الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الصِّيَامِ روزوں کے احکام و مسائل 15. باب جَوَازِ الصَّوْمِ وَالْفِطْرِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لِلْمُسَافِرِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ إِذَا كَانَ سَفَرُهُ مَرْحَلَتَيْنِ فَأَكْثَرَ وَأَنَّ الأَفْضَلَ لِمَنْ أَطَاقَهُ بِلاَ ضَرَرٍ أَنْ يَصُومَ وَلِمَنْ يَشُقُّ عَلَيْهِ أَنْ يُفْطِرَ: باب: رمضان المبارک کے مہینے میں مسافر کے لئے جبکہ اس کا سفر دو منزل یا اس سے زیادہ ہو تو روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کے جواز کا بیان، اور بہتر یہ ہے کہ جو باب: روزہ کی طاقت رکھتا ہے وہ روزہ رکھے، اور جس کے لیے مشقت ہو تو وہ نہ رکھے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے جس سال مکہ فتح ہوا رمضان میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا یہاں تک کہ جب کدید میں پہنچے (نام مقام کا ہے کہ وہاں ایک نہر ہے اور مدینہ سے سات منزل ہے اور وہاں سے مکہ دو منزل رہتا ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ کدید ایک نہر ہے بیالیس میل مکہ سے) تو افطار کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نئی سے نئی بات جو ہوتی اس کا اتباع کرتے۔
زہری سے اس اسناد سے مثل اسی کے مروی یحییٰ نے کہا کہ سفیان نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ قول کس کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخر قول لیا جاتا ہے یعنی اول قول منسوخ ہوتا ہے۔
زہری نے اس اسناد سے کہا کہ روزہ نہ رکھنا اور افطار کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اخیر کی بات ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات پر ہی عمل ضروری ہے اور زہری نے کہا کہ صبح کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہویں رمضان کی مکہ میں۔
زہری سے اس اسناد سے مروی ہے کہ انہوں نے مثل حدیث لیث کے روایت کی ہے اور ابن شہاب نے کہا کہ صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نئی نئی بات اختیار کرتے تھے اور نئی بات کو ناسخ اور محکم جانتے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور پھر افطار کیا اور افطار کو ناسخ جانتے ہیں اور روزہ رکھنے کو منسوخ)۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: سفر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں اور روزہ رکھا یہاں تک کہ عسفان میں پہنچے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگایا کہ اس میں کوئی پینے کی چیز تھی اور اس کو پیا دن کو تاکہ سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں۔ پھر افطار کرتے رہے یہاں تک کہ مکہ میں پہنچے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ بھی رکھا اور افطار بھی کیا سو جس کی جی چاہے روزہ رکھے جس کا جی چاہے افطار کرے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم برا نہیں کہتے اس کو جو روزہ رکھے۔ (یعنی سفر میں) اور نہ اس کو جو افطار کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ بھی رکھا اور افطار بھی کیا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے جس سال مکہ فتح ہوا۔ رمضان میں مکہ کی طرف اور روزہ رکھا یہاں تک کہ جب کراع غمیم تک پہنچے (کراع غمیم مقام کا نام ہے کہ مدینہ سے سات منزل یا زیادہ ہے) اور لوگوں نے روزہ رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اس کو بلند کیا یہاں تک کہ لوگوں نے ان کی طرف دیکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی لیا اور لوگوں نے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ بعض لوگ روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہی نافرمان ہیں، وہی نافرمان ہیں۔“
جعفر نے اس اسناد سے یہی روایت کی اور اس میں اتنی بات زیادہ کی کہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی۔ لوگوں پر روزہ شاق ہے اور وہ منتظر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ پانی کا منگایا بعد عصر کے۔ آگے وہی مضمون ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے کہ ایک شخص پر لوگوں کی بھیڑ دیکھیی اور وہ اس پر سایہ کئیے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اس کو کیا ہوا؟۔“ لوگوں نے عرض کی کہ ایک روزہ دار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سفر میں روزہ رکھنا خوب نہیں۔“
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
شعبہ سے اسی اسناد سے مانند اسی کے مروی ہے اور زیادہ کہا شعبہ نے کہ مجھے خبر لگی ہے یحییٰ بن ابی کثیر سے کہ وہ زیادہ کرتے تھے اس حدیث میں اور اس اسناد میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی رخصت قبول کرو جو تمہارے لیے دی ہے۔“ اور کہا راوی نے پھر جب میں نے ان سے پوچھا تو انہیں یاد نہیں رہا۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جہاد کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہویں رمضان کو تو ہم میں سے کوئی روزے سے تھا اور کوئی افطار کیے تھا اور روزہ دار افطار کرنے والے پر عیب نہ کرتا تھا اور نہ افطار کرنے والا روزہ دار پر۔
قتادہ سے اس اسناد سے مانند روایت ہمام کے مروی ہے مگر تیمی اور عمر بن عامر اور ہشام کی روایت میں اٹھارہویں تاریخ اور سعید کی روایت میں بارہویں اور شعبہ کی روایت میں سترویں یا انیسویں مذکور ہے۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم سفر کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان المبارک میں تو نہ روزہ دار کے روزے پر کوئی عیب لگاتا نہ «مفطر» کے افطار پر۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم جہاد کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں اور کوئی ہم سے روزہ دار ہوتا اور کوئی صاحب افطار اور نہ «صائم» «مفطر» پر غصہ کرتا اور نہ «مفطر» «صائم» پر اور جانتے تھے کہ جس میں قوت ہو وہ روزہ رکھے یہ بھی خوب ہے اور جس میں ضعف ہو وہ افطار کرے یہ بھی خوب ہے۔
سیدنا ابوسعید خدری اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما دونوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا اور روزہ رکھنے والا روزہ رکھتا تھا اور افطار کرنے والا افطار اور کوئی کسی پر عیب نہ کرتا تھا۔
حمید نے کہا: سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا روزہ رمضان کا سفر میں تو کہا انہوں نے کہ سفر کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں تو نہ برا کہا «صائم» نے «مفطر» کو نہ «مفطر» نے «صائم» کو۔
حمید نے کہا: نکلا میں سفر میں اور میں نے روزہ رکھا تو لوگوں نے کہا: تم دوبارہ روزہ رکھو (یعنی سفر کا روزہ صحیح نہیں ہوا) تو میں نے کہا: سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی ہے کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کرتے تھے اور صائم مفطر پر طعنہ نہ کرتا تھا نہ مفطر صائم پر اور پھر ملا میں ابن ابی ملیکہ سے اور خبر دی مجھے انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مثل اس کی۔
|