني لارجو ان تكونوا ربع اهل الجنة، فكبروا "، ثم قال: " إني لارجو ان تكونوا ثلث اهل الجنة، فكبروا "، ثم قال: " إني لارجو ان تكونوا نصف اهل الجنة، فكبروا "، قال: لا ادري، قال: الثلثين ام لا، قال: هذا حديث حسن صحيح، قد روي من غير وجه، عن الحسن، عن عمران بن حصين، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ جُدْعَانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَزَلَتْ: يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ إِلَى قَوْلِهِ وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ سورة الحج آية 1 ـ 2 قَالَ: أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةُ وَهُوَ فِي سَفَرٍ، فَقَالَ: " أَتَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ ذَلِكَ؟ " فَقَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " ذَلِكَ يَوْمَ يَقُولُ اللَّهُ لِآدَمَ ابْعَثْ بَعْثَ النَّارِ، فَقَالَ: يَا رَبِّ، وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ: تِسْعُ مِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ إِلَى النَّارِ وَوَاحِدٌ إِلَى الْجَنَّةِ "، قَالَ: فَأَنْشَأَ الْمُسْلِمُونَ يَبْكُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَارِبُوا وَسَدِّدُوا فَإِنَّهَا لَمْ تَكُنْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا كَانَ بَيْنَ يَدَيْهَا جَاهِلِيَّةٌ "، قَالَ: فَيُؤْخَذُ الْعَدَدُ مِنَ الْجَاهِلِيَّةِ فَإِنْ تَمَّتْ، وَإِلَّا كَمُلَتْ مِنَ الْمُنَافِقِينَ، وَمَا مَثَلُكُمْ وَالْأُمَمِ إِلَّا كَمَثَلِ الرَّقْمَةِ فِي ذِرَاعِ الدَّابَّةِ، أَوْ كَالشَّامَةِ فِي جَنْبِ الْبَعِيرِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبْعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَكَبَّرُوا "، ثُمَّ قَالَ: " إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَكَبَّرُوا "، ثُمَّ قَالَ: " إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَكَبَّرُوا "، قَالَ: لَا أَدْرِي، قَالَ: الثُّلُثَيْنِ أَمْ لَا، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت «يا أيها الناس اتقوا ربكم إن زلزلة الساعة شيء عظيم» سے قول «ولكن عذاب الله شديد» ۱؎ تک نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سفر میں تھے، آپ نے لوگوں سے فرمایا: کیا تم جانتے ہو وہ کون سا دن ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس دن اللہ آدم (علیہ السلام) سے کہے گا «ابعث بعث النار» جہنم میں جانے والی جماعت کو چھانٹ کر بھیجو آدم علیہ السلام کہیں گے: اے میرے رب «بعث النار» کیا ہے (یعنی کتنے)؟ اللہ فرمائے گا: نو سو ننانوے (۹۹۹) افراد جہنم میں اور (ان کے مقابل میں) ایک شخص جنت میں جائے گا، یہ سن کر مسلمان (صحابہ) رونے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی نزدیکی حاصل کرو اور ہر کام صحیح اور درست ڈھنگ سے کرتے رہو، (اہل جنت میں سے ہو جاؤ گے)، کیونکہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نبوت کا سلسلہ چلا ہو اور اس سے پہلے جاہلیت (کی تاریکی پھیلی ہوئی) نہ ہو، آپ نے فرمایا: یہ (۹۹۹ کی تعداد) عدد انہیں (ادوار) جاہلیت کے افراد سے پوری کی جائے گی۔ یہ تعداد اگر جاہلیت سے پوری نہ ہوئی تو ان کے ساتھ منافقین کو ملا کر پوری کی جائے گی، اور تمہاری اور (پچھلی) امتوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ داغ، نشان، تل جانور کے اگلے پیر میں، یا سیاہ نشان اونٹ کے پہلو (پسلی) میں ہو ۲؎ پھر آپ نے فرمایا: مگر مجھے امید ہے کہ جنت میں جانے والوں میں ایک چوتھائی تعداد تم لوگوں کی ہو گی، یہ سن کر (لوگوں نے خوش ہو کر) نعرہ تکبیر بلند کیا، پھر آپ نے فرمایا: مجھے توقع ہے جنتیوں کی ایک تہائی تعداد تم ہو گے، لوگوں نے پھر تکبیر بلند کی، آپ نے پھر فرمایا: مجھے امید ہے کہ جنت میں آدھا آدھا تم لوگ ہو گے، لوگوں نے پھر صدائے تکبیر بلند کی (اس سے آگے) مجھے معلوم نہیں ہے کہ آپ نے دو تہائی بھی فرمایا یا نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث کئی راویوں سے عمران بن حصین کے واسطہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10799) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں اور حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز ان کے عمران بن حصین رضی الله عنہ سے سماع میں سخت اختلاف ہے، لیکن شاہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، نیز یہ حدیث ابو سعید خدری کی روایت سے متفق علیہ ہے)»

وضاحت:
۱؎: لوگو! اپنے رب سے ڈرو! بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے، جس دن تم اسے دیکھو لو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی، اور تمام حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے اور تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے حالانکہ درحقیقت وہ متوالے نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہے (الحج: ۲)
۲؎: یعنی اگلی امتوں کی تعداد کے مقابل میں تم جنتیوں کی تعداد بہت مختصر یعنی جانور کی اگلی دست میں ایک تل یا اونٹ کے پیٹ میں ایک معمولی نشان کی سی ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد، التعليق الرغيب (4 / 229)
حدیث نمبر: 3169
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا هشام بن ابي عبد الله، عن قتادة، عن الحسن، عن عمران بن حصين، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فتفاوت بين اصحابه في السير، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم صوته بهاتين الآيتين: " يايها الناس اتقوا ربكم إن زلزلة الساعة شيء عظيم إلى قوله عذاب الله شديد سورة الحج آية 1 ـ 2 "، فلما سمع ذلك اصحابه حثوا المطي وعرفوا انه عند قول يقوله، فقال: " هل تدرون اي يوم ذلك؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " ذاك يوم ينادي الله فيه آدم فيناديه ربه، فيقول: يا آدم ابعث بعث النار، فيقول: يا رب، وما بعث النار؟ فيقول: من كل الف تسع مائة وتسعة وتسعون إلى النار وواحد في الجنة "، فيئس القوم حتى ما ابدوا بضاحكة، فلما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي باصحابه، قال: " اعملوا وابشروا، فوالذي نفس محمد بيده، إنكم لمع خليقتين ما كانتا مع شيء إلا كثرتاه ياجوج وماجوج، ومن مات من بني آدم وبني إبليس، قال: فسري عن القوم بعض الذي يجدون، فقال: " اعملوا وابشروا فوالذي نفس محمد بيده، ما انتم في الناس إلا كالشامة في جنب البعير، او كالرقمة في ذراع الدابة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَتَفَاوَتَ بَيْنَ أَصْحَابِهِ فِي السَّيْرِ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَهُ بِهَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ: " يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ إِلَى قَوْلِهِ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ سورة الحج آية 1 ـ 2 "، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ أَصْحَابُهُ حَثُّوا الْمَطِيَّ وَعَرَفُوا أَنَّهُ عِنْدَ قَوْلٍ يَقُولُهُ، فَقَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ ذَلِكَ؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " ذَاكَ يَوْمٌ يُنَادِي اللَّهُ فِيهِ آدَمَ فَيُنَادِيهِ رَبُّهُ، فَيَقُولُ: يَا آدَمُ ابْعَثْ بَعْثَ النَّارِ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ فَيَقُولُ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعُ مِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ إِلَى النَّارِ وَوَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ "، فَيَئِسَ الْقَوْمُ حَتَّى مَا أَبَدَوْا بِضَاحِكَةٍ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي بِأَصْحَابِهِ، قَالَ: " اعْمَلُوا وَأَبْشِرُوا، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّكُمْ لَمَعَ خَلِيقَتَيْنِ مَا كَانَتَا مَعَ شَيْءٍ إِلَّا كَثَّرَتَاهُ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ، وَمَنْ مَاتَ مِنْ بَنِي آدَمَ وَبَنِي إِبْلِيسَ، قَالَ: فَسُرِّيَ عَنِ الْقَوْمِ بَعْضُ الَّذِي يَجِدُونَ، فَقَالَ: " اعْمَلُوا وَأَبْشِرُوا فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، مَا أَنْتُمْ فِي النَّاسِ إِلَّا كَالشَّامَةِ فِي جَنْبِ الْبَعِيرِ، أَوْ كَالرَّقْمَةِ فِي ذِرَاعِ الدَّابَّةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، اور چلنے میں ایک دوسرے سے آگے پیچھے ہو گئے تھے، آپ نے بآواز بلند یہ دونوں آیتیں: «يا أيها الناس اتقوا ربكم إن زلزلة الساعة شيء عظيم» سے لے کر «عذاب الله شديد» تک تلاوت فرمائی، جب صحابہ نے یہ سنا تو اپنی سواریوں کو ابھار کر ان کی رفتار بڑھا دی، اور یہ جان لیا کہ کوئی بات ہے جسے آپ فرمانے والے ہیں، آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے؟، صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پکاریں گے اور وہ اپنے رب کو جواب دیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: «ابعث بعث النار» بھیجو جہنم میں جانے والی جماعت کو، آدم علیہ السلام کہیں گے: اے ہمارے رب! «بعث النار» کیا ہے (یعنی کتنے)؟ اللہ کہے گا: ایک ہزار افراد میں سے نو سو ننانوے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا، یہ سن کر لوگ مایوس ہو گئے، ایسا لگا کہ اب یہ زندگی بھر کبھی ہنسیں گے نہیں، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی یہ (مایوسانہ) کیفیت و گھبراہٹ دیکھی تو فرمایا: اچھے بھلے کام کرو اور خوش ہو جاؤ (اچھے اعمال کے صلے میں جنت پاؤ گے) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! تم ایسی دو مخلوق کے ساتھ ہو کہ وہ جس کے بھی ساتھ ہو جائیں اس کی تعداد بڑھا دیں، ایک یاجوج و ماجوج اور دوسرے وہ جو اولاد آدم اور اولاد ابلیس میں سے (حالت کفر میں) مر چکے ہیں، آپ کی اس بات سے لوگوں کے رنج و فکر کی اس کیفیت میں کچھ کمی آئی جسے لوگ شدت سے محسوس کر رہے تھے اور اپنے دلوں میں موجود پا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: نیکی کا عمل جاری رکھو، اور ایک دوسرے کو خوشخبری دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! تم تو لوگوں میں بس ایسے ہو جیسے اونٹ (جیسے بڑے جانور) کے پہلو (پسلی) میں کوئی داغ یا نشان ہو، یا چوپائے کی اگلی دست میں کوئی تل ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی بہت زیادہ گھبرانے کی بات اور ضرورت نہیں ہے، جب اکثریت انہیں کفار و مشرکین کی ہے تو جہنم میں بھی وہی زیادہ ہوں گے، ایک آدھ نام نہاد مسلم جائے گا بھی تو اسے اپنی بدعملی کی وجہ سے جانے سے کون روک سکتا ہے، اور جو نہ جانا چاہے وہ اپنے ایمان و عقیدے کو درست رکھے شرک و بدعات سے دور رہے گا اور نیک و صالح اعمال کرتا رہے، ایسا شخص ان شاءاللہ ضرور جنت میں جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3170
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، وغير واحد، قالوا: حدثنا عبد الله بن صالح، قال: حدثني الليث، عن عبد الرحمن بن خالد، عن ابن شهاب، عن محمد بن عروة بن الزبير، عن عبد الله بن الزبير، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما سمي البيت العتيق: لانه لم يظهر عليه جبار ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي هذا الحديث عن الزهري، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا سُمِّيَ الْبَيْتَ الْعَتِيقَ: لِأَنَّهُ لَمْ يَظْهَرْ عَلَيْهِ جَبَّارٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا.
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خانہ کعبہ کا نام «بيت العتيق» ۱؎ (آزاد گھر) اس لیے رکھا گیا کہ اس پر کسی جابر و ظالم کا غلبہ و قبضہ نہیں ہو سکا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث زہری کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل طریقہ سے آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5284) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن صالح حافظہ کے ضعیف ہیں، اور ان کے مخالف ان سے ثقہ رواة نے اس کو عبد اللہ بن زبیر کا اپنا قول بتایا ہے، دیکھیے اگلی سند)»

وضاحت:
۱؎: مولف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «وليطوفوا بالبيت العتيق» (الحج: ۲۹)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (3222) // ضعيف الجامع الصغير (2059) //
حدیث نمبر: 3170M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عقيل، عن الزهري، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
اس سند سے زہری کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (3222) // ضعيف الجامع الصغير (2059) //
حدیث نمبر: 3171
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا ابي، وإسحاق بن يوسف الازرق، عن سفيان الثوري، عن الاعمش، عن مسلم البطين، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: " لما اخرج النبي صلى الله عليه وسلم من مكة، قال ابو بكر: اخرجوا نبيهم ليهلكن، فانزل الله تعالى: اذن للذين يقاتلون بانهم ظلموا وإن الله على نصرهم لقدير سورة الحج آية 39 الآية، فقال ابو بكر: لقد علمت انه سيكون قتال "، قال: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، وَإِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " لَمَّا أُخْرِجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَخْرَجُوا نَبِيَّهُمْ لَيَهْلِكُنَّ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ سورة الحج آية 39 الْآيَةَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّهُ سَيَكُونُ قِتَالٌ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکالے گئے تو ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا کہ ان لوگوں نے اپنے نبی کو (اپنے وطن سے) نکال دیا ہے، یہ لوگ ضرور ہلاک ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «أذن للذين يقاتلون بأنهم ظلموا وإن الله على نصرهم لقدير» ان لوگوں کو بھی لڑنے کی اجازت دے دی گئی جن سے مظلوم (و کمزور) سمجھ کر جنگ چھیڑ رکھی گئی ہے، اللہ ان (مظلومین) کی مدد پر قادر ہے (الحج: ۳۹)، نازل فرمائی ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: (جب یہ آیت نازل ہوئی تو) میں نے یہ سمجھ لیا کہ اب (مسلمانوں اور کافروں میں) لڑائی ہو گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 5618) (ضعیف الإسناد) (سند میں سفیان بن وکیع صدوق لیکن ساقط الحدیث راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
حدیث نمبر: 3171M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) وقد رواه عبد الرحمن بن مهدي وغيره، عن سفيان، عن الاعمش، عن مسلم البطين، عن سعيد بن جبير، عن النبي صلى الله عليه وسلم، فيه عن ابن عباس، وقد رواه غير واحد، عن سفيان، عن الاعمش، عن مسلم البطين، عن سعيد بن جبير مرسلا، ليس فيه عن ابن عباس.(مرفوع) وَقَدْ رَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَغَيْرُهُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَقَدْ رَوَاهُ غيرُ واحدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ مُرْسَلًا، لَيْسَ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
اس کو عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہ نے سفیان سے، سفیان نے اعمش سے، اعمش نے مسلم بطین سے مسلم نے سعید بن جبیر کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اس روایت میں ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت کا ذکر نہیں ہے، اسی طرح اور کئی راویوں نے سفیان سے، سفیان نے اعمش سے، اور اعمش نے مسلم بطین کے واسطہ سے، سعید بن جبیر سے مرسلاً روایت کی ہے، اس میں ابن عباس سے روایت کا ذکر نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف) (ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
حدیث نمبر: 3172
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو احمد الزبيري، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن مسلم البطين، عن سعيد بن جبير، قال: لما اخرج النبي صلى الله عليه وسلم من مكة قال رجل: اخرجوا نبيهم، فنزلت: اذن للذين يقاتلون بانهم ظلموا وإن الله على نصرهم لقدير {39} الذين اخرجوا من ديارهم بغير حق سورة الحج آية 39 ـ 40 النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: لَمَّا أُخْرِجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ قَالَ رَجُلٌ: أَخْرَجُوا نَبِيَّهُمْ، فَنَزَلَتْ: أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ {39} الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ سورة الحج آية 39 ـ 40 النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ.
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکالے گئے، ایک آدمی نے کہا: ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکال دیا تو اس پر آیت «أذن للذين يقاتلون بأنهم ظلموا وإن الله على نصرهم لقدير الذين أخرجوا من ديارهم بغير حق» ان لوگوں کو بھی لڑنے کی اجازت دے دی گئی جن سے مظلوم (و کمزور) سمجھ کر جنگ چھیڑ رکھی گئی ہے، اللہ ان (مظلومین) کی مدد پر قادر ہے (الحج: ۳۹)، نازل ہوئی، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو ناحق نکال دیا گیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف) (ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے)»

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.