الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
88. باب وَمِنْ سُورَةِ التَّكَاثُرِ
باب: سورۃ اتکاثر سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3354
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن مطرف بن عبد الله بن الشخير، عن ابيه، انه انتهى إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقرا: " الهاكم التكاثر "، قال: " يقول ابن آدم: مالي مالي، وهل لك من مالك إلا ما تصدقت فامضيت، او اكلت فافنيت، او لبست فابليت ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْرَأُ: " أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ "، قَالَ: " يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي، وَهَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ، أَوْ أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ، أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَن صَحِيحٌ.
شخیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ آیت «ألهاكم التكاثر» زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کر دیا (التکاثر: ۱)، تلاوت فرما رہے تھے، آپ نے فرمایا: ابن آدم میرا مال، میرا مال کہے جاتا ہے (اسی ہوس و فکر میں مرا جاتا ہے) مگر بتاؤ تو تمہیں اس سے زیادہ کیا ملا جو تم نے صدقہ دے دیا اور آگے بھیج دیا یا کھا کر ختم کر دیا یا پہن کر بوسیدہ کر دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2342 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ابن آدم کا حقیقی مال وہی ہے جو اس نے راہ خدا میں خرچ کیا، یا خود کھایا پیا اور پہن کر بوسیدہ کر دیا، اور باقی جانے والا مال تو اس کا اپنا مال نہیں بلکہ اس کے وارثین کا مال ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ومضى (2445)
حدیث نمبر: 3355
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا حكام بن سلم الرازي، عن عمرو بن ابي قيس، عن الحجاج، عن المنهال بن عمرو، عن زر بن حبيش، عن علي رضي الله عنه، قال: " ما زلنا نشك في عذاب القبر حتى نزلت: الهاكم التكاثر سورة التكاثر آية 1 "، قال ابو كريب: مرة عن عمرو بن ابي قيس هو رازي، وعمرو بن قيس الملائي كوفي، عن ابن ابي ليلى، عن المنهال بن عمرو. قال ابو عيسى: هذا حديث غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ الرَّازِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " مَا زِلْنَا نَشُكُّ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ حَتَّى نَزَلَتْ: أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ سورة التكاثر آية 1 "، قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ: مَرَّةً عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ هُوَ رَازِيٌّ، وَعَمْرُو بْنُ قَيْسٍ الْمُلَائِيُّ كُوفِيٌّ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم عذاب قبر کے بارے میں برابر شک میں رہے، یہاں تک کہ سورۃ «ألهاكم التكاثر» نازل ہوئی، تو ہمیں اس پر یقین حاصل ہوا۔ ابوکریب کبھی عمرو بن ابی قیس کہتے ہیں، تو یہ عمروبن قیس رازی ہیں - اور عمرو بن قیس ملائی کوفی ہیں اور یہ ابن ابی لیلیٰ سے روایت کرتے ہیں: اور وہ (ابن ابی لیلیٰ) روایت کرتے ہیں منہال بن عمرو سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10095) (ضعیف الإسناد) (سند میں حجاج بن ارطاة ضعیف اور مدلس راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
حدیث نمبر: 3356
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن محمد بن عمرو بن علقمة، عن يحيى بن عبد الرحمن بن حاطب، عن عبد الله بن الزبير بن العوام، عن ابيه، قال: " لما نزلت هذه الآية: ثم لتسالن يومئذ عن النعيم سورة التكاثر آية 8، قال الزبير: يا رسول الله، فاي النعيم نسال عنه وإنما هما الاسودان التمر والماء؟ قال: " اما إنه سيكون ". قال: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ سورة التكاثر آية 8، قَالَ الزُّبَيْرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيُّ النَّعِيمِ نُسْأَلُ عَنْهُ وَإِنَّمَا هُمَا الْأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَاءُ؟ قَالَ: " أَمَا إِنَّهُ سَيَكُونُ ". قال: هذا حديث حَسَنٌ.
زبیر بن عوام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «ثم لتسألن يومئذ عن النعيم» اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہو گا (التکاثر: ۸)، نازل ہوئی تو زبیر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا؟ ہمیں تو صرف دو ہی (کالی) نعمتیں حاصل ہیں، ایک کھجور اور دوسرے پانی ۱؎ آپ نے فرمایا: عنقریب وہ بھی ہو جائیں گی ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 12 (4158) (تحفة الأشراف: 3625) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ان دونوں نعمتوں کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا، اور دوسرے اور بہت سی نعمتیں بھی حاصل ہو جائیں گی۔
۲؎: مدینہ کی کھجوریں عموماً کالی ہوتی تھیں، اور پانی کو غالباً کالا کہہ دیا جاتا تھا اس لیے ان دونوں کو عرب «الاسودان» (دو کالے کھانے) کہا کرتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
حدیث نمبر: 3357
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا احمد بن يونس، عن ابي بكر بن عياش، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: " لما نزلت هذه الآية ثم لتسالن يومئذ عن النعيم سورة التكاثر آية 8، قال الناس: يا رسول الله، عن اي النعيم نسال، وإنما هما الاسودان والعدو حاضر وسيوفنا على عواتقنا، قال: " إن ذلك سيكون ". قال ابو عيسى: وحديث ابن عيينة، عن محمد بن عمرو عندي اصح من هذا، وسفيان بن عيينة احفظ واصح حديثا من ابي بكر بن عياش.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ سورة التكاثر آية 8، قَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَنْ أَيِّ النَّعِيمِ نُسْأَلُ، وَإِنَّمَا هُمَا الْأَسْوَدَانِ وَالْعَدُوُّ حَاضِرٌ وَسُيُوفُنَا عَلَى عَوَاتِقِنَا، قَالَ: " إِنَّ ذَلِكَ سَيَكُونُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ هَذَا، وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ أَحْفَظُ وَأَصَحُّ حَدِيثًا مِنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت «ثم لتسألن يومئذ عن النعيم» نازل ہوئی تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا؟ وہ تو صرف یہی دو سیاہ چیزیں ہیں (ایک کھجور دوسرا پانی) (ہمارا) دشمن (سامنے) حاضر و موجود ہے اور ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں ۱؎۔ آپ نے فرمایا: (تمہیں ابھی معلوم نہیں) عنقریب ایسا ہو گا (کہ تمہارے پاس نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس حدیث سے زیادہ صحیح میرے نزدیک ابن عیینہ کی وہ حدیث ہے جسے وہ محمد بن عمر سے روایت کرتے ہیں، (یعنی پچھلی روایت) سفیان بن عیینہ ابوبکر بن عیاش کے مقابلے میں حدیث کو زیادہ یاد رکھنے اور زیادہ صحت کے ساتھ بیان کرنے والے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15121) (حسن) (سند میں ابوبکر بن عیاش کا حافظہ بڑھاپے میں کمزور ہو گیا تھا، لیکن سابقہ حدیث کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے)»

وضاحت:
۱؎: ہمیں لڑنے مرنے سے فرصت کہاں کہ ہمارے پاس طرح طرح کی نعمتیں ہوں اور ہم ان نعمتوں میں عیش و مستی کریں جس کی ہم سے بازپرس کی جائے۔

قال الشيخ الألباني: حسن بما قبله (3356)
حدیث نمبر: 3358
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا شبابة، عن عبد الله بن العلاء، عن الضحاك بن عبد الرحمن بن عرزم الاشعري، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن اول ما يسال عنه يوم القيامة يعني العبد من النعيم ان يقال له: الم نصح لك جسمك ونرويك من الماء البارد ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، والضحاك هو ابن عبد الرحمن بن عرزب، ويقال: ابن عرزم، وابن عرزم اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَلَاءِ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَمٍ الْأَشْعَرِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا يُسْأَلُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَعْنِي الْعَبْدَ مِنَ النَّعِيمِ أَنْ يُقَالَ لَهُ: أَلَمْ نُصِحَّ لَكَ جِسْمَكَ وَنُرْوِيَكَ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَالضَّحَّاكُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَبٍ، وَيُقَالُ: ابْنُ عَرْزَمٍ، وَابْنُ عَرْزَمٍ أَصَحُّ.
ضحاک بن عبدالرحمٰن بن عرزم اشعری کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے جن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، (وہ یہ ہیں) اس سے کہا جائے گا: کیا میں نے تمہارے لیے تمہارے جسم کو تندرست اور ٹھیک ٹھاک نہ رکھا اور تمہیں ٹھنڈا پانی نہ پلاتا رہا؟۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ضحاک، یہ بیٹے ہیں عبدالرحمٰن بن عرزب کے، اور انہیں ابن عرزم بھی کہا جاتا ہے اور ابن عرزم کہنا زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13511) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (539)، المشكاة (5196)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.