الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْجَنَائِزِ جنازے کے احکام و مسائل 6. باب الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ: باب: میت پر رونے کا بیان۔
عبید بن عمیر نے کہا کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں نے کہا: یہ مسافر پرائی زمین میں مر گیا۔ میں اس کے لئے ایسا روؤں گی کہ لوگوں میں اس کا خوب چرچا ہو گا۔ غرض میں نے رونے کی تیاری کی۔ ایک عورت اور آ گئی مدینہ کے اوپر کے محلہ سے، وہ چاہتی تھی کہ میرا ساتھ دے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے آگے آئے اور فرمایا: ”کیا تو شیطان کو بلانا چاہتی ہے اس گھر میں جس میں سے اللہ نے اس کو دوبارہ نکالا ہے۔“ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر میں رونے سے باز رہی اور نہ روئی۔
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک صاحبزادی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا اور بلایا اور خبر بھیجی کہ ان کا ایک لڑکا موت کے قریب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”تو لوٹ جا اور ان سے کہہ دے کہ اللہ ہی کا تھا جو اس نے لیا اور جو دیا۔ اور ہر چیز کی اس کے نزدیک ایک عمر مقرر ہے سو تو ان کو حکم کر کہ وہ صبر کریں اور اللہ سے ثواب کی امید رکھیں۔“ وہ خبر لانے والا پھر آیا اور عرض کیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دیتیں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور تشریف لائیں (اس سے دوسرے کو قسم دینا جائز ہوا) پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بھی چلے۔ اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ تھا، پھر اس لڑکے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے اٹھا لیا اور وہ دم توڑتا تھا، گو وہ پرانے مشکیزہ میں کھنکھناتا تھا سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھیں رونے لگیں۔ اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ کیا؟ اے اللہ کے رسول! (یعنی رونے کو صبر کے خلاف سمجھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ رحمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے بندوں کے دلوں میں رکھا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے انہی پر رحمت کرتا ہے جو دوسروں پر رحمت کرتے ہیں۔“
روایت ہے عاصم احول سے اسی اسناد سے مگر حدیث حماد کی پوری اور لمبی ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھنے آئے اور عبدالرحمٰن اور سعد اور عبداللہ رضی اللہ عنہم ان کے ساتھ تھے۔ پھر جب ان کے پاس آئے تو بے ہوش پایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انتقال ہو گیا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا نہیں (اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کو علم غیب نہیں ہوتا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے۔ اور لوگوں نے جب دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے تو سب رونے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنتے ہو اللہ تعالیٰ آنکھوں کے آنسوؤں پر اور دل کے غم پر عذاب نہیں کرتا وہ تو اس پر عذاب کرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ کیا یا اس پر ہی رحم کرتا ہے۔“ (یعنی جب کلمہ خیر منہ سے نکالے تو رحم کرتا اور جب کلمہ شر نکالے تو عذاب کرتا ہے)۔
|