الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل 76. باب مَا يَقُولُ إِذَا قَفَلَ مِنْ سَفَرٍ الْحَجِّ وَغَيْرِهِ: باب: جب حج وغیرہ کے سفر سے واپس لوٹے تو کیا دعائیں پڑھے۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوٹتے لشکروں سے یا چھوٹی جماعت سے لشکر کی یا حج و عمرہ سے تو جب پہنچ جاتے کسی ٹیلہ پر، یا اونچی زمین کنکریلی پر، تو تین بار اللہ اکبر کہتے تھے پھر «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ» پڑھتے یعنی ”کوئی لائق عبادت کے نہیں ہے سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی شریک نہیں اس کا، اسی کی ہے سلطنت اور اسی کے لیے ہے سب تعریف اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے ہم لوٹنے والے، رجوع ہونے والے، عبادت کرنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے، اپنے رب کی خاص حمد کرنے والے ہیں، سچا کیا اللہ پاک نے وعدہ اپنا اور مدد کی اپنے غلام کی اور شکست دی لشکروں کو اسی اکیلے نے۔“
ایوب، مالک اورضحاک سب نے نافع سے، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند حدیث بیان کی، سوائے ایوب کی حدیث کے، اس میں تکبیر دو مرتبہ ہے۔
اسماعیل بن علیہ نے ہمیں یحییٰ بن ابی اسحاق سے حدیث بیان کی، انھوں نے کیا: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اور ابو طلحہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں (سفر سے) و اپس آئے اورحضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آپ کی اونٹنی پر آپ کے پیچھے (سوار) تھیں۔جب ہم مدینہ کے بالائی حصے میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہم لوٹنے و الے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں، "آپ مسلسل یہی بات کہتے رہے یہاں تک کہ ہم مدینہ آگئے۔
بشر بن مفضل نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں یحییٰ بن ابی اسحاق نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانندروایت کی۔
|