حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا عبد الوارث ، عن يزيد الرشك ، قال: حدثتني معاذة العدوية ، انها سالت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، " اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم من كل شهر ثلاثة ايام؟ "، قالت: " نعم "، فقلت لها: " من اي ايام الشهر كان يصوم "، قالت: " لم يكن يبالي من اي ايام الشهر يصوم ".حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي مُعَاذَةُ الْعَدَوِيَّةُ ، أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ؟ "، قَالَتْ: " نَعَمْ "، فَقُلْتُ لَهَا: " مِنْ أَيِّ أَيَّامِ الشَّهْرِ كَانَ يَصُومُ "، قَالَتْ: " لَمْ يَكُنْ يُبَالِي مِنْ أَيِّ أَيَّامِ الشَّهْرِ يَصُومُ ".
معاذہ عدویہ نے پوچھا ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ میں تین روزے رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، پھر پوچھا کن دنوں میں؟ انہوں نے فرمایا: کچھ پرواہ نہ کرتے تھے کسی دن بھی روزہ رکھ لیتے تھے۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اور کسی سے فرمایا اور یہ سنتے تھے غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے فلاں! تم نے اس ماہ کے بیچ میں روزے رکھے؟۔“ انہوں نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر جب تم افطار کرو تو دو روز اور روزہ رکھو۔“
وحدثنا يحيى بن يحيى التميمي ، وقتيبة بن سعيد جميعا، عن حماد ، قال يحيى: اخبرنا حماد بن زيد، عن غيلان ، عن عبد الله بن معبد الزماني ، عن ابي قتادة : رجل اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: كيف تصوم؟، " فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم "، فلما راى عمر رضي الله عنه غضبه، قال: رضينا بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد نبيا، نعوذ بالله من غضب الله، وغضب رسوله فجعل عمر رضي الله عنه يردد هذا الكلام حتى سكن غضبه، فقال عمر: يا رسول الله، كيف بمن يصوم الدهر كله؟، قال: " لا صام ولا افطر "، او قال: " لم يصم ولم يفطر "، قال: كيف من يصوم يومين، ويفطر يوما؟، قال: " ويطيق ذلك احد "، قال: كيف من يصوم يوما، ويفطر يوما؟، قال: " ذاك صوم داود عليه السلام "، قال: كيف من يصوم يوما، ويفطر يومين؟، قال: " وددت اني طوقت ذلك "، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاث من كل شهر، ورمضان إلى رمضان، فهذا صيام الدهر كله، صيام يوم عرفة احتسب على الله ان يكفر السنة التي قبله، والسنة التي بعده، وصيام يوم عاشوراء، احتسب على الله ان يكفر السنة التي قبله ".وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ جَمِيعًا، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ : رَجُلٌ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَيْفَ تَصُومُ؟، " فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَضَبَهُ، قَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، وَغَضَبِ رَسُولِهِ فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُرَدِّدُ هَذَا الْكَلَامَ حَتَّى سَكَنَ غَضَبُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ كُلَّهُ؟، قَالَ: " لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ "، أَوَ قَالَ: " لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ، وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ: " وَيُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ: " ذَاكَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟، قَالَ: " وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ، صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ، وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور عرض کیا کہ آپ کیونکر رکھتے ہیں روزہ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے (یعنی اس لیے کہ یہ سوال بے موقع تھا۔ اس کو لازم تھا کہ یوں پوچھتا کہ میں روزہ کیونکر رکھوں) پھر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دیکھا تو عرض کرنے لگے: «رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِہم»”راضی ہوئے اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر اور پناہ مانگتے ہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کے غصہ سے۔“ غرض سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بار بار ان کلمات کو کہتے تھے یہاں تک کہ غصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھم گیا پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! جو ہمیشہ روزہ رکھے وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔“ پھر کہا جو دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی طاقت کس کو ہے۔ یعنی اگر طاقت ہو تو خوب ہے پھر کہا: جو ایک دن روزہ رکھے ایک دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ روزہ ہے داؤد علیہ السلام کا، پھر کہا: جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں آرزو رکھتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت ہو۔“ یعنی یہ خوب ہے اگر طاقت ہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین روزے ہر ماہ میں اور رمضان کے روزے ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان تک یہ ہمیشہ کا روزہ ہے یعنی ثواب میں اور عرفہ کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں امیدوار ہوں اللہ پاک سے کہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جائے اور عاشورے کے روزہ سے امید رکھتا ہوں ایک سال اگلے کا کفارہ ہو جائے۔“
حدثنا محمد بن المثنى ، ومحمد بن بشار واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن غيلان بن جرير ، سمع عبد الله بن معبد الزماني ، عن ابي قتادة الانصاري رضي الله عنه، رسول الله صلى الله عليه وسلم: سئل عن صومه، قال: " فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم "، فقال عمر رضي الله عنه: رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا وببيعتنا بيعة، قال: فسئل عن صيام الدهر، فقال: " لا صام ولا افطر، او ما صام وما افطر "، قال: فسئل عن صوم يومين وإفطار يوم، قال: " ومن يطيق ذلك "، قال: وسئل عن صوم يوم وإفطار يومين، قال: " ليت ان الله قوانا لذلك "، قال: وسئل عن صوم يوم وإفطار يوم، قال: " ذاك صوم اخي داود عليه السلام "، قال: وسئل عن صوم يوم الاثنين، قال: " ذاك يوم ولدت فيه، ويوم بعثت او انزل علي فيه "، قال: فقال: " صوم ثلاثة من كل شهر، ورمضان إلى رمضان صوم الدهر "، قال: وسئل عن صوم يوم عرفة، فقال: " يكفر السنة الماضية والباقية "، قال: وسئل عن صوم يوم عاشوراء، فقال: " يكفر السنة الماضية "، وفي هذا الحديث من رواية شعبة، قال: وسئل عن صوم يوم الاثنين والخميس، فسكتنا عن ذكر الخميس لما نراه وهما،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ واللفظ لابن المثنى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيَّ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سُئِلَ عَنْ صَوْمِهِ، قَالَ: " فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِبَيْعَتِنَا بَيْعَةً، قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ صِيَامِ الدَّهْرِ، فَقَالَ: " لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ، أَوْ مَا صَامَ وَمَا أَفْطَرَ "، قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمَيْنِ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ، قَالَ: " وَمَنْ يُطِيقُ ذَلِكَ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمَيْنِ، قَالَ: " لَيْتَ أَنَّ اللَّهَ قَوَّانَا لِذَلِكَ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ، قَالَ: " ذَاكَ صَوْمُ أَخِي دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ، قَالَ: " ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ "، قَالَ: فَقَالَ: " صَوْمُ ثَلَاثَةٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانَ إِلَى رَمَضَانَ صَوْمُ الدَّهْرِ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ، فَقَالَ: " يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ وَالْبَاقِيَةَ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: " يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ "، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ مِنْ رِوَايَةِ شُعْبَةَ، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ، فَسَكَتْنَا عَنْ ذِكْرِ الْخَمِيسِ لَمَّا نُرَاهُ وَهْمًا،
سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کو پوچھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہی عرض کیا جو اوپر مذکور ہوا «رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً وَبِبَيْعَتِنَا بَيْعَةً» اور اس میں اتنا زیادہ ہے کہ ”راضی ہوئے ہم اپنی بیعت سے کہ وہی بیعت ہے“ اور سوال ہوا صیام الدہر کا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ اس نے روزہ رکھا نہ افطار کیا۔“ پھر سوال ہوا دو دن روزے اور ایک روز افطار سے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی طاقت کسے ہے۔“ پھر سوال ہوا ایک دن روزہ اور دو دن افطار سے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش! اللہ تعالیٰ ہم کو ایسی قوت دے۔“ اور سوال ہوا ایک دن افطار ایک روزہ سے، تو فرمایا: ”یہ میرے بھائی داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے۔“ اور سوال ہوا دوشنبہ کے روزہ کا فرمایا: ”میں اسی دن پیدا ہوا ہوں اور اسی دن نبی ہوا ہوں۔“ یا فرمایا: ”اسی دن مجھ پر وحی اتری ہے۔“ اور فرمایا: ”رمضان کے روزے اور ہر ماہ تین روزے یہ وحی اتری ہے۔“ اور فرمایا: ”رمضان کے روزے اور ہر ماہ تین روزے یہ صوم الدہر ہے۔“ اور عرفہ کے روزہ کو پوچھا: تو فرمایا: ”ایک سال گزرا ہوا ایک سال آگے آنے والے کا کفارہ ہے۔“ اور عاشورے کے روزے کو پوچھا: تو فرمایا: ”ایک سال گزرے ہوئے کا کفارہ ہے۔“ مسلم نے فرمایا: اسی حدیث میں شعبہ کی روایت میں ہے کہ پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوشنبہ اور پنج شنبہ کے روزے کو تو ہم نے پنج شنبہ کا ذکر نہیں کیا اس لیے کہ اس میں وہم ہے۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا دوشنبہ کے روزہ کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس دن پیدا ہوا ہوں اور اسی دن مجھ پر وحی اتری ہے۔“